نیو ایر منانا

سین خے

محفلین
:D :cool:آہاااااا چھ مہینے پہلے بین ہونے والوں میں سے ایک میمبر پر میرا شک تھا کہ ان کا کام ہی شائد "پاکستان بھر کے فورمز" میں محفل کو سب سے بڑا اسلام مخالف اڈا ثابت کرنا رہا ہے۔

یہاں بھی یہی ہوتا نظر آرہا ہے :sneaky:
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
ٹھیک ہے...
مگر کل کو آپ یہ تو نہیں کہیں گے کہ محفل کو مقفل ہی کردیں!!!
:smile2::smile2::smile2:
لیکن اتنی گزارش ضرور ہے کہ مذہبی معاملات کی نازک حیثیت کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔۔ لادین طبقہ بھی مذہبی معاملات پر بحث کے دوران احتیاط کا پہلو ملحوظِ خاطر رکھے اور مذہبی لوگوں کے مراسلہ جات پر رائے دیتے وقت ذاتیات، مذہبی شخصیات کی ہتک وغیرہ سے پرہیز برتے۔۔۔۔
 
آج نبی کریم ﷺ ہوتے تو یہ لوگ ان پر بھی اسی طرح تنقید کرتے۔
اور قرآن و سنت پر تنقید کرنا نبی کریم ﷺ کی ذات پر ہی تنقید کرنا ہے۔
رسول کریمﷺ پر سب سے زیادہ تنقید خود آپؐ کے زمانہ مبارکہ میں ہوئی ہے۔ کیا یہودی، کیا کفار مکہ سبھی نے ہی ہمارے پیارے نبی کو سخت سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسکے جواب میں رحمت الالعٰلمین نے فقط انکے لئے دعائے ہدایت کے سوا اور کچھ نہ کیا۔ آج 14 صدیاں گزر جانے کے انکے ماننے اپنے نبی کی تنقید پر مرنے مارنے پر اتر جاتے ہیں۔ کمال ہے نا!
 

سید عمران

محفلین
پہلے ایسا کوئی حکم تاریخ سےثابت توکریں جہاں صاف صاف لکھا ہو کہ آج سے تمام دنیاوی تہوار مسلمانوں پر حرام کئے جاتے ہیں۔
ایسا کوئی حکم تاریخ سےثابت توکریں جہاں صاف صاف لکھا ہو کہ آج سے تمام دنیاوی تہوار مسلمانوں پر حلال کئے جاتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
رسول کریمﷺ پر سب سے زیادہ تنقید خود آپؐ کے زمانہ مبارکہ میں ہوئی ہے۔ کیا یہودی، کیا کفار مکہ سبھی نے ہی ہمارے پیارے نبی کو سخت سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسکے جواب میں رحمت الالعٰلمین نے فقط انکے لئے دعائے ہدایت کے سوا اور کچھ نہ کیا۔ آج 14 صدیاں گزر جانے کے انکے ماننے اپنے نبی کی تنقید پر مرنے مارنے پر اتر جاتے ہیں۔ کمال ہے نا!
اگر وہ مرنے مارنے والی باتیں کرے تو، ورنہ نہیں!!!
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
من تشبہ بقوم فھو منھم ۔

مرد کی داڑھی اور عورت کی بھنویں !!
داڑھی مشت سے کم رکھنے والوں پہ عام طور پر کافروں کی مشابہت کی دفعہ لگائی جاتی ہے ، جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہود کی مخالفت میں جوتوں سمیت نماز جماعت کے ساتھ پڑھائی ھے اور صحابہؓ نے بھی جوتوں سمیت پڑھی ھے ، یہاں ذرا جوتوں سمیت پڑھ کر دیکھئے یا جوتوں سمیت صرف مسجد میں گھس کر دیکھئے مسجد تو مسجد ،کھیتوں میں پڑھے جانے والے جنازے میں بھی جوتے پہن کر کھڑے ھوں تو جاھل سب کے سامنے بے عزت کر دیتے ہیں ،، حالانکہ جنازہ نماز نہیں دعائے جنازہ ھے ،صلاۃ دعا کو بھی کہتے ہیں اور قرآن کریم میں جگہ جگہ صلاۃ کو دعا کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ الغرض جہاں مشابہت کا اطلاق کر کے رسول اللہ ﷺ نے عملا دکھا دیا اس پر عمل نہیں کرتے ،، البتہ داڑھی اور کپڑوں کو خواہ مخواہ مشابہت میں شامل کر لیتے ہیں ، شلوار قمیص ،شیروانی اور واسکٹ ھندو چوھدریوں اور راجوں کا لباس ہے صحابہ کا لباس نہیں ،، مگر یہاں مشابہت نہیں ھوتی ، داڑھی کاٹنا سکھوں کے یہاں جرم اور رکھنا فرض ھے ، ھم نے ان کی مشابہت میں بالکل داڑھی کو فرض بنا لیا ہے ،،

