نوازشیں ہیں، عنایتیں ہیں،خدائے یکتا کی رحمتیں ہیں

-


  • Total voters
    1

ابن رضا

لائبریرین
حمد براےاصلاح بحضور جناب الف عین ، محمد یعقوب آسی و دیگر جو اصلاح فرمانا چاہیں۔

نوازشیں ہیں، عنایتیں ہیں،خدائے احمد کی رحمتیں ہیں
یہ کہکشائیں زمیں زماں سب اسی کے جلووں کی وسعتیں ہیں

فلک کی چادر میں نور اس کا، ہے موجِ دریا سرور اس کا
بلند و بالا یہ کوہ و پربت کریم پرور کی ہیبتیں ہیں

نوازتا ہے وہ عزتیں بھی، نصیب کرتا ہے ذلتیں بھی
جسے جو چاہے عطا کرے وہ، اسی کے کن کی کرامتیں ہیں

ہے ابتدا بھی ، وہ انتہا بھی، فنا کے غم سے ہے ماورا بھی
اسی کے آگے ہیں سر نگوں سب، کمال یکتا کی قدرتیں ہیں

قیام اس کا درونِ دل ہے ، کلام اس کا سکونِ دل ہے
خدا سےدوری کا شاخسانہ یہ زندگی کی صعوبتیں ہیں

عظیم پروردگار ہے وہ، صبور و نافع ، قہار ہے وہ
جہانِ فانی کے سب خزانے اسی خدا کی سخاوتیں ہیں
 
آخری تدوین:
جناب ماشاءاللہ سخن کے زمرے میں بہت خوب پیش رفت آپ کی ہو رہی ہے اساتذہ کی نگرانی میں! خدا آپ کو توفیق دے۔
قوافی میں محض مطلع میں غلطی کی ہے جناب نے۔ اب باقی قوافی کا درست ہونا اتفاق ہے یا مطلع میں غلط ہونا اس کا تعین آپ ہی کریں گے۔ اصول ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں:
قافیہ اگر جمع کے سیغے سے منتخب کیا جائے تو ضروری ہے کہ ان الفاظ کا واحد جو بطور قوافی لائے گئے ہوں، قافیہ ہوں۔ مثلاً خاموشیاں اور پگڈنڈیاں قوافی ہوں تو خاموشی اور پگڈنڈی بھی قوافی ہوں گے۔ یا مسلمانوں اور سنم خانوں قوافی نہیں ہو سکتے کیوں کہ مسلمان اور سنم خانہ قوافی نہیں!
باقی بتفصیل اساتذہ ملاحظہ فرمائیں گے!
آداب!
 
جناب ماشاءاللہ سخن کے زمرے میں بہت خوب پیش رفت آپ کی ہو رہی ہے اساتذہ کی نگرانی میں! خدا آپ کو توفیق دے۔
قوافی میں محض مطلع میں غلطی کی ہے جناب نے۔ اب باقی قوافی کا درست ہونا اتفاق ہے یا مطلع میں غلط ہونا اس کا تعین آپ ہی کریں گے۔ اصول ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں:
قافیہ اگر جمع کے سیغے سے منتخب کیا جائے تو ضروری ہے کہ ان الفاظ کا واحد جو بطور قوافی لائے گئے ہوں، قافیہ ہوں۔ مثلاً خاموشیاں اور پگڈنڈیاں قوافی ہوں تو خاموشی اور پگڈنڈی بھی قوافی ہوں گے۔ یا مسلمانوں اور سنم خانوں قوافی نہیں ہو سکتے کیوں کہ مسلمان اور سنم خانہ قوافی نہیں!
باقی بتفصیل اساتذہ ملاحظہ فرمائیں گے!
آداب!
مہدی بھائی! قوافی کی وضاحت سے میں متفق نہیں ہوں۔ اصول مفرد جمع کا نہیں بلکہ حرف روی کے اتحاد کا ہے۔ خاموشی اور پگڈنڈی قوافی ہیں اسی طرح مسلمانوں اور خانوں بھی درست قوافی ہیں، رونقیں اور بارشیں اس لیے قوافی نہیں کیوں کہ رونق میں حرف روی ق اور بارش میں ش ہے۔
 
مہدی بھائی! قوافی کی وضاحت سے میں متفق نہیں ہوں۔ اصول مفرد جمع کا نہیں بلکہ حرف روی کے اتحاد کا ہے۔ خاموشی اور پگڈنڈی قوافی ہیں اسی طرح مسلمانوں اور خانوں بھی درست قوافی ہیں، رونقیں اور بارشیں اس لیے قوافی نہیں کیوں کہ رونق میں حرف روی ق اور بارش میں ش ہے۔
حضور۔ قوافی میں ایک بحث یہ بھی ہے جو ہم نے اوپر مطرح کی! ایک حوالہ جو اس وقت ذہن میں ہے وہ "شعریات" کا ہے۔ نئی کتاب ہے۔ نصیر ترابی صاحب مصنف ہیں!
 
جناب ماشاءاللہ سخن کے زمرے میں بہت خوب پیش رفت آپ کی ہو رہی ہے اساتذہ کی نگرانی میں! خدا آپ کو توفیق دے۔
قوافی میں محض مطلع میں غلطی کی ہے جناب نے۔ اب باقی قوافی کا درست ہونا اتفاق ہے یا مطلع میں غلط ہونا اس کا تعین آپ ہی کریں گے۔ اصول ہم آپ کو بتائے دیتے ہیں:
قافیہ اگر جمع کے سیغے سے منتخب کیا جائے تو ضروری ہے کہ ان الفاظ کا واحد جو بطور قوافی لائے گئے ہوں، قافیہ ہوں۔ مثلاً خاموشیاں اور پگڈنڈیاں قوافی ہوں تو خاموشی اور پگڈنڈی بھی قوافی ہوں گے۔ یا مسلمانوں اور سنم خانوں قوافی نہیں ہو سکتے کیوں کہ مسلمان اور سنم خانہ قوافی نہیں!
باقی بتفصیل اساتذہ ملاحظہ فرمائیں گے!
آداب!

1۔ قوافی میں محض مطلع میں غلطی کی ہے جناب نے۔

2۔ اب باقی قوافی کا درست ہونا اتفاق ہے یا مطلع میں غلط ہونا اس کا تعین آپ ہی کریں گے۔

3۔ قافیہ اگر جمع کے سیغے سے منتخب کیا جائے تو ضروری ہے کہ ان الفاظ کا واحد جو بطور قوافی لائے گئے ہوں، قافیہ ہوں۔

4۔ مثلاً خاموشیاں اور پگڈنڈیاں قوافی ہوں تو خاموشی اور پگڈنڈی بھی قوافی ہوں گے۔


یا مسلمانوں اور سنم خانوں قوافی نہیں ہو سکتے کیوں کہ مسلمان اور سنم خانہ قوافی نہیں!
ناچیز کو آپ کی مندرجہ بالا اول چار باتوں سے مکمل اتفاق ہے۔ اور یہ بھی واضح اور مسلم ہے کہ شاعر نے مطلع میں قافیے کی غلطی کردی ہے، صرف یہ پانچویں بات جو ہے اس سے ہمیں کچھ اختلاف ہے، یہ اختلاف غالباً ہماری ہی سمجھ کا ہوگا بہر صورت ہم یہاں وضاحت کیے دیتے ہیں۔
مسلمانوں اور صنم خانوں کو آپ نے فرمایا کہ قافیہ نہیں ہوسکتا۔ اور اس کی وجہ فرمائی ہے کہ جمع کے صیغے کو باہم قافیہ باندھنے کے لیے ضرور ہے کہ اس جمع کا واحد بھی قافیہ ہوسکے، لیکن ناقص العقل کے ناقص فہم و مطالعہ کے مطابق پہلی بات تو یہ کہ علمِ قافیہ میں ایسا کوئی اصول نہیں ہے، یہ محض مثال کے طور پر سمجھانے کے لیے مصنفین لکھ دیا کرتے ہیں، دوسری بات یہ اگر اسے اصول مانا بھی جائے تو یہ اصول محض اس جگہ قبول کیا جاسکتا ہے جہاں حرفِ روی کا اختلاف ہو۔ مثلاً اگر کسی نے "رنجشیں" اور "راحتیں" کو قافیہ کر ڈالا ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قافیہ کیوں غلط ہے؟ اصول علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر حرفِ روی کی مطابقت نہیں تو قافیہ کا وجود نہیں، اور یہاں روی کی مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے قافیہ کا وجود نہیں رہا۔ کیوں کہ رنجش میں روی شین جبکہ راحت میں ت ہے۔
اس کے برعکس مسلمانوں اور صنم خانوں کا معاملہ اس طرح ہے کہ مسلمان میں آخری نون روی ہے، جبکہ خانہ میں نون روی اصلی اور ہائے مختفی حرفِ وصل زائد ہے، اور اس زائد حرفِ وصل کو ختم کرکے صیغۂ جمع میں واؤ بطورِ وصل اور نون غنہ بطورِ خروج لگا دیا گیا ہے، یہی اصول "مسلمانوں" میں بھی کارفرما ہے۔ اب جبکہ یہاں نہ روی کی مطابقت مجروح ہوتی ہے، نہ وصل کی نہ خروج کی تو اس طرح قافیہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ :) :) :)
صنم خانہ اور مسلمان قوافی پر فوری طور پر حافظ شیرازی کی ایک استادانہ غزل کا مطلع یاد آگیا ہے، پیشِ خدمت ہے۔ بتائیں کہ یہ قافیہ کیونکر درست ہے ؟ ::

صلاح کار کجا و منِ خراب کجا
ببین تفاوت ره کَز کُجاست تا بہ کجا
 
ناچیز کو آپ کی مندرجہ بالا اول چار باتوں سے مکمل اتفاق ہے۔ اور یہ بھی واضح اور مسلم ہے کہ شاعر نے مطلع میں قافیے کی غلطی کردی ہے، صرف یہ پانچویں بات جو ہے اس سے ہمیں کچھ اختلاف ہے، یہ اختلاف غالباً ہماری ہی سمجھ کا ہوگا بہر صورت ہم یہاں وضاحت کیے دیتے ہیں۔
مسلمانوں اور صنم خانوں کو آپ نے فرمایا کہ قافیہ نہیں ہوسکتا۔ اور اس کی وجہ فرمائی ہے کہ جمع کے صیغے کو باہم قافیہ باندھنے کے لیے ضرور ہے کہ اس جمع کا واحد بھی قافیہ ہوسکے، لیکن ناقص العقل کے ناقص فہم و مطالعہ کے مطابق پہلی بات تو یہ کہ علمِ قافیہ میں ایسا کوئی اصول نہیں ہے، یہ محض مثال کے طور پر سمجھانے کے لیے مصنفین لکھ دیا کرتے ہیں، دوسری بات یہ اگر اسے اصول مانا بھی جائے تو یہ اصول محض اس جگہ قبول کیا جاسکتا ہے جہاں حرفِ روی کا اختلاف ہو۔ مثلاً اگر کسی نے "رنجشیں" اور "راحتیں" کو قافیہ کر ڈالا ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قافیہ کیوں غلط ہے؟ اصول علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر حرفِ روی کی مطابقت نہیں تو قافیہ کا وجود نہیں، اور یہاں روی کی مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے قافیہ کا وجود نہیں رہا۔ کیوں کہ رنجش میں روی شین جبکہ راحت میں ت ہے۔
اس کے برعکس مسلمانوں اور صنم خانوں کا معاملہ اس طرح ہے کہ مسلمان میں آخری نون روی ہے، جبکہ خانہ میں نون روی اصلی اور ہائے مختفی حرفِ وصل زائد ہے، اور اس زائد حرفِ وصل کو ختم کرکے صیغۂ جمع میں واؤ بطورِ وصل اور نون غنہ بطورِ خروج لگا دیا گیا ہے، یہی اصول "مسلمانوں" میں بھی کارفرما ہے۔ اب جبکہ یہاں نہ روی کی مطابقت مجروح ہوتی ہے، نہ وصل کی نہ خروج کی تو اس طرح قافیہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ :) :) :)
صنم خانہ اور مسلمان قوافی پر فوری طور پر حافظ شیرازی کی ایک استادانہ غزل کا مطلع یاد آگیا ہے، پیشِ خدمت ہے۔ بتائیں کہ یہ قافیہ کیونکر درست ہے ؟ ::

صلاح کار کجا و منِ خراب کجا
ببین تفاوت ره کَز کُجاست تا بہ کجا
جناب وضاحت کا بہت شکریہ! بات واضح ہو گئی! ورنہ غلط فہمی رہ جاتی اور ہم! :)
بہت شکریہ!

حافظ کے اس شعر میں کیا "خراب" اور "بہ" کو قافیہ رکھا گیا ہے؟ ہمیں نہیں لگتا!! قافیہ وہی "کجا" معلوم ہوتا ہے۔ ہردو مقامات پر مختلف المعنی ہے!
 
جناب وضاحت کا بہت شکریہ! بات واضح ہو گئی! ورنہ غلط فہمی رہ جاتی اور ہم! :)
بہت شکریہ!

حافظ کے اس شعر میں کیا "خراب" اور "بہ" کو قافیہ رکھا گیا ہے؟ ہمیں نہیں لگتا!! قافیہ وہی "کجا" معلوم ہوتا ہے۔ ہردو مقامات پر مختلف المعنی ہے!

اگر کجا قافیہ ہے تو پوری غزل کے قوافی کو مسترد کرنا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ حافظ نے بھی قوافی میں غلطی کھائی ہے، کیونکہ قافیہ کی تکرار کو ردیف کہتے ہیں۔ اور جب "کجا" (جو کہ قافیہ ہے) تکرار کی وجہ سے ردیف بن گیا تو قافیہ کیا رہا؟ :) مکمل غزل یوں ہے:

صلاح کار کجا و من خراب کجا
ببین تفاوت ره از کجاست تا به کجا

دلم ز صومعه بگرفت و خرقه ی سالوس
کجاست دیر مغان و شراب ناب کجا

چه نسبت است به رندی صلاح و تقوی را
سماع وعظ کجا، نغمه ی رباب کجا

ز روی دوست دل دشمنان چه دریابد
چراغ مرده کجا شمع آفتاب کجا

چو کُحلِ بینش ما خاک آستان شماست
کجا رویم بفرما ازین جناب کجا

مبین به سیب زنخدان که چاه در راه است
کجا همی روی ای دل بدین شتاب کجا

بشد که یاد خوشش باد روزگار وصال
خود آن کرشمه کجا رفت و آن عتاب کجا

قرار و خواب ز حافظ طمع مدار ای دوست
قرار چیست صبوری کدام و خواب کجا
 

ابن رضا

لائبریرین
ناچیز کو آپ کی مندرجہ بالا اول چار باتوں سے مکمل اتفاق ہے۔ اور یہ بھی واضح اور مسلم ہے کہ شاعر نے مطلع میں قافیے کی غلطی کردی ہے، صرف یہ پانچویں بات جو ہے اس سے ہمیں کچھ اختلاف ہے، یہ اختلاف غالباً ہماری ہی سمجھ کا ہوگا بہر صورت ہم یہاں وضاحت کیے دیتے ہیں۔
مسلمانوں اور صنم خانوں کو آپ نے فرمایا کہ قافیہ نہیں ہوسکتا۔ اور اس کی وجہ فرمائی ہے کہ جمع کے صیغے کو باہم قافیہ باندھنے کے لیے ضرور ہے کہ اس جمع کا واحد بھی قافیہ ہوسکے، لیکن ناقص العقل کے ناقص فہم و مطالعہ کے مطابق پہلی بات تو یہ کہ علمِ قافیہ میں ایسا کوئی اصول نہیں ہے، یہ محض مثال کے طور پر سمجھانے کے لیے مصنفین لکھ دیا کرتے ہیں، دوسری بات یہ اگر اسے اصول مانا بھی جائے تو یہ اصول محض اس جگہ قبول کیا جاسکتا ہے جہاں حرفِ روی کا اختلاف ہو۔ مثلاً اگر کسی نے "رنجشیں" اور "راحتیں" کو قافیہ کر ڈالا ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ قافیہ کیوں غلط ہے؟ اصول علماء نے یہ لکھا ہے کہ اگر حرفِ روی کی مطابقت نہیں تو قافیہ کا وجود نہیں، اور یہاں روی کی مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے قافیہ کا وجود نہیں رہا۔ کیوں کہ رنجش میں روی شین جبکہ راحت میں ت ہے۔
اس کے برعکس مسلمانوں اور صنم خانوں کا معاملہ اس طرح ہے کہ مسلمان میں آخری نون روی ہے، جبکہ خانہ میں نون روی اصلی اور ہائے مختفی حرفِ وصل زائد ہے، اور اس زائد حرفِ وصل کو ختم کرکے صیغۂ جمع میں واؤ بطورِ وصل اور نون غنہ بطورِ خروج لگا دیا گیا ہے، یہی اصول "مسلمانوں" میں بھی کارفرما ہے۔ اب جبکہ یہاں نہ روی کی مطابقت مجروح ہوتی ہے، نہ وصل کی نہ خروج کی تو اس طرح قافیہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ :) :) :)
صنم خانہ اور مسلمان قوافی پر فوری طور پر حافظ شیرازی کی ایک استادانہ غزل کا مطلع یاد آگیا ہے، پیشِ خدمت ہے۔ بتائیں کہ یہ قافیہ کیونکر درست ہے ؟ ::

صلاح کار کجا و منِ خراب کجا
ببین تفاوت ره کَز کُجاست تا بہ کجا

محترم مزمل شیخ بسمل محمد اسامہ سَرسَری و مہدی نقوی حجاز بجا فرمایا مطلع میں فاش چوک ہوئی ہے، اس لیے تدوین کر کے دوبارہ پیشِ خدمت کرتا ہوں۔قبل از اشاعت خاکسار کو ادراک ہو گیا تھا مگر عجلت ِ حصولِ اصلاح کا تیر کمان سے نکل چکا تھا :atwitsend:
 
اگر کجا قافیہ ہے تو پوری غزل کے قوافی کو مسترد کرنا پڑے گا اور کہنا پڑے گا کہ حافظ نے بھی قوافی میں غلطی کھائی ہے، کیونکہ قافیہ کی تکرار کو ردیف کہتے ہیں۔ اور جب "کجا" (جو کہ قافیہ ہے) تکرار کی وجہ سے ردیف بن گیا تو قافیہ کیا رہا؟ :) مکمل غزل یوں ہے:

صلاح کار کجا و من خراب کجا
ببین تفاوت ره از کجاست تا به کجا
جناب آپ کا اشکال بجا! اس صورت میں پھر یہاں قافیے کی سمجھ ہماری فکر سے بالا تر ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ب کی اضافت کو قافیہ تصور کیا گیا ہو کہ خراب میں ب ساکن اور بہ میں مفتوح التلفظ ہے! آپ ہی کچھ وضاحت کیجیے!
 

ابن رضا

لائبریرین
مطلع غیر مقفی ہے۔
رحمتیں اور برکتیں ہوں تو الگ بات ہے۔

جی محمد اسامہ سَرسَری بھائی اب مطلع کی بابت کیا رائے ہے آپ کی؟؟؟

نوازشیں ہیں، عنایتیں ہیں، خُدا کی ہر سو ہی رحمتیں ہیں
یہ کہکشائیں، زمیں زماں سب، اُسی کے جلووں کی وسعتیں ہیں
 
علمِ قوافی کے معاملے میں کچھ عرض نہیں کر سکوں گا، کہ اس فقیر کے لئے ہمیشہ ایک مشکل علم رہا ہے۔

الف نون، واو نون، یاے نون جمع کی صورت میں اصل لفظ چلئے صورت، طاقت، ہمت، نفرت، ہوا تو یاے نون، واو نون کے ساتھ صورتیں، طاقتیں، ہمتیں، نفرتیں ۔۔ یا ۔۔ صورتوں، طاقتوں، ہمتوں،نفرتوں ۔۔۔۔ بات بن گئی۔
اور اگر اصل لفظ عاشق، دوست، قاتل، منصف، آئنہ، سلسلہ، واسطہ، شاعر، صاحب (سب الگ الگ) ہم قافیہ نہیں تو پھرعاشقوں، دوستوں، قاتلوں، منصفوں، آئنوں، سلسلوں، واسطوں، شاعروں، صاحبوں بھی ایک غزل کے قوافی نہ ہوئے۔ ایسا ہی ہے تو پھر یہ فقیر جو خود صوتیات پر کام چلاتا ہے، شاعری کرنے سے بھی رہا، دوسروں کے قوافی پر کیا بات کرے گا!۔۔

کوئی اہلِ علم تشفی فرمائیں تو بہت نوازش ہو گی۔


جناب محمد وارث صاحب، جناب الف عین صاحب۔
 
آخری تدوین:
علمِ قوافی کے معاملے میں کچھ عرض نہیں کر سکوں گا، کہ اس فقیر کے لئے ہمیشہ ایک مشکل علم رہا ہے۔

اور اگر اصل لفظ عاشق، دوست، قاتل، منصف، آئنہ، سلسلہ، واسطہ، شاعر، صاحب (سب الگ الگ) ہم قافیہ نہیں تو پھرعاشقوں، دوستوں، قاتلوں، منصفوں، آئنوں، سلسلوں، واسطوں، شاعروں، صاحبوں بھی ایک غزل کے قوافی نہ ہوئے۔ ایسا ہی ہے تو پھر یہ فقیر جو خود صوتیات پر کام چلاتا ہے، شاعری کرنے سے بھی رہا، دوسروں کے قوافی پر کیا بات کرے گا!۔۔

کوئی اہلِ علم تشفی فرمائیں تو بہت نوازش ہو گی۔

استاد محترم میرے خیال میں صوتیات کوئی دوسری چیز ہے۔ یہاں (یعنی عاشقوں، دوستوں، قاتلوں، منصفوں، آئنوں، سلسلوں، واسطوں، شاعروں، صاحبوں وغیرہ کو ایک غزل میں قافیہ کرنے میں) تو صوتیات بھی مجروح ہوتی ہے۔
اگر صوتیات کا دامن اتنا وسیع کردیا جائے تو
"ساتھ" کے ساتھ "ٹھاٹ"،
"قطار" کے ساتھ "بگاڑ"،
"ہاتھ" کے ساتھ "ذات"،
"مقناطیس" کے ساتھ "بالتخصیص"
و علی ہذا القیاس سبھی صوتیات میں شامل ہو کر استعمال کرنا جائز ہونگے، حالانکہ ایسی کوئی اجازت علمِ قافیہ نہیں دیتا۔ صوتیات کی ایک صورت مزید ملاحظہ ہو:

سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تری یادوں کی خوشبوکھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں
گلے جب اس کے لگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

نہ جانے ہوگیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

وہ سب گزرے ہوئے لمحے مجھ کو یاد آتے ہیں
تمہارے خط جو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ترے کوچے سے اب مرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

بہت آداب
 

ابن رضا

لائبریرین
استاد محترم میرے خیال میں صوتیات کوئی دوسری چیز ہے۔ یہاں (یعنی عاشقوں، دوستوں، قاتلوں، منصفوں، آئنوں، سلسلوں، واسطوں، شاعروں، صاحبوں وغیرہ کو ایک غزل میں قافیہ کرنے میں) تو صوتیات بھی مجروح ہوتی ہے۔
اگر صوتیات کا دامن اتنا وسیع کردیا جائے تو
"ساتھ" کے ساتھ "ٹھاٹ"،
"قطار" کے ساتھ "بگاڑ"،
"ہاتھ" کے ساتھ "ذات"،
"مقناطیس" کے ساتھ "بالتخصیص"
و علی ہذا القیاس سبھی صوتیات میں شامل ہو کر استعمال کرنا جائز ہونگے، حالانکہ ایسی کوئی اجازت علمِ قافیہ نہیں دیتا۔ صوتیات کی ایک صورت مزید ملاحظہ ہو:

سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تری یادوں کی خوشبوکھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں
گلے جب اس کے لگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

نہ جانے ہوگیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

وہ سب گزرے ہوئے لمحے مجھ کو یاد آتے ہیں
تمہارے خط جو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ترے کوچے سے اب مرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

بہت آداب

:((n):thinking2:
 
جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔

میرے خیال میں صوتیات کوئی دوسری چیز ہے۔ یہاں (یعنی عاشقوں، دوستوں، قاتلوں، منصفوں، آئنوں، سلسلوں، واسطوں، شاعروں، صاحبوں وغیرہ کو ایک غزل میں قافیہ کرنے میں) تو صوتیات بھی مجروح ہوتی ہے۔

تسلیم جناب! یہ فقیر تو پہلے ہی عرض کر چکا کہ علم قوافی اپنے بس کی بات نہیں۔
اور یوں اپنی پچاس میں سے چالیس غزلوں کی چھٹی ہو گئی، سمجھ لیجئے!


جناب محمد وارث صاحب، جناب الف عین صاحب۔
 
آخری تدوین:
Top