نقد و نظر ۔ 3 ۔ سید فصیح احمد کا افسانہ "کابوس" ۔

(ثاقب نے دستخط کر کے ڈاک وصول کر لی۔ ڈاک ایک ہلکے وزن کا لفافہ تھا۔ ثاقب نے دری کے پاس پڑے طلائی چولہے پر کیتلی میں چائے بننے کو رکھی اور لفافہ اٹھا کر اس کا ایک سرا چاک کیا ، دوہرا تہ کیا ہوا ایک ورق جھول میں آ گرا۔ اسی اثنا میں چائے کو جوش آ چکا تھا، ثاقب نے ایک پیالی میں چائے انڈیلی اور ساتھ ساتھ ورق سیدھا کر کے پڑھنے لگا۔ ثاقب جوں جوں تحریر کو پڑھتا جاتا اس کی آنکھیں حیرت سے کھلتی جاتیں۔ اس نے پیالی کو جھٹ سے نیچے دھرا اور غور سے عبارت پڑھنے لگا۔ جب تک خط کا تمام متن اس نے پڑھا اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو چکا تھا۔ فوراً بے جی کو اٹھا کر ساری کہانی سنا ڈالی کہ چند ماہ قبل اس نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر کے عہدے کے لیئے کوائف جمع کرائے تھے۔ انٹرویو بھی ہوا تھا مگر کوئی قابل ذکر جواب نہ ملا۔ آج جب کہ ثاقب اس بات کو بھول چکا تھا اچانک اس کمپنی کی طرف سے اپائنٹ منٹ لیٹر موصول ہوا۔ دس روز بعد دفتر میں حاضر ہونے کا لکھا تھا۔ بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں)

میرے حساب سے یہ غیر ضروری تفصیلات ہیں۔ ایک بات جو مجھے کھٹکی ہے وہ طلائی چولھا ہے۔ لفظی معانی میں تو یہ سونے کا بنا ہوا ٹھہرتا ہے۔ جس گھر کے چولھے سونے کے بنے ہوں وہاں تو خادموں اور خادماؤں کی فوج ہونی چاہئے اور ایسے لوگوں کو نوکری سے کیا لینا دینا! ؟؟

"بے جی غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں، پھر بولیں۔۔" یہاں سے نیا پیراگراف شروع کیجئے۔
 
اس سطر کے بعد باقی عبارت تک نگاہ پہنچ نہیں سکی، اچانک کمرے میں گھپ اندھیرا ہو گیا، اس کے دماغ میں آیا کہ شائد بجلی چلی گئی ہے۔ اس نے نوکر کوآواز دی،
"ارے بھئی یہ لائٹ کیوں بند کر دی؟ "
" نہیں صاحب کہاں بند کی ، جل تو رہی ہے!! "
اس کے اعصاب سن ہو چکے تھے۔ کچھ ہی لحظہ میں جو روشنی لوٹی تو ثاقب نے فوراً اپنے کاغذات سنبھالے اور کسی کو بتائے بغیر واپس وطن روانہ ہو گیا، چند ہی گھنٹوں میں وہ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا ۔۔۔ تمام سفر اس نے سوائے چند الفاظ کے کسی سے کچھ بات نہ کی۔ بوا نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی اس کی نگاہ صحن میں رکھے پلنگ پر پڑ گئی ۔۔ اس کے اعصاب ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ وہ بڑی مشکل سے پلنگ تک پہنچا ۔۔۔ بے جی سفید لبادہ اوڑھے آرام کر رہی تھیں۔ وہ ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ ثاقب کی آنکھیں خشک تھیں۔ جیسے کسی نخلستان سے چشمہ کوچ کر گیا ہو اور باقی ریت ہی ریت رہ جائے! ۔۔ ثاقب بے جی کے چاندی بھرے بالوں میں ہاتھ سے کنگھی کرنے لگا۔ مسلسل کان لگائے منتظر رہنے کے بعد بھی جب کوئی پکار نہیں آئی تو دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے، اور پھر تو جیسے ندی سی رواں ہو گئی ۔۔۔ ثاقب زباں سے کچھ نہ کہہ رہا تھا! ۔۔۔ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ وہ بس ایک ٹک بے جی کی طرف دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔ شائد اس انتظار میں کہ ابھی بے جی اسے آواز دیں گی، مگر افسوس!! بے جی کے سرہانے آنسوؤں سے نڈھال اس سے نقاہت کے باعث آنکھیں بھی نہیں کھولی جا رہی تھیں! ۔۔