محدثین نے جب ایک مکمل حدیث کو توڑ کر اسکریپ کی شکل دی اور اس میں سے اسپئر پارٹس لے کر اپنے اپنے عنوان دیئے تو بات کو مزید گھما دیا ،،کسی خطاب میں جو مرکزی نقطہ ھوتا ھے ھر جملہ اور ھر مثال ، ھر وعدہ اور ھر وعید اسی سے متعلق ھوتی ھے ،،مگر جب آپ اس جملے کو مرکزی نقطے سے الگ لے جا کر ٹانک دیتے ھیں تو پھر وہ خود مرکزی نقطہ بن جاتا ھے ،،

من تشبہ بقومٍ فھو منھم ،، کو ایک مکمل حدیث کے طور پر پیش کیا جاتا ھے گویا حضورﷺ نے جب یہ حدیث بیان کی تو آپ کی گفتگو کا مرکزی موضوع ھی تشبہ بالکفار تھا ، اور آپ ﷺ مسلمانوں کو اس مشابہت سے روک رھے تھے ،،، اور پھر علماء نے اسی کو مرکزی موضوع قرار دے کر لمبی چوڑی کتابیں تصنیف فرما دیں ، اور مختلف چیزوں کو تشبہہ بالکفار کہہ کر ان پر فتوؤں کی چاند ماری کی گئ ،، مگر اسی جملے کو واپس اس حدیث میں لے کر دیکھئے تو آپ کا پتہ چلے گا کہ تشبہہ بالکفار سرے سے گفتگو کا موضوع ھی نہیں تھا اور نہ ھی اللہ کے رسول ﷺ اس وقت لباس یا کلچر کی مشابہت کو موضوع بنا کر گفتگو فرما رھے تھے ،،

آپ ﷺ کی گفتگو کا موضوع جہاد کے قوانین تھے ، انہیں کے دوران آپ نے فرمایا کہ جب ھم کسی قوم پر حملہ آور ھوں اور اس قوم میں کوئی ایسا آدمی مکس اپ ھے جو کسی دوسرے ایسے قبیلے سے تعلق رکھتا ھے جس سے ھماری جنگ نہیں یا اس کے ساتھ ھمارا کوئی امن کا معاہدہ ھے ، تو اگر وہ مشتبہ بندہ بھی اس یلغار میں مارا گیا ھے تو ھمارے ذمے نہ تو اس کا قصاص ھے اور نہ دیت ھے ،کیونکہ وہ ھمارے دشمنوں میں مکس اپ تھا اور ھمارے پاس کوئی ایسا آلہ نہیں تھا کہ جس کے ذریعے ھم اس کو جان کر الگ کر سکتے ، اس کو اس قوم میں نہیں ھونا چاھئے تھا ،، اس حدیث میں تشبہ اصل میں مکس اپ ھونے کے معنوں میں استعمال ھوا ھے ،،

