تبسم نہ روبرو کوئی دل بر نہ دل رُبا منظر ۔ صوفی تبسم

فرخ منظور

لائبریرین
نہ روبرو کوئی دل بر نہ دل رُبا منظر
تو پھر یہ کیسے دریچے، یہ کیسے بام و در

بہک نہ جائے نگہ، ڈگمگا نہ جائیں قدم
رہِ وفا ہے، یہاں سے ذرا سنبھل کے گزر

ملیں گے جا کے، خدا جانے کِس مقام پہ دل
ابھی تو اُن کی نظر سے نہیں ملی ہے نظر

ابھی تو دور بہت ہے تجلیِ رخِ دوست
ابھی تو قدموں سے ابھرا ہے، دامنوں سے ابھر

کبھی جو جھانکنا چاہا کسی گریباں میں
تو آ پڑی ہے نظر اپنے ہی گریباں پر

ملے گی اشکِ ندامت سے کیا نمی اُس کو
کہ زہدِ خشک سے الجھا ہے میرا دامنِ تر

فغاں کی رسم یہاں عام ہو گئی یارو
کہیں سے ڈھونڈ کے لا دو مجھے حدیثِ نظر

یہ بات غم نے مرے کس طرح گوارا کی
طویل رات یہ فرقت کی کٹ گئی کیوں کر

گئے تھے کر کے تبسّمؔ وہ مجھ سے وعدۂ صبح
نہ جانے کون سے لمحوں میں کھو گئی وہ سحر!

(صوفی تبسم)
 
Top