ثاقب کا غیر معمولی خواب یہاں تک چلتا ہے۔ آئیے اس خواب کا تجزیہ (لسانی کو چھوڑ کر دیگر حوالوں سے) کرتے ہیں۔
 
ثاقب کا غیر معمولی خواب یہاں تک چلتا ہے۔ آئیے اس خواب کا تجزیہ (لسانی کو چھوڑ کر دیگر حوالوں سے) کرتے ہیں۔

یہ ایک پوری متواتر اور مترتب داستان ہے۔ خواب ایسے نہیں ہوتے، پوری زمانی اور مکانی ترتیب، واقعاتی تسلسل وغیرہ جو جیتی اور جاگتی زندگی کا خاصہ ہیں۔ خوابوں میں اگر کوئی تسلسل ہو بھی تو وہ ٹکڑوں کی صورت میں ہوتے ہیں، کوئی بات کھلتی ہے کوئی نہیں کھلتی؛ کہیں کسی منظر کی تاویل کرنی پڑتی ہے کہیں اشاروں کو کسی شخص یا شے یا صورتِ حال کی طرف استعارہ کرنا پڑتا ہے۔ خواب ٹوٹنے کا عمل البتہ بالکل فطری انداز میں بیان ہوا ہے، جیسے کوئی سینے پر بیٹھ گیا ہو۔ واپسی کے عمل میں یہ جملہ واقعی عمدہ جملہ ہے۔

کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک نہیں کئی خوابوں کی کڑیوں کا حاصل ہے۔ رات سوتے وقت بھی وہی پانچ کا ہندسہ نمایاں تھا، جسے ثاقب خواب سے بیدار ہو کر دیکھتا ہے۔ افسانے کی کہانی میں یہی حصہ اہم ترین ہے۔ نا آسودہ ضرورتوں کی تکمیل کو کو ترسے ہوئے ایک شخص کی پرتعیش زندگی کی آرزو، بے جی سے بچھڑ نے کا اور پھر بے جی کے بچھڑ جانے کا خوف؛ کہانی کے سارے اہم عناصر اس حصے میں ہیں۔ ان کو اظہار کا کوئی اور انداز دیجئے یا پھر کہانی کو زمانی طور پر کسی قدر پھیلا لیجئے۔
 
آخری تدوین:
اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کے سینے پر بیٹھ گیا ہو! ۔۔۔ جب دم گھٹنے لگا تو اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ کیلنڈر پر پانچ تاریخ کا بڑا ہندسہ ابھی تک کسمسا رہا ہے ۔۔ !! اس کا سارا لباس بھیگا ہوا تھا ۔ فوراً سے بے جی کے پلنگ کی طرف دیکھا تو انہیں گہری نیند میں گُم پایا۔ ان کے پلنگ کے پاس پہنچا اور بہت دیر تک خاموشی سے ان کا چہرا دیکھتا رہا۔
" شکر ہے مالک ، یہ سب محض خواب تھا! "
بے جی کے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ واپس اپنی دری پر سونے کے لیئے دراز ہو گیا۔

کیا دیکھتا ہے کہ ۔۔۔۔ زائد
کسمسا رہا ہے ۔۔۔ کو ۔۔۔۔ کسمسا رہا تھا ۔۔۔۔ کر لیجئے۔ کہ آگے پیچھے سارا فعل ماضی چل رہا ہے، اسی کا تسلسل قائم رہے۔
فوراً سے ۔۔۔۔۔۔ سے زائد،
گہری نیند میں گم ۔۔۔ گم زائد

