نمل یونی ورسٹی اور شوکت خانم ہسپتال

پاکستان میں فلاحی کام بہت سراہے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں نہ صرف فلاحی کاموں کی ازحد ضرورت ہے بلکہ پاکستان میں خوش قسمتی سے فلاحی کام کرنے والوں کی کثرت ہے۔ عام لوگ دل کھول کر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ خاندان میں اکثر ایک بچہ ایسا بھی نکل اتا ہے جو اپنی زندگی خاندان کی فلاح کے لیے وقف کردیتا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ملک سے باہر مشکل ذلت امیز حالت میں کام کرتی ہے تاکہ ان کے خاندان ایک اچھی زندگی گزارسکیں۔ بلاشبہ پاکستانی اس پر تحسین کے مستحق ہیں۔
انسان فطری طورپر معاشرے کی فلاح کے لیے سوچتا ہے ۔ یہی اس کے انسان ہونے کی دلیل ہے۔ پاکستان میں فلاحی کام کرنے والوں میں عبدلستار ایدھی، چھیپا، سیلانی، ہمدرد ٹرسٹ سمیت لاتعداد ہیں جو کروڑوں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کم ہے لوگ ہیں جھنوں نے اپنے ان فلاحی کاموں کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا بلکہ یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ واحد نام جو نظر اتا ہے جس نے اپنے فلاحی کاموں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا وہ عمران ہے۔
--------------
جاری ہے۔
 
یہ میرے لڑکپن کا زمانہ ہے ۔ پاکستان کا ایک میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہورہا تھا۔ پاکستان مشکل حالت میں بیٹنگ کررہا تھا اور منجھے ہوئے بلے باز ایک ایک کرکے مخالف کے باولرز کا نشانہ بن رہے تھے۔ ایسے میں ایک کھلاڑی نے وکٹ پر کھڑے ہوکر رنز بنانے شروع کیے اور کئی اچھے شاٹ لگائے۔ شائقین کی امیدیں اس سے قائم ہوگئیں۔ پاکستان کی امیدیں اس سے وابستہ ہوگئیں۔ اس سنے بھی مایوس نہیں کیا۔ اور تیزی سے رنز بنانے شروع کیے۔ شائقین کا ہجوم اس کھلاڑی کے نعرے لگارہا تھا۔ پی ٹی وی پر یہ میچ دیکھتے ہوئے شائقین پرجوش ہورہے تھے۔ نعرے لگارہے تھے۔ وہ کھلاڑی اب سنچری بنانے کے قریب تھا ۔ لوگ اس کی کامیابی کے لیے دعا گو تھے کہ اس کی کامیابی پاکستان کی کامیابی تھی۔ بالاخر لوگوں نے دھڑکتے دلوں کے ساتھ دیکھا کہ کھلاڑی نے ایک شاندار شاٹ کھیل کر اپنی سنچری مکمل کی۔ شائقین جذبات سے بے قابو ہورہے تھے نوجوان شائقین اس کھلاڑی کا منہ چوم لینا چاہتے تھے۔ ایک کمسن لڑکا اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا اور باونڈری کے باہر لگی سلاخوں کو پار کرکے میدان میں داخل ہوگیا۔ ایک ایک سیکورٹی کی صورت حال بن گئی۔ ٹی وی کیمرے اس بچے پر مرکوز ہوگئے وہ بچہ بھاگتا ہوا وکٹ پر ایا۔ وہ اپنے ہیرو کھلاڑی سے صرف ہاتھ ملاکر شاباش دینا چاہتا تھا۔ وہ پاکستان کے لیے کھیلنے والے کھلاڑی کومبارک دینا چاہتا تھا۔ لڑکا کھلاڑی کے پاس ایا۔ کھلاڑی نے گھما کر ایک لات اس بچے کی کمر پر رسید کی۔بچہ ہکا بکا رہ گیا۔ سیکورٹی اہلکاروں نے اسکو دبوچ لیا۔ٹی وی کیمرا نے زوم کیا اور کھلاڑی کے چہرے کو ٹی وی اسکرین پر بڑا کیا۔ میں سکتے میں رہ گیا۔ یہ عمران خان تھا۔