عورتوں کے ابرو بنانے کی حدیث کے ساتھ بھی یہی واردات ھوئی ھے ، پوری حدیث میں ابرو کو رکھ کر دیکھ لیجئے وھاں صاف نظر آ رھا ھے کہ اللہ کے رسولﷺ کی گفتگو کا موضوع " طوائفیں " ھیں جو بن سنور ی گاھک پٹانے نکلتی ھیں ، مائل ھوتی ھیں اور مائل کرتی ھیں ، بال اونٹ کی کوھان کی طرح کر کے نکلتی ھیں ،ابرو بناتی اور مرد پھنساتی ھیں ، ان کی سرینوں پہ شیطان بیٹھا ھوتا ھے جو ھر نظر ڈالنے والے کو ٹریپ کرتا ھے ،،،، اس روایت میں سے ابرو کو نکال کر گھریلو عورتوں پر اطلاق کرنے والوں پہ جب خود اپنے اوپر نفاق کا اطلاق کیا جائے تو بلبلا اٹھتے ھیں کہ نہیں جناب اس سے وہ والا منافق مراد نہیں ھے ،، اعتقادی منافق مراد نہیں ھے ،، عملی منافق اور ھیں اعتقادی منافق اور ھیں ،، ھم بھی آپ سے یہی گزارش کرتے ھیں کہ طوائفوں کا بال بنانا ، ابرو بنانا ، اعتقادی چیز ھے نیت ھی جب بری ھے تو ان کا ایک ایک قدم گناہ ھے ،مگر آپ ان نشانیوں کو گھریلو عورت پہ تھوپ کر جب اسے لعنت کا مستحق ٹھہراتے ھیں تو کونسے
دین کی خدمت کرتے ھیں ؟ انما الاعمال بالنیات نہیں ھے ؟

ایک لڑکی کی کل پرسوں شادی ھے ، اس کے ابرو مردوں کی طرح ھیں گھر والے اصرار کرتے ھیں کہ وہ انہیں ھلکا کر لے مگر وہ کہتی ھے کہ اللہ کی لعنت ھوتی ھے ، اللہ کی لعنت ان پر نہیں ھوتی جنہوں نے ھزاروں مسلمان تہہ تیغ کر دیئے ھیں اور چند بال اکھاڑ پھینکنے والی پر اللہ کی لعنت ھو جائے گی ، جب زینت عورت کا حق ھے اور اللہ کا حکم ھے ،، اور اسے اپنے شوھر کے لئے اس کی اجازت ھے ،،زنا کرنے والی کو صرف سو کوڑا اور پھر وہ بخشی بخشائی ،مگر ابرو اکھاڑ پھینکنے والی پر اللہ کی لعنت بلکہ خوشبو لگانے والی پر بھی اللہ کی لعنت ،، عورت نہ ھو گئ اڈیالہ جیل کی قیدی ھو گئ ،،

ابن شیبہ رحمہ اللہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابن عمر، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ جعل رزقی تحت رمحی وجعل الذلۃ والصغار علی من خالف أمری، من تشبہ بقومٍ فہو منہم. (رقم ۳۳۰۱۶، ۶/ ۴۷۱)
’’ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا رزق میرے نیزے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور جو میری مخالفت کرے گا اس کے لیے ذلت اور میری ماتحتی لکھ دی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ ان میں سے ہو گا۔‘‘
مسند احمد بن حنبل کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
عن ابن عمر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بعثت بالسیف حتی یعبد اللّٰہ لا شریک لہ، وجعل رزقی تحت ظل رمحی، وجعل الذلۃ، والصغار علی من خالف أمری، ومن تشبہ بقوم فہو منہم.(رقم۵۱۱۴)
’’ابن عمر کہتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے۔کہ میں تلوار کے ساتھ جہاد کروں حتیٰ کہ صرف اللہ ، جس کا کوئی شریک نہیں کی عبادت کی جائے۔ میرا رزق میرے نیزے کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور جو میری مخالفت کرے گا، اس کے لیے ذلت اور میری ماتحتی لکھ دی ہے، جس نے کسی قوم کی مشابہت کی، وہ ان میں سے ہو گا۔‘‘

اسی طرح عورت کے چہرے کے کسی حصے سے بھی بال اکھاڑنے کے بارے میں مالکیہ حنفیہ اور شافعیہ علماء کے نزدیک یہ ممانعت اجنبی مردوں کے لئے زیب و زینت اختیار کرنے کی وجہ سے ھے ، اپنے شوھر کے اپنے چہرے کو صاف کرنے سے کسی نے منع نہیں کیا ،، حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ایک عورت نے آ کر پوچھا کہ کیا میں اپنے شوھر کے لئے اپنے چہرے کے بال اکھاڑ سکتی ھوں تو آپؓ نے فرمایا تو اس گند کو جتنا اتار سکتی ھے اتار دے ،، جہاں تک تعلق ھے کہ عورت کے بھنوؤں کے بال اتارنے سے رب کی تخلیق میں تبدیلی ھوتی ھے ، ان سے گزارش ھے کہ یہ بال تو ھفتے دس دن میں پھر آ جاتے ھیں ،، یہ جو ختنہ کرتے ھیں اور اللہ کی تخلیق کا بیڑہ غرق کر دیتے ھیں اصلی بگاڑنا تو اس کو کہتے ھیں ،جبکہ دوسری حدیث بیان کرتی ھے کہ قیامت کے دن اللہ لوگوں کے ساتھ وہ ختنے والا گوشت بھی پھر جوڑ دے گا اور لوگ غیر مختون اس کے سامنے کھڑے ھونگے ،، تو جب اس نے چمڑی کے ساتھ بھیجا اور چمڑی کے ساتھ اٹھائے گا تو آپ نے یہ چمڑی چوری ھی کیوں کی ؟ پھر شوافع تو لڑکی کے بھی ختنے کراتے ھیں ، بال اتارے تو اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ھو جائے اور آپ اس کا ختنہ بھی کر دو تو خلقت اسی طرح برقرار رھے ؟

