نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 227
عالم میں یہ شعر پڑھتا ہوا سنا جاتا ہے
فما الناس بالناس الذین عھدتہم
ولا الدار بالدار التی کنت اعرف
(اب نہ وہ میرے شناسا لوگ ہیں ، اور نہ میرا جانا پہچانا وہ گھر ہی رہ گيا ہے)
بنی مخزوم کا یہ سردار اپنے وطن میں اجنبی اور اپنے گھر میں پردیسی بن گیا ہے وہ اس مکہ کو بھی نہیں پہچان پا رہا ہے ، جہاں کا وہ معزز شہری اور رئیس تھا ، وہ سوچتا ہے کہ کاش وہ بیت اللہ ، وہ حطیم ، وہ حجر اسود ، وہ بیر زمزم ، وہ قریشی سرداروں کی مجلسیں دکھائی دیتیں جن میں وہ مسلمانوں کو ستاتے اور چھیڑتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جن میں وہ بھی شریک ہوتا تھا ، وہ اسلامی مکہ کو دیکھ کر کبھی سوچتا ہے کہ میں کہیں غلطی سے راستہ تو نہیں بھول گیا ہوں؟
اسے اپنی گزشتہ زندگی یاد آتی ہے جب وہ محمد کے دین کو عربی قومیت اور قریشی عصبیت کے لئے سب سےبڑا خطرہ سمجھتا اور اسلامی نظام کو نسب و وطن کے جاہلی نظام اور قریشی مملکت کے محدود دائرے کے لئے چیلنج جانتا تھا۔
وہ عزت و فضیلت کو صرف عربوں کی میراث سمجھتا اور دوسروں کو عجمی اور گنوار قرار دیتا تھا جو کسی قدر دانی اور کسی رحم و کرم کے مستحق نہ تھے ، وہ اپنے خیالات کی وجہ سے جاہلیت کے دفاع میں اسی لئے سب سے آگے تھا ، وہ اسلام کے دوررس انقلابی نتائج کو پہلے ہی بھانپ گیا تھا کہ اسے آخر اس حد تک کامیابی ہو گی کہ جاہلیت اپنے مرکز ہی میں غریب الدیار اور نا آشنائے روزگار ہو جائے گی،
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 228
ابو جہل انہی خیالات میں گم تھا ، اور جب یہ سلسلہ ٹوٹا تو اس میں ایک بار پھر جاہلی نخوت ابھری اور اس کی روح نے انگڑائی لی اور کعبہ سےلپٹ کر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف دہائی دیتے ہوئے کہنے لگا، ہمارا دل زخمی اور ہماری روح مجروح ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کعبہ کا چراغ بھجا دیا اور اس کی قدرو منزلت خاک میں ملا دی ، انہوں نے قیصر و کسری اور ملوک و سلاطین کے محلات کھنڈر بنا دئیے۔ اور "ان الحکم الا للہ وان الارض للہ یورثھا من یشاء "کہہ کر ہمارا نظام کہنہ ہی ختم کر دیا انہوں نے ہمارے نوجوانوں پر ایسا سحر کیا کہ وہ ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے اور ان کے دین اور ان کی شخصیت کے گرویدہ ہو کر رہ گئے ، کیا لا الہ الا اللہ ، سے بھی بڑھ کر کوئی کفر ہو سکتا ہے جسے پڑھنے کے بعد ایک خدا کے سوا وہ تمام خدا غیر معتبر ٹھہرتے ہیں ، جو قوموں کی تاریخ میں مذکور ہیں ، انہوں نے آبائی دین کا نام ہی مٹا کر رکھ دیا، لات و منات کی عزت خاک میں ملا دی کاش دنیا ان سے اس کا بدلہ لیتی ! عجیب بات ہے کہ انہوں نے محسوس اور مشہور خداؤں کا تو انکار کیا لیکن ان دیکھے خدا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔ اور ایمان بالحاضر کو ایمان بالغیب کے مقابلے پر کمتر بتایا ، آخر اس غیب کی اساس اور نا مشہور کا وجود کیونکہ مانا جا سکتا ہے؟ کیا غائب کو سجدہ کرنا سادہ لوحی اور وہم پرستی نہیں ؟ کیا کسی غائب کے سامنے کسی آدمی کو سجدے میں وہ لذت مل سکتی ہے جو سنگ و خشت کے اصنام تراشیدہ کے سامنے ملتی ہے؟
سینہ ما از محمد داغ داغ
از دم او کعبہ را گل شد چراغ
از ہلاک قیصر و کسری سود !
