عدیم ہاشمی نہ کوئی رنگ نہ ہاتھوں میں حنا میرے بعد

شیزان

لائبریرین
نہ کوئی رنگ نہ ہاتھوں میں حنا میرے بعد
وہ مکمل ہی سیہ پوش ہُوا میرے بعد

لےکے جاتا رہا ہر شام وہ پھُول اور چراغ
بس یہی اُس نے کیا، جتنا جیا میرے بعد

روز جا کر وہ سمندر کے کنارے چُپ چاپ
ناؤ کاغذ کی بہاتا ہی رہا میرے بعد

اُس کے ہونٹوں سے مرا نام نکل جاتا تھا
جس نے اپنایا اُسے ،چھوڑدیا میرے بعد

اِک پرندہ جو بُلاتا تھا اُسے میری طرح
وہ پرندہ بھی قفس میں نہ رہا میرے بعد

میں نے گرنے نہ دیے تھے کبھی آنسُو اُس کے
شاید اِس واسطے وہ رو نہ سکا میرے بعد

میں بھی ویسا نہ رہا اُس کے بچھڑ جانے سے
کوئی اُس کو بھی نہ پہچان سکا میرے بعد

ساری دُنیا نے اُسے مالِ غنیمت سمجھا
جو نہ سوچا تھا کبھی، وہ بھی ہوا میرے بعد

اُس کا ہنسنا مجھے بھاتا تھا ،سو وہ شخص عدیم
بال کھولے ہوئے ہنستا ہی رہا میرے بعد
عدیم ہاشمی
 
Top