نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں

برطانیہ کی عسکری قیادت کی تاریخ میں ہندوستان پر اولین فاتح کی حیثیت سے برطانوی جھنڈا گاڑنے والا ’’لارڈ رابرٹ کلائیو‘‘ 29 ستمبر 1725 ءکو پیدا ہوا۔1744 کو ایسٹ انڈیا کمپنی میں کلرک کی حیثیت سے پانچ پاؤنڈ سالانہ کے عوض ملازمت اختیار کی جو یقیناً خرچ کے لیے بہت ناکافی رقم تھی ۔ اپنی غربت سے انتہائی تنگ آکر ایک دن خود کشی کرنے کی غرض سے پستول بھری اور اپنے سر پر رکھ دی، لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے ’’لارڈ رابرٹ کلائیو‘‘ کی تدبیر کومات دے دی، پستول نے کام کرنے سے انکار کر دیا اور وہ گھوڑا دبانے کے باوجود بھی زندہ رہا،وہ اچانک چیخ اٹھا کہ ’’یقیناً خدا نے تمہیں کسی بڑے کام کے لیے محفوظ رکھا ہے‘‘۔ اُس نے ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کی ملازمت چھوڑ کر فوج کو پیشہ کے طور پر اختیار کر لیا اور آخر کار کمانڈر انچیف کے عہدے تک کا سفر طے کر کے ایک تاریخ رقم کر دی۔
سال 2017ء اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ بارہ مہینے، باون ہفتے،تین سو پینسٹھ دن، آٹھ ہزار سات سو ساٹھ گھنٹے، پانچ لاکھ پچیس ہزار چھ سو منٹ اور 31کروڑ 53 لاکھ اور چھ ہزار سیکنڈ گزار کر رخصت ہو گیا۔ ہمارے لاکھ چاہنے سے بھی ہم اسے رخصت ہونے سے روک سکے نہ کسی لمحے کا اضافہ کر سکے کیونکہ ہمیں نہ تو قانون قدرت میں دخل اندازی کا اختیار ہے نہ طاقت ، ہر انسان طوعاً و کرھاً اپنے خالق کے قانون قدرت کا تابعدار ہے ۔ وقت دنیا میں کسی بھی شخص کے لیے ٹھہرا ہے نہ ٹھہرے گا۔ہمارے پاس تین آپشنز ہیں، پہلا آپشن اپنی رفتار کو وقت کے رفتار سے تیز تر بنا دینا ، دوسرا آپشن وقت اور زمانے کے رفتار کے ساتھ چلنا اور تیسرا آپشن معمول کے رفتار کے مطابق زندگی گزارنا۔ تسخیر کائنات کے لیے اپنی رفتار کو وقت کے رفتار سے آگے بڑھانا ہو گا تبھی جا کر ہزاروں سال کے فاصلے پلک جھپکنے میں طے ہوں گے ، معراج کے واقعات بکثرت رونما ہوتے چلیں جائیں گے اور دنیا میں لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں صدیق پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور ’’لیظھرہ علی الدین کلہ‘‘ کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملے گا۔تبھی جا کر امت مسلمہ کے زوال کو عروج میں بدلتے دیر نہیں لگے گی، یہی تخلیق بنی آدم کا منشا ہے اور سیرت رسول کا تقاضا بھی،یہی ہمارے اکابر کی لازوال داستانیں رقم کرنے کا نسخہ اکسیر بھی ہے اور یہی مفکر اسلام علامہ محمد اقبالؒ کا مقصود نظر بھی ۔ اقبالؒ اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا کرتے تھے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ہماری رفتار اگر وقت اور زمانے کے رفتار کے مطابق رہی تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی نصرت اور زمانے کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ترقی کے زینے طے کرتے چلے جائیں گے اور وہ دن دور نہیں جب ملک پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں سر فہرست ہو گا، عسکری اعتبار سے ہماری مثال نہیں ملے گی، معاشی اعتبار سے عالمی منڈی کی حیثیت اختیار کر جائے گا، نظریاتی اعتبار سے قابل دید اور حیرت انگیز، علمی اعتبار