نیگٹو پازیٹو

با ادب

محفلین
نیگیٹو پازیٹو

انسان اپنی ذاتی حیثیت میں آزاد شخصیت کا حامل ہے ۔ وہ کن نظریات کا حامل ہے کیا سوچتا ہے کس فکری زاویہ نگاہ کو اپناتا ہے ۔
ہر شخص کی ذاتی سوچ اور ذاتی رائے ہے ۔ ہمارے خطے کی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں بہت کم لوگ نظریات اور افکار پہ بات کرتے ہیں ۔ ہم اگر اپنے قریبی دوستوں سے مختلف نکتہ نگاہ کے حامل ہوں تو ہم اسکا اظہار فقط اسلیے نہیں کر پاتے کہ وہ ناراض ہو جائے گا ۔ مروت نبھانے کی یہ روایت اچھی بھی ہے لیکن مروت کا کثرت سے استعمال آپ سے آپکی پرسنل اسپیس کو چھین لیتا ہے ۔ یہ آپکے دوستوں کی اس عادت کو مستقل طور پہ پختہ کر دیتی ہے کہ وہ ہی ہمیشہ درست ہیں اور ان سے خطا کا صدور ممکن نہیں ۔
ہمارے معاشرے میں لوگ عموماً جذبات کے اظہار کے معاملے میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں ۔ والدہ بیٹی کو خود سے لپٹا کے کبھی یہ نہیں کہتی کہ وہ اس سے کتنا پیار کرتی ہے اور جب وہ ان کے گھر میں نہیں ہوگی تو وہ کتنی اداس ہوجائیں گی ۔ بالکل ایسے ہی بیٹی بھی گھر بسانے کی تگ و دو میں اس گھر کے مکینوں سے یہ نہیں کہہ پاتی کہ آج کی شام اسے اپنی والدہ کی یاد کس شدت سے آرہی ہے اور یہ کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہے ۔ وہ بہر حال گھر والوں کے مزاج اور صورت حال کو دیکھ کر ہی میکے جانے کی بات کر سکتی ہے ۔
اگر آپ ایک بہن بیٹی یا بیوی ہیں تو گھر کے افراد پہ لازم ہے کہ وہ آپکی زندگی کے ہر پہلو سے واقف ہوں ۔
یہ صورت حال اس وقت سنگینی اختیار کر جاتی ہے جب آپ ایک ایسے شخص کی بیوی ہوں جو آپ سے محبت کا دعویدار ہو ۔ اب یہ محبت تقاضا کرتی ہے کہ آپ سانس بھی انکی مرضی سے لیں کیونکہ وہ آپ سے محبت فرماتے ہیں ۔
ایسی محبتیں وہ آکاس بیلیں ہوتی ہیں جو آپ سے لپٹ کر آپکے وجود کے سبزے کو مکمل پیلا کر دیتی ہیں ۔ اور درخت کا اپنا وجود ان پیلی بیلوں میں دب کر کہیں کھو جاتا ہے ۔
ہم بہ حیثیت مجموعی اس سوچ کے حامل ہیں کہ جو شخص ہمارا محبوب ہے وہ ہمارے ہی سوچ کے پیکر میں ڈھلا ہوا ہو ۔ انسانوں سے اسلیے محبت کرنا کہ انکی اپنی خصوصیات ہیں یا انکی اپنی ذاتی حیثیت ہے ہمارے ہاں بہت کم پایا جاتا ہے ۔
ہمیں اپنی پسندیدہ شخصیات کو اپنی مرضی کے پنجرے میں قید کرنے کا شوق ہے ۔
تب ہی جن سے ہم.محبت کرتے ہیں انھیں مکمل طور پر درست مانتے ہیں اور انکی غلطیوں کو بھی اپنے سانچے میں ڈھال کر تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ شخص جو ہماری محبت کے دائرے سے باہر ہو ہم اس کی درست بات کو بھی درست تسلیم کرنے کے روادار نہیں ہوتے ۔
لوگوں کو انکی سوچ انکی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول کر لینا اور انکے منفی پہلوؤں کے باوجود انکے ساتھ نبھاہ کر لینا ہی زندگی کا اصل حسن ہے ۔
آپ میں سے کون اس حُسن کا مالک ہے؟ ؟؟
سمیرا امام
 

اکمل زیدی

محفلین
بلکل صحیح فرمایا ۔ ۔ ۔ ہم میں سے اکثریت محبت کے معاملات میں بہت پوزیسیو ہوتے ہیں اسی صورتحال کو شاید شاعر یوں محسوس کرتے ہیں کہ "اب اتنا بھی نا چاہو کے دم نکل جائے" اسی کا عملی مظاہرہ میرے بیٹے نے کیا ابھی کچھ دنوں پہلے اسے میں نے ایک چوزہ دلایا بہت پیارا سا اسے اتنا پیار آیا اس پر کے اسے دبا کے پیار کیا بس پھر وہ اس کی محبت کی تاب نہیں لا سکا۔ ۔ ۔ اور دم نکل گیا اس کا۔ ۔ ۔ ۔۔ تو خیر ایسے ہی بر محل تذکرہ کردیا لیکن عملی صورتحال بھی ہماری زندگیوں میں ایسی ہی ہے ۔ ۔ ۔ کہ ہم دم نکال دیتے ہیں
ایسی محبتیں وہ آکاس بیلیں ہوتی ہیں جو آپ سے لپٹ کر آپکے وجود کے سبزے کو مکمل پیلا کر دیتی ہیں ۔ اور درخت کا اپنا وجود ان پیلی بیلوں میں دب کر کہیں کھو جاتا ہے ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
ہمیں اپنی پسندیدہ شخصیات کو اپنی مرضی کے پنجرے میں قید کرنے کا شوق ہے ۔
تب ہی جن سے ہم.محبت کرتے ہیں انھیں مکمل طور پر درست مانتے ہیں اور انکی غلطیوں کو بھی اپنے سانچے میں ڈھال کر تحفظ دینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وہ شخص جو ہماری محبت کے دائرے سے باہر ہو ہم اس کی درست بات کو بھی درست تسلیم کرنے کے روادار نہیں ہوتے ۔
100٪
 

با ادب

محفلین
عبید اللہ علیم
بلکل صحیح فرمایا ۔ ۔ ۔ ہم میں سے اکثریت محبت کے معاملات میں بہت پوزیسیو ہوتے ہیں اسی صورتحال کو شاید شاعر یوں محسوس کرتے ہیں کہ "اب اتنا بھی نا چاہو کے دم نکل جائے" اسی کا عملی مظاہرہ میرے بیٹے نے کیا ابھی کچھ دنوں پہلے اسے میں نے ایک چوزہ دلایا بہت پیارا سا اسے اتنا پیار آیا اس پر کے اسے دبا کے پیار کیا بس پھر وہ اس کی محبت کی تاب نہیں لا سکا۔ ۔ ۔ اور دم نکل گیا اس کا۔ ۔ ۔ ۔۔ تو خیر ایسے ہی بر محل تذکرہ کردیا لیکن عملی صورتحال بھی ہماری زندگیوں میں ایسی ہی ہے ۔ ۔ ۔ کہ ہم دم نکال دیتے ہیں

عبید اللہ علیم کا شعر

اصل شعر ہے
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے


ہم اسے یوں کہتے ہیں
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی بہل جائے
اب اسقدر بھی نہ چاہو کہ دُم نکل آئے
 
Top