نواز شریف کہاں غلطی کرگئے؟

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف کہاں غلطی کرگئے؟
08/03/2019 رؤف کلاسرا



وزیر اعظم ہاؤس میں دو درجن کے قریب اینکرز اور صحافیوں کے ساتھ وزیر اعظم کی جب گفتگو ختم ہو گئی تو مجھے محسوس ہوا، جب یہ سب باتیں باہر نکلیں گی تو سب کہیں گے کہ یہ باتیں تو سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کرتے تھے۔ اس بار نیا کیا ہے؟

پاک بھارت معاملات پر عمران خان صاحب تقریباً وہی گفتگو کر رہے تھے جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کرتے تھے۔ وہ بھی ہمیں یہی سمجھاتے تھے : دنیا بدل رہی ہے، اب ہمیں دنیا کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اور نان سٹیٹ ایکٹرز کو ختم کرنا ہے، ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔

وہی ہوا، جب وہ باتیں باہر نکلیں تو نواز شریف کے حامیوں نے وہی سوال دہرانے شروع کر دیے۔ سوشل میڈیا پر یہ سوال شد و مد سے پوچھا گیا: اگر عمران خان نے بھی یہی باتیں کرنی تھیں تو پھر نواز شریف میں کیا برائی تھی؟ اسے مودی کا یار کہہ کر غدار کیوں کہا گیا؟

اب بھی نواز شریف کے حامیوں کا ایک بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ ان کو سزا پانامہ سکینڈل یا دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جائیدادوں کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی، بلکہ ڈان لیکس اور بھارت سے دوستانہ تعلقات کی خواہش لے ڈوبی۔

مجھے نواز شریف سے گلہ رہا ہے کہ جب وہ اپوزیشن میں ہوتے تو جن باتوں پر کھل کر تنقید کرتے، حکومت میں جا کر ان کا دفاع شروع کر دیتے تھے۔ وہ لندن میں کہتے تھے کہ ان کی پارٹی سرونگ جرنیلوں سے ملاقاتیں نہیں کرے گی، نہ ہی سیاسی حکومت کے خلاف سازشیں کریں گے۔ پاکستان لوٹتے ہی چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف کی جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں شروع ہو گئیں، اور پھر نواز شریف تیسری دفعہ وزیر اعظم بن گئے۔ وہ کسی کو خوش کرنے کے لیے کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ بھی پہنچ گئے تاکہ زرداری اور گیلانی کو میمو گیٹ پر غدار ڈیکلیئر کرا سکیں۔ وہ اپوزیشن میں کہتے تھے کہ وہ کارگل جنگ پر عدالتی کمیشن بنائیں گے۔ چار سال وزیر اعظم رہے اور بھول کر بھی کارگل کا نام نہ لیا۔

تاہم سب سے بڑا افسوس اس وقت ہوا، جب ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا اور نواز شریف سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب سب میڈیا میں حکومت پر تنقید کر رہے تھے، تو میں اور عامر متین ان دو تین صحافیوں میں سے تھے جو اس معاملے پر نواز شریف کی حکومت کو سپورٹ کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ جو باتیں نان سٹیٹ ایکٹرز کے معاملے پر کی گئی ہیں وہ درست ہیں، حکومت کو اس وقت سٹینڈ لینے کی ضرورت ہے ؛ تاہم ہوا اس کے برعکس۔

نواز شریف نے فوری طور پر ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا دی جس میں دو سرونگ آرمی افسر بھی شامل تھے۔ اس انکوائری کا مقصد یہ پتہ چلانا تھا کہ خبر کس نے لیک کی تھی۔ ساتھ میں حکومت نے پوری شدت سے انکار کیا کہ ایسی کوئی بات اجلاس میں نہیں کی گئی تھی۔ یوں پوری حکومت ایک state of denial میں چلی گئی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اس رپورٹر کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا جس نے وہ خبر دی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خبریں آنے لگیں کہ اس رپورٹر کو خبر خود ان وزیروں نے دی تھی، جو اب اس کا نام ای سی ایل میں ڈال رہے تھے۔ یوں ایک تیر سے کئی شکار ہو رہے تھے۔ پہلے رپورٹر اور اخبار کو استعمال کیا گیا۔ مرضی کی خبر لگوائی گئی تاکہ آرمی پر دباؤ بڑھایا جائے اور جب آرمی نے جواباً دباؤ بڑھایا تو نہ صرف انکوائری آرڈر کر دی بلکہ رپورٹر کو بھی ملک سے باہر جانے سے روک دیا گیا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ انکوائری خود نواز شریف کے حکم پر ہو رہی تھی اور اس انکوائری میں درجنوں صحافیوں، سرکاری افسران اور کابینہ کے وزیروں کو بلا کر گھنٹوں ان سے تفتیش کی گئی۔ اس تفتیش کے جو نتائج نکلے انہیں پہلے تو فوج کے ترجمان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مسترد کر دیا جس پر ایک اور شور مچ گیا۔ بعد میں نواز شریف نے اپنے وزیر پرویز رشید اور طارق فاطمی کو قربانی کا بکرا بنا کر ان کی چھٹی کرا دی تاکہ فوجی قیادت مطمئن رہے۔

یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا تھا کہ کسی وزیر کو پہلے آگے کیا گیا اور پھر اس سے کام لے کر اسے بر طرف کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر مشاہداللہ خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ ان سے بی بی سی کو انٹرویو دلوایا گیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے پاس ان جرنیلوں کی ریکارڈڈ گفتگو تھی جو عمران خان کے دھرنے کو سپورٹ کر رہے تھے۔ اس پر مشاہداللہ کو نیپال میں فون کرکے کہا گیا کہ وہ فوراً استعفیٰ دے دیں کیونکہ آرمی ناراض ہو گئی ہے۔ کچھ عرصہ بعد انہیں دوبارہ وزیر بنا دیا گیا۔ ان سے جو کام لینا تھا، وہ لے لیا تھا۔

بات یہاں پر ختم نہیں ہو جاتی۔ جب نواز شریف برطرف ہو کر گلی گلی محلہ محلہ پھر کر پوچھ رہے تھے کہ مجھے کیوں نکالا تو انہوں نے اسی رپورٹر کو ملتان بلایا جس کا نام انہوں نے خود ای سی ایل میں ڈالا تھا۔ جس رپورٹر کی خبر کو جھوٹا کہہ رہے تھے، اسے ہی بلا کر انٹرویو دیا اور ان تمام باتوں کو دہرایا جو ڈان لیکس میں کہی گئی تھیں۔

اب اس میں دو تین سوالات ابھرتے ہیں۔ اگر آپ کو علم تھا کہ آپ درست باتیں کر رہے ہیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر ان پر سٹینڈ نہیں لیا تاکہ آرمی ناراض نہ ہو تو پھر اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد وہ باتیں کرنے کا کیا فائدہ؟ آپ وزیر اعظم ہوتے ہوئے اگر سٹینڈ نہیں لے سکے تو اقتدار سے باہر نکل کر سٹینڈ لینے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا؟

ہمارے جیسے لوگ شروع دن سے اس بات کے حق میں تھے کہ نواز شریف کو بھارتی وزیر اعظم مودی سے اپنے اچھے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ملکوں کے تعلقات درست کرنے چاہئیں۔ نواز شریف خود اس معاملے میں وہ جرأت نہ کر سکے جو انہیں دکھانی چاہیے تھے۔ جس دن ڈان لیکس پر ان پر دباؤ ڈالا گیا تھا، وہ ہاؤس میں کھڑے ہو کر ایک تقریر کرتے کہ ملکی سلامتی کا تقاضا ہے کہ ہم یہ سب کام دل و جان سے کریں، ماضی کے ان اثاثوں سے جان چھڑائیں اور اب دنیا کے ساتھ مل کر چلیں۔

میں وزیر اعظم کے طور پر یہ ذمہ داری محسوس کرتا ہوں کہ اب یہ کام نہیں چلے گا، اگر کسی کو، کسی کو میری پالیسی پر اعتراض ہے تو وہ یا استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے یا پھر وہ میری جگہ آ کر خود سنبھال لے اور دنیا کو خود بھگت لے۔ نواز شریف اگر اس وقت سٹینڈ لیتے تو انہیں جہاں دنیا بھر سے سپورٹ ملنا تھی، وہیں انہیں پاکستان کے اندر بھی حمایت ملتی، لیکن وہ اس تمام عرصہ میں کسی کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی وزیروں کے خلاف انکوائریاں کرا کے انہیں مجرم بنا کر برطرف کرتے رہے، اور جب انہوں نے برطرف ہونے کے بعد ملتان میں انٹرویو دے کر بلیک میل کرنا چاہا تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ بعض لوگ کہیں گے، وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سیاست اور اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ تو پھر جناب راج نیتی تو اسی کا نام ہے۔ اگر آپ پہلا وار نہیں کریں گے تو آپ پر وار کر دیا جائے گا۔

دوسرے نواز شریف جنرل باجوہ کو اس طرح اپنی پالیسیوں کے لیے استعمال نہیں کر سکے، جیسے انہیں کرنا چاہیے تھا۔ جنرل باجوہ سیاسی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے خواہاں تھے۔ انہوں نے ڈان لیکس کے معاملے کو حل کیا اور تنقید بھی ہوئی۔ متنازعہ ٹویٹ واپس کرایا گیا۔ ڈان لیکس کے ایشو کو ختم کیا گیا؛ تاہم اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ایک علیحدہ کہانی ہے کہ کس طرح کچھ ایشوز پر لڑائی شروع ہوئی، جس کے نتائج نواز شریف کے لیے اچھے نہیں نکلے۔

کبھی کبھار میری خواہش رہتی ہے کہ کچھ لوگ اقتدار میں نہ آئیں تاکہ ہمارے جیسوں کا ان سے رومانس قائم رہے۔ نواز شریف بھی ان سیاستدانوں میں سے ایک تھے۔ لندن میں ان کی باتیں سن کر لگتا تھا وہ بہت بدل چکے ہیں۔ پاکستان کو چی گویرا مل گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ نواز شریف نے پاکستان لوٹتے ہی ہمارے جیسے idealists کو مایوس کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ وہ جو پاکستان بدلنے نکلنے تھے وہ خود کو نہ بدل سکے اور وقت کا بے رحم صحرا انہیں روند کر نکل گیا۔
بشکریہ دنیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب اس میں دو تین سوالات ابھرتے ہیں۔ اگر آپ کو علم تھا کہ آپ درست باتیں کر رہے ہیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر ان پر سٹینڈ نہیں لیا تاکہ آرمی ناراض نہ ہو تو پھر اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد وہ باتیں کرنے کا کیا فائدہ؟ آپ وزیر اعظم ہوتے ہوئے اگر سٹینڈ نہیں لے سکے تو اقتدار سے باہر نکل کر سٹینڈ لینے سے کیا حاصل ہو سکتا تھا؟
ن لیگی دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے۔
 

گلزار خان

محفلین
نون لیگ تو کہتی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے نئی حکومت 3 بار پاکستان کا وزیر اعظم رہ چکا ہے اسکو باہر بھی نہیں جانے دے رہے علاج کے لیے کیا یہ نواز شریف نٹک کر رہا ہے اپنی بیماری کا اور اگر اسکو باہر جانے دے دیا تو یہ رفو چکر ہو جائے گا
دیکھا جائے تو اسکو اپنے ہی نا انصافیوں کے سزا مل رہی ہے جو اس نے پاکستان اور پاکستان کی عوام کے ساتھ کیا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
نون لیگ تو کہتی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے نئی حکومت 3 بار پاکستان کا وزیر اعظم رہ چکا ہے اسکو باہر بھی نہیں جانے دے رہے علاج کے لیے کیا یہ نواز شریف نٹک کر رہا ہے اپنی بیماری کا اور اگر اسکو باہر جانے دے دیا تو یہ رفو چکر ہو جائے گا
 

زیک

مسافر
تاہم سب سے بڑا افسوس اس وقت ہوا، جب ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا اور نواز شریف سے جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب سب میڈیا میں حکومت پر تنقید کر رہے تھے، تو میں اور عامر متین ان دو تین صحافیوں میں سے تھے جو اس معاملے پر نواز شریف کی حکومت کو سپورٹ کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ جو باتیں نان سٹیٹ ایکٹرز کے معاملے پر کی گئی ہیں وہ درست ہیں، حکومت کو اس وقت سٹینڈ لینے کی ضرورت ہے ؛ تاہم ہوا اس کے برعکس۔
رؤف کلاسرا کا کوئی اس دور کا کالم ثبوت کے طور پر؟
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف شطرنج کی خطرناک ترین چال چل رہے ہیں
08/03/2019 عدنان خان کاکڑ



شطرنج میں دلچسپی رکھنے والوں کے جسم میں ایک کھلاڑی کا نام جیسی سنسنی دوڑاتا ہے ویسا کوئی دوسرا کھلاڑی نہیں کر پاتا۔ یہ نام ہے شطرنج کے آٹھویں ورلڈ چیمپئن میخائل تال کا۔ میخائل تال کو تاریخ کے بہترین اٹیکنگ پلیئرز میں گنا جاتا ہے۔ انہیں شطرنج کی دنیا میں ”ریگا کا جادوگر“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مشہور کتابوں ”دی میمتھ بک ہو ورلڈز گریٹسٹ چیس گیمز“ اور ”ماڈرن چیس بریلینسز“ میں تال کی گیمز کی تعداد کسی بھی دوسرے کھلاڑی سے زیادہ ہے۔

گرینڈ ماسٹر لیول پر شطرنج کی گیم تقریباً ویسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک اژدھا شکار کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ شکار کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا ہے۔ ایک پیادے کا ایڈوانٹیج بھی گرینڈ ماسٹرز کی گیم کا فیصلہ کر ڈالتا ہے۔ ایسے میں اگر ایک ایسا کھلاڑی سامنے آئے جو دنیا کے بہترین چیس پلیئرز کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس دھیمی گیم میں اچانک اپنا فیل، رخ حتی کہ وزیر بھی بظاہر بلاوجہ ہی قربان کر دے تو بڑے بڑے مبصر بھی چند لمحوں کے لئے حیران رہ جاتے ہیں۔ لیکن چار پانچ چالوں کے بعد جب اپنے آدھے سردار حریف کے پیادوں کے بدلے مروانے کے بعد جب اچانک میخائل تال شہ مات دیتے تو ان کا حریف اور شطرنج کے مبصر دونوں ششدر رہ جاتے۔

شطرنج کے کھیل میں دشمن کو شہ مات دینے یا بڑا نقصان پہنچانے کی خاطر اپنا بڑا مہرہ قربان کرنا سیکریفائس یعنی قربانی کہلاتا ہے۔ تال کے کھیل کی خاص بات یہ تھی کہ وہ محض جارحانہ پوزیشن میں آنے کی خاطر بھی اپنا مہرہ قربان کر دیتے تھے۔ ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ بورڈ پر اتنی زیادہ پیچیدہ صورتحال پیدا کر دی جائے کہ مخالف غلطی کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اور بہت بڑے بڑے پلئیر تال کے مقابل یہ غلطی کر دیا کرتے تھے۔ شطرنج کے عالمی ماسٹر اور مصنف جیمز ائیڈ کے مطابق میخائل تال اپنی اسی غیر متوقع قربانی کی وجہ سے شطرنج کی تاریخ کے ان تین کھلاڑیوں میں شامل ہیں جن سے ہم عصر کھلاڑی کھیلتے ہوئے خوفزدہ رہتے تھے۔ دوسرے دو کھلاڑی شطرنج کی دنیا کے عظیم نام کیوبا کے کیپابلانکا اور امریکی بوبی فشر تھے جو روایتی گیم میں اپنی تکنیک کی وجہ سے جینئیس شمار کیے جاتے ہیں۔

نواز شریف بھی بظاہر میخائل تال کی راہ پر چل رہے ہیں۔ اپنی عزیز ترین جیون ساتھی بیگم کلثوم نواز کو جس وقت وہ کومے میں چھوڑ کر واپس آئے جب کہ ان کو علم تھا کہ ان کا مقدر جیل ہے، تو ان کے عزائم ظاہر ہونے لگے تھے۔ اڈیالہ جیل کے ابتدائی تین دن کی قید نے ان کی جان کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ وہ بیک وقت دل، شوگر اور اس سے پیدا ہونے والی دیگر پیچیدگیوں میں مبتلا ہیں۔ اب جس طرح علاج کی مناسب سہولیات نہ ملنے کے سبب کوٹ لکھپت جیل میں انہوں نے اپنی تکلیف سے جیل حکام کو مطلع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہسپتال جانے سے انکاری ہیں اس سے بھی اس اندازے کو تقویت ملتی ہے کہ ان کا مقصد صرف اپنی جان قربان کرنا ہے۔

غالباً ان کے ذہن میں یہ بات جم چکی ہے کہ وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں۔ وہ دوبارہ حکمران نہیں بن سکتے۔ لیکن اپنے تینوں ادوار میں وہ جس بے بسی سے دوچار رہے ہیں، اس سے وہ اپنی جانشین مریم کو بچانا چاہتے ہیں۔ اگر وہ قربان ہو گئے تو اس مرتبہ پنجاب میں ویسی بے چینی پیدا ہو سکتی ہے جیسی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بالخصوص سندھ میں ہوئی تھی۔ پنجاب میں جلاؤ گھیراؤ کا امکان تو نہیں ہے کیونکہ نواز شریف کا ووٹر سٹریٹ ایجی ٹیشن پر یقین نہیں رکھتا، لیکن جیسے سندھ میں بھٹو زندہ ہے، ویسے پنجاب میں نواز شریف اگلی کئی دہائیوں کے لئے زندہ رہے گا۔ پنجاب میں مظلوم کا ساتھ دینے کی روایت پرانی ہے۔ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کے لئے ایک سیاہ دن ہو گا۔

دوسری طرف تحریک انصاف کے صوبائی اور مرکزی حکام کے لئے حکومت سے نکلنے کے بعد صورتحال خوشگوار نہیں رہے گی چونکہ شریف خاندان کا اتنا بڑا دل نہیں ہے جتنا بھٹو خاندان کا ہے۔ وہ بدلہ لینے پر یقین رکھتے ہیں۔ دوبارہ نون لیگ کی حکومت آنے کے بعد موجودہ حکمرانوں کو بھی بے نظیر بھٹو اور دیگر رہنماؤں کی مانند جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کی قربانی کے باعث جمہوری حکومت کو طاقت مل جائے۔ لیکن میخائل تال کی گیم بیشتر صورتوں میں نہایت کامیاب ہونے کے باوجود چند بڑے کھلاڑی ایسے تھے جو انہیں ناکام بنا دیا کرتے تھے۔ ورلڈ چیمپئن بورس سپاسکی، پیٹروسین، سمیسلوو اور گرینڈ ماسٹرز کیرس، کورچنوئی، سٹائن وغیرہ جیسے کھلاڑی میخائل تال کی قربانی سے پیدا کردہ پیچیدہ صورتحال سے عموماً کامیابی سے نمٹ لیتے تھے۔ بڑے مہرے کی قربانی میں اگر حریف کو سنبھلنے کا موقع مل جائے تو بری طرح سے گیم ہارنا انجام ہوتا ہے۔ یہ شطرنج کی خطرناک ترین چال ہوتی ہے جو تخت تو دلوا سکتی ہے، مگر وار اوچھا پڑنے پر تختہ مقدر ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
غالباً ان کے ذہن میں یہ بات جم چکی ہے کہ وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں۔ وہ دوبارہ حکمران نہیں بن سکتے۔ لیکن اپنے تینوں ادوار میں وہ جس بے بسی سے دوچار رہے ہیں، اس سے وہ اپنی جانشین مریم کو بچانا چاہتے ہیں۔
میاں صاحب کو تین بار وزیر اعظم بننے اور سیاست میں 40 سال گزارنے کے بعد بھی سمجھ نہیں آئی کہ اب ملک سیاسی جانشینوں اور شہادتوں سے بہت آگے جا چکا ہے۔ نیز پانامہ کیس میں مریم نواز کی سزا ختم نہیں ہوئی ہے۔ صرف ضمانت پر رہائی ملی ہے۔ ان کا سیاسی کیریئر شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو چکا ۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہاں اقتدار کو بچانے کے لیے چیری بلاسم کی ڈیبا جیب میں رکھنا پڑتی ہے۔
قوم کو مبارک ہو۔ نواز شریف نے آن ریکارڈ اپنی غلطیوں کا اعتراف شروع کر دیا ہے
۔۔۔
حکومت کچھ بھی کرلے جیل مجھے نہیں توڑ سکتی، نواز شریف
ویب ڈیسک پير 11 مارچ 2019

1586252-nawazsharif-1552306175-412-640x480.jpg

حکمران میرا علاج کرائیں تماشا تو نہ بنائیں، سابق وزیراعظم فوٹو:فائل

لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کچھ بھی کرلے جیل مجھے نہیں توڑ سکتی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ بلاول نے نواز شریف کی خیریت دریافت کی اور ان کی جلد صحت یابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو اور نواز شریف کی ملاقات ایڈیشنل جیل سپریٹنڈنٹ کے کمرے میں ہوئی جس کی اندرونی کہانی بھی سامنے آگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف مکمل پر عزم اور با اعتماد تھے۔

بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف سے کہا کہ میاں صاحب آپ تین بار وزیر اعظم رہے ہیں یہ لوگ زیادہ دیر آپ کو بند نہیں رکھ سکتے، امید ہے اگلی ملاقات جیل سے باہر ہوگی، بلاول کی بات پر نواز شریف نے ہنس کر جواب دیا یہ بھی کہہ دیں یہ ملاقات جلد سے جلد ہو، حکمران کچھ بھی کرلیں جیل مجھے نہیں توڑ سکتی۔

بلاول بھٹو نے نواز شریف کو این آئی سی وی ڈی میں علاج کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب سندھ حکومت این آئی سی وی ڈی میں عالمی معیار کا علاج کرانے کو تیار ہے، اس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ علاج تو میں خود بھی کروا سکتا ہوں حکمران اجازت تو دیں، یہ لوگ میرا علاج کرائیں میرا تماشا تو نہ بنائیں، مجھے اسپتال لے جایا جاتا ہے بلڈ پریشر اور بلڈ ٹیسٹ کروا کر واپس جیل لے آتے ہیں علاج نہیں کراتے، بلاول صاحب ہم نے جو غلطیاں کیں سو کیں مگر اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، تسلیم کرتا ہوں کہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 ختم کرنے کی پیپلز پارٹی کی پیشکش ٹھکرا کر غلطی کی۔

ذرائع کے مطابق ایڈیشنل جیل سپریٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پورا وقت ملاقات میں موجود رہے اور نواز شریف کو ایک لمحہ بھی اکیلا نہیں چھوڑا گیا۔ نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں کی چائے سے تواضع کی گئی۔

بلاول بھٹو زرداری اور نواز شریف نے ملکی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو نے نواز شریف سے کہا کہ ملکی معاملات میں بہتری کے لئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، حکومتی رویے حالات میں بہتری کی بجائے خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
قوم کو مبارک ہو۔ نواز شریف نے آن ریکارڈ اپنی غلطیوں کا اعتراف شروع کر دیا ہے
۔۔۔
حکومت کچھ بھی کرلے جیل مجھے نہیں توڑ سکتی، نواز شریف
ویب ڈیسک پير 11 مارچ 2019

1586252-nawazsharif-1552306175-412-640x480.jpg

حکمران میرا علاج کرائیں تماشا تو نہ بنائیں، سابق وزیراعظم فوٹو:فائل

لاہور: سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ حکومت کچھ بھی کرلے جیل مجھے نہیں توڑ سکتی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ بلاول نے نواز شریف کی خیریت دریافت کی اور ان کی جلد صحت یابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو اور نواز شریف کی ملاقات ایڈیشنل جیل سپریٹنڈنٹ کے کمرے میں ہوئی جس کی اندرونی کہانی بھی سامنے آگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف مکمل پر عزم اور با اعتماد تھے۔

بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف سے کہا کہ میاں صاحب آپ تین بار وزیر اعظم رہے ہیں یہ لوگ زیادہ دیر آپ کو بند نہیں رکھ سکتے، امید ہے اگلی ملاقات جیل سے باہر ہوگی، بلاول کی بات پر نواز شریف نے ہنس کر جواب دیا یہ بھی کہہ دیں یہ ملاقات جلد سے جلد ہو، حکمران کچھ بھی کرلیں جیل مجھے نہیں توڑ سکتی۔

بلاول بھٹو نے نواز شریف کو این آئی سی وی ڈی میں علاج کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب سندھ حکومت این آئی سی وی ڈی میں عالمی معیار کا علاج کرانے کو تیار ہے، اس پر نواز شریف نے جواب دیا کہ علاج تو میں خود بھی کروا سکتا ہوں حکمران اجازت تو دیں، یہ لوگ میرا علاج کرائیں میرا تماشا تو نہ بنائیں، مجھے اسپتال لے جایا جاتا ہے بلڈ پریشر اور بلڈ ٹیسٹ کروا کر واپس جیل لے آتے ہیں علاج نہیں کراتے، بلاول صاحب ہم نے جو غلطیاں کیں سو کیں مگر اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، تسلیم کرتا ہوں کہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 ختم کرنے کی پیپلز پارٹی کی پیشکش ٹھکرا کر غلطی کی۔

ذرائع کے مطابق ایڈیشنل جیل سپریٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپریٹنڈنٹ پورا وقت ملاقات میں موجود رہے اور نواز شریف کو ایک لمحہ بھی اکیلا نہیں چھوڑا گیا۔ نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں کی چائے سے تواضع کی گئی۔

بلاول بھٹو زرداری اور نواز شریف نے ملکی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ بلاول بھٹو نے نواز شریف سے کہا کہ ملکی معاملات میں بہتری کے لئے ہمیں کردار ادا کرنا ہوگا، حکومتی رویے حالات میں بہتری کی بجائے خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔
آپ سبق لیجیے گا۔ ڈبیا ہمہ وقت جیب میں رہے۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ضمانت کے طور پر اس کے بیٹوں کو بلوا کر جیل میں رکھ لیا جائے اور اس کو علاج کے لیے جانے دیا جائے ۔
وہ تو خوب صحتمند ہوں گے دونوں ۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
جیل جاتے ہی ہارٹ اٹیک، گردے فیل بلکہ شہباز کو تو کینسر تک ہوگیا تھا۔۔ باہر آتے ہی نوجوان ہو جاتے ہیں۔۔:laugh:
میرے خیال میں کسی کی بیماری کا اس طرح مذاق اور تمسخر اڑانا درست اخلاقی رویہ نہیں۔ کیا آپ نے نواز شریف اور شہباز شریف کی میڈیکل رپورٹس پڑھی ہیں؟
علاج معالجہ ڈاکٹروں کا کام ہے ان کو ہی کرنے دیں۔ اسے سیاسی اکھاڑا بنانا سے گریز کریں۔ شکریہ
 

جاسم محمد

محفلین
ضمانت کے طور پر اس کے بیٹوں کو بلوا کر جیل میں رکھ لیا جائے اور اس کو علاج کے لیے جانے دیا جائے ۔
نواز شریف کی ضمانت ہائی کورٹ سے ہو سکتی تھی یا سپریم کورٹ سے۔ دونوں ہی مقامات پر ریلیف نہیں ملا۔
حکومت پنجاب نے جو مختلف میڈیکل بورڈز سے ٹیسٹس کروا کر رپورٹ عدالت کو پیش کی اس کے مطابق نواز شریف شدید علیل ہے۔ شوگر، گردوں کے ساتھ دل کا عارضہ بھی لاحق ہے۔
ان حالات میں ان کو متعدد بار ہسپتال منتقل کرنے اور بہترین علاج کی پیشکش خود وزیر اعظم نے کی ہے۔ مگر نواز شریف بضد ہیں کہ وہ ضمانت کے بعد لندن جا کر ہی علاج کرائیں گے۔ بیشک اس دوران ان کو موت آ جائے۔
دوسروں کو یوں بلیک میل کرنا اور اپنے پر ناحق خودکش حملہ کرنا میاں صاحب کی پرانی عادتوں میں سے ہے۔ اسی ضد اور اڑیل پن کی وجہ سے نواز شریف نے ہمیشہ اقتدار سے ہاتھ دھویا ہے۔ اب اس ضد کے آگے اپنی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ جبکہ میڈیا میں ڈھونڈورا یہ پیٹا ہوا ہے کہ حکومت علاج نہیں کر وا رہی۔
 