سے قابل رشک ، عملی اعتبار سے قابل تقلید اور تمام اقوام عالم کے لیے امن کا مرکز کہلایا جائے گا اور وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا جو ’’مجدد الف ثانی ؒ‘‘ سے ہوتا ہوا ’’شاہ ولی اللہؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، اشرف علی تھانویؒ ،قائد ملت محمد علی جناحؒ،اور مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمد اقبال‘‘ تک پہنچا ،جس خواب کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، گھر بار چھوڑے، کاروباروں کو داؤ پر لگا دیا، بیوی بچے، ماں باپ، رشتہ دار، اپنے پرائے سب کچھ قربان کر دیا یہاں تک کہ اپنی جائز ملکیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
اور اگر خدانخواستہ ہم معمول کی زندگی گزار رہے ہیں یا زمانے کے رفتار سے آہستہ چل رہے ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنہوں نے اپنے پیغمبروں تک کو قتل کر ڈالا ، اپنے مفادات کے حصول کے لیے لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں تک کو بھسم کر دیا یقیناً ہم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے جس طرح بھوکے بھیڑیے اپنی شکار پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ہماری بوٹی بوٹی نوچ لیں گے جیسا کہ بعض مسلمان ملکوں کا مشاہدہ ہے ۔
آج اگر کوئی بھی بچہ سال 2018ء میں زندہ ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ نے ’’ویڈیو گیمز‘‘ کھیلنے کے لیے تو یقیناً زندہ نہیں رکھا ہو گا، اگر کسی نوجوان کی سانسیں بحال ہیں تو اُسے اللہ تعالیٰ نے ’’فیس بک‘‘ پر اپنا وقت برباد کرنے کے لیے زندہ نہیں رکھا ہو گا، چار اور پانچ روپے فی گھنٹہ کے حساب سے تمام رات ’’رونگ نمبرز‘‘ ملانے اور لڑکیوں سے گفتگوئیں کرنے کے لیے زندہ نہیں رکھا ہو گا۔نئے سال کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ہماری ذمہ داریاں کچھ یوں ہیں کہ ہمیں اپنی فضول قسم کی مجلسوں میں شرکت کو ترک کرنا ہو گا، بے کار ہم جولیوں کے ساتھ پینگیں بڑھانے کو ختم کرنا ہو گا، ہمیں بے کار قسم کے مشاغل کو نظر انداز کرنا ہو گا ، ہمیں صرف نوکری کی حد تک کتاب پڑھنے کے رویے کو تبدیل کرنا ہو گا، ہمیں اپنی زندگی کو بھرپور انداز میں گزارنے اور مفید بنانے کے لیے کا ایک وژن مقرر کرنا ہو گا ، اہداف مقرر کرنے ہوں گے، اہداف کے حصول کے لیے لائحہ عمل بنانا ہو گا ، لائحہ عمل پر سختی سے عمل کرنے کے لیے نظام الاوقات کو صفحے پر بنا کر اپنے سامنے اویزاں کرنا ہو گا اور نظام الاوقات کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے اپنے نفس کو کچلنا ہو گا جو انتہائی محنت طلب کام ہے جس کے لیے ہم ایک ہی ذات کے آگے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں ۔خالق کائنات نے ایک بار پھر ہمیں اپنی اور قوم کی تقدیر ہاتھ میں لینے موقع دیا ہے ۔یہ مدت اور مواقع اس وقت تک باقی ہیں جب تک خدا کا لکھا پورا نہ ہو جائے۔ اگر رات کے بعد خدا آپ کے اوپر صبح طلوع کرے تو سمجھ لیجئے کہ خدا کے نزدیک ابھی آپ کے عمل کے کچھ دن باقی ہیں، آپ کو کچھ اور کرنا ہے جو ابھی آپ نے نہیں کیا۔لیکن بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ’’لارڈ رابرٹ کلائیو‘‘ کی طرح قانونِ قدرت سے سبق سیکھ لیتے ہیں۔
 
Top