ختنے کے عمل سے یہ ثابت ھوا کہ تبدیل خلقت کا لفظ رسول اللہ ﷺ کا نہیں بلکہ راوی کا اپنا وضاحتی بیان ھے جس کو بریکٹ میں ھونا چاھئے تھا ، تبدیل خلقت جیسے اھم لفظ کو بھنوؤں کے بالوں تک محدود کر دینا نبئ کریم ﷺ کا ویژن ھر گز نہیں ھو سکتا کیونکہ سورہ نساء میں یہ لفظ شرک کرنے ، جانوروں کو اللہ کے بجائے مخلوق کے آگے قربان کرنے ، ان پر مختلف نشان بنا کر غیراللہ کے نام پر مختص کرنے اور اللہ کی بجائے شیطان کی غلامی کرنے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ھے - سنت میں بچے کے سر کے بال کاٹنے کا ذکر ھے اگرچہ وہ بچہ ھو یا بچی اسی طرح بچے اور بچی دونوں کے ختنے کا ذکر ھے ،اگر ان کو تبدیل خلقت نہیں کہا گیا تو پھر اس معاملے کو بھی تبدیل خلقت رسول اللہ ھر گز نہیں کہہ سکتے ، یہ محترم راوی کا اپنا فہم اور اپروچ ھے ،، (
وَلأُضِلَّنَّهُمْ وَلأُمَنِّیَنَّهُمْ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ آذَانَ الأَنْعَامِ وَلآمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّهِ وَمَن یَتَّخِذِ الشَّیْطَانَ وَلِیّاً مِّن دُونِ اللّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَاناً مُّبِیناً .النساء-119 ))
اور انھیں گمراہ کروں گا _ امیدیں دلاؤں گا اور ایسے احکام دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان کاٹ ڈالیں گے پھر حکم دوں گا تو الله کى مقررہ خلقت کو تبدیل کردیں گے اور جو خدا کو چھوڑکر شیطان کو اپنا ولى اور سرپرست بنا ئے گا و ہ کھلے ہوئے خسارہ میں رہے گا_

