نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے
مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے

بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری
فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے

ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر
جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے

مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر
نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے

یہ کار ہائے محبت بپاسِ خاطرِ عشق
دیارِ ہجر میں ہم سے بطورِ خاص ہوئے

یہ شہر جاں ہے سلامت کسی کے ہونے سے
ہزاروں حادثے ورنہ تو دل کے پاس ہوئے

سحر ہوئی تو رفیقانِ بے خبر ، میرے
چراغِ کشتہء ظلمت سے روشناس ہوئے

دکھائے گردشِ ایام نے وہ رنگ اس بار
ہم ایسے کافر و منکر خدا شناس ہوئے

ہمارا عہدِ مسائل رقم ہے غزلوں میں
ہمارے شعر زمانے کا اقتباس ہوئے

سخن جو عام سے لگتے تھے ساری دنیا کو
ظہیرؔ حلقہء یاراں میں آکے خاص ہوئے

ظہیر ؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2018​
 
آخری تدوین:

اے خان

محفلین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس کی سمجھ نہیں آ رہی
عبداللہ ، یہاں ازلی مبالغے کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو فلاں کا ازلی دشمن ہے ۔ وغیرہ۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ہم جیسےد نیا دار لوگ جو عملاً کافر ہی بنے ہوئے تھے وہ بھی خدا شناس یعنی ایمان والے ہوگئے۔ امید ہے کہ بات تلک پہنچ گئے ہونگے۔
 

اے خان

محفلین
عبداللہ ، یہاں ازلی مبالغے کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ جیسے کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو فلاں کا ازلی دشمن ہے ۔ وغیرہ۔ کہنے کا مقصد یہ کہ ہم جیسےد نیا دار لوگ جو عملاً کافر ہی بنے ہوئے تھے وہ بھی خدا شناس یعنی ایمان والے ہوگئے۔ امید ہے کہ بات تلک پہنچ گئے ہونگے۔
جی سمجھ آگئی لیکن جیسے کہ آپ نے اس مراسلے میں لکھا ہے کہ ہم جیسے دنیا دار لوگ لیکن شعر میں آپ نے ہم ایسے کافرِ ازلی لکھا ہے صرف اس کو نہیں سمجھ پا رہا
یعنی ہم ایسے اور ہم جیسے ایک معنی دیتا ہے؟
ہم ایسے کافرِ ازلی
 
بہت عمدہ ظہیر بھائی۔ لاجواب
بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری
فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے

مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر
نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے

دکھائے گردشِ ایام نے وہ رنگ اس بار
ہم ایسے کافرِ ازلی خدا شناس ہوئے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جی سمجھ آگئی لیکن جیسے کہ آپ نے اس مراسلے میں لکھا ہے کہ ہم جیسے دنیا دار لوگ لیکن شعر میں آپ نے ہم ایسے کافرِ ازلی لکھا ہے صرف اس کو نہیں سمجھ پا رہا
یعنی ہم ایسے اور ہم جیسے ایک معنی دیتا ہے؟
ہم ایسے اور ہم جیسے ایک ہی بات ہے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جی ازلی کا تلفظ اَزَلی ہے۔ ظہیراحمدظہیر بھائی ہی وضاحت کر سکتے ہیں۔
اضافت کا مسئلہ نہیں۔
یہ سہو ہے تابش بھائی ، اشعار کئی صورتوں میں کئی کاغذوں پر ہوتے ہیں اوربہت کچھ لکھ لکھ کر کاٹا ہوتا ہے ۔ اسے تبدیل کررہا ہوں ۔
اسے یوں پڑھئے: ہم ایسے کافر و منکر خدا شناس ہوئے
 
نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے
مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے

بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری
فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے

ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر
جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے

مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر
نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے

یہ کار ہائے محبت بپاسِ خاطرِ عشق
دیارِ ہجر میں ہم سے بطورِ خاص ہوئے

یہ شہر جاں ہے سلامت کسی کے ہونے سے
ہزاروں حادثے ورنہ تو دل کے پاس ہوئے

سحر ہوئی تو رفیقانِ بے خبر ، میرے
چراغِ کشتہء ظلمت سے روشناس ہوئے

دکھائے گردشِ ایام نے وہ رنگ اس بار
ہم ایسے کافر و منکر خدا شناس ہوئے

ہمارا عہدِ مسائل رقم ہے غزلوں میں
ہمارے شعر زمانے کا اقتباس ہوئے

سخن جو عام سے لگتے تھے ساری دنیا کو
ظہیرؔ حلقہء یاراں میں آکے خاص ہوئے

ظہیر ؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2018​
واہ صاحب۔ عمدہ غزل عنایت فرمائی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری
فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے
ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر
جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے
مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر
نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے
یہ شہر جاں ہے سلامت کسی کے ہونے سے
ہزاروں حادثے ورنہ تو دل کے پاس ہوئے
سحر ہوئی تو رفیقانِ بے خبر ، میرے
چراغِ کشتہء ظلمت سے روشناس ہوئے
دکھائے گردشِ ایام نے وہ رنگ اس بار
ہم ایسے کافر و منکر خدا شناس ہوئے
ہمارا عہدِ مسائل رقم ہے غزلوں میں
ہمارے شعر زمانے کا اقتباس ہوئے
سخن جو عام سے لگتے تھے ساری دنیا کو
ظہیرؔ حلقہء یاراں میں آکے خاص ہوئے

آپ کی غزل سے اشعار منتخب کرنا بڑا مشکل کام ہوا کرتا ہے۔

ہر شعر ہی کہتا ہے کہ ہم بھی آپ کے ساتھ جائیں گے اور ہم سے انکار نہیں ہو پاتا۔ :)

خوبصورت غزل پر بہت سی داد قبول فرمائیے محترم ظہیر بھائی!
 

عباد اللہ

محفلین
نہ وہ ملول ہوئے ہیں ، نہ ہم اداس ہوئے
مزاج ترکِ تعلق پہ بے لباس ہوئے

بجھائے ایسے ہوا نے چراغِ خوش نظری
فروغِ دید کے موسم بھی محوِ یاس ہوئے

ہم اعتراض تھے ناقد مرے قصیدوں پر
جمالِ یار کو دیکھا تو ہم سپاس ہوئے

مری نظر میں خود اپنے ہی نقطہ ہائے نظر
نہیں جو تیرا حوالہ تو بے اساس ہوئے

یہ کار ہائے محبت بپاسِ خاطرِ عشق
دیارِ ہجر میں ہم سے بطورِ خاص ہوئے

یہ شہر جاں ہے سلامت کسی کے ہونے سے
ہزاروں حادثے ورنہ تو دل کے پاس ہوئے

سحر ہوئی تو رفیقانِ بے خبر ، میرے
چراغِ کشتہء ظلمت سے روشناس ہوئے

دکھائے گردشِ ایام نے وہ رنگ اس بار
ہم ایسے کافر و منکر خدا شناس ہوئے

ہمارا عہدِ مسائل رقم ہے غزلوں میں
ہمارے شعر زمانے کا اقتباس ہوئے

سخن جو عام سے لگتے تھے ساری دنیا کو
ظہیرؔ حلقہء یاراں میں آکے خاص ہوئے

ظہیر ؔاحمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2018​
بہت عمدہ
 
Top