نوجوانوں کو قرضے۔ حکومت کا ایک بدترین منصوبہ

کیا نواز کانوجوانوں کو قرضہ دینے کامنصوبہ بدترین ہے۔ ملک کی تباہی کا باعث ہوگا؟


  • Total voters
    8
ظفری
درخواست جمع کراتے وقت آپ کو مطلوبہ دستاویزات کے علاوہ اپنے کاروبار کا ’’بزنس پلان‘ پیش کرنا ہوگا جس کے بنیاد پر آپ کو قرضہ جاری کیا جائے گا، اس کے لئے بھی نوجوانوں کی آسانی کے لئے سہولت رکھی گئی ہے اور وزیر اعظم کی پروگرام کے حوالے سے بنائی گئی ویب سائٹ پر 55 بزنس پلانس ڈال دیئے گئے ہیں
انجنئیرنگ اور پیداوار
انفارمیشن ٹیکنالوجی

خوراک
زراعت
زراعت اور پھلوں کی پراسسنگ
سروسز
معدنیات
مویشی پالنا
بتائیے ان میں سے کونسا بزنس پلان ہے جو بیس لاکھ سے شروع ہوسکتا ہے؟۔۔۔کوئی بھی نہیں شائد۔۔ الا ماشاء اللہ
 
میرے خیال میں بہت احمقانہ منصوبہ ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس مںصوبے سے معاشرےمیں کوئی جوہری تبدیلی تو کیا معمولی تبدیلی بھی ممکن نہیں ۔ کیا صرف رقم مہیا کردینے سے نوجوانوں کے مسائل حل ہوجائیں گے ۔ یعنی روزگار کا حصول آسان ہوجائے گا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ممکن ہوسکے گا ۔ آپ کسی کو صرف رقم مہیا کرکے اس کے لیئے آسانیاں پیدا نہیں کرسکتے جب تک اس رقم کے صحیح استعمال کےذرائع موجود نہ ہوں۔ بلفرض اگر آپ یہ رقم حاصل بھی کرلیتے ہیں تو اس رقم سے کیا کاروبار ممکن ہوسکے گا ۔ معشیت برباد ہوچکی ہے ۔اس صورتحال میں کوئی ایسا کاروبار ممکن نہیں ہے کہ آپ اس رقم سے اپنے لیئے روزگارکے زرائع پیدا کرسکیں ۔ سیکورٹی ناپید پوچکی ہے ۔ اگرکسی کو معلوم ہوگیا کہ اتنی رقم آپ کے پاس ہے ۔ آپ نہ صرف رقم سے بھی جاتے رہیں گے بلکہ جان کے بھی لالے پڑ جائیں گے ۔ کراچی میں تو یہ منصوبہ چل ہی نہیں سکتا ۔ کہ ممکن ہو کہ آپ کوئی ریڑھی ہی ان پیسوں سے لگالیں ۔ جتنا سود آپ دے رہے ہیں اس سے زیادہ آپ کو بھتہ دینا پڑے گا ۔ منافع تو ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس طرح کی کئی اور مثالیں دی جاسکتیں ہیں ،
میں سمجھتا ہوں کہ پہلے روزگار کے حصول کے لیئے ذرائع پیدا کیئے جائیں پھر کوئی منصوبہ بندی کارگر ہوسکتی ہے ۔ بصورتِ دیگر ہم ڈاکٹرز اور انجئینرز پروڈیوس کیئے جارہے ہیں اور ملک میں ہسپتال اور صعنتیں موجود نہیں ہے ۔ لہذا اس کھیپ کو کہاں کھپایا جائے گا ۔
بلکل اسئ طرح یہ منصوبہ ہے جو اس کے استعمال کے ذرائع کے بغیر کسی کام کا نہیں ہے ۔


یہ بات درست ہے۔ کبھی کبھی یہ بچہ کام کی بات بھی کرجاتا ہے۔

یہ قرضے صرف سیاسی فائدے کےلیے ہیں۔ ان کی کوئی ریکوری نہیں ہونی اور سیاسی فائدے کے لیے بٹیں گے۔ فائدہ کچھ نہیں۔
ملک کی معشیت درست کرنے کے لیے سب سے پہلے امن قائم ہونا شرط ہے۔ دوسری بات انفراسٹرکچر کی فراہمی ضروری ہے۔ موجود ہ صورت حال میں 100 ارب روپے صرف ضائع ہی ہونگے
 