( وأجاز المالكية والحنفية والشافعية والحنابلة ما لو فعلته المرأة لتتزين به لزوجها بإذنه، فإن كانت صغيرة لا زوج لها، أو توفي عنها زوجها، أولم يأذن زوجها، أوتفعله لتتزين به للأجانب ، فلا يجوز.
قال الشيخ النفراوي المالكي : وَالتَّنْمِيصُ هُوَ نَتْفُ شَعْرِ الْحَاجِبِ حَتَّى يَصِيرَ دَقِيقًا حَسَنًا، وَلَكِنْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا جَوَازُ إزَالَةِ الشَّعْرِ مِنْ الْحَاجِبِ وَالْوَجْهِ وَهُوَ الْمُوَافِقُ لِمَا مَرَّ مِنْ أَنَّ الْمُعْتَمَدَ جَوَازُ حَلْقِ جَمِيعِ شَعْرِ الْمَرْأَة مَا عَدَا شَعْرَ رَأْسِهَا، وَعَلَيْهِ فَيُحْمَلُ مَا فِي الْحَدِيثِ عَلَى الْمَرْأَةِ الْمَنْهِيَّةِ عَنْ اسْتِعْمَالِ مَا هُوَ زِينَةٌ لَهَا كَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا وَالْمَفْقُودِ زَوْجُهَا . اه۔ الفواكه الدواني
قال العلامة ابن عابدين الحنفي :النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بُعد، لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين إلا أن يُحمل على ما لا ضرورة إليه لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. اه۔ حاشية ابن عابدين
وقال الشيخ سليمان الجمل الشافعي : وَيَحْرُمُ أَيْضًا تَجْعِيدُ شَعْرِهَا وَنَشْرُ أَسْنَانِهَا ... وَالتَّنْمِيصُ وَهُوَ الْأَخْذُ مِنْ شَعْرِ الْوَجْهِ وَالْحَاجِبِ الْمُحَسَّنِ فَإِنْ أَذِنَ لَهَا زَوْجُهَا أَوْ سَيِّدُهَا فِي ذَلِكَ جَازَ لَهَا ؛ لِأَنَّ لَهُ غَرَضًا فِي تَزَيُّنِهَا لَهُ كَمَا فِي الرَّوْضَةِ وَأَصْلِهَا وَهُوَ الْأَوْجُهُ وَإِنْ جَرَى فِي التَّحْقِيقِ عَلَى خِلَافِ ذَلِكَ فِي الْوَصْلِ وَالْوَشْرِ فَأَلْحَقَهُمَا بِالْوَشْمِ فِي الْمَنْعِ مُطْلَقًا . اه۔ حاشية الجمل
وقال العلامة ابن مفلح الحنبلي في كتاب الفروع : وَأَبَاحَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ النَّمْصَ وَحْدَهُ ، وَحَمَلَ النَّهْيَ عَلَى التَّدْلِيسِ، أَوْ أَنَّهُ كَانَ شِعَارَ الْفَاجِرَاتِ. وَفِي الْغُنْيَةِ يَجُوزُ بِطَلَبِ زَوْجٍ . وَلَهَا حَلْقُهُ وَحَفُّهُ، نَصَّ عَلَيْهِمَا وَتَحْسِينُهُ بِتَحْمِيرٍ وَنَحْوِهِ، وَكَرِهَ ابْنُ عَقِيلٍ حَفَّهُ كَالرَّجُلِ، كَرِهَهُ أَحْمَدُ لَهُ، وَالنَّتْفَ وَلَوْ بِمِنْقَاشٍ لَهَا .اه۔
وقال ابن حجر : قال النووي: يستثنى من النماص ما إذا نبت للمرأة لحية أو شارب أو عنفقة فلا يحرم عليها إزالتها بل يستحب. قلت: وإطلاقه مقيد بإذن الزوج وعلمه، وإلا فمتى خلا عن ذلك منع للتدليس.
وقد أخرج الطبري من طريق أبي إسحاق عن امرأته أنها دخلت على عائشة وكانت شابة يعجبها الجمال فقالت: المرأة تحف جبينها لزوجها فقالت: أميطي عنك الأذى ما استطعت. والله أعلم )
جناب قاری حنیف ڈار صاحب
بالکل ویسی ہی باتیں جو میں نے حجامہ لڑی میں کی ہیں
میں بھی اردو ویب کا عالم فاضل ہوں،،
 

محمد وارث

لائبریرین
ایسا کوئی حکم تاریخ سےثابت توکریں جہاں صاف صاف لکھا ہو کہ آج سے تمام دنیاوی تہوار مسلمانوں پر حلال کئے جاتے ہیں۔
سید صاحب دخل در معقولات کے لیے معذرت لیکن آپ تو مفتی ہیں اور جانتے ہیں کہ حکم منع کرنے کا ہے، اور جہاں پر منع کرنے کا حکم نہیں ہے، یا خاموشی ہے تو وہ جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس جملے کا اس مراسلے سے کوئی تعلق نہیں ہے فقط یہ کہ فقہا کے ہاں حرمت و حلت کا یہی معیار ہے کہ حرام ہونے کے لیے واضح اور صاف صاف حکم درکار ہے لیکن حلال ہونے کے لیے ایسا حکم درکار نہیں ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
سید صاحب دخل در معقولات کے لیے معذرت لیکن آپ تو مفتی ہیں اور جانتے ہیں کہ حکم منع کرنے کا ہے، اور جہاں پر منع کرنے کا حکم نہیں ہے، یا خاموشی ہے تو وہ جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس جملے کا اس مراسلے سے کوئی تعلق نہیں ہے فقط یہ کہ فقہا کے ہاں حرمت و حلت کا یہی معیار ہے کہ حرام ہونے کے لیے واضح اور صاف صاف حکم درکار ہے لیکن حلال ہونے کے لیے ایسا حکم درکار نہیں ہے۔
میں یہی کہنے والا تھا.
ایسا کب ہوگا کہ ہم اپنی غلطی قبول کرنے کی بہادری دکھا سکیں
 