اور ہاں یہ جملہ بہت قیمتی ہے۔ بہت زیادہ داد و تحسین کا مستحق: یہ سب خواب تھا ۔۔ اس پر اطمینان کا اظہار کہ میری بے جی سلامت ہیں تو مجھے کسی شے کی کوئی پروا نہیں۔ افسانے کو انتہا تک پہنچا کر وہیں مکمل کر دینے کا انداز بہت اچھا ہے۔ میری (محمد یعقوب آسی کی) بھیگی ہوئی آنکھیں آپ کے اس جملے پر جمی ہیں اور میں مسکرا بھی رہا ہوں۔

"شکر ہے مالک، یہ سب خواب تھا" بے جی کے ماتھے پر بوسہ دے کر وہ واپس اپنی دری پر سونے کے لیئے دراز ہو گیا۔
 
حضور کج ساڈے واسطے وہ چھڈ دینا سی :)
مذاق برطرف آپ نے بہت درست تجزیہ کیا اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائیش ہی نہیں رہ جاتی یہ آپ کا ہی حصہ تھا اور اس کا حق آپ نے ادا کر دیا سید فصیح احمد جی خیالات میں جان ہے الفاظ کا الٹ پھیر بھی آ جائے گا اللہ کرے زور قلم زیادہ
 
حضور کج ساڈے واسطے وی چھڈ دینا سی :)
مذاق برطرف آپ نے بہت درست تجزیہ کیا اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی یہ آپ کا ہی حصہ تھا اور اس کا حق آپ نے ادا کر دیا سید فصیح احمد جی خیالات میں جان ہے الفاظ کا الٹ پھیر بھی آ جائے گا اللہ کرے زور قلم زیادہ
تہانوں کیہڑا روک سکدا اے سرکار! تسیں وی غصہ کڈھ لئو (میرے تے)۔
آپ کی محبت ہے شاہ جی، کہنے کو کیا کچھ باقی ہے، یہ تو کہنے والے پر منحصر ہے۔ سید فصیح احمد نے بکمالِ مہربانی موقع فراہم کر دیا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
سر محمد یعقوب آسی صاحب نے جس محبت اور محنت سے ایک ایک لفظ کو پرکھا ہے اس کا کوئی مول نہیں۔ خواب کا ہر لحاظ سے مکمل تجزیہ کیا جا چکا ہے۔ میں اس میں کچھ اضافہ کرنے کے قابل تو نہیں۔ بس یہی کہوں گا کہ مینجر کے مرتبے تک پہنچنے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ کوئی سرکاری ملازمت تو نہیں کہ کوئی سفارشی کو کسی وزارت سے نواز دیا جائے۔ مزید جب ملٹی نیشنل کمپنی کا تڑکا بھی لگ گیا تو کوئی بھی کمپنی سیدھا مینجر کے عہدے پر فائز نہیں کرتی۔ اس کو دیکھ لیجیے گا۔
 
سر محمد یعقوب آسی صاحب نے جس محبت اور محنت سے ایک ایک لفظ کو پرکھا ہے اس کا کوئی مول نہیں۔ خواب کا ہر لحاظ سے مکمل تجزیہ کیا جا چکا ہے۔ میں اس میں کچھ اضافہ کرنے کے قابل تو نہیں۔ بس یہی کہوں گا کہ مینجر کے مرتبے تک پہنچنے کے لئے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہ کوئی سرکاری ملازمت تو نہیں کہ کوئی سفارشی کو کسی وزارت سے نواز دیا جائے۔ مزید جب ملٹی نیشنل کمپنی کا تڑکا بھی لگ گیا تو کوئی بھی کمپنی سیدھا مینجر کے عہدے پر فائز نہیں کرتی۔ اس کو دیکھ لیجیے گا۔

مناسب مشورہ ہے۔
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
محبت ہے آپ کی جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
۔۔
آج تو دل بہت بوجھل ہے، بعد میں بات کریں گے، ان شاء اللہ۔

حاضری میں دیر ہونے کے لیئے معذرت استاد محترم! میرا دل تو اب تک بوجھل ہے استاد محترم ۔۔۔ بہت کوشش کرتا ہوں خود کو سمجھانے کی کہ،
؎
دلِ ناداں ! تو سمجھتا ہی نہیں دنیا کو
کون رکھتا ہے بھلا کس کی خبر، جانے دو