ساقی۔

محفلین

وہ تو ٹھیک ہے پر ترجمہ کون کرے گاِ؟

انگور کھٹے ہیں اس لیے میں نے اپنا اوتار یہ لگایا ہوا ہے
clear.png
 

قیصرانی

لائبریرین
سسٹم کی خرابی یہی ہے کہ ایک بندہ جسکو کام کرنا آتا ہو، اور وہ کام کرنا چاہتا بھی ہو لیکن مناسب سرمایہ موجود نہ ہو تو اسکے لئے سسٹم میں کیا ہے؟ کونسا بینک اسے محض ان دو بنیادوں پر فنانس کرنے کو تیار ہوگا؟ چنانچہ اس سسٹم میں لوہار کا بیٹا لوہار ہی بنے گا صنعتکار نہیں بنے گا (الا یہ کہ قدرت اس پر مہربان ہوکر غیب سے کچھ اسباب مہیا فرمادے)
جبکہ اسی سسٹم میں یہ آئے روز کا مشاہدہ ہے کہ کسی بااثر اور طاقتور فرد یا گروہ کی آشیرباد سے بینک بھی آپ کو سرمایہ فراہم کرنے پر تیار ہوجائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد اس قرضے کو معاف بھی کردیا جائے گا چنانچہ معاشرے میں ایسے افراد بھی نظر آتے ہیں جنکی ترقی کی رفتار exponential ہے جبکہ متوسط طبقے کا عام فرد جسکے پاس محض علم وہنر اور محنت و لیاقت ہے وہ کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے(بلکہ شائد افراطِ زر کی وجہ سے پیچھے کو سرک رہا ہے)۔۔۔
ایک ہی سسٹم میں ایک طبقہ کیلئے بریکوں پر پاؤں ہیں اور دوسرے طبقے کیلئے ایکسیلیٹر پر پیر رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ تو لیول پلے فیلڈ تو نا ہوئی ناں۔
کیا آپ واقعی سنجیدہ ہیں؟
 
کیا آپ واقعی سنجیدہ ہیں؟
آپکا اشارہ جس لوہار فیملی کی طرف ہے وہ لوگ ضیاء الحق کے زمانے میں ہر طرح کی سیاسی سپورٹ لیکر اور قرضے معاف کرواکر کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔۔۔چنانچہ میں پوری طرح سنجیدہ ہوں۔انکی یہ ترقی لوہار ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ کچھ اور ہوجانے کی وجہ سے۔۔۔
 

ظفری

لائبریرین
یہ بات درست ہے۔ کبھی کبھی یہ بچہ کام کی بات بھی کرجاتا ہے۔

یہ قرضے صرف سیاسی فائدے کےلیے ہیں۔ ان کی کوئی ریکوری نہیں ہونی اور سیاسی فائدے کے لیے بٹیں گے۔ فائدہ کچھ نہیں۔
ملک کی معشیت درست کرنے کے لیے سب سے پہلے امن قائم ہونا شرط ہے۔ دوسری بات انفراسٹرکچر کی فراہمی ضروری ہے۔ موجود ہ صورت حال میں 100 ارب روپے صرف ضائع ہی ہونگے
یہ بندہ یہاں غلطی سے میرے مراسلے کی تائید کر رہا ہے ۔ اور اصل مراسلے میں نا متفق کا بٹن دبا گیا ہے ۔میرا خیال ہے کہ کچھ ایسا ہی کہتے ہیں اونٹ رے اونٹ بتا تری کون سی کل سیدھی ۔۔۔۔۔:D
 