سید عمران

محفلین
سید صاحب دخل در معقولات کے لیے معذرت لیکن آپ تو مفتی ہیں اور جانتے ہیں کہ حکم منع کرنے کا ہے، اور جہاں پر منع کرنے کا حکم نہیں ہے، یا خاموشی ہے تو وہ جائز سمجھا جاتا ہے۔ اس جملے کا اس مراسلے سے کوئی تعلق نہیں ہے فقط یہ کہ فقہا کے ہاں حرمت و حلت کا یہی معیار ہے کہ حرام ہونے کے لیے واضح اور صاف صاف حکم درکار ہے لیکن حلال ہونے کے لیے ایسا حکم درکار نہیں ہے۔
آپ خود اتنے عالم فاضل ہیں کہ تفصیل کی بجائے اشارہ کافی ہے۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کفار کی پیروی تو درکنار ادنیٰ درجہ کی بھی مشابہت اختیار کرنے سے اجتناب کا درس دیتی ہے۔۔۔
مثالیں آپ جیسے مطالعے کے شوقین حضرات کے سامنے بے تحاشہ کھلی ہوئی ہیں!!!
 
ایک کڑوی سچائی

جارج کی عمر ۵۰ سال سے کچھ زیادہ ہے۔ وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ واشنگٹن میں رہتا ہے۔
عید الاضحٰی قریب آ رہی تھی۔ جارج اور اسکے گھر والے ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ پر دیکھ رہے تھے کہ عید کس تاریخ کو ہو گی۔ بچے روز اسلامی ویب سائٹس پر چیک کر رہے تھے۔ سب کو عید کا بےصبری سے انتظار تھا۔ جیسے ہی ذوالحجہ شروع ہوا، ان لوگوں نے عید کی تیاریاں شروع کر دیں۔ گھر کے قریب ہی ایک فارم ہاؤس تھا۔ وہاں سے ایک بھیڑ خریدی، جسکے چناؤ میں انھوں نے تمام اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا۔ بھیڑ کو گاڑی میں رکھا اور گھر کی راہ لی۔ بچوں کا خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ جارج کی بیوی، کیتھی نے گھر پہنچنے پر اسکو بتایا کہ وہ اس بھیڑ کے تین حصے کریں گے۔ ایک حصہ غریبوں میں بانٹ دیں گے، ایک حصہ اپنے ہمسائیوں ڈیوڈ، لیزا اور مارک کو بھیج دیں گے اور ایک حصہ اپنے استعمال کے لئے رکھیں گے۔ یہ تمام معلومات اسے اسلامی ویب سائٹس سے ملی تھیں۔ کتنے دنوں کے انتظار کے بعد عید کا دن آ ہی گیا۔ بچے خوشی خوشی صبح سویرے جاگے اور تیار ہو گئے۔ اب بھیڑ کو ذبح کرنے کا مرحلہ آیا۔ انھیں قبلہ کی سمت کا پتہ نہیں تھا لیکن اندازا ٴ مکہ کی طرف رخ کر کے جارج نے بھیڑ ذبح کر لی۔ کیتھی گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر رہی تھی کہ اچانک جارج کی نظر گھڑی پر پڑی۔ وہ کیتھی کی طرف منہ کر کے چلایا ہم چرچ کے لئے لیٹ ہو گئے۔ آج سنڈے ہے اور چرچ جانا تھا۔” جارج ہر اتوار باقائدگی سے اپنے بیوی بچوں کیساتھ چرچ جاتا تھا ‘‘ لیکن آج عید کے کاموں کی وجہ سے چرچ کا ٹائم نکل گیا۔