جاری-----
 

حسان خان

لائبریرین
پاکستان میں لوگ مذہب کو، فرقے کو، اور زبان و نسل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں، اگر کسی بندے نے بالفرض اپنے فلاحی کاموں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر لیا تو ایسی کون سی آفت آ گئی؟
 

arifkarim

معطل
پاکستان میں لوگ مذہب کو، فرقے کو، اور زبان و نسل کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں، اگر کسی بندے نے بالفرض اپنے فلاحی کاموں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر لیا تو ایسی کون سی آفت آ گئی؟
بالکل! اسنے کسی نیک کام کو مزید نیک کام کرنے کیلئے مثال کے طور پر استعمال کر بھی لیا تو کونسی قیامت آگئی۔ زورداری اور نورا کشتی اپنی ذات سے کوئی ایک بھی نیک کام دکھا دیں تو وہ اسبار ووٹ کے مستحق ٹھہر سکتے ہیں۔
 
یہ میرے لڑکپن کا زمانہ ہے ۔ پاکستان کا ایک میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہورہا تھا۔ پاکستان مشکل حالت میں بیٹنگ کررہا تھا اور منجھے ہوئے بلے باز ایک ایک کرکے مخالف کے باولرز کا نشانہ بن رہے تھے۔ ایسے میں ایک کھلاڑی نے وکٹ پر کھڑے ہوکر رنز بنانے شروع کیے اور کئی اچھے شاٹ لگائے۔ شائقین کی امیدیں اس سے قائم ہوگئیں۔ پاکستان کی امیدیں اس سے وابستہ ہوگئیں۔ اس سنے بھی مایوس نہیں کیا۔ اور تیزی سے رنز بنانے شروع کیے۔ شائقین کا ہجوم اس کھلاڑی کے نعرے لگارہا تھا۔ پی ٹی وی پر یہ میچ دیکھتے ہوئے شائقین پرجوش ہورہے تھے۔ نعرے لگارہے تھے۔ وہ کھلاڑی اب سنچری بنانے کے قریب تھا ۔ لوگ اس کی کامیابی کے لیے دعا گو تھے کہ اس کی کامیابی پاکستان کی کامیابی تھی۔ بالاخر لوگوں نے دھڑکتے دلوں کے ساتھ دیکھا کہ کھلاڑی نے ایک شاندار شاٹ کھیل کر اپنی سنچری مکمل کی۔ شائقین جذبات سے بے قابو ہورہے تھے نوجوان شائقین اس کھلاڑی کا منہ چوم لینا چاہتے تھے۔ ایک کمسن لڑکا اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا اور باونڈری کے باہر لگی سلاخوں کو پار کرکے میدان میں داخل ہوگیا۔ ایک ایک سیکورٹی کی صورت حال بن گئی۔ ٹی وی کیمرے اس بچے پر مرکوز ہوگئے وہ بچہ بھاگتا ہوا وکٹ پر ایا۔ وہ اپنے ہیرو کھلاڑی سے صرف ہاتھ ملاکر شاباش دینا چاہتا تھا۔ وہ پاکستان کے لیے کھیلنے والے کھلاڑی کومبارک دینا چاہتا تھا۔ لڑکا کھلاڑی کے پاس ایا۔ کھلاڑی نے گھما کر ایک لات اس بچے کی کمر پر رسید کی۔بچہ ہکا بکا رہ گیا۔ سیکورٹی اہلکاروں نے اسکو دبوچ لیا۔ٹی وی کیمرا نے زوم کیا اور کھلاڑی کے چہرے کو ٹی وی اسکرین پر بڑا کیا۔ میں سکتے میں رہ گیا۔ یہ عمران خان تھا۔