مگر احساسات اور اعصابی حالت دونوں ہی منتشر ہیں! اللہ رحم کرے۔ آمین!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
بات شروع کرتے ہیں۔
سید فصیح احمد کے افسانے کا ہم پر اتنا حق تو ضرور ہے کہ اس پر تفصیل سے بات ہو۔

استاد محترم میں ایک طالب علم ہوں۔ جذباتی تشنگی کو مٹانے کے لیئے قلم اٹھاتا ہوں۔ لکھنا ایک سنجیدہ عمل ہے فقط خواہش کامیاب نہیں کرتی۔ اچھے استاد کی راہنمائی لازمی ہے۔ آپ نے ہمیشہ ایک مہرباں راہنما کی طرح راہنمائی فرمائی ہے۔ آپ جب بھی ٹوکتے ہیں بہت خوشی ہوتی ہے۔ کہ اس بے دید دنیا میں کوئی تو سچائی کے ساتھ سمجھانے والا ہے۔ انگلی پکڑ کر چلنا سکھاتا ہے۔ آپ بہت محترم ہیں میرے لیئے اور مکمل اختیار رکھتے ہیں میری تحریر پر تفصیلاً بات کریں۔ استاد محترم میں خوب جانتا ہوں جب چھوٹے بچے کچھ نیا سیکھتے ہیں تو سکھانے والے سے خوب ڈانٹ بھی پڑتی ہے لیکن مہارت اس کے سوا ممکن بھی تو نہیں آپ کو ڈانٹنے کا بھی پورا حق ہے۔ :) :)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
افسانے کا عنوان بہت پرکشش ہے۔ "کابوس" (ڈراؤنا خواب)



پہلا ہی جملہ (ایم بی اے کرنے کے بعد ثاقب اب تک شہر کی تمام سڑکوں سے واقف ہو چکا تھا۔) قاری کی توجہ کو گرفت میں لے لیتا ہے، اور اسے توقع دلاتا ہے کہ ایک بہت اچھی تحریر پڑھنے کو ملے گی، تاہم ایسا ہو نہیں پاتا۔ اس نہ ہو پانے کی بڑی وجہ فاضل افسانہ نگار کے ہاں الفاظ کا غیرضروری استعمال ہے۔ (مگر وہ جائزے جن کی وجہ سے اسے شہر کا تمام نقشہ ازبر ہوا، کاروباری دورے نہ تھے بلکہ ۔۔) یہی بات تین چار الفاظ میں اور کہیں زیادہ چستی سے بیان ہو سکتی تھی۔ (انٹرویو کی پیشی پر موجود) بھائی! سیدھا کہئے "انٹرویو کے لئے" اس سے پہلے (اکثر کی طرح) مجھے تو زائد محسوس ہوا۔ اگر کچھ یوں ہوتا: "آج بھی وہ ایک انٹرویو کے لئے اپنی باری کا منتظر تھا"

اسم صفت "تنومند" کا اطلاق شخصیت پر نہیں جسم پر ہوتا ہے۔ "ماتھے پر جھریاں" یا بل؟ یا پریشانی ظاہر کرنے والی کوئی اور ترکیب؟ جھریاں یا تو عمر کا حاصل ہوتی ہیں یا طویل عرصہء آلام کا اور وہ چہرے پر، ہاتھوں پر نمایاں ہوتی ہیں۔ ماتھے پر بل یا شکنیں ہوا کرتی ہیں، اسی طرح کی صورت کاندھے ڈھلکنے کی ہے۔ یہ دونوں جملے "چست اور تنومند" سے ٹکرا رہے ہیں۔ کاندھے ڈھلکتے میں ایک عمر صرف ہوا کرتی ہے۔ اسی پیراگراف کے آخر میں لفظ "بدستور" بلاجواز ہے، فاضل افسانہ نگار شاید "متواتر" کہنا چاہ رہے ہیں۔

استاد محترم باقی سب باتیں سمجھ گیا اور آئندہ خیال رکھوں گا۔ بس یک سوال، (انٹرویو کی پیشی پر موجود) استاد محترم اس ترکیب سے میرا مقصد انٹرویوز کی کثرت سے ان کا احساس کسی عدالت میں مقدمہ کی پیشی جیسا ہو جانے کو بیان کرنا تھا۔ اگر پھر بھی یہ طریقہ ٹھیک نہیں تو بتا دیں میں آئندہ خیال رکھوں گا۔
 