یہاں تک بول کر میں چپ ہو گیا۔ ہال میں سب بہت غور سے میری بات سن رہے تھے۔ میرہے خاموش ہونے پر ایک بندہ بول اٹھا :
”آپ نے ہمیں کنفیوز کر دیا ہے‘‘۔
’’ جارج مسلمان ہے یا کرسچن؟‘‘
میں نے جواب دیا: ”جارج کرسچن ہے۔”
یہ سن کر ہال میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔
آخر ایک شخص کہنے لگا: ”یار ! وہ کرسچن کیسے ہوسکتا ہے؟
اگر وہ کرسچن ہوتا تو مسلمانوں کا تہوار اتنے جوش اور عقیدت سے کیوں مناتا؟
’’ عید کی تاریخ کا خیال رکھنا، پیسہ خرچ کر کے بھیڑ خریدنا، اسے اسلامی طریقے پر ذبح کرنا وغیرہ؟‘‘

میں یہ سن کر مسکرایا اور بولا:
’’ میرے پیارے بھائیو!
یہ کہانی آپکو اتنی ناقابل یقین کیوں لگ رہی ہے؟
آپکو یقین کیوں نہیں آ رھا کہ ایسی کرسچن فیملی موجود ہو سکتی ہے؟
کیا ہم مسلمانوں میں سے کبھی کوئی عبداللہ، کوئی خالد، کوئی خدیجہ، کوئی فاطمہ نہیں دیکھی جو کرسچن کے تہوار مناتے ہوں؟
اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو نیو ائیر، ویلنٹائن، ہالووین، برتھ ڈیز وغیرہ مناتے نہیں دیکھا؟
اگر وہ سب حیران کن نہیں تو یہ بات آپکو حیران کیوں کر رہی ہے ؟
کہ کوئی غیر مسلم ہمارے تہوار منائیں؟‘‘

جارج کا کرسچن ہو کر عید منانا ہمیں عجیب لگ رہا ہے لیکن مسلمان تمام غیر اسلامی تہواروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو کسی کو عجیب نہیں لگتا۔


بخدا! میں دس سال امریکہ میں رہا۔ کبھی کسی یہودی یا عیسائی کو مسلمانوں کا تہوار مناتے نہیں دیکھا، لیکن جب میں واپس اپنے مسلمان ملک آیا تو مسلمانوں کو انکے تہوار بہت جوش و خروش سے مناتے دیکھا۔
ہال میں سب خاموش تھے۔
کیا یہ بات ایک کڑوی سچائی نہیں ؟؟؟ (ماخوذ)
 
ایسا کوئی حکم تاریخ سےثابت توکریں جہاں صاف صاف لکھا ہو کہ آج سے تمام دنیاوی تہوار مسلمانوں پر حلال کئے جاتے ہیں۔
صرف وہ دنیاوی تہوار جو اسلامی تعلیمات کے مطابق غلط ہوں کیخلاف فتوے دئے جائے سکتے ہیں۔ اسلام میں چونکہ نیا سال جیسے نوروز، نیو یئر، محرم وغیرہ منانے کیخلاف کوئی حتمی تعلیم موجود نہیں ہے اسلئے انکو نہ منانے کی ترغیب دینا خود غیر اسلامی فعل ہے۔
اگر آپ نیا سال نوروز، نیو یئر، محرم وغیرہ اسلام کے نام پر نہیں منا رہے تو یقیناً جائز ہے۔
 

سین خے

محفلین
وہائیٹ ہاوَس اور پینٹاگون سالوں سے رمضان ڈنر ہوسٹ کرتے آرہے ہیں۔

اس کے علاوہ رمضان میں مسلمانوں کو خصوصی ڈسکاوَنٹ وغیرہ دیا جاتا ہے۔ یہاں غیر ملکی محفلین ہی اس بات کی تصدیق کر دیں گے۔ اور اس بات کی بھی تصدیق ہو سکتی ہے کہ غیر مسلم عید اور دیگر اسلامی تہوار وغیرہ پر مسلمانوں کو وش بھی کرتے ہیں اور تحائف بھی دیتے ہیں اور لنچ ڈنر وغیرہ پر بھی ایک دوسرے کو مدعو کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے رشتے دار بھی امریکا اور دوسرے ممالک میں مقیم ہیں وہ لوگ تو یہی بتاتے ہیں۔

نوٹ: میری بات کو برائے مہربانی منفی انداز میں نہ لیا جائے۔ وہائیٹ ہاوَس اور پینٹاگون رمضان ڈنر کی بات ایک فیکٹ کے طور پر کہی ہے۔ امیریکی حکومت کی پالیسیوں سے مجھے بھی اختلاف ہے۔
 
آخری تدوین:
Top