جاری-----

گزشتہ سے پیوستہ

اس کمسن لڑکے کی بددعا عمران کو لگی اور عمران کی ٹانگ خراب ہوگئی جس کی وجہ سے وہ کئی سال تک کرکٹ کھیلنے سے محروم رہا۔ منظربدلتا ہےا ور عمران اسٹریلیا میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی قیادت کررہا تھا۔ رمضان کا مہینہ ہے اور کچھ ایسے ایونٹس ورلڈ کپ میں ہوتے ہیں کہ پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ جاتا ہے۔ لوگ رمضان کے روزوں میں پاکستان کی کامیابی کی دعائیں کرتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے بھی سیمی فائنل میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ پاکستان ٹیم فائنل میں ائی اور لوگوں کی دعاوں کی بدولت کامیاب ہوئی۔ عمران کامیابی کاکپ لے کھڑا ہے۔ قوم کو امید ہے کہ پاکستان کی بات کرے گا قوم کی بات کرے گا۔ کم ازکم کھلاڑیوں کی ہمت کی بات کرے گا مگر کپتان کے منہ سے اپنے کام ہی نکلے۔ کہا کہ اللہ نے مجھے یہ کامیابی اس لیے عطا کی ہے کہ میں اپنا اسپتال مکمل کرلوں۔ صرف اپنی بات۔ یہ عمران ہے۔
جاری---
 

آبی ٹوکول

محفلین
انسان فطری طورپر معاشرے کی فلاح کے لیے سوچتا ہے ۔ یہی اس کے انسان ہونے کی دلیل ہے۔ پاکستان میں فلاحی کام کرنے والوں میں عبدلستار ایدھی، چھیپا، سیلانی، ہمدرد ٹرسٹ سمیت لاتعداد ہیں جو کروڑوں لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کم ہے لوگ ہیں جھنوں نے اپنے ان فلاحی کاموں کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا بلکہ یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ واحد نام جو نظر اتا ہے جس نے اپنے فلاحی کاموں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا وہ عمران ہے۔
--------------
جاری ہے۔
تعصب انسان کو اس قدر جہل میں مبتلا کرسکتا ہے کبھی سوچا نہ تھا ؟؟؟
ارے خدا کے بندے سیاست تو حقیقت میں نام ہی فلاح کا ہے نہ کہ اس کے سوا کوئی ایسا تصور جوانسانی فلاح و بہبود کے علاوہ کوئی اور ثمر دے ؟؟؟ اور نہ ہی وہ تصور جو کہ پاکستان اور اس جیسے پسماندہ معاشروں میں سیاست کہ نام پریکٹس کیا جاتا ہے۔ سیاست تو نام ہے فلاح ،بہبود اور خدمت انسانی کا یعنی معاشرے میں ایک ایسا نظام برپا کرنا جو کہ آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرتے ہوئے معاشرئے کو عدل و مساوات کی راہ پر چلانے میں ممد و معاون ثابت ہو کہ جس کی بدولت ریاست کا ہر ہرشہری اپنے تمام حقوق کو یکساں طور پرانجوائے کرئے ۔ اس کےسوا سیاست اور کس چڑیا کا نام ہے ؟؟
کیا اس بے غیرتی کا جو کہ 65 سالوں اس ملک پر سیاست کہ نام پر منافقت کی صورت میں مسلط ہے ؟؟؟
اگر یہی ہے تو پھر واقعی عمران نے فلاح کے کام کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے بطور زینہ استعمال کرتے ہوئے ایک سنگین غلطی کی ہے کیونکہ اس قوم کی یہ اوقات ہی نہیں ہے کہ اس کی تقدیر یا قسمت بدلی جائے بلکہ اس اس قوم کا وہی مستقبل ہے جو کہ مثل مشھور کہ مطابق بادشاہ سلامت سے " لتریش " کرنے والے آدمیوں کی بڑھوتری کا مطالبہ کرتی ہے نہ کہ ظلم کہ خلاف احتجاج ۔۔والسلام
 