الف نظامی

لائبریرین
سسٹم کی خرابی یہی ہے کہ ایک بندہ جسکو کام کرنا آتا ہو، اور وہ کام کرنا چاہتا بھی ہو لیکن مناسب سرمایہ موجود نہ ہو تو اسکے لئے سسٹم میں کیا ہے؟ کونسا بینک اسے محض ان دو بنیادوں پر فنانس کرنے کو تیار ہوگا؟ چنانچہ اس سسٹم میں لوہار کا بیٹا لوہار ہی بنے گا صنعتکار نہیں بنے گا (الا یہ کہ قدرت اس پر مہربان ہوکر غیب سے کچھ اسباب مہیا فرمادے)
جبکہ اسی سسٹم میں یہ آئے روز کا مشاہدہ ہے کہ کسی بااثر اور طاقتور فرد یا گروہ کی آشیرباد سے بینک بھی آپ کو سرمایہ فراہم کرنے پر تیار ہوجائیں گے اور کچھ عرصے کے بعد اس قرضے کو معاف بھی کردیا جائے گا چنانچہ معاشرے میں ایسے افراد بھی نظر آتے ہیں جنکی ترقی کی رفتار exponential ہے جبکہ متوسط طبقے کا عام فرد جسکے پاس محض علم وہنر اور محنت و لیاقت ہے وہ کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے(بلکہ شائد افراطِ زر کی وجہ سے پیچھے کو سرک رہا ہے)۔۔۔
ایک ہی سسٹم میں ایک طبقہ کیلئے بریکوں پر پاؤں ہیں اور دوسرے طبقے کیلئے ایکسیلیٹر پر پیر رکھے ہوئے ہیں۔۔۔ تو لیول پلے فیلڈ تو نا ہوئی ناں۔
ہے تو غیر متعلقہ بات لیکن کہنے میں کیا حرج ہے کہ
پھر طاہر القادری درست کہتا ہے نظام کی تبدیلی کے بغیر سو الیکشن بھی بے سود ہیں!
 

الف نظامی

لائبریرین
مجھے تو اس شخص پر افسوس ہی ہوگا جو یہ قرضہ لے گا
اگر آپ کو 20 لاکھ قرض ملا تو آپ کو 32 ہزار کے قریب روپے ہر ماہ آٹھ سال تک جمع کرانے ہیں

کس حساب سے؟ ذرا تفصیل فراہم کریں گے کہ کسطرح 32 ہزار روپے ہر ماہ بنتے ہیں؟

یہ سمیڈا کی ایک فائل میں لکھا ہے جس میں سود اور قسط کا حساب کتاب ہے
میرا نہیں خیال کہ 8 فی صد میں سے 7 فی صد حکومت ادا کرے گی۔بلکہ 8 فی صد نوجوان اور 7 فی صد حکومت۔ وگرنہ صرف ایک فی صد پر قرض برا نہیں ہے۔
رہی یہ بات کہ لے کر واپس کون دیتا ہے۔ اگر یہ نیت ہے تو اس قرضے سے بددیانتی فروغ پائے گی۔ اور افراط زر الگ۔ نتیجہ برا۔
حوالہ فراہم کریں!
قرضے کے پہلے سال کوئی مارک اپ نہیں جبکہ دوسرے سال 8 فیصد مارک اپ ہوگا جس میں7فیصد حکومت خود دے گی۔
 

غلط
پہلے سال گریس پریڈ میں صرف قسط نہیں دینی مگر سود دینا ہے۔ سود 8 فی صد ہے جو قرض خواہ کو خود ادا کرنا ہے۔ حکومت 7 ٪ دیگر اخراجات سے ادا کرے گی۔ حوالہ سمیڈا کی سائیٹ اور ٹی وی اشتہارات
 

ابن رضا

لائبریرین
اس آفر کے دو پہلو ہیں۔

1- پڑھے لکھے و ہنر مند افراد کو آسان شرائط پر قرضے کی فراہمی (ان افراد کے لیے جو مذہبی ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر مادی ترقی کو لازمی سمجھتے ہوں،یا جن کو سودی قرض پر کوئی ممانعت یا عار محسوس نہ ہو)
تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں و ہنرکو بروئےکارلاکر اپنامستقبل بھی سنوار سکے اور معیشت میں پیداواری عمل کا حصہ بن کر اس کو تقویت دے کر ملکی فلاح و دیگر افراد کے لیے بھی روز گار کا سبب بن سکے۔
×××انتہائی پر کشش آفر کہ جس میں شرح سود صرف آٹھ فیصد رکھی گئی جس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کو دو لاکھ رقم قرض دی جاتی ہےتو اس کو مبلغ 1333 روپے ماہانہ بطور سود ادا کرنے ہوں گے جو کہ ایک نہایت ہی آسان بات ہے۔
×××سونے پے سہاگہ یہ کہ اصل زر یعنی دو لاکھ قرض لیا ہے اس میں سےپہلے سال کچھ واپس نہیں کرنا تاکہ وہ اپنا کام یا کاروبار بہتر طور پر قائم کرسکے اور منافع کماکر اگلے سال سے سود کے ساتھ ساتھ اصل زر کی بھی قسط ادا کرے جو کہ 200000/7=28571سالانہ اور 2380 روپے ماہانہ بنتی ہے۔
×××دلچسپ بات یہ کہ ملک میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح کم و بیش 15 فی صدسالانہ ہے۔یعنی آج اگر ہمارے ہاتھ میں 115 روپے ہیں تو ایک سال بعد مہنگائی کی وجہ سے ان کی مالیت 100 روپے ہوگی تقریباً۔ اب حکومت جو آج 100 روپے بطور قرض دے گی تو اس میں 8 فیصد توسود وصول کر لے گی یعنی کہ اس کے ہاتھ میں سال بعد 108 روپے ہونگے جب کہ افراطِ زر 15 روپے ہوگی تو باقی 7 روپے حکومت کو خود برداشت کرنا ہوں گے۔