آخری تدوین:

سید فصیح احمد

لائبریرین
بہت فطری اور برمحل جملہ ہے۔ اس کو نہ سراہنا سراسر ظلم ہو گا۔ تاہم میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ہم غیرمانوس لوگوں کے درمیان ہوں تو ایک دم شعر نہیں پڑھا کرتے۔

جی بہتر استاد محترم میں شعر کی جگہ کہانی کا یہ حصہ بدل لیتا ہوں۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
(وہ نوجوان یوں کوندا جیسے کرسی نہیں بلکہ سپرِنگ پر بیٹھا تھا اور ایک زمانے سے اُسے اسی پکار کا انتظار تھا ۔۔۔ !!) کوندنا بجلی کا ہوتا ہے، انسان کا اچھلنا معروف ہے۔
(اور ایک زمانے سے اُسے اسی پکار کا انتظار تھا) بہت ہی خوبصورت جملہ ہے۔
اس سے پہلے اگر کچھ یوں ہوتا!؟: (" نوید صاحب تشریف لائیں ۔۔۔۔۔ نوید صاحب!"۔ چپراسی کی آواز پر وہ نوجوان یوں اچھلا جیسے ۔۔)

جی بہتر استاد محترم میں آپ کا اشارہ سمجھ رہا ہوں اور متفق ہوں۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
جب ہم نے لکھ دیا کہ (کہیں کھو گیا) تو (وقت کا پتہ نہیں چلا) زائد ہو جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی کافی ہوتا۔ پہلے جب اس نوجوان کا نام پوچھا ہی ہے تو اس کو برتنے کا شاید یہی پہلا اور آخری موقع بنتا کہ : "نوید نامی وہ نوجوان جانے کب کا جا چکا تھا"۔ ایک دوست کا کسی تنقیدی نشست میں کہا ہوا جملہ ذہن میں آ گیا: "منظر میں اگر ایک بندوق دکھائی دے رہی ہے تو افسانہ ختم ہونے سے پہلے اسے چل جانا چاہئے۔ نہیں تو اس کو افسانے سے نکال دیجئے"۔ یعنی؟ افسانے کے مشمولات صرف ضرورت بھر ہونے چاہئیں اور جو ہیں وہ اپنے ہونے کا جواز بھی رکھتے ہوں۔
ایک اور بات جس کا بہت سارے افسانہ نگار اہتمام کرتے ہیں، کرداروں کے ناموں کی معنویت ہے۔ کسی بھی کردار کو نام کوئی بھی دیا جا سکتا ہے: ثاقب، نوید، عمر، اسلم، شہاب، قیصر، قمر؛ وغیرہ وغیرہ۔ یہ قابلِ گرفت نہیں تاہم اگر کہانی کی بُنَت میں ان ناموں کی معنویت بھی کارفرما دکھائی دے جائے تو سونے پر سہاگا! کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی ایک کردار کو کوئی نام دیا ہی نہیں جاتا، اس کی اپنی معنویت ہو سکتی ہے۔ ایک تخلیق کار کو سوچنے کی دعوت تو دی جا سکتی ہے نا!

