ننگ آدم، ننگ دین ننگ وطن ۔۔میرصادق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر راہی فدائی

ابن جمال

محفلین
علامہ اقبال نے اپنی معرکہ آراء تخلیق جاوید نامہ میں غدار سلطنت خداداد میرصادق اورمکارمملکت بنگالہ میر جعفر کے خبث باطنی کاعبرت انگیز نقشہ کھینچتے ہوئے رقم کیاہے
منزل ارواح بے یوم النشور
دوزخم ازاحراق شاں آمد نفور
اندرون اودوطاغوت کہن
روح قومے کشتہ ازبہردوتن
جعفر از بنگال وصادق ازدکن
ننگ آدم،ننگ دیں،ننگ وطن
زیرنظرمضمون میں میرصادق کے تعلق سے چند تاریخی اہمیت کے سوالات اوران کے جوابات دلائل کی روشنی میں پیش کئے جارہے ہیں۔
حضرت ٹیپوسلطان شہیدکی تاریخ جو دراصل آزادی ہند کی تاریخ ہے،کا مطالعہ کریں تو زوال سلطنت خداداد کے اسباب تلاش کرتے ہوئے ذہن کے زاوے نقد ونظر سے درج ذیل سوالات ضرورابھر کر آئیں گے کہ میرصادق کون ہے؟اس نے کس لئے اپنے محسن وآقا کے ساتھ نمک حرامی کی؟اس نے کس لئے طوق ملامت کو زیب گلوبناناپسند کیا تھا؟اس کا انجام کیاہوا۔اورکس نے اس کو کیفرکردار تک پہنچایا؟
میرصادق کا تذکرہ کرتے ہوئے مولف صحیفہ ٹیپوسلطان محمود خان محمودبنگلور نے بحوالہ کرنل بیٹسن مصنف ٹیپوسلطان سے جنگ رقم کیاہے کہ رقم صادق آرکاٹ موجودہ تملناڈ کا باشندہ تھا ۔(1)مگرمولوی محمد خان میسور نے سفرنامہ بکانن (Bucanan)طبع دوم جلد اول مطبوعہ 1870صفحہ 44کے حوالہ سے تحریر کیاہے کہ میرصادق ڈوڈبالاپور ضلع بنگلور کرناٹک میں پیداہوا۔ اس کے باپ کا نام میر علی نقی اوراس کے ناناکانام میراحمد خان جاگیردار صوبہ سراتھا۔محقق شہیر میرحسین علی کرمانی حاکم مولف ''نشان حیدری''کابیان ہے کہ میرمحمد صادق ،میراحمد خان جاگیردار تعلقہ بلگور اورمنصب صوبہ سراکانواساتھا۔ایک مدت تک میرصادق فوج کے رکاب بازار کا کوتوال تھا وہ اپنی زندگی بڑی کفایت شعاری اورجزرسی سے بسرکرتاتھا۔ نواب حیدرعلی خان بہادر متوفی(1195ھ مطابق 1782)نے اس کو 1194ھ مطابق 1780میں شہر آرکاٹ کی صوبیداری عطاکی تھی۔ میرصادق اپنے اسی وصف خاص یعنی جزرسی وکفایت شعاری کے سبب سے جواس سے کوتوالی اورصوبے داری کے زمانے میں ظاہر ہوئی تھی۔ سلطان ٹیپوکا منظور نظر بن گیاتھا۔ پھر بہت جلد 1198ھ میں سلطان نے اس کو دیوان یعنی وزارت عظمی پر مامور کردیا۔
میرصادق کے سلسلہ میں مزید وضاحت کرتے ہوئے محمود خان بنگلور نے لکھاہے کہ میسور میں عام طورپر مشہور ہے کہ میرصادق حیدرآباد کے میر عالم کا بھائی تھا۔ مذہباًشیعہ تھا اورعجمی النسل سید تھا۔ (3)محمود خان بنگلوری کامذکورہ بیان کہ وہ میرعالم کابرادرحقیقی تھا۔امرواقعی کے خلاف ہے۔ یہ اس لئے کہ ابوالقاسم موسوی شوستری ملقب بہ میرعالم وزیر اعظم نظام الملک آصف جاہ کے والدکانام سید رضی شوستری تھا۔ (4)اورمیر صادق کے باپ کانام میر علی تقی تھا۔ جیساکہ قبل ازیں مذکور ہواہے۔ البتہ میر عالم کا ایک حقیقی بھائی سلطان ٹیپوکے مصاحبوں مین ضرورشامل تھا۔ مگراس کانام میر صادق نہیں بلکہ زین العابدین شوستری مولف فتح المجاہدین ہے۔(5)
میر صادق کی نیت میں دیوان وزارت عظمی پر مقرر کئے جانے کے بعد فتور آگیاوہ کفایت شعاری کے بجائے حرص وہوس کا شکار ہوگیا۔1202ھج مطابق 1787میں جب سلطان ٹیپودشمنوں سے فرصت پاکر ملک ولشکر کے انتظام کی طرف متوجہ ہوئے تو میر صادق کے ظلم وستم اورخرد برد کے حیرت انگیز واقعات آپ کے علم میں لائے گئے۔ سلطان نے اس پر تحقیقات کا حکم جاری فرمایا جب جرم ثابت ہوگیاتو سلطان نے میرصادق نہ کو نہ صرف اس کے عہدے سے برطرف کردیابلکہ اس کی تمام ناجائز کمائی اورجملہ اثاثہ قرق کردینے کا حکم صادرفرمایا۔ چناں چہ میر صادق کی کوٹھی سے نقد دولاکھ روپے سکہ رائج الوقت ،ایک لاکھ ہون محمدی،اورزرواجواہر اورطلائی ونقرئی ظروف کثیرتعداد میں برآمد ہوئے۔
بعدازاں سلطان نے میرصادق کو قید کرکے اس کے منصب دیوانی پر مہدی خان (جاگیردار اول کنڈہ ،موجودہ ضلع چتورآندھراپردیش)کو فائزکیا۔ مہدی خان نائطی درحقیقت میر صادق کا ہی یارغار تھا۔ اس نے بڑی رازداری کے ساتھ میرصادق سے ربط رکھا اوراس کے مشوروںپر عامل رہا۔ (6)
سلطان کو اسی مہدی خان کی وجہ سے جنرل میڈرس سے دب کر صلح کرنی پڑی تھی۔ اسی نے عین لڑائی میں توپوں کا دہانہ بارود کے بجائے مٹی اورریت سے بھردیاتھا۔ وہ پورے پانچ سال یعنی (1207ھجری تک عہدہ دیوان پرفائز رہا۔ جب اتحادی افواج اپنے مستقر پر لوٹ گئے تو سلطان ٹیپونے چاہاکہ اپنے اعیان وارکان کی وفاداریون کا امتحان لے ۔چنانچہ مختلف نوعیت سے جانچ اورآزمائش کی گئی تو پتہ چلاکہ خود دیوان سلطنت مہدی خان نائطی سازش میں شریک ہے اوراس نے اتحادیوں سے ساز باز کررکھی ہے۔
اس افشائے راز کے بعد سلطان نے فی الفور اس کو اپنے عہدے سے معزول کردیا اوردوبارہ میرصادق ہی کومنصب دیوانی پر بحال کردیا۔ 1211ہجری مطابق 1796میں جب کہ سلطان کے دونوں شہزادوں کی انگریزوں کے چنگل سے واپسی پر جشن منعقد ہواتھا۔ تواس موقع پر میرصادق نے ایک تفصیلی عہدنامہ کے ذریعہ خداورسول اورکلام اللہ کی قسم کھاتے ہوئے اپنے وفاداری کایقین دلایاتھا(7)
اس طرح میرصادق سلطان کو بہ ظاہر دھوکادینے اوران کے دل میں پھر سے جگہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ میرصادق کے دل ودماغ حقیقت میں اپنی ذلت پر انتقام کی آگ میں جل رہے تھے ۔اسی اثناء میں انگریزوں نے اس کے احساسات وجذبات سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے پیغام بجھوایاکہ اگر وہ بغیر کسی پس وپیش کے انگریزوں کا ساتھ دے گا تواس کو سرکار خداداد کا حاکم بنایاجائے گا۔ انگریزوں کی اس پیش کش کا ذکر سب سے پہلے غوثی چنگل پیٹی نے اپنی مثنوی ''شہادت جنگ سلطانی''مرقومہ 1216ھجری مطابق 1801ء میں کیاہے۔ غوثی رقم طراز ہیں۔
غرض نہیں جوہمناملک ومال وہوس
اول شاہ کو دے ہوسلطان توں
تجھے دیویں گے تخت شاہی تمام
کریں گے سلاماں تجھے صبح وشام
روانہ کئے جب اونامہ تمام
ہواشادنامے سوں بدبخت خام
میرصادق نے انگریزوں کے مذکورہ لالچ سے خوش ہوکر اپنے محسن وآقا کے خلاف غداری ونمک حرامی کرتے ہوئے سلطان کے اطراف سازشوں کا جال پھیلادیا۔ بہ قول مولف سلطنت خداداد وزیر اعظم ہونے کی حیثیت سے سلطنت خداداد کی تباہی کی پوری کی پوری ذمہ داری اسی غدار پر عائد ہوتی ہے۔اول تو وہ سلطان تک صحیح خبریں پہنچنے ہی نہیں دیتاتھااوراخیر میں 4مئی 1799کے دن (یعنی سلطان کی شہادت کے دن)جب سلطان ڈڈی دروازے (یعنی عقبی دیوار میں واقع وہ دروازہ جو عام دریچے سے بڑاہوتاہے)سے باہر نکلاتو اس (میرصادق )نے دروازہ بند کرادیا کہ سلطان واپس نہ آسکے اورفصیل قلعہ پر سلطان کی موجودگی کی اطلاع انگریزی فوج کو اسی غدار نے دی تھی(9)
صاحب ''نشان حیدری ''لکھتے ہیں کہ جس وقت سلطان کی سواری مورچہ کی طرف روانہ ہوئی تھی کورباطن میرصادق ان کے پیچھے دوڑتاہواگیااورمذکورہ دریچے (ڈڈی دروازے)کوبندکرکے راستہ مسدود کردیااورخود نمک لانے کے بہانے سے گھوڑے پر سوارہوکر باہر نکل گیا۔(10)میرصادق کی
غداری کا احوال انگریز مورخوں نے بھی لکھاہے۔مولف ''تاریخ ٹیپوسلطان ''نے لزولی کے حوالہ سے تحریر کیاہے کہ ''کارنواس نے جب میسور پر حملہ کیاتو تواجہ کونکال لے جانے میں روپے کے توسل سے میر صادق کو آلہ کار بنایاگیاتھا۔ (11)مولف سلطنت خداداد نے ولکس اوربورنگ کے حوالہ سے لکھاہے کہ میسور کی تیسری جنگ کے بعد اس (میرصادق)نے رعایاپرتشددکرنا شروع کریداتھا مطلب یہ تھا کہ رعایاکوسلطنت سے بددل بنایاجائے(12)
کرنل ڈبلیومائیلس اپنی کتاب''ٹیپوسلطان''کے دیباچے میں لکھتاہے کہ یہ کہانی کہ میر صادق نے اس(سلطان ٹیپو)سے غدار کی اوراس کو انگریزوں اوران کے اتحادیوں کے حوالہ کردیا۔ کوئی ناقابل فہم بات نہیں ہے(13)
اس واقعہ کے پس منظر کا خلاصہ مولف ''ٹیپوسلطان ''نے اس طرح قلم بند کیاہے۔
''4مئی 1799ء 29ذی قعدہ 1213ھجری کو ٹیپوسلطان نے اپنی زندگی میں آخری مرتبہ سورج نکلتے دیکھا۔ صبح سویرے(طائوس نامی)گھوڑے پر سوار ہوکر وہ فوجیوں کے معائنے کیلئے نکلا۔انگریزوں کی مسلسل گولہ باری سے قلعہ کی دیوارگرگئی تھی۔ انہوں نے اس کی مرمت کا حکم دیا۔پھر فصیل پر اپنے بیٹھنے کیلئے سائبان لگانے کا حکم دیااورپھر واپس محل آکرغسل کیا۔قلعے کے محاصرے کے بعد سے وہ محل میں رہائش ترک کرکے سپاہیوں کی طرح اک خیمہ میں رہنے لگے تھے۔غسل سے فارغ ہونے کے بعد دوپہر تک فصیل کی مرمت دیکھتے رہے۔ دن کے ایک بجے وہ فصیل سے نیچے اترے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے اوروہیں دوپہر کا کھانا طلب کیا۔ مگر ابھی ایک نوالہ ہی لیاتھاکہ شہر کی طرف سے رونے اورچلانے کی آوازیں سنائی دیں۔ ٹیپوسلطان نے پوچھاکہ یہ شور کیساہے تومعلوم ہواکہ شاہی توپ خانے کا سردار سید غفار ہلاک ہوگیاہے اورانگریزی فوج بلاک روک ٹوک قلعہ کی طرف بڑھی چلی آرہی ہے۔ وہ دسترخوان سے اٹھ کھڑے ہوئے چند جانثاروں کو ساتھ لیا اورقلعہ کے دریچے (ڈڈی دروازہ) سے نکل کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے بڑھے اوران کے باہر نکلتے ہی دیوان میر صادق نے اندر سے دریچے کو بند کردیاتاکہ انہیں واپس قلعہ میں آناپڑے تو وہ نہ آسکیں۔(14)
اس غداری کی سزا میرصادق کو کس صورت میں بھگتنی پڑی۔ اس کی تفصیل صاحب(حملات حیدری)نے بایں طوربیان کی ہے۔
''(میرصادق)نے گنجام کے تیسرے روز دروازے پر آکر دربانوں کو کہاکہ خبردار میرے جانے کے بعد تم چپ چاپ دروازہ بند کرلینا وہ یہ کہہ کر آگے بڑھاتھا کہ سامنے سے ایک سپاہی ملازم سلطانی آگے اسے لعن طعن کرنے لگاکہ اے روسیاہ ،راندہ درگاہ یہ کیسی بے حمیتی ہے کہ توسلطان دین پرور محسن عالی گوہر کو دشمنوں کے جال میں پھنسا،اپنی جان لئے جاتاہے کھڑارہ ،روسیاہی کے کاجل سے اپنامنہ توکالاکرلے۔یہ کہتاہواکمال طیش سے ایک ہی وار میں اس کوآب تیغ سے شربت اجل پلازین سے زمین پر مارگرایا۔ لاش اس کی چاردن بعد قلعے کے دروازے پر بے کفن،دفن کی گئی۔ شہر کے لوگ اب بھی آتے جاتے قصداًاس کی قبر پر تھوکتے ،پیشاب کرتے اورڈھیر کی ڈھیر پرانی جوتیاں ڈالتے ہیں۔(15)
نشان حیدری کے مصنف لکھتے ہیں۔
اسی وقت جب کہ میرصادق سلطان کی راہ واپسیں مسدود کرکے خود راہ فرار اختیار کئے ہوئے تھاکہ ایک شخص نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روک لیااورلعنت ملامت کرتے ہوئے اس سے کہا''اے ملعون توشاہ دین پناہ کو دشمنوں کے حوالہ کرکے اپنی جان سلامت لے جاناچاہتاہے لے اب تیرے کیے کا پھل تجھے چکھائے دیتاہوں یہ کہہ کر اس نے تلوار کا ایسابھرپور ہاتھ مارا کہ وہ غدار گھوڑے پر سے چکراکر گرپڑا،اسی وقت لوگوں نے ہجوم کرکے اس کومار مار کر قیمہ کردیااوراس ناپاک لاش کو بول
وبراز میں پھینک دیا(16)
میرصادق کے قتل ہونے کی تصدیق مثنوی ''شہادت جنگ سلطانی ''سے بھی ملتی ہے۔چنانچہ غوثی چنگل پیٹی رقم طراز ہیں۔
نہ لاتاب بھاگیا وہ کاذب نکل
اسی وقت اسکوں کیاکوئی قتل
کرنہار دیکھوکیاکیانول
پوشیدہ رکھیاتھااومطلب اول
وے مقصد کو اپنے بھی پایانہیں
فلک کو بھی کام اس کا بھایانہیں(٧١)
میرصادق کے نام کو شاعر اپنی مثنوی میں میرکاذب کے اسم صفت سے یاد کرتاہے(18)
مذکورہ مثنوی شہادت سلطانی 1213ھج کے تین سال بعد اور''نشان حیدری''1217یعنی شہادت کے چارسال بعد معرض وجود میں آئی ۔ان معتبر اورقریب العہد تاریخون کی موجودگی بعض لوگوں کا یہ زعم باطل کہ میرصادق میر عالم کے ساتھ حیدرآباد چلاگیاتھا۔اس کے قتل کی خبر صرف اس کو بچانے کیلئے گھڑی گئی تھی۔ (19)ناقابل اعتنا تصور ہوگا۔ علاوہ ازیں حیرت ہے کہ مشہور مورخ محمود خان بنگلوری کو میرصادق کی غداری ایک سربستہ رازی معلوم ہوتی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں
''میرصادق کے سامنے کون سالالچ تھا کس چیز نے اس کو ہوس دلائی ؟بہت ممکن ہے کہ اس غدار سے کوئی ایسامعاہدہ کیاگیاتھاجیساکہ میر جعفر سے غداری کے صلہ میں وعدہ کیاگیاتھاکہ بنگال کی مسند نوابی اس کو دی جائے گی اوربعیدازعقل نہیں کہ میرصادق کو بھی یہ ہوس دلائی گئی لیکن سلطان کی شہادت کے ساتھ ہی اس کااچانک قتل کردیاجانااس راز کو ہمیشہ کیلئے مقفل کرگیا۔(20)
حالانکہ غوثی چنگل پیٹی نے لالچ کی تفصیل دیتے ہوئے انگریزوں کا قتل نقل کیاہے
تجھے دیویں گے تخت شاہی تمام
کریں گے سلاماں تجھے صبح وشام
مولوی محمد خان میسوری نے محمود خان بنگلور کے شبہ کا ازالہ کرتے ہوئے لکھاہے
1787میں سلطان کی میرصادق پر عدم اعتماد،اس کے اثاثے کی ضبطی،اس کی برطرفی اورمحبوسی میرصادق کے تذلیل وتحقیر کی انتہاء تھی۔اس کو بالکل سطحی سمجھ کر میرصادق کو سلطان سے نمک حرامی کی کوئی اور موہوم وجہ تلاش کرنا عبث ہے(21)
میرصادق کی غداری کے اسباب اوراس کاعبرت ناک انجام طشت از بام ہوجانے کے بعد آخر میں اہم سوال باقی رہ جاتاہے کہ اس غدار کو کیفرکردار تک پہنچانے والاکون تھا۔ اس کا کوئی نام ونشان تاریخ کے صفحات پر موقو ہے کہ نہیں۔ تعجب کا مقام ہے کہ ہرایک مورخ نے اس مردجری کانام نظرانداز کردیاجس نے میرصادق کو نہ صرف راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پہچان لیا بلکہ اس کا راستہ روک کر بڑی دلیری واحساس ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے سلطان کے ساتھ نمک حرامی کا مزہ بھی چکھادیا۔ مگر تاریخ کی خوش بختی ہے کہ مصداق ان اللہ لایضیع اجرالمحسنین (اللہ تعالی احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ہیں)اس محسن قوم کا نام تاریخ کے حافظہ میں بہ ہرحال آہی گیاچنانچہ محمود خان بنگلوری رقم طراز ہیں۔
بعض لوگ اس(میرصادق )کے قاتل تک کا نام لیتے ہیں جو کڈپ کا ایک پٹھان قادر خان نامی تھا۔ کسی نے اس زمانے میں ایک مسدس بھی میرصادق پر لکھی تھی جس میں قادر خان کا نام لیاگیاہے۔

حوالہ جات
1مطبوعہ گوشہ ادب لاہور1942ص307
2ریاست میسور میں اردو مطبوعہ 1960ص50
3تاریخ سلطنت خداداد دہلی
4تذکرہ گلزار اعظم نواب محمد غوث خان بہادر اعظم مدراس
5سوانح ٹیپوسلطان از مولوی سید امجد علی شہری
6حملات حیدری از شیخ احمد علی گوپاموی کلکتہ
7تاریخ سلطنت خداداد
8مثنوی شہادت جنگ سلطانی مرتبہ مولوی محمد خان میسوری
9تاریخ ٹیپوسلطان مولف محب اللہ مطبوعہ ترقی اردوبیورو دہلی
10صحیفہ ٹیپوسلطان حصہ دوم از محمود خان بنگلوری
11ٹیپوسلطان از صفدر حسین
12حملات حیدری
12ریاست میسور
13بہادر اعظم جاہی مولف مولوی غلام عبدالقادر ناظر

نوٹ:یہ حواشی کی فہرست ابھی نامکمل ہے اسے انشاء اللہ کل تک مکمل کردیاجائے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ جناب شیئر کرنے کیلیے۔

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ مصنف نے یہی عنوان دیا ہے جو کہ آپ نے دیا ہے۔ کیونکہ عنوان میں اقبال کا مصرع غلط لکھا ہے "ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگِ وطن" جب کہ مضمون کے متن میں مصرع صحیح ہے یعنی "ننگِ آدم، ننگِ دیں، ننگِ وطن"۔
 

ابن جمال

محفلین
نہیں جناب ۔یہ عنوان میں نے ہی قائم کیاہے اورغلطی کی جانب توجہ دلانے کا شکریہ۔دراصل مجھے کافی دنوں سے یہ شعر یوں ہی یاد تھا اسی لئے ویسے ہی لکھ دیا۔اگرعنوان تبدیل ہوسکتاہوتوضرور کردیں۔ والسلام
 

میم نون

محفلین
عنوان تبدیل کرنے کے لیئے، اپنی پہلی پوسٹ کی تدوین کریں اور پھر اضافی اختیارات میں جا کر وہاں پر تبدیلی کر لیں۔
 
Top