2- سود اسلام میں بہر طور حرام ہے ۔ ایک صاحبِ ایمان کا یقین ہے کہ حرام میں کبھی برکت و فلاح پوشیدہ نہیں ۔ بلکہ یہ سراسر خسارا ہے ۔ کیا کیوں کیسے یہ ایک الگ بحث ہے ۔

تاہم دنیاوی لحاظ سے انتہائی شاندار پیشکش ہے پر دینوی لحاط سے انتہائی قابل ِمذمت۔ اب یہ فیصلہ سب کا ذاتی ہے کہ کس کیا ترجیح ہے۔
 
اس آفر کے دو پہلو ہیں۔

1- پڑھے لکھے و ہنر مند افراد کو آسان شرائط پر قرضے کی فراہمی (ان افراد کے لیے جو مذہبی ترجیحات کو بالائے طاق رکھ کر مادی ترقی کو لازمی سمجھتے ہوں،یا جن کو سودی قرض پر کوئی ممانعت یا عار محسوس نہ ہو)
تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں و ہنرکو بروئےکارلاکر اپنامستقبل بھی سنوار سکے اور معیشت میں پیداواری عمل کا حصہ بن کر اس کو تقویت دے کر ملکی فلاح و دیگر افراد کے لیے بھی روز گار کا سبب بن سکے۔
×××انتہائی پر کشش آفر کہ جس میں شرح سود صرف آٹھ فیصد رکھی گئی جس کا مطلب ہے کہ اگر کسی کو دو لاکھ رقم قرض دی جاتی ہےتو اس کو مبلغ 1333 روپے ماہانہ بطور سود ادا کرنے ہوں گے جو کہ ایک نہایت ہی آسان بات ہے۔
×××سونے پے سہاگہ یہ کہ اصل زر یعنی دو لاکھ قرض لیا ہے اس میں سےپہلے سال کچھ واپس نہیں کرنا تاکہ وہ اپنا کام یا کاروبار بہتر طور پر قائم کرسکے اور منافع کماکر اگلے سال سے سود کے ساتھ ساتھ اصل زر کی بھی قسط ادا کرے جو کہ 200000/7=28571سالانہ اور 2380 روپے ماہانہ بنتی ہے۔
×××دلچسپ بات یہ کہ ملک میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح کم و بیش 15 فی صدسالانہ ہے۔یعنی آج اگر ہمارے ہاتھ میں 115 روپے ہیں تو ایک سال بعد مہنگائی کی وجہ سے ان کی مالیت 100 روپے ہوگی تقریباً۔ اب حکومت جو آج 100 روپے بطور قرض دے گی تو اس میں 8 فیصد توسود وصول کر لے گی یعنی کہ اس کے ہاتھ میں سال بعد 108 روپے ہونگے جب کہ افراطِ زر 15 روپے ہوگی تو باقی 7 روپے حکومت کو خود برداشت کرنا ہوں گے۔


2- سود اسلام میں بہر طور حرام ہے ۔ ایک صاحبِ ایمان کا یقین ہے کہ حرام میں کبھی برکت و فلاح پوشیدہ نہیں ۔ بلکہ یہ سراسر خسارا ہے ۔ کیا کیوں کیسے یہ ایک الگ بحث ہے ۔

تاہم دنیاوی لحاظ سے انتہائی شاندار پیشکش ہے پر دینوی لحاط سے انتہائی قابل ِمذمت۔ اب یہ فیصلہ سب کا ذاتی ہے کہ کس کیا ترجیح ہے۔



یہاں سے لون ری پیمنٹ ٹیمپلیٹ پر کلک کرکے ایکسل فائل ڈاون لوڈ کرلیں
8 فی صد سود پر صرف سود خوربنیے ہی قرض دیتے ہیں
 
Top