نہیں دیکھے گئے وہ بھی نگاہِ برقِ مضطر سے- لکشمی نرائن جوہر بدایونی

کاشفی

محفلین
غزل
(لکشمی نرائن جوہر بدایونی)
نہیں دیکھے گئے وہ بھی نگاہِ برقِ مضطر سے
جو تنکے بچ رہےتھے آشیاں میں بادِ صرصر سے
ارے صیاد مجبوری اسی کا نام ہے شاید
نشیمن جل رہا ہے دیکھتے ہیں ہم ترے گھر سے
بہارِ صحن گلشن ہے اگر اپنے مقدر میں
قفس کی تیلیاں سرسبز ہوں گی دیدہء تر سے
ہمارے دل کے زخموں کی یہ ہیں دھندلی سی تصویریں
حروفِ نامہ جتنے مٹ گئے ہیں دیدہء تر سے
قفس میں دل کی ہر جنبش پہ اتنا ہوش آتا ہے
کہ انجامِ خزاں کا ذکر تھا نکلےتھے جب گھر سے
خدا یاد آیا جب پامالِ حسرت دل ہوا اپنا
نکل آئی رہِ عُمر ابد اُجڑے ہوئے گھر سے
دعا کے ساتھ وہ آمین کہتے ہیں مگر جوہر
اثر بیگانہ سا رہتا ہے کچھ تیرے مقدر سے
 
Top