نوجواناں راز دست ماربود!
ساحر و اندر کلامش ساحری است
ایں دو حرف لا الہ خود کافری است
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 229
تا بساط دین آبا ور نورد
با خدا وندان ماکرو آنچہ کرد!
پاش پاش از ضربتش لات و منات
انتقام ازوے بگیر اے کائنات
دل بغائب بست واز حاضر گست
نقش حاضر را فسون او شکست
دیدہ بر غائب فرو بستن خطاست
آنچا ندردیدہ می ناید کجاست
پیش غائب سجدہ برون کوری ست
دین نجکوراست و کوری دوری است
خم شدن پیش خدائے بے جہات
بندہ راذو قے نہ بخشا ایں صلات
ابو جہل کہتا ہے ، محمد کا دین وطنیت اور قومیت کے لئے موت ہے اور وہ خود قریشی ہو کر غلاموں کی عزت کرتے ہیں ، اور امیر کو فقیر پر ، عربی کو عجمی پر ترجیح نہیں دیتے ، اپنے غلام کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں ، افسوس انہوں نے احرار عرب کی قدر افزائی نہیں کی اور عجمی گنواروں اور کالے غلاموں کو ان کا ہمسر بنا دیا اور سفید فام آقاؤں کو کالے بھجنگے غلاموں سے کریم کو لئیم سے ، اور برتر کو کمتر سے ملا دیا اور عربوں کی ناک کٹوا دی ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ اسلامی اخوت محمد نے عجمی تخیل سے لی ہے ، وہ سلمان فارسی اور ان جیسے عجمیوں کے فریب خوردہ ہیں ، اور انہوں نے اپنی ذہنی اپچ سے عربوں کے لئے مصیبت کھڑی کر دی ، اس ہاشمی جوان نے اپنی قیمت اور حیثیت کو خود ختم کیا اور اسے اس کی نمازوں کی سادہ لوح بنا دیا ، کیا کسی عجمی کا شجرہ نسب ہمارے جیسا ہو سکتا ہے؟ کیا وہ نطق اعرابی اور لہجہ مضری میں بات کر سکتا ہے؟ عرب دانشور و ! اٹھو اور محمد کے وحی و الہام کو اپنے پروپیگنڈے سے ختم کر دو اور عربیت کو زندہ کر دکھاؤ:۔
مذہب او قاطع ملک و نسب
از قیرش و منکر از فضل عرب
درنگاہ اویکے بالا و پست
با غلام خویش بریک خواں نشست
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 230
قدر احرار عرب لشناختر
باکلفتان حبش در ساختہ
احمراں بار سوداں آ میخ تند
آبروئے دو دمانے ریختند!
ایں مساوات ایں مواخات عجمی است
خوب می دانم کہ سلماں مزدکی است
ابن عبد اللہ فریبش خوردہ است
رستخیزے بر عرب اوردہ است
عزت ہاشم زخود مہجور گشت
ازدو رکعت چشم شاں بے نور گشت
اعجمی را اصل عدنانی کجاست
گنگ را گفتار سحبانی کجاست
چشم خاصان عرب گردیدہ کور
برنیائی اے زہیر از خاک گور؟
اے تو مارا اندریں صحرا و لیل
بشکن افسون نوائے جبرئیل
وہ حجر اسود سے کہتا ہے کہ تو ہماری ہاں میں ہاں کیوں نہیں ملاتا؟ ہبل سے کہتا ہے ، اے ہمارے معبود اکبر! تم کیوں نہیں اٹھ کر ان بے دینوں سے اپنا پرانا گھر چھین لیتے اور ان پر ہلہ بول دیتے ہو؟ تم اپنے ساتھیوں کو لیکر آگے بڑھو یا کوئی آندھی بھیج دو جو انہیں تہس نہس کر کے رکھدے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے لات و منات ! خدارا تم ہمارے دیس کو چھوڑ مت جانا اور اگر اس کے لئے مجبور بھی ہو جاؤ تو للہ ہمارے دلوں سے مت کوچ کرنا اور یہاں سے بھی جانا ہے تو کچھ اور ٹھہرجاؤ کہ تمہیں ایک نظر بھر کر دیکھ لیں :۔
باز گو اے سنگ اسود باز گوئے
آنچہ دیدم از محمد باز گوئے
اے ہبل ! اے بندہ را پوزش پذیر
خانہ خود راز بے کیشاں بگیر
گلہ شان را بگر گاں کن سبیل
تلخ کن خرمائے شاں را پر نخیل
صر صرے دہ باہوائے بادیہ
انھم اعجاز نخل خاویہ
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 231
اے منات اے لات ازیں منزل امرو
گرز منزل میری ازول مرو!
اے ترا اندر دو چشم ما وثاق
مہلتے ان کنت از معت الفراق

____________________________________
جاوید نامہ
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 213
پہلی اسلامی فوج کی قیادت تھی اور بدر کے میدان میں صف آرائی کے بعد خلوت عریش میں جا کر سجدے میں گر کر اپنے خدا سے رو رو کر عرض کیا : "الھم ان تھلک ھٰذہ العصابۃ لن تعبد " ( اے خدا اگر یہ جماعت آج ہلاک ہو گئی تو پھر دنیا میں تیری عبادت نہ ہو سکے گی )
چنانچہ طارق بن زیاد نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور سرداد صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کرتے ہوئے ایسی دعا مانگی جسے عام طور پر قائد اور فاتح نہیں مانگا کرتے اور نہ کسی کو اس کا خیال آتا ہے اقبال نے اس عروس جمیل کو لباس حریر پنہا کر اور دلا آویز بنا دیا ہے، طارق نے اپنی دعائیں کہا کہ ۔۔۔۔۔اے خدا ! یہ بندے جو تیرے راستے جہاد کے لئے نکلتے ہیں اور تیری رضا ڈھونڈتے ہیں یہ پراسرار بھی ہیں ، اور صاحب اسرار بھی ہیں ان کی حقیقت اور ان کی مقام تیرے سوا کوئی نہیں جانتا ، تو نے انھیں عالی ہمتی اور بلند پروازی سکھائی ہے ، اس لئے وہ عالمی سیادت اور عالمگیر حکومت الٰہیہ سے کم پر راضی نہیں ہوں گے ، یہ لطل غیورہ وہ ہیں ، جو تیرے سوا کسی سے نہیں دبتے اور کسی کی نہیں سنتے، صحرا و دریا ان ٹھوکرؤں کے اشارے پر چلتے ہیں ، اور ان کی ہیبت اور رعب و دبدہ سے پہاڑ بھی گرد ہو جاتے ہیں ، تو نے انھیں اپنی محبت کا آشنا بنا کر دو عالم سے بیگانہ بنا دیا ، ذوق شہادت اور شوق جہاد کے سوا دنیا اور دنیا کی حکومت بھی ان کے لئے کوئی چیز نہیں ، اور محبت دل میں گھر کرنے کے بعد کچھ کرتی ہے ۔
یہی ایک دُھن ہے ، جو انھیں اس دور اس دوررانہ ملک تک لے آئی ہے، یہ لگن مومن کی آخر خواہش اور سب سے بڑی آرزو ہوتی ہے ۔
دنیا ہلاکت کے دہانے اور تباہی کے غار پر کھڑٰی ہے ، انھیں اس میں گرنے سے عرب اپنی دے کر اور خون بہا کر ہی بچا سکتے ہیں ، دنیا عربی خون کے لیے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 214
پیاسی ہے، اس کی تشنگی اور بیماری اسی مقدس خون سے دور ہو سکتی ہے ، خیاباں و بیاباں میں لالہ و گل اسی سرخ خون کے منتظر ہیں کہ اسے اپنا غازہ رخسار بنائیں ہم اس سر زمین میں اس لئے آئے ہیں کہ اپنے جسم و تن کا بیج بوئیں اور خونِ دل سے اس کی آبیاری کریں تاکہ انسانیت کی مرجھائی ہوئی کھیتی لہلانے لگے اور خزاں کے طویل عہد کے بعد بہاریں لوٹ آئیں ۔
یہ غازی یہ تیری پر اسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مال غنیمت ، نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیے اس کو خونِ عرب سے
اے خدا! تو نے صحرا نشینوں اور اونٹوں کے چرواہوں پر اپنے وہ مخصوص انعام کئے جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ،تو نے انھیں ، نیا علم ، نیا ایمان اور نیا طرز زندگی بخشا ، تو نے انھیں اذانِ سحر کی دولت دی جو علم صحیح ، ایمان قوی ، اور ذوق سلیم سے عاری، دنیا میں توحید کی کھلی دعوت ہے ، جو لوگوں کو غفلت و جہالت کی نیند سے بیدار کرتی ہے ، عربوں نے اس کے سہارے دنیا پر چھائے ہوئے موت کے سناٹے کو توڑا اور اندھیریوں میں ڈوبی ہوئی دنیا کو صبح نو کی بشارت دی ، زندگی نے حرکت و حرارت کھو دی تھی ، اور اس کی محرومی پر صدیاں گزر چکی تھیں بالاآخر اس نے عربوں کے سوز دروں اور جگر لخت سے اپنی نئے سفر کا آغاز کیا اور ایمان و محبت کو حاصل کیا ، یہ مجاہد موت کو زندگی کی انتہا اور جان کا زیاں نہیں سمجھتے بلکہ اسے نئی زندگی کا فتح باب اور
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 215
عیش کا سامان جانتے ہیں ، یارب ٖ ! امت مومنہ کو پھر ایمانی حمیت اور بغض فی اللہ دے جس کا ظہور دعائے نوح میں ہوا تھا کہ انھوں نے دل برشتہ ہو کر کہا تھا " رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیاراہ " تاکہ یہ فوج عالم کفر و فساد کیلئے برق ساعقہ فگن بن جائے انھیں عزم و یقین دے اور لوگوں میں ان کا وہ رعب قائم فرما کہ ان کی نگاہ سپاہ اور ان کی للکار تلوار بن جائے :-
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا !
خبر میں ، نظر میں اذانِ سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انھیں کے جگر میں
کشا دورِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرہ لاتذر میں !
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے
(بال جبریل )
اس مومن و مخلص قائد کی دعا قبول ہوئی اور اسلامی فوج اپنے اس دشمن کے مقابلے میں کامیاب ہوئی جو طاقت اور عددی اکثریت میں اس سے کئی گنا بڑا تھا اور عیسائی اندلس ، اسلامی اور عربی اندلس بن گیا ، اور مسلمانوں کی وہ پائدار حکومت قائم ہوئی جو صدیوں تک رہی اور پھر اس کا خاتمہ اسی وقت ہوا جب طارق اور اسکے ساتھیوں کی روح ان میں باقی نہیں رہی اور وہ نصب العین یاد نہیں رہا جو انھیں یہاں تک لایا تھا ، جذبہ ایمانی کا فقدان ، طاؤس ورباب کے مشاغل اور خانہ جنگیوں نے حکومت کے ساتھ ہی مسلمانوں کا وجود یہاں تک خطرے میں ڈال دیا کہ ایک متنفس بھی باقی نہ رہا ، غافلوں اور خود فراموشوں کے ساتھ خدا کا ہمیشہ یہی معاملہ رہا ہے ، " ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا"۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 216
ساقی نامہ

ساقی نامہ اقبال کی منتخب نظموں میں شمار ہوتا ہے ، خیالات و افکار کی پختگی اور قطیعت تو اس میں نمایاں ہے ، ادبی ، اور فنی لحاظ سے بھی اردو میں ایک منفرد شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے ، یہ شاید اردو میں پہلا "ساقی نامہ" ہے ، جس میں اس روایت کی بنیاد ڈالی گئی ہے ، اردو کے علاوہ خؤد فارشی میں بھی ظہوری وغیرہ کا ساقی نامہ ، اپنی بہت محدود دنیا رکھتا ہے ، لیکن اقبال کی عبقریتِ فکر کا کمال یہی ہے کہ وہ جس ٍ ٍ صنفِ سخن کو ہاتھ لگاتے ہیں اسے بلند تر کر دیتے اور لفظ و معنی کی دنیا میں اپنے جہان نو کی بیناد رکھ دیتے ہیں ، دارسی اور اردو میں میر حسن اور نسیم کی یاد دوسری مثنویاں صرف بیانیہ حیثیت بیچ بیچ میں غزلیں لکھنا پڑتی ہیں ، اس کے برخلاف اقبال نے مثنوی میں قصیدہ اور غزل دونوں کی روح کو برقرار رکھا ہے ، اور مثنوی کو سیدھی اور سپاٹ ہونے سے بچا لیا ہے، الفاظ کی رونی خیالات کی جولانی اور سیلان شعور (STREAM OF CONSCIOUSNESS)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 217
کی جو کیفیت ہے وہ اقبال ہی کا حصہ ہے ،
اقبال کی تمہید میں حدیث بہار کہتے ہین کہ موسم گل آ گیا ، دشت و جبل میں اس کے نقیب پھیل گئے ، لالہ و گل، نسرین رویاحین کی حکومت نے اپنا نقشہ جما لیا ، پتھروں اور جمادات میں بھی بہار نے زندگی پیدا کر دی ، دنیا کو فرح د سرور کی بدلیوں نے گھیر لیا ، اس نشاط افزا ماحول میں چڑیا کھونسلوں سے باہر آگئیں ، چشمے اور ندیاں سینہ کوہ سے نکل کر میدان میں زندگی کی طرح جھومتی آگے بڑھنے لگیں کبھی دھیرے اور کبھی تیز ، رکتی اور اچھلتی چٹانوں کو توڑتی اور کہساروں سے ٹکرائی اور زندگی کے نغمے سناتی ہوائیں رواں دواں ہیں ، اقبال اس نغمے پر کان لگاتے ہیں تو اس سے زندگی کا پیام سنتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ بہتے ہوئے دریا گھومتے اور مڑتے ہوئے اپنے مقامات سفر بدلتے رہتے ہیں ، لیکن زندگی اور حرکت سے خالی نہیں رہتے ، ان کا فیضان جاری اور سیلان باقی رہتا ہے ۔
زندگی کا بھی کچھ یہی انداز ہے وہ زبان و مکان کی ہر رہ گزر سے گزرتی ہے لیکن کہیں سکون پذیر نہیں ہوتی ، بہار کے ان دلکشا مناظر میں اقبال عبرت و بصیرت پالیتے ہیں اور اسے وہ اپنی امیدوں کے مرکز یعنی ملت اسلامیہ کی نئی نسل کو دیتے ہیں ۔
ہوا خیمہ زن کاروان بہار
ارم بن گیا دامنِ کوہسار
گل نرگس و سوسن و نسترن
شہید ازل ، لالہ خونین کفن
جہاں چھپ گیا پردہ رنگ میں
لہو ک ہے گردش رگ سنگ میں
فضا نیلی نیلی ہو امیں سرور
ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 218
وہ جائے کہستان ہوئی
اٹکتی ، لچکتی ، سرکتی ہوئی
اچھلتی ، پھسلتی ، سنبھلتی ہوئی
بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی
رُکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام !
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
پلا دے مجھے وہ مئے پردہ سوز
کہ آتی نہیں فصلَ گل روز روز
وہ مئے جس سے روشن ضمیر حیات
وہ مئے جس سے ہے ہستی کائنات
وہ مئے جس میں ہے سوز و ساز ازل
وہ مئے جس سے کھلتا ہے راز ازل
اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
اقبال کہتے ہیں زمانہ کا طرز و انداز بدل گیا ، یورپ کے اسرار فاش ہونے لگے اور مشرق کے خلاف اس کی سازشوں کا راز کھل گیا ، اور اس نے پورپی شوطروں کو عجیب کشمش میں مبتلا کر دیا ، مغربی سیاست کا افلاس اور اس کی کہنہ روایات کا دیوالیہ پن ایسا رسوا ہوا کہ لوگ امارت و ملوکیت کے نام سے چڑنے لگے اور امیروں اور بادشاہوں کو چیلنج کرنے لگے ، سرمایہ داری اور ذخیرہ اندوزی کا زمانہ لد گیا اور وہ ڈارمہ ختم ہوا جسے ہوس پسند بادشاہ نے صدیوں کھیلا تھا ، اور نیند کے ماتے گراں خواب عوام بھی بیداری کی کروٹیں بدلنے لگے ، ہمالہ سے زندگی کے سوتے پھر سے ابلنے لگے اور فاران کی تجلی اور سینا کی روشنی پھر ظہور کے لئے بے تاب ہونے لگ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ حسب عادت یہاں سے روئے سخن اپنی محبوب ملت اسلامیہ کی طرف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان اگرچہ توحید سے سرشار ہے ، لیکن بدعت و ثنیت کے جراثیم سے وہ پوری طرح پاک نہیں اس کے علم وثقافت اور کلام و تصوف عجمی اثرات سے محفوظ نہیں ہیں ، حقیقت پر
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 219
وہم و خرافات کا ستم اب بھی جاری اور امت پر فسون و افسانہ کا طلسم اب بھی طاری ہے ۔ خطیب و واعظ حسن کلام کا جادو جگاتے ہیں ، لیکن ذوق و شوق کے لطف و لذت سے نا آشنا ہیں ، ان کی باتیں منطق وہ فلسفہ کے آداب کے مطابق اور فصاحت کے اصول کے موافق ہیں ، لیکن قلب و روح کی گہرائیوں میں نہیں اترتیں ۔
واعظ کا ہر اک ارشاد بجا ، تقریر بہت دلچسب مگر
آنکھوں میں سرور عشق نہیں ، چہرے پہ یقین کا نور نہیں
وہ صوفی جو خدمت خلق ، تلاش حق اور غیرت دینی کے لئے مشہور تھا ، اسے عجمی فلسفے نے اپنا صیدزبوں بنا لیا ، اور احوال و مقامات میں کھو گیا، مجموعی طور سے عالم اسلام زوال کے کے اس قدر قریب آگیا کہ مسلمانوں کا سوزِ عشق بجھ چلا ، شعلہ حیات راکھ بن گیا ،اور مسلمانوں کا وجود عدم برابر ہو گیا ۔
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ
پرانی سیاست گری خوار ہے
زمین میرو سلطان سے بیزار ہے
گیا دور سرمایہ داری گیا!
تماشا دکھا کر مداری گیا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دلِ طور و سینا و فاراں دونیم
تجلی کا پھر منتظر ہے کلیم !
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنا پوش
تمدن ، تصوف ، شریعت ، کلام
بتانِ عجم کے بچاری تمام !
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 220
لبھاتا ہے دل کو کلامِ خطیب
مگر لذتِ شوق سے بے نصیب
بیان اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا
وہ صوفی تھا کہ خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا ، خمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا ،
یہ سالک مقامات میں کھو گیا
بجھی عشق کی آگ اندھیرا ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال مخلصانہ دعا کرتے ہیں کہ خدا پھر اس امت میں روح زندگی بیدار کرے اس کی عظمت رفتہ اسے واپس دلا دے اور اسکے وجود میں سوز دروں اور شعلہ محبت کو ایک بار پھر بھڑکا دے کہ وہ اس سے اپنی ثانیہ کا سامان کرے ، اور محبت کے پروں سے پروازکر کے وہاں جہاں پہنچے جہاں گر انبار مادہ پرست نہیں پہنچ سکتے ، وہ آرزو کرتے ہیں کہ اس پسماندہ امت کو ایک بار پھر قلب علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی دھڑکن اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی دھن اور لگن عطا ہوا اور اسے دوبارہ وہ "سوزِ مشتاقی " مرحمت ہو جو زندہ قوموں کو ملا کرتا ہے ، یہاں شاعروں عزو ناز اور عشق و ایمان کے احساس سے سرشار ہو اٹھتا ہے ، اور کہتا ہے کہ " اے خدا تیرے آسمان و زمین برحق اور تیرا جلال و جبروت ابدی ہیں ، مسلم جوانوں کو بھی تو اس کا راز داں بنا اور انکے دلوں میں زندگی کا سوزو ساز اور درد و گداز پیدا کر دے اور میری جیسی محبت و دلسوزی اور حکمت و بصیرت انھیں بھی عطا کر ، میرے سفینے کو گرداب سے نکال اور منزل پر پہنچا ، اور موت و حیات کے اسرار پنہاں سے مجھے بھی آگاہ کر اس لئے تجھ سے بڑھ کر علیم و خبیر کوئی نہیں ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 232
جاہلیت کی بازگشت
شاعر اسلام اقبال نے جاوید نامہ میں جہاں اپنی سیر علوی سرگذشت لکھی ہے وہیں ، وادی زہرہ میں اس محفل کی منظر کشی بھی کی ہے جہاں اقوام کے خدایان کس جمع تھے ، جن کی جاہلی دور کے انسانوں نے پوجا کی تھی ، ان کے اصنام و مجمعے تراشتے تھے ، اور ان کے نام پر ہیکل و معبد کی تعمیر تھی ۔ ان کے اصنام کا اثر صرف وہم پرستوں تک محدود نہ تھا ، بلکہ شعر ادب میں بھی سرایت کر چکا تھا ۔​
اس وادی میں ہر شہر و دیار اور ہر زمانے کے بت جمع تھے ، مصریوں کے دیاتا ، تبغ کے خدا ، یمن کے آلہہ ، جاہلیت کے معبود ، داوی فرات کے پروردگار ، وصل و فراق کی دیویاں ، چاند و سورج اور مشتری کے ہمنام اصنام ، سبھی اس محفل میں آگئے تھے سب کی شکلیں بھی مختلف تھیں اور قوموں کے ذوق صنم گری کا پتہ دیتی تھیں ، کسی نے تلوار کھنچ رکھی تھی ، اور کسی نے سانپ کو گردن میں حمائل کر رکھا تھا ۔ ہیبیت کچھ بھی ہو حالت سب کی یکسان تھی یعنی سب کے سب اس " وحی محمدی " سے کانپ اور تھر تھرا رہے تھے​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر233

جس نے ان کے خلاف انقلاب و بغاوت کو ہوا دی تھی ، اور ان کو عیش حرام تھا ، جس نے اصنام کو نے دخل کر کے توحید کی اساس پر ایک نئی دنیا آباد کی تھی یہ تمام معبود ان باطل ذکر جمیل سے خائف اور " ضرب خلیل " سے نا خوش تھے ۔
شاعر کی اس ناگہانی زیارت کی " مردوخ " نے الہہ کو جب خوشخبری سنائی تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا " مرودخ " نے اسے اصنام کے حق میں فال نیک سمجھ کر ان سے کہنا شروع کیا " لو مبارک ہو انسان پھر خدا سے بھاگ ادھر آیا ہے اور ادیانِ سماویہ کو ٹھکرا کر پھر سے ماضی کی خرافیات ( MYTNOIORY) اور جاہلی روایات کی طرف علم و نظر کی وسعت اور آثار قدیمہ کی تلاش اور ہماری عطمتوں کی دریافت کے لئے لوٹ رہا ہے ، یہ یقیناََ امید کی ایک کرن ہے جو مدت کے بعد ہمارے ویرانے میں چمکی اور وہ بادِ مراد ہے ، جو ہماری محکوم سر زمین سے چلی ہے :۔
گفت مردوخ از یزداں گریخت
از کلیسا و حرم نالاں گریخت
یا بیفزاید بادراک و نظر !
سوئے عہد رفتہ باز آید نگرٖ !
روزگار افسانہ دیگر کشاد
می وز وزاں خاکداں باد مراد
فینقیوں اور کنعانیوں کے پرانے خدا بعل نے ہمیں سب سے پہلے خوش آمدید کہا اور خوشی میں گانے لگا اور کہنے لگا
انسان نے آسمانوں کو بھی دیکھ لیا مگر خدا وہاں بھی نہیں ملا یہ اس کا ثبوت ہے کہ انسان جس خدائی مذہب کا دعوا کرتا ہے ، وہ فریب تخیل سے زیادہ نہیں مذہب ایک خیال ہے ، اِدھر آیا اُدھر گیا ، جیسے دریا میں موجیں اٹھتی ہیں ، اور پھر دوسرے ہی لمحے فنا ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان بغیر محسوس و مشہود کے تسکین
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 234
نہیں پا سکتا ۔۔۔۔ خدا فرنگ کو سلامر رکھے اس نے مشرقیوں کو خوب سمجھا اور علم و تحقیق واکنشافات کے نام پر ہمیں ایک بار پھر زندہ کر دکھایا ، دوستو اس سنہرے موقع کو غنیمت سمجھو جو مغرب کے سیاستدانوں نے ہمارے لئے فراہم کیا ہے ۔
تم اس صوتِ حال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لو کہ اولادِ ابراہیم بھی عقیدہ توحید بھلا بیٹحی اور میثاق ازل اور پیمان الست کو فراموش کر چکی اور اس کی لذت کھو بیٹھی ، وہ فرنگ کے فیضِ صحبت سے اپنا سب کچھ لٹا چکی اور روح الامین کے آوردہ دین اور لذت ایمان و یقین کو یکسر حوالہ نسیاں کر چکی
آدم آن نیلی رابر درید
آنسو ئے گردوں خدائے راندید
در دلِ آدم بجزافکار چیست
ہمچو موج ایں سر کشید وآں رمید
جانش از محسوس می گیر و قرار
بو کہ عہد رفتہ باز آپدید
ور نگرآں حلقہ و حدت شگست
آل ابراہیم بے ذوق الست
مرد حرا فتادور بندِ جہات
باوطن پیوست و از یزداں گست
خونِ او سرداز شکوہ ویریاں
لا جرم پیر حرم زنار بست
اے خدایانِ کہن وقت است دقت!
ہبل کہتا ہے " وہ مومن آزاد کو حدود و قیود اور جہات کا کبھی قائل نہ تھا ، اور کہ خدائے خالق کائنات کے سوا کسی کو جانتا تھا ، اب وطن سے محبت ہی نہیں کرتا بلکہ اسے پوجت ابھی ہے ، اس لے لئے لڑتا بھی ہے لیکن خدا کو کبھی ۔۔۔۔۔۔ بھولے سے بھی یاد نہیں کرتا ۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 235
آج سارا عالم اسلام دانش فزنگ کا اسیر ہو چکا ہے ، اور اس کے علاوہ علما، شیوخ بھی تقلید مغرب پر اتر آئے ہیں ، یہ ہمارے لئے سنہرا موقع اور ساعت سعید ہے ، ہمیں آج خوشی منانے کا حق ہے کہ دین نے شکست کھائی اور قومیت و وطنیت کی فتح ہوئی اور محمد کے لئے سیکڑوں بولہبی آندھیاں امنڈنے لگیں ہم "لاالہ الااللہ" کی آواز سنتے ہیں ، لیکن وہ دل کی آواز نہیں بلکہ حرف زیر لب سے آگے کچھ نہیں ، اور جو دل میں نہیں ہوتا وہ زبان پر بھی زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتا سحر فرنگ نے دنیا پر ایک بار پھر تاریکی کی حکومت مسلط کر رکھی ہے ، اور دین کو بے دخل بنا دیا ہے ، ہمارے وہ پیرو بہت اچھا کر رہے ہیں ، جو دنیا چھوڑ کر خلوتوں اور غاروں میں جا بیٹھے ہیں ، ہم نے اپنے بندوں کو مطلق تصرف اور کامل آزادی دی تھی اور طاعت و عبادت کے بوجھ سے انھیں سبکدوش رکھا تھا ، ہم نے سنجیدہ عبادت کے بدلے گانے اور بھجن کو رواج دیا تھا ، اور رقص و سرود کو بھی مقدس بنا دیا تھا ، ہم اس بے مزہ نماز کے قائل نہ تھے ، جس میں نغمہ و مو سیقی نہ ہو ہمارا اثر انسانوں پر اب تک باقی ہے اور وہ غیر مشہور خداپر موجود مشہودیت کو ترجیح دیتے ہیں ۔
در جہاں باز آمد ایام طرب
دیں ہزیمت خورداز تگ و نسب
از چراغ مصطفے اندیشہ چسیت
زانکہ اور اپف زندہ صوبولہب!
گرچہ می اید صدائے لا الہ ،
آنچہ از دل رفت کے ماند بہ لب
بہر من راز زندہ کرو افسون غرب
روز یزداں زرد رواز بیم شب
بند دیں از گردیش باید کشود
بندہ مابندہ آزاد بود !
تا صلوٰت اور اگراں آید ہمی
رکعتے خواہم وآں ہم بے سجود
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 236
جذبہ ہا از نغمہ می گرد و بلند
پس چہ لذت در نمازِ بے سرود ؟
از خداوندے کہ غیب اور اسزد
خوشترآں دیوے کہ آیدد رشہود
اے خدایانِ کہن وقت ست وقت!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 237
ایک لمحہ جَمالُ الدین افغانی کے سَاتھ
اقبال نے پیر رومی کے ساتھ اپنی فکری اور روحانی سیاحت میں ماضی کی عظیم شخصیات اربابِ مذاہب و فلسفہ اور سیاسی لیڈروں اور ادبی تحریکوں کے علمبردار سے ملاقاتیں کیں اور پھر اس اچھوتی وادی میں پہنچے جہاں آدمی کے قدم نہیں پہنچے تھے ، اس میں فطرت کا جمال اپنی اصل و حقیقت کے ساتھ موجود تھا ، پہاڑ اور میدان، چمن زارا اور آبشار سب دل کو موہ رہے تھے ، شاعر کو تعجب ہوا کہ یہ دنیائے رنگ و نور ہزاروں سال سے انسانی تمدن اور صنعتی سرگرمیوں سے خالی ہی چلی آرہی ہے ۔​
جمال فطرت ، فضا کی لطافت ، آبشاروں کے ترنم و تکلم ، اور وادی کی دلبری و رعنائی نے شاعر کو بہت متاثر کیا ، اسی اثناء میں وہ اپنے شیخ رومی کی طرف متوجہ ہو کر دور سے آنے والی آواز اذاں پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ میرے کان غلط تو نہیں سن رہے ہیں ، رومی ان سے تسلی دینے کے انداز میں کہتے ہیں کہ یہ تو صلحا اور اولیاء کی وادی ہے اور اس سے ہمارا بھی قریبی رشتہ ہے ، اس لئے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top