جی بہتر استاد محترم۔بات سمجھ گیا آئندہ خیال رکھنے کی کوشش کروں گا :) ( مسکراہٹ اس لیئے کہ مجھے بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے اور جلد اگلی تحریر جائزے اور تبصرے کے لیئے پیش کروں گا نشاء اللہ!)
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
کچی بستیوں کے مسائل یقیناً اہم ہیں۔ ان کو بھی افسانوں اور کہانیوں کا موضوع بننا چاہئے اور مختلف پہلوؤں سے اجاگر کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح ایک طبقہ نظر انداز کئے ہوئے لوگوں کا ہے، ان کی تہذیبی اور معاشی اور معاشرتی اور اخلاقی پس ماندگی ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ ایسے موضوعات کا حق یوں ادا نہیں ہوتا کہ چلتے چلتے ایک آدھ سطر ڈال دی، اس کے لئے فن پارے کو مختص کیا جانا چاہئے۔ انشائیہ اور فکاہیہ کی بات البتہ مختلف ہے، ان میں جہاں ہم ایک ایک موضوع کو چھیڑتے ہوئے چلے جاتے ہیں، یہ موضوع بھی چھیڑ چلیں تو کوئی قباحت نہیں۔
اردو نثر میں افسانے کی حیثیت قریب قریب وہی ہے جو اردو شاعری میں غزل، بیت یا قطعے کی ہے۔ ہم افسانے میں کوئی بھی بات کر سکتے ہیں، شرط بھی ویسی ہی ہے جیسی غزل کے شعر کے لئے ہے کہ بات مؤثر اسلوب میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ کی جائے اور قاری کے تارِ احساس کو چھیڑا جائے۔ یوں ایک افسانہ ایک موضوع پر ہو تو اس کی تاثیر اور ابلاغ میں مضبوطی آتی ہے۔ ایک ہی موضوع کے مختلف پہلو بھی ساتھ ساتھ چلانے ہوں تو اس سے پیدا ہونے والا پھیلاؤ افسانے کی تندی کو کمزور کر سکتا ہے۔

استاد محترم یعنی کہ براہِ راست اپنے کردار کی متوسط زندگی کا ذکر کروں نا کہ کچی بستی کا حوالہ دوں کیوں کہ اس سے ایک بڑا موضوع شروع ہونے کے بعد ادھورا رہ جاتا ہے۔استاد محترم کردار کی زندگی کا ذکر اس لیئے کرنا تھا کہ پھر اسے پردیس کی رنگیں دھنک میں لے کر جانا تھا۔ تو بس فرق پیدا کرنے کے لیئے! آپ کی رائے کیا ہے؟
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
مذکورہ اقتباس پر زبان و بیان کے حوالے سے کچھ بات کر لی جائے۔

’’آٹو والے نے تمباکو کا پانی سڑک پر پچکارتے ہوئے بتایا۔ گو کہ کرایہ صرف بیس روپے بنتا تھا مگر ثاقب کو جلدی تھی اور شائد آٹو والے نے اس کے ماتھے پر لکھی تحریر پڑھ لی تھی۔ آٹو کوئی دس منٹ کے سفر کے بعد جسم کے سب پرزے ہلا دینے والی کچی بستی کی نا ہموار سڑک پر گام زن تھا، پھاٹک سےتھوڑا پہلے ہی ثاقب نے اسے رکنے کا بولا۔آٹو والے کو کرایہ دے کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ایک گلی میں داخل ہو گیا جو کہ کیچ سے تقریباً بھری ہوئی تھی، برسات نہیں بلکہ وجہ میونسپلٹی کی لا پروائی تھی۔‘‘

پچکارنا کا معروف معنی بہلانا ہے، جب کہ یہاں صاحبِ تحریر کا مقصد پچکاری مارنا یا تھوکنا ہے۔ بیس اور چالیس کے اعداد میں پڑنے سے بہتر طریقہ کچھ ایسا ہو سکتا تھا کہ: ’’آٹو والے نے اس کی کیفیت کو بھانپ لیا اور دُگنا کرایہ بتایا‘‘۔ یہاں یہ کہا گیا کہ ثاقب جلدی میں تھا، مگر اس جلدی کی کوئی وجہ مذکور نہیں ہے، اور نہ اس کی طرف کوئی اشارہ ہے۔ ’’رکنے کا بولا‘‘ یہ بھی شستہ اردو نہیں ہے صاحب! کراچی اور گردونواح میں کہنا، بولنا، بات کرنا ان سب کے لئے ’’بولا‘‘ چلا دیتے ہیں، وہ بات دوسری ہے۔ ادیب کی ذمہ داریوں میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ درست اور شستہ زبان لکھے نہ کہ خود بھی ناشستہ لہجے کے پیچھے چل پڑے۔ مرزا غالب کا وہ جملہ آپ کے علم میں بھی رہا ہو گا: ’’جاؤ میاں! کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں‘‘۔ ادب کی زبان قلعے کی ہو نہ ہو، اس کو شستہ ضرور ہونا چاہئے۔
دس منٹ، بیس روپے، چالیس گز، چھ روