نواز شریف کہاں غلطی کرگئے؟

جان

محفلین
آج بلاول زرداری نے بھی ماضی کی غلطیاں تسلیم کر لیں۔ پھر اپوزیشن کہتی ہے احتساب نہیں انتقام لیا جا رہا ہے۔ غلطی انتقام کے وقت نہیں احتساب کے وقت تسلیم کی جاتی ہے :)
اپنے دور میں نیب کے کالے قانون کو ختم نہ کرنا غلطی تھی: بلاول بھٹو
جان
“ابا جی“ کا احتساب کب کر رہے ہیں؟
 

جان

محفلین
وہ حکومت جو خود میرٹ پہ نہ آئے، میرٹ پہ فیصلے کیا کرے گی؟ جو آپ کو لے کر آئے ہیں آپ صرف انہی کے انٹرسٹ کے لیے کام کریں گے۔ عوام کی طاقت سے آتے تو عوام کے انٹرسٹ میں کام کرتے۔ لہذا صبح شام کرپشن، میرٹ، نواز شریف، بلاول، زرداری میں الجھا کر عوام کا خون پینے والوں کے ہاتھ اور مضبوط نہ کریں، یہ نہ ہو کہیں واپسی کی راہ بھی نصیب نہ ہو۔نواز شریف، بلاول، زرداری کی مثال تو اس مچھر کی طرح ہے جو جسم کی سطح سے خون چوستے ہیں، ایسے لوگوں پہ ہاتھ ڈالیں جو عوام کے دل میں بیٹھ کر عوام کا خون پی رہے ہیں۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
وہ حکومت جو خود میرٹ پہ نہ آئے، میرٹ پہ فیصلے کیا کرے گی؟ جو آپ کو لے کر آئے ہیں آپ صرف انہی کے انٹرسٹ کے لیے کام کریں گے۔ عوام کی طاقت سے آتے تو عوام کے انٹرسٹ میں کام کرتے۔
پاک فوج کا وجود پاکستان کی وجہ سے ہے۔ اور یہ ملک اور اسکے ادارے عوام کے ٹیکس کے پیسے پر چل رہے ہیں۔اگر عوام کو ان پر اعتبار نہیں تو فوری طور پر ٹیکس دینا بند کر دیں۔ حکومت اپنے آپ گر جائے گی۔
باقی جہاں تک میرٹ کا سوال ہے تو جناب ذوالفقار علی بھٹو بغیر کسی میرٹ کے جنرل ایوب کی غیر آئینی حکومت کی کابینہ میں بھرتی ہوئے تھے۔ وہیں سے وزیر خارجہ بنے، ڈکٹیٹر کی نرسری میں ٹریننگ حاصل کی اور سیاسی اختلاف پر اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
دوسری طرف میاں نواز شریف جو بھٹو دور کی اتفاق فاؤنڈری نیشلائیزیشن کا بدلہ لینے جنرل ضیاء کی سفارش پر وزیر خزانہ پنجاب لگے تھے۔ اور یوں ڈکٹیٹر کی نرسری میں ترقی کرتے کرتے وزیر اعلی پنجاب اور پھر آئی ایس آئی کے توسط سے بینظیر کی جمہوری حکومت گرا کر وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔
میرٹ کی بات وہ کرے جس پر سجتی ہو۔ اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اس کا مینڈیٹ چرا کر تحریک انصاف کو دیا گیا ہے تو یہ ان کے مشترکہ ماضی کا مکافات عمل ہے۔ اگر ماضی میں ان کے لیڈران فوجی جرنیلوں کے کندھے پر چڑھے بغیر اقتدار میں آتے تو آج ملک کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔
 

جان

محفلین
پاک فوج کا وجود پاکستان کی وجہ سے ہے۔ اور یہ ملک اور اسکے ادارے عوام کے ٹیکس کے پیسے پر چل رہے ہیں۔اگر عوام کو ان پر اعتبار نہیں تو فوری طور پر ٹیکس دینا بند کر دیں۔ حکومت اپنے آپ گر جائے گی۔
باقی جہاں تک میرٹ کا سوال ہے تو جناب ذوالفقار علی بھٹو بغیر کسی میرٹ کے جنرل ایوب کی غیر آئینی حکومت کی کابینہ میں بھرتی ہوئے تھے۔ وہیں سے وزیر خارجہ بنے، ڈکٹیٹر کی نرسری میں ٹریننگ حاصل کی اور سیاسی اختلاف پر اپنی جماعت پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
دوسری طرف میاں نواز شریف جو بھٹو دور کی اتفاق فاؤنڈری نیشلائیزیشن کا بدلہ لینے جنرل ضیاء کی سفارش پر وزیر خزانہ پنجاب لگے تھے۔ اور یوں ڈکٹیٹر کی نرسری میں ترقی کرتے کرتے وزیر اعلی پنجاب اور پھر آئی ایس آئی کے توسط سے بینظیر کی جمہوری حکومت گرا کر وزیر اعظم پاکستان بن گئے۔
میرٹ کی بات وہ کرے جس پر سجتی ہو۔ اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اس کا مینڈیٹ چرا کر تحریک انصاف کو دیا گیا تھا تو یہ ان کے ماضی کا مکافات عمل ہے۔ اگر ماضی میں ان کے لیڈران فوجی جرنیلوں کے کندھے پر چڑھے بغیر اقتدار میں آتے تو آج ملک کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے
بھیا یہی بات ہم بہت پہلے کر چکے ہیں جو آپ اب کر رہے ہیں اور اسی لیے کہہ رہے بار بار کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ یہ نہ ہو آپ کا انجام بھی وہی نکلے جو ماضی کی حکومتوں کا نکلا۔ لیکن شاید آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ان سے مختلف ہیں اور ایسا وقت نہیں آئے گا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ تاریخ چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ مجھے مت دہراؤ لیکن اقتدار ایسی میٹھی شے ہے کہ اس کے نشے میں مست ہو کر تاریخ کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں اور آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب اس لذت سے باہر نکلتے ہیں مگر افسوس اس وقت پھر ماضی کی غلطیاں یاد آتی ہیں جو آج کل پیپلز پارٹی اور نواز شریف کو یاد آ رہی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
بھیا یہی بات ہم بہت پہلے کر چکے ہیں جو آپ اب کر رہے ہیں اور اسی لیے کہہ رہے بار بار کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ یہ نہ ہو آپ کا انجام بھی وہی نکلے جو ماضی کی حکومتوں کا نکلا۔ لیکن شاید آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ان سے مختلف ہیں اور ایسا وقت نہیں آئے گا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ تاریخ چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ مجھے مت دہراؤ لیکن اقتدار ایسی میٹھی شے ہے کہ اس کے نشے میں مست ہو کر تاریخ کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں اور آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب اس لذت سے باہر نکلتے ہیں مگر افسوس اس وقت پھر ماضی کی غلطیاں یاد آتی ہیں جو آج کل پیپلز پارٹی اور نواز شریف کو یاد آ رہی ہیں۔
بھائی آپ کی بات اصولا درست ہے۔ اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار بھی نہیں کہ موجود حکومت اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر چڑھ کر آئی ہے۔ البتہ ماضی کی حکومتوں کے برعکس اس حکومت کے سربراہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے مقاصد مختلف ہیں۔
فوج کو اب اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ اس نے پچھلے دس سال سول حکومتوں کو کافی حد تک فری ہینڈ دے کر ملک کی معیشت کی بینڈ بجائی ہے۔
آئینی طور پر بھی دو سول حکومتیں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں۔ فوج نے بھی مارشل لا نہیں لگایا۔ لیکن یہ ملک جس خراب معاشی و مالیاتی حالت میں فوج مخالف جمہوریے چھوڑ کر گئے وہ کسی سے ڈھکا چھپا بھی نہیں۔
اسی لئے عمران خان کو اقتدار کی چابیاں پکڑائی گئی ہیں کہ پچھلی حکومتوں کا گند صاف کرو۔ ہمارا بجٹ بحال کرو۔ ملک کی معیشت اور مالی حوالے سے ریفارم کرو۔ تاکہ دنیا کو پتا لگے کہ اس ملک کا کوئی والی وارث بھی ہے۔ وگرنہ پچھلی حکومتوں نے اسے دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
اب بالفرض عمران خان اس مقصد میں ناکام بھی ہو جاتے ہیں تو ان کو یا ان کی جماعت کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ عمران خان کا مقصد حیات اقتدار سے چمڑے رہنا نہیں تھا۔ ان کو صرف ایک موقع چاہیے تھا جو فوج نے فراہم کر دیا۔ باقی کا سارا بوجھ اب ان کی 5 سالہ پرفارمنس پر ہے
 

جان

محفلین
باقی کا سارا بوجھ اب ان کی 5 سالہ پرفارمنس پر ہے
اللہ کریم ملکی معاملات میں بہتری فرمائیں۔ میری ناقص عقل کہتی ہے کہ جس راہ پہ جا رہے ہیں وہ درست نہیں اور جب راہ ہی درست نہ ہو تو منزل کا حصول بے معنی ہے۔ دیکھتے ہیں کہاں پہنچتے ہیں، کافی تجربے کر لیے ہیں ہم نے اپنی سٹیٹ کے ساتھ، ایک تجربہ اور سہی۔
 
Top