جاسم محمد

محفلین
ویسے یہ تجویز خود بیٹوں کو پیش کرنی چاہیئے ۔ باپ کے حق میں ۔
بھائی آپ کمال کرتے ہیں۔ بیٹے اپنی سگی ماں کی تدفین کیلئے پاکستان نہیں آئے کہ یہاں مختلف مقدمات میں مطلوب تھے۔ یہ اپنے زندہ باپ کو بچانے واپس آئیں گے؟
بچوں کو حلال مال کھلایا ہوتا تو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ مکافات عمل ہے تاکہ دنیا عبرت حاصل کرے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جیل جاتے ہی ہارٹ اٹیک، گردے فیل بلکہ شہباز کو تو کینسر تک ہوگیا تھا۔۔ باہر آتے ہی نوجوان ہو جاتے ہیں۔۔:laugh:
ویسے ایک بات تو طے ہے۔ شریفین چاہے اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر۔ میڈیا میں کھپ ڈالنا اور ملک سر پر اٹھانا ان کو خوب آتا ہے۔ اور یہی ان کی ۳۰ سالہ سیاست کا سارا نچوڑ ہے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
نواز شریف کی ضمانت ہائی کورٹ سے ہو سکتی تھی یا سپریم کورٹ سے۔ دونوں ہی مقامات پر ریلیف نہیں ملا۔
حکومت پنجاب نے جو مختلف میڈیکل بورڈز سے ٹیسٹس کروا کر رپورٹ عدالت کو پیش کی اس کے مطابق نواز شریف شدید علیل ہے۔ شوگر، گردوں کے ساتھ دل کا عارضہ بھی لاحق ہے۔
ان حالات میں ان کو متعدد بار ہسپتال منتقل کرنے اور بہترین علاج کی پیشکش خود وزیر اعظم نے کی ہے۔ مگر نواز شریف بضد ہیں کہ وہ ضمانت کے بعد لندن جا کر ہی علاج کرائیں گے۔ بیشک اس دوران ان کو موت آ جائے۔
دوسروں کو یوں بلیک میل کرنا اور اپنے پر ناحق خودکش حملہ کرنا میاں صاحب کی پرانی عادتوں میں سے ہے۔ اسی ضد اور اڑیل پن کی وجہ سے نواز شریف نے ہمیشہ اقتدار سے ہاتھ دھویا ہے۔ اب اس ضد کے آگے اپنی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ جبکہ میڈیا میں ڈھونڈورا یہ پیٹا ہوا ہے کہ حکومت علاج نہیں کر وا رہی۔
شاید میاں صاحب سوچ رہے ہیں کہ اپنی اگلی دو تین نسلوں کو سیاست میں قائم دائم رکھنے کے لیے انکی شہادت یا قربانی ضروری ہے، اور کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ اگر "زندہ ہے بھٹو زندہ ہے" کی طرح میاں صاحب بھی "زندہ" ہو گئے تو پاکستان "جاویدستان" بن جائے گا۔ :)
 
شاید میاں صاحب سوچ رہے ہیں کہ اپنی اگلی دو تین نسلوں کو سیاست میں قائم دائم رکھنے کے لیے انکی شہادت یا قربانی ضروری ہے، اور کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ اگر "زندہ ہے بھٹو زندہ ہے" کی طرح میاں صاحب بھی "زندہ" ہو گئے تو پاکستان "جاویدستان" بن جائے گا۔ :)
زندہء جاوید پاکستان یا جاوید چودھری کا جاویدستان؟
 
Top