بیٹے ابھی میری تحریر جاری ہے میں نے ختم تو نہیں کردی۔ مجھے امید ہے کہ اپ یہ تعصب کا جھوٹا الزام واپس لےکر معذرت کریں گے۔
جب تحریر ختم ہوجائے پھر تبصرہ کرنا
 

شمشاد

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ

اس کمسن لڑکے کی بددعا عمران کو لگی اور عمران کی ٹانگ خراب ہوگئی جس کی وجہ سے وہ کئی سال تک کرکٹ کھیلنے سے محروم رہا۔ منظربدلتا ہےا ور عمران اسٹریلیا میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی قیادت کررہا تھا۔ رمضان کا مہینہ ہے اور کچھ ایسے ایونٹس ورلڈ کپ میں ہوتے ہیں کہ پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ جاتا ہے۔ لوگ رمضان کے روزوں میں پاکستان کی کامیابی کی دعائیں کرتے ہیں۔ پاکستانی کھلاڑیوں نے بھی سیمی فائنل میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ پاکستان ٹیم فائنل میں ائی اور لوگوں کی دعاوں کی بدولت کامیاب ہوئی۔ عمران کامیابی کاکپ لے کھڑا ہے۔ قوم کو امید ہے کہ پاکستان کی بات کرے گا قوم کی بات کرے گا۔ کم ازکم کھلاڑیوں کی ہمت کی بات کرے گا مگر کپتان کے منہ سے اپنے کام ہی نکلے۔ کہا کہ اللہ نے مجھے یہ کامیابی اس لیے عطا کی ہے کہ میں اپنا اسپتال مکمل کرلوں۔ صرف اپنی بات۔ یہ عمران ہے۔
جاری---
ملتان میں بے گناہ مرنے والے لڑکے کی بددعا کس کو لگے گی؟
 

آبی ٹوکول

محفلین
بیٹے ابھی میری تحریر جاری ہے میں نے ختم تو نہیں کردی۔ مجھے امید ہے کہ اپ یہ تعصب کا جھوٹا الزام واپس لےکر معذرت کریں گے۔
جب تحریر ختم ہوجائے پھر تبصرہ کرنا
معذرت تو میں آپ سے ابھی کرلیتا ہوں آپ بڑے ہیں سو دل آزاری پر معذرت خواہ ہوں پرپھر بھی معذرت کہ ساتھ عرض کروں گا کہ تعصب تو آپکی تحریر کے ایک ایک حرف سے ٹپک ہی رہا ہے وہ الگ بات ہے کہ آپکو آپکا تعصب بتلایا جائے تو آپ ناراض ہوجاتے ہیں اور معذرت کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اس فورم پر آپکی تحریک انصاف کے خلاف تحریریں گواہ ہیں کہ آپ انصاف کہ تقاضے ملحوظ نہ رکھتے ہوئے فقط مبنی بر تعصب تنقید فرمارہے ہیں جو کہ محض تنقید برائے تنقید کہ ضمرے میں آتی ہے خیر ایک بار پھر ایڈوانس میں معذرت والسلام
 
معذرت تو میں آپ سے ابھی کرلیتا ہوں آپ بڑے ہیں سو دل آزاری پر معذرت خواہ ہوں پرپھر بھی معذرت کہ ساتھ عرض کروں گا کہ تعصب تو آپکی تحریر کے ایک ایک حرف سے ٹپک ہی رہا ہے وہ الگ بات ہے کہ آپکو آپکا تعصب بتلایا جائے تو آپ ناراض ہوجاتے ہیں اور معذرت کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اس فورم پر آپکی تحریک انصاف کے خلاف تحریریں گواہ ہیں کہ آپ انصاف کہ تقاضے ملحوظ نہ رکھتے ہوئے فقط مبنی بر تعصب تنقید فرمارہے ہیں جو کہ محض تنقید برائے تنقید کہ ضمرے میں آتی ہے خیر ایک بار پھر ایڈوانس میں معذرت والسلام

کوئی تعصب نہیں ٹپک رہا ہے۔ یہ صرف حقیقت تحریر کی ہے۔ اپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اپ نے اپنا ذہن پہلے ہی بنالیا ہے۔
جب میں لکھ رہا ہوں کہ تحریر جاری ہے ۔ اس سے پہلے ہی الزامات بے معنی ہیں۔ جب تحریر مکمل ہوجائے تو اپ تبصر ہ ضرور کریں۔ بدقسمتی سے ہم لوگوں کا ذہن بناہوتا ہے اور اس سے اگے کی سوچ نہیں سکتے۔
اپ صرف الزام پر الزام لگارہے ہیں۔ مجھےنہیں لگتا کہ اپ جیسوں کی رویہ کی وجہ سے میں اپنے خیالات اچھے طریقے سے ضابطہ تحریر میں لاسکوں۔ شاید یہی اپ کا مطمع نظر ہے
 

آبی ٹوکول

محفلین
میں نے ذہن بنا لیا اورآپ جو اتنے دنوں سے مسلسل ایک ہی پارٹی کہ خلاف لکھے جارہے ہیں وہ بنے ہوئے ذہن کا شاخسانہ نہیں بلکہ آپ پر الہامات مسلسل کا تسلسل ہے،واہ جی واہ لگے رہو بھائی ویسے بھی آپکے اکثر مراسلات کو نظر انداز کرتا ہون اب بھی سہی ۔۔والسلام
 
میں نے ذہن بنا لیا اورآپ جو اتنے دنوں سے مسلسل ایک ہی پارٹی کہ خلاف لکھے جارہے ہیں وہ بنے ہوئے ذہن کا شاخسانہ نہیں بلکہ آپ پر الہامات مسلسل کا تسلسل ہے،واہ جی واہ لگے رہو بھائی ویسے بھی آپکے اکثر مراسلات کو نظر انداز کرتا ہون اب بھی سہی ۔۔والسلام

بیٹے جب نظرانداز کرنا ہے تو جواب پر جواب نہیں لکھے جاتے :)
 
گزشتہ سے پیوستہ

شوکت خانم میموریل ہسپتال بلاشبہ ایک اچھا کارخیر ہے۔ یہ ہسپتال نادار اور مستحق لوگوں کو مفت سہولت فراہم کرتا ہے جبکہ برداشت کرنے والوں سے فیس بھی وصول کرتا ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کا واحد ہسپتال ہے اور اس میں ایک ریسرچ سینٹر بھی ہے۔ خوش ائند بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس قسم کے اور بھی پرائیوٹ ہسپتال کام کررہے ہیں ۔ کئی کمیونیٹی ہسپتال بھی مفت سہولت فراہم کرتے ہیں۔ مگر ان تمام اداروں کا دائرہ کارمحدود ہے۔ بنیادی طور پر صحت اور تعلیم کی فراہمی حکومت کا کام ہے اور پرائیوٹ ادارے چاہے کتنے ہی پراثر اچھے ہی کیوں نہ ہوں عوام کو سہولت کی فراہمی کو یکساں انداز میں فراہم کرنے میں ناکام ہی رہتے ہیں۔ افراد جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت یہ ذمہ داری ادا نہیں کررہی تو اپنی سطح پر فلاحی کام کرتے ہیں۔ عمومی طور پر پاکستان میں فلاحی کام کرنے والوں کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا بھلا کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے لہذا وہ اپنے فلاحی کام پر کوئی خدمت وصول نہیں کرنا چاہتے نہ کوئی فائدہ۔

جاری۔۔۔
 

وجی

لائبریرین
یہ میرے لڑکپن کا زمانہ ہے ۔ پاکستان کا ایک میچ کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہورہا تھا۔ پاکستان مشکل حالت میں بیٹنگ کررہا تھا اور منجھے ہوئے بلے باز ایک ایک کرکے مخالف کے باولرز کا نشانہ بن رہے تھے۔ ایسے میں ایک کھلاڑی نے وکٹ پر کھڑے ہوکر رنز بنانے شروع کیے اور کئی اچھے شاٹ لگائے۔ شائقین کی امیدیں اس سے قائم ہوگئیں۔ پاکستان کی امیدیں اس سے وابستہ ہوگئیں۔ اس سنے بھی مایوس نہیں کیا۔ اور تیزی سے رنز بنانے شروع کیے۔ شائقین کا ہجوم اس کھلاڑی کے نعرے لگارہا تھا۔ پی ٹی وی پر یہ میچ دیکھتے ہوئے شائقین پرجوش ہورہے تھے۔ نعرے لگارہے تھے۔ وہ کھلاڑی اب سنچری بنانے کے قریب تھا ۔ لوگ اس کی کامیابی کے لیے دعا گو تھے کہ اس کی کامیابی پاکستان کی کامیابی تھی۔ بالاخر لوگوں نے دھڑکتے دلوں کے ساتھ دیکھا کہ کھلاڑی نے ایک شاندار شاٹ کھیل کر اپنی سنچری مکمل کی۔ شائقین جذبات سے بے قابو ہورہے تھے نوجوان شائقین اس کھلاڑی کا منہ چوم لینا چاہتے تھے۔ ایک کمسن لڑکا اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکا اور باونڈری کے باہر لگی سلاخوں کو پار کرکے میدان میں داخل ہوگیا۔ ایک ایک سیکورٹی کی صورت حال بن گئی۔ ٹی وی کیمرے اس بچے پر مرکوز ہوگئے وہ بچہ بھاگتا ہوا وکٹ پر ایا۔ وہ اپنے ہیرو کھلاڑی سے صرف ہاتھ ملاکر شاباش دینا چاہتا تھا۔ وہ پاکستان کے لیے کھیلنے والے کھلاڑی کومبارک دینا چاہتا تھا۔ لڑکا کھلاڑی کے پاس ایا۔ کھلاڑی نے گھما کر ایک لات اس بچے کی کمر پر رسید کی۔بچہ ہکا بکا رہ گیا۔ سیکورٹی اہلکاروں نے اسکو دبوچ لیا۔ٹی وی کیمرا نے زوم کیا اور کھلاڑی کے چہرے کو ٹی وی اسکرین پر بڑا کیا۔ میں سکتے میں رہ گیا۔ یہ عمران خان تھا۔
جاری-----


ایسے لڑکے پر تو امارتی شورتا چھوڑ دینا چاہیئے تھا ویسے ہی جیسے میانداد کے چھکے کے بعد توصیف احمد صاحب پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔
کاش کہ عمران نے بلا اس لڑکے کے سر پر دے مارا ہوتا ۔
 

پردیسی

محفلین
محترم ایچ اے خان صاحب
اس میں آپ کی لکھی ہوئی کوئی بھی بات جھوٹ نہیں ہے۔میں آپ سے اب تک سو فیصد متفق ہوں۔
بقیہ تحریر کا فیصلہ پڑھنے کے بعد
 

شمشاد

لائبریرین
ایسے لڑکے پر تو امارتی شورتا چھوڑ دینا چاہیئے تھا ویسے ہی جیسے میانداد کے چھکے کے بعد توصیف احمد صاحب پر چھوڑ دیا گیا تھا ۔
کاش کہ عمران نے بلا اس لڑکے کے سر پر دے مارا ہوتا ۔
شورتا نہیں شرطہ (پولیس کا سپاہی)
 
Top