نواز شریف، جاوید ہاشمی، عابدہ حسین اور ارباب رحیم کی نااہلی کیلئے درخواست

ساجد

محفلین
میرا خیال ہے اپنے ساجد بھائی رنگ امیزی پر ناراض ہو گئے ہیں
نہیں جناب ہم آپ کی "رنگ بازی" پر ناراض نہیں ہوئے بلکہ ان مراسلات کے تبادلے کے دوران محترمہ بجلی صاحبہ داغِ مفارقت دے گئیں ان کے جانے کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور وہ ساری رات نہ جانے کہاں رہیں۔
کبھی کبھی لطیف نکات ثقیل بحث کو خوشگوار کر دیتے ہیں لیکن وہ نکات بجائے خود بعض لوگوں کے لئے تکلیف کا سبب بن جاتے ہیں ۔ ویسے رات کو میں دو منزلہ گھر میں بالکل تنہا تھا اور بجلی بند ہونے کے بعد زبردست اندھیرا اور قبر جیسی خاموشی چھا گئی۔ ایسے میں 2008 میں دیکھے "بلیو پرنٹ" کی یاد نے مزید سنسنی پیدا کر دی اور اس کے بعض مناظر یوں یاد آئے کہ جیسے میں خود اس کا ایک حصہ ہوں۔ آپ بھی دیکھئے۔
 
ضرور ہوں گے کہ "ن" لیگ اور ایجنسیوں کے درمیان کوئی تو ہوگا نا۔۔۔ ۔! :)

اگر جاوید ہاشمی اب بھی ن لیگ میں ہوتے تو آپ کبھی یہ بات نہیں کہتے۔
جس دن جاوید ہاشمی نے پی ٹی ائی جوائن کی اس دن سے اندازہ ہوگیا کہ یہ شخص بے وفا ہے۔ بھلا اس سے پہلے کیسے پتہ چلتا۔ مزید غور کیا تو مزید سمجھ میں اتا ہے کہ یہ کی چکر ہے

مجھے اس بات کا تو یقین ہے کہ آپ پاکستان کے خیر خواہ ہیں لیکن ایک بات پر تشویش ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ جس کی بھی حمایت کرتے ہیں غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ن لیگ میں ایسا کیا ہے جو اُن میں اب کوئی عیب ہی نظر نہیں آتا آپ کو۔ اس سے پہلے اسی طرز پر دیگر جماعتوں اور شخصیات بھی آپ کی آنکھوں کے تارے رہے ہیں۔
حمایت اور مخالفت کا دارومدار اس بات پر ہے ان کے اعمال کیا ہے۔ اور پاکستان کے لیے کون فائدہ مند تھا۔
پہلے پی پی کی حمایت کی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی پی اسٹیبلشمنٹ کی براہ راست حکومت سے بہت بہتر ہے۔ یہ بات درست نکلی۔ دیکھ لیجیے کہ زرداری نے جو اچھے کام کیے ہیں ان میں پاور کی ڈیویلشن اور پارلیمنٹ کو منتقلی ہے۔ مزید یہ کہ ادارے مضبوط ہوئے۔
اس بار ن کی حمایت اس وجہ سے کہ پچھلے پانچ سال میں ان کا کردار مثالی رہا ہے۔ جہموریت گرانے کا کام نہیں کیا۔ ترقیاتی کاموں پر توجہ مرکوز رکھی۔ شہباز نے صحت اور انفراسٹرکچر میں کمال کردکھایا۔
ضرور عیب ہونگے ان میں بھی پر کارکردگی بہت بہتر ہی رہی ہے۔ بالخصوص ان کے مقابلے میں جو پاکستان کو سونامی میں ڈوبونا چاہتے ہیں۔ سوائے سونامی کے ان کے پاس ہے ہی کیا۔

شہباز شریف بھی تو اپنی تقریروں میں گانے سناتے رہے ہیں تو پھر ابرار احمد ہی کیوں برے ہیں۔
شہبارشریف نے کب "کنے کنے جانا بلو دے گھر" یا"نچ پنجابن نچ" جو بعد میں مجاجن بن گیا گائے ہیں؟
دیکھیں یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ ابرار الحق جو مائنڈ سیٹ پبلیک میں انٹروڈیوس کرتا ہے وہ مجھے واہیات لگتا ہے۔ اوروں کو ٹھیک لگتاہوگا۔ مگر مجھے نہیں۔ اسی لیے میں مخالف ہوں

نواز شریف بھی تو سیاست میں لائے گئے تھے وہ ایجنسی کے آدمی کیوں نہیں ہیں۔ رانا ثناءاللہ جیسے لوگ ن لیگ کا حصہ ہیں وہ کیوں برے نہیں لگتے آپ کو۔
یہی نقطہ ہے جو اپ سمجھ نہیں سکتے ۔ ضرور لائے گئے ہون گے۔ پر ایک طویل پروسیس ہوا۔ یہ پروسیس تقریبا 3 دھائیوں اور 2 وفاقی حکومتوں کا ملنا اور ان کا ادھورا رہ جانا ۔ ملک میں قید اور جلاوطنی اور پانچ سال اپوزیشن میں بیٹھنا۔ یہ پروسیس اس وقت ن لیگ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔ یہ ایک عمل ہے جو ن لیگ کو وہ بنادیتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کسی صورت اس کو حکومت میں نہیں دیکھنا چاہتی۔ مجھے امید ہے کہ حکومت ملنے کے بعد ن کی کارکردگی خودانحصاری پر مبنی ہوگی۔


اس میں کوئی شبہ نہیں کہ "ن" لیگ مقبول جماعت ہے۔ ان کا ووٹ بنک بھی اچھا ہے۔ پی پی کی نسبت یہ لوگ کچھ بہتر ہیں۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ن لیگ کوئی انقلابی تبدیلی لے آئے گی تو ایسا ممکن نہیں ہے۔
انقلابی تبدیلی؟ صرف پچھلا نقطہ سمجھ لیں تو پتہ پڑجائے گا کہ یہی انقلابی تبدیلی ہے۔ پاور اسٹرکچر عوامی قوتوں کے ہاتھوں میں رہے جو کسی کی کٹھ پتلی نہ ہوں۔ یہ جوہری تبدیلی ہے۔
اس کے مقابلے میں تبدیلی کے نعرے لگانے والی پی ٹی ائی کے صرف نعرہ ہیں ورنہ اصل میں یہ جماعت پرانی لاش پر نیا میک اپ ہے۔ اور بس

نواز شریف اور شہباز شریف اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ کیا شریف خاندان اور بھٹو خاندان نے پاکستانی حکومت ٹھیکے پر لے رکھی ہے۔ یہ چلے ہوئے کارتوس سیاست کے اسٹیج پر اپنا کردار نبھا چکے ہیں انہیں چاہیے کہ چلتے بنیں اور آگے آنے والوں کے لئے اسٹیج خالی کریں۔

دیکھیں کوئی تو پاور میں ائے گا۔ یا تو زرداری یا ن یا پی ٹی ائی یا قادری۔ ان میں کون مناسب ہے۔ وہ جو تبدیلی لائے۔ اچھی تبدیلی یا وہ جو تبدیلی کے نام پر پرانا طریقہ برقرار رکھے۔ میر ی نظر میں ن پاکستان کو زیادہ دے سکتی ہے۔

میرا خیال ہے کہ ہمیں غیر جانبدار ہو کر سب کو کڑی نظر سے جانچنا چاہیے۔ چاہے وہ عمران خان ہو یا نواز شریف یا کوئی اور ۔ پہلے سے ذہن بنا کر کسی شخص یا جماعت کی پڑتال کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ نتیجہ وہی رہے گا یعنی نواز شریف اچھے اور عمران خان برے۔

متفق۔ یقیین کریں میں تو ایک عرصہ تک عمران کا حامی رہا ہوں۔ اور نواز کا مخالف۔ مگر جب غیر جانبدار ہوکر سوچیں تو پتہ یہ چلے گا کہ ن ہی بہتر ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی ، آپ کی خیالات سے متفق ہوں ۔ بس ذرا یہ بات نہیں سمجھ پا رہا کہ انقلابی تبدیلی کون لا سکتا ہے؟۔ اور کیا انقلابی تبدیلیاں ضروری ہیں؟۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان انقلابی تبدیلیاں لا سکتے ہیں؟۔
کچھ وضاحت کیجئے۔

شکریہ ساجد بھائی۔۔۔!

سب سے پہلے تو یہ کہ "تبدیلی" ضروری ہے ورنہ سب کچھ "ایسے ہی" چلتا رہے گا جیسا چل رہا ہے۔ انقلابی تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ تمام تر معاملات ایک نئے وژن کے ساتھ صحیح سمت میں ڈالے جائیں اور ایک مثبت اور مضبوط پاکستان کی سمت سفر شروع کیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ معاملات بہت خراب ہیں اور کوئی بھی کام جادو کی چھڑی گھمانے سے نہیں ہوگا۔ مخلص ترین حکومت بھی بس اتنا کر سکے گی کہ معاملات میں ضروری اصلاح کرکے سفر آغاز کر دے۔ ہم اس سے زیادہ کی اُمید بھی نہیں رکھتے۔

رہی بات یہ کہ تبدیلی کون لا سکتا ہے؟ یہ بات میں اوپر کہہ چکا ہوں کہ وہ لوگ جن کو بارہا مواقع مل چکے ہیں ان سے تو تبدیلی کی اُمید نہیں کرنی چاہیے۔ پپلز پارٹی کا دورِ اقتدار ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔ پنجاب کی حد تک ن لیگ بھی گذشتہ پانچ برس تک اُن کے دست و بازو بنی رہی۔ پچھلے پانچ برس ملک کا جو حال رہا وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ تاہم پھر بھی میں ن لیگ کو پیپلز پارٹی سے بہتر سمجھتا ہوں یہ الگ بات ہے کہ شہباز شریف اور نواز شریف ہمیشہ "لائم لائٹ" میں رہنا چاہتے ہیں اور ان کی جماعت جمہوری قدروں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی۔

رہ جاتے ہیں عمران خان! تو اُن کے پاس ایک واضح وژن ہے وہ جو بات کرتے ہیں وہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اور سیاست میں داخلے سے قبل ہی اُن کی ساکھ دیگر معاصرین سے بہت بہتر ہے۔ عمران خان کتنے مخلص ہیں، کتنے سچے ہیں۔ جو کچھ وہ برسوں سے کہہ رہے ہیں کیا وہ اس کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔ اُن کی سیاست میں آمد واقعتاً عوامی فلاح کے لئے ہے یا وہ بھی اوروں کی طرح ذاتی منفعت کے لئے ہی اس صحرا کی خاک چھان رہے ہیں۔ ان سب باتوں کا اندازہ تو تب ہی ہو سکے گا جب وہ اقتدار میں آئیں گے۔ جہاں ہم نے اتنے لوگوں کو آزمایا بلکہ ہر بار آزمائے ہوئے لوگوں کو آزما کر دکھ اُٹھائے۔ ایک بار تحریکِ انصاف کو بھی ضرور آزمانا چاہیے۔ کسی شخص کو امتحان سے گزارے بغیر نااہل قرار دینا تو ٹھیک نہیں ہے۔ بد ترین صورتِ حال یہ ہوگی کہ عمران خان بھی دیگر سیاست دانوں کی طرح نکلیں اور عوامی اُمیدوں پر پانی پھر جائے، لیکن اگر صورتِ حال اس سے ذرا بھی بہتر ہوتی ہے تو میرا خیال ہے کہ اس وقت سب سے اچھا انتخاب عمران خان کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے۔

اگر عمران خان کو موقع ہی نہیں ملتا تو ہو سکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں پھر کوئی پوچھ رہا ہو کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان انقلابی تبدیلیاں لا سکتے ہیں؟۔
 

حسان خان

لائبریرین
میں اگر تحریکِ انصاف کو ووٹ دوں گا تو اُس کی بنیادی وجہ یہ ہوگی کہ وہ کراچی کی دیگر بڑی جماعتوں کے برخلاف لسانی غنڈہ گرد اور مذہبی شدت پسند جماعت نہیں ہے۔
 

ساجد

محفلین
شکریہ ساجد بھائی۔۔۔ !

سب سے پہلے تو یہ کہ "تبدیلی" ضروری ہے ورنہ سب کچھ "ایسے ہی" چلتا رہے گا جیسا چل رہا ہے۔ انقلابی تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ تمام تر معاملات ایک نئے وژن کے ساتھ صحیح سمت میں ڈالے جائیں اور ایک مثبت اور مضبوط پاکستان کی سمت سفر شروع کیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ معاملات بہت خراب ہیں اور کوئی بھی کام جادو کی چھڑی گھمانے سے نہیں ہوگا۔ مخلص ترین حکومت بھی بس اتنا کر سکے گی کہ معاملات میں ضروری اصلاح کرکے سفر آغاز کر دے۔ ہم اس سے زیادہ کی اُمید بھی نہیں رکھتے۔
احمد بھائی ، بہت اچھی بات کہی آپ نے ۔ تبدیلی بالکل ضروری ہے ۔
سب سے پہلے تو میں عرض کر دوں کہ عمران یا کسی دوسرے سیاسی رہنما کی مخالفت میرا مقصد نہیں ، میں ایک ایسے مخمصے کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا شکار پوری پاکستانی قوم ہو چکی ہے یا کم ا ز کم آزمائے اور بن آزمائے سیاستدانوں نے قوم کو اس کا شکار کر دیا ہے۔ وہ مخمصہ ہے کہ ان سیاستدانوں کی باتوں اور وعدوں پر اعتبار کیونکر کیا جائے؟۔
عمران کو گو موقع نہیں ملا لیکن جو لوگ اس کی پارٹی میں لوٹے بن کر شامل ہوئے ہیں وہ بہت ساری حکومتوں میں نسل در نسل شامل رہ چکے ہیں۔ یہ لوگ نظریاتی ہیں نہ مخلص۔ انہوں نے اپنی پارٹیاں اس وقت چھوڑیں جب عمران خان کو اچانک مقبولیت ملی اور ان لوگوں کے تحریکِ انصاف میں شامل ہونے سے عوام کا عمران پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا یوں عمران کی مقبولیت میں واضح کمی آئی۔
میرا خیال ہے کہ تبدیلی کے لئے صرف باتیں ہی کافی نہیں ہوا کرتیں۔ عمران خان کسی وقت عوام کے مفادات کے تحفظ کے لئے پریشر گروپس بنانے کی بات کیا کرتے تھے ، پریشر گروپس تو نہ بن سکے لاہور میں عمران کا پیس Pace شاپنگ سنٹر ضرور بن گیا تھا پھر ایک وقت میں یہ لندن بھی تشریف لے گئے تھے الطاف حسین کے خلاف ثبوت جمع کر کے ان پر کیس ٹھونکنے اور ان کی شہریت ختم کروانے کے لئے لیکن کچھ نہ کر سکے۔ جماعت اسلامی نے لاہور میں ان کی لتریشن کی لیکن یہ پھر سے اسی جماعت سے مل رہے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کی مخالف جماعت اسلامی سے مل کر انقلاب کی بات کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ بن بادلوں کے بارش کی توقع رکھنا۔ مجھے جماعت اسلامی کے اسلامی تشخص اور اس میں شامل مختلف شخصیات کا مکمل احترام ہے لیکن سیاست کے حوالے سے جماعت اسلامی ایک رسکی فیکٹر ہے پاکستان کے لئے۔
جو سیاستدان اعتماد اور واضح نظرئیے سے خالی ہو اس سے تبدیلی اور انقلاب یا کسی نئے وژن کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے خاص طور پر جبکہ اس کی جماعت میں لوٹے ہی لوٹے ہوں اور انہی لوٹوں کی وجہ سے تحریک انصاف میں گروہ بندی بھی ہو چکی ہے۔ میں تو عمران خان کو مثبت تبدیلی کا استعارہ نہیں سمجھتا ۔
عمران کی جماعت کے عہدیداران اور کارکن لاہور کے مختلف علاقوں میں صرف تحریک انصاف کی پٹی والی پلیٹ اپنی گاڑیوں پر لگا کر گھومتے ہیں جن پر کوئی نمبرنہیں ہوتا اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سونامی کا آغاز قانون کی تباہی سے ہوا ہے۔:)
 
احمد بھائی ، بہت اچھی بات کہی آپ نے ۔ تبدیلی بالکل ضروری ہے ۔
سب سے پہلے تو میں عرض کر دوں کہ عمران یا کسی دوسرے سیاسی رہنما کی مخالفت میرا مقصد نہیں ، میں ایک ایسے مخمصے کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا شکار پوری پاکستانی قوم ہو چکی ہے یا کم ا ز کم آزمائے اور بن آزمائے سیاستدانوں نے قوم کو اس کا شکار کر دیا ہے۔ وہ مخمصہ ہے کہ ان سیاستدانوں کی باتوں اور وعدوں پر اعتبار کیونکر کیا جائے؟۔
عمران کو گو موقع نہیں ملا لیکن جو لوگ اس کی پارٹی میں لوٹے بن کر شامل ہوئے ہیں وہ بہت ساری حکومتوں میں نسل در نسل شامل رہ چکے ہیں۔ یہ لوگ نظریاتی ہیں نہ مخلص۔ انہوں نے اپنی پارٹیاں اس وقت چھوڑیں جب عمران خان کو اچانک مقبولیت ملی اور ان لوگوں کے تحریکِ انصاف میں شامل ہونے سے عوام کا عمران پر سے بھی اعتبار اٹھ گیا یوں عمران کی مقبولیت میں واضح کمی آئی۔
میرا خیال ہے کہ تبدیلی کے لئے صرف باتیں ہی کافی نہیں ہوا کرتیں۔ عمران خان کسی وقت عوام کے مفادات کے تحفظ کے لئے پریشر گروپس بنانے کی بات کیا کرتے تھے ، پریشر گروپس تو نہ بن سکے لاہور میں عمران کا پیس Pace شاپنگ سنٹر ضرور بن گیا تھا پھر ایک وقت میں یہ لندن بھی تشریف لے گئے تھے الطاف حسین کے خلاف ثبوت جمع کر کے ان پر کیس ٹھونکنے اور ان کی شہریت ختم کروانے کے لئے لیکن کچھ نہ کر سکے۔ جماعت اسلامی نے لاہور میں ان کی لتریشن کی لیکن یہ پھر سے اسی جماعت کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کی مخالف جماعت اسلامی سے مل کر انقلاب کی بات کرنا ایسے ہی ہے جیسا کہ بن بادلوں کے بارش کی توقع رکھنا۔ مجھے جماعت اسلامی کے اسلامی تشخص اور اس میں شامل مختلف شخصیات کا مکمل احترام ہے لیکن سیاست کے حوالے سے جماعت اسلامی ایک رسکی فیکٹر ہے پاکستان کے لئے۔
جو سیاستدان اعتماد اور واضح نظرئیے سے خالی ہو اس سے تبدیلی اور انقلاب یا کسی نئے وژن کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے خاص طور پر جبکہ اس کی جماعت میں لوٹے ہی لوٹے ہوں اور انہی لوٹوں کی وجہ سے تحریک انصاف میں گروہ بندی بھی ہو چکی ہے۔ میں تو عمران خان کو مثبت تبدیلی کا استعارہ نہیں سمجھتا ۔
عمران کی جماعت کے عہدیداران اور کارکن لاہور کے مختلف علاقوں میں صرف تحریک انصاف کی پٹی والی پلیٹ اپنی گاڑیوں پر لگا کر گھومتے ہیں جن پر کوئی نمبرنہیں ہوتا اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سونامی کا آغاز قانون کی تباہی سے ہوا ہے۔:)

ساجد ، آپ کا لہجہ خاصہ تلخ ہے اور الفاظ کے چناؤ میں بھی آپ خاصے لاپرواہ ہوتے جا رہے ہیں۔

عمران کے پیس سنٹر کا الزام کافی پرانا اور سچائی پر مبنی نہیں ہے۔ اس میں کسی وقت شیئر کی خبر تھی جو میری اطلاعات کے مطابق درست نہیں ، اگر آپ کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں اور کوئی ثبوت ہے تو ضرور پیش کریں مگر صرف مخالفین اور مخاصمین کے الزامات اور پروپیگنڈا پر مشتمل باتوں پر ہی تکیہ نہ کریں۔

جس زمانے میں عمران پریشر گروپس کی بات کر رہا تھا تب وہ اتنا ہی کر سکتا تھا ، اس کے بعد اس نے ایک سیاسی جماعت بنائی اور بہت سی سیاسی غلطیوں کے بعد بالاخر وہ مقبول ہو گیا ہے اور ایسا اکیلے اس کے ساتھ نہیں ہوا ، تاریخ میں بہت سے قابل اور بہترین سیاستدان بہت عرصہ ناکام رہنے کے بعد کامیاب اور کامران ہوئے مگر کامیابی کے بعد کوئی ان کی ناکامی کے دور کو یاد نہیں کرتا رہتا۔

جماعت اسلامی نے نہیں "جمعیت" نے یہ کام کیا تھا اور اس بات پر تو عمران کو داد دینی چاہیے کہ وہ اس وقت جب یقینا بہت غصہ اور جذبات کے سیلاب میں بہہ رہا ہوگا ، اس نے تب بھی جماعت اسلامی کے امیر قاضی صاحب کی بات کا مان لی کہ ان کا براہ راست اس سے تعلق نہیں اور زبانی فائرنگ نہیں کی۔ یہ تو ایک بہترین عمل تھا ورنہ رد عمل دکھانا آسان اور فطری تھا اور کوئی اسے اس پر نہ ٹوکتا۔


جماعت کے تلوے چاٹ رہے ہیں
یہ کس قدر معقول فقرہ ہے اور اس کا جواب بھی دینا چاہیے اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کی تنقید کا کوئی بھی جواب بنتا ہے۔


سیاست کے حوالے سے جماعت اسلامی ایک رسکی فیکٹر ہے پاکستان کے لئے

اگر اسے مان لیا جائے تو پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، اے این پی ، ، ق لیگ ، ن لیگ پاکستان کے لیے مفید فیکٹر ہیں اور ماضی میں ان جماعتوں نے پاکستان کو خطرات سے محفوظ رکھا یا بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے ۔


جو سیاستدان اعتماد اور واضح نظرئیے سے خالی ہو اس سے تبدیلی اور انقلاب یا کسی نئے وژن کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے خاص طور پر جبکہ اس کی جماعت میں لوٹے ہی لوٹے ہوں اور انہی لوٹوں کی وجہ سے تحریک انصاف میں گروہ بندی بھی ہو چکی ہے۔ میں تو عمران خان کو مثبت تبدیلی کا استعارہ نہیں سمجھتا ۔

پہلے تو لوٹے کی ایک تعریف کر لیں اور پھر بتائیں کہ کون کون سے لوٹے تحریک انصاف میں ہیں اور کونسی ٹکٹوں اور مراعات کے وعدوں پر وہ آئے ہیں اور تحریک انصاف میں عمران نے انہیں کیا کیا گارنٹی دی ہے۔ یہ وہی رٹا رٹایا اور تواتر سے دہرائے جانے والا ن لیگ کا شور و غوغا ہے جو پاتال میں جا کر بھی پرانے اور گھاگ شکاریوں کی "شاپنگ" پر کمر بند ہے۔ مشرف دور کے دست راست اور پوری ٹیم اس وقت پوری کی پوری ن لیگ میں شامل ہو چکی ہے اور اب ان لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی کہ پہلے تین سال یہ کہتے رہے کہ ہم کوئی لوٹا نہیں لیں گے اور جو ق لیگ میں ہے وہ ان پر حرام ہے اب پتہ نہیں کس سیاسی مفتی نے ان کے لیے ہر مکروہ اور حرام کو ان کے لیے حرام اور مستجب قرار دے دیا ہے۔
ماروی میمن ، امیر مقام ، دانیال عزیز ، عظیم طارق چند نام ہیں مثال کے طور پر باقی لسٹ کافی طویل ہے اور لوگ جانتے ہی ہیں۔


عمران کی جماعت کے عہدیداران اور کارکن لاہور کے مختلف علاقوں میں صرف تحریک انصاف کی پٹی والی پلیٹ اپنی گاڑیوں پر لگا کر گھومتے ہیں جن پر کوئی نمبرنہیں ہوتا اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سونامی کا آغاز قانون کی تباہی سے ہوا ہے۔

تحریک انصاف میں عوام سے ہی لوگ آئے ہیں اور ان میں کچھ لوگوں کی عادات اور اطوار قابل ستائش نہیں ۔ فرشتوں کو ممبر بنانے کا کبھی دعوی نہیں کیا گیا مگر جس طرح کے بدمعاش اور کرپشن میں "لتھڑے" ہوئے لوگ دوسری جماعتوں میں ہیں ، ان پر نظر ڈال کر تحریک انصاف میں شامل لوگ اخلاقی معیار کے لحاظ سے ان سے کافی بلند ہیں۔ بات تقابلی جائزے کی ہو رہی ہے ورنہ میں نہیں سمجھتا کہ سیاست میں کوئی کامل ولی ہے یا مکمل شیطان۔
 
ساجد ، آپ کا لہجہ خاصہ تلخ ہے اور الفاظ کے چناؤ میں بھی آپ خاصے لاپرواہ ہوتے جا رہے ہیں۔

عمران کے پیس سنٹر کا الزام کافی پرانا اور سچائی پر مبنی نہیں ہے۔ اس میں کسی وقت شیئر کی خبر تھی جو میری اطلاعات کے مطابق درست نہیں ، اگر آپ کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں اور کوئی ثبوت ہے تو ضرور پیش کریں مگر صرف مخالفین اور مخاصمین کے الزامات اور پروپیگنڈا پر مشتمل باتوں پر ہی تکیہ نہ کریں۔

جس زمانے میں عمران پریشر گروپس کی بات کر رہا تھا تب وہ اتنا ہی کر سکتا تھا ، اس کے بعد اس نے ایک سیاسی جماعت بنائی اور بہت سی سیاسی غلطیوں کے بعد بالاخر وہ مقبول ہو گیا ہے اور ایسا اکیلے اس کے ساتھ نہیں ہوا ، تاریخ میں بہت سے قابل اور بہترین سیاستدان بہت عرصہ ناکام رہنے کے بعد کامیاب اور کامران ہوئے مگر کامیابی کے بعد کوئی ان کی ناکامی کے دور کو یاد نہیں کرتا رہتا۔

جماعت اسلامی نے نہیں "جمعیت" نے یہ کام کیا تھا اور اس بات پر تو عمران کو داد دینی چاہیے کہ وہ اس وقت جب یقینا بہت غصہ اور جذبات کے سیلاب میں بہہ رہا ہوگا ، اس نے تب بھی جماعت اسلامی کے امیر قاضی صاحب کی بات کا مان لی کہ ان کا براہ راست اس سے تعلق نہیں اور زبانی فائرنگ نہیں کی۔ یہ تو ایک بہترین عمل تھا ورنہ رد عمل دکھانا آسان اور فطری تھا اور کوئی اسے اس پر نہ ٹوکتا۔



یہ کس قدر معقول فقرہ ہے اور اس کا جواب بھی دینا چاہیے اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں کیونکہ میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کی تنقید کا کوئی بھی جواب بنتا ہے۔




اگر اسے مان لیا جائے تو پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم ، اے این پی ، ، ق لیگ ، ن لیگ پاکستان کے لیے مفید فیکٹر ہیں اور ماضی میں ان جماعتوں نے پاکستان کو خطرات سے محفوظ رکھا یا بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے ۔




پہلے تو لوٹے کی ایک تعریف کر لیں اور پھر بتائیں کہ کون کون سے لوٹے تحریک انصاف میں ہیں اور کونسی ٹکٹوں اور مراعات کے وعدوں پر وہ آئے ہیں اور تحریک انصاف میں عمران نے انہیں کیا کیا گارنٹی دی ہے۔ یہ وہی رٹا رٹایا اور تواتر سے دہرائے جانے والا ن لیگ کا شور و غوغا ہے جو پاتال میں جا کر بھی پرانے اور گھاگ شکاریوں کی "شاپنگ" پر کمر بند ہے۔ مشرف دور کے دست راست اور پوری ٹیم اس وقت پوری کی پوری ن لیگ میں شامل ہو چکی ہے اور اب ان لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی کہ پہلے تین سال یہ کہتے رہے کہ ہم کوئی لوٹا نہیں لیں گے اور جو ق لیگ میں ہے وہ ان پر حرام ہے اب پتہ نہیں کس سیاسی مفتی نے ان کے لیے ہر مکروہ اور حرام کو ان کے لیے حرام اور مستجب قرار دے دیا ہے۔
ماروی میمن ، امیر مقام ، دانیال عزیز ، عظیم طارق چند نام ہیں مثال کے طور پر باقی لسٹ کافی طویل ہے اور لوگ جانتے ہی ہیں۔




تحریک انصاف میں عوام سے ہی لوگ آئے ہیں اور ان میں کچھ لوگوں کی عادات اور اطوار قابل ستائش نہیں ۔ فرشتوں کو ممبر بنانے کا کبھی دعوی نہیں کیا گیا مگر جس طرح کے بدمعاش اور کرپشن میں "لتھڑے" ہوئے لوگ دوسری جماعتوں میں ہیں ، ان پر نظر ڈال کر تحریک انصاف میں شامل لوگ اخلاقی معیار کے لحاظ سے ان سے کافی بلند ہیں۔ بات تقابلی جائزے کی ہو رہی ہے ورنہ میں نہیں سمجھتا کہ سیاست میں کوئی کامل ولی ہے یا مکمل شیطان۔

بدقسمتی سے کچھ بھی کنویسنگ نہیں ہے
 

ساجد

محفلین
تحریک انصاف میں عوام سے ہی لوگ آئے ہیں اور ان میں کچھ لوگوں کی عادات اور اطوار قابل ستائش نہیں ۔ فرشتوں کو ممبر بنانے کا کبھی دعوی نہیں کیا گیا مگر جس طرح کے بدمعاش اور کرپشن میں "لتھڑے" ہوئے لوگ دوسری جماعتوں میں ہیں ، ان پر نظر ڈال کر تحریک انصاف میں شامل لوگ اخلاقی معیار کے لحاظ سے ان سے کافی بلند ہیں۔ بات تقابلی جائزے کی ہو رہی ہے ورنہ میں نہیں سمجھتا کہ سیاست میں کوئی کامل ولی ہے یا مکمل شیطان۔
ہاہاہااہااہااہاہا ۔ محب آپ کو کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا :) ۔ میں پاکستان تحریکِ انصاف کے رکن کی حیثیت سے ان کے پاس رجسٹرڈ ہوں اب بتائیں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھاتا ہے تو اس کی کوئی معقول وجہ تو ہو گی نا!!!۔
مت سوچیں کہ میں شریف برادران یا پی پی پی کے لئے کوئی سیاسی ہمدردی رکھتا ہوں ، ان کی باری بھی آئے گی اور جب ان پر لکھا جائے گا توان کے کچھ سپورٹرز ایسے ہی مراسلات یہاں لکھیں گے اور مجھے ان سے بھی کہنا پے گا کہ دھیرج رکھو اور سننے کا حوصلہ پیدا کرو:) ۔ جمعیت اور جماعت میں فرق صرف نام کا ہے تبھی تو آپ نے بھی جمعیت کی اُس حرکت پر معامل رفع دفع کروانے کے لئےقاضی حسین احمد مرحوم کی مداخلت کا حوالہ دیا ہے۔ بہر حال "تلوے چاٹنا" ایک محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اگر آپ کو ناپسند ہے تو اس کے لئے معذرت ۔
اور میرا نہیں خیال کہ میں نے کسی کو برا بھلا کہا ہے یا کسی پر بے سرو پا الزام لگائے ہیں ۔Pace کے حوالے سے مجھے آپ کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ شاید اس بارے میں عمران پر کوئی الزام رہا ہو گا۔
بہر حال گولی ماریں سیاستدانوں کو ، آپ سنائیں کیسے ہیں؟ پاکستان کب آ رہے ہیں؟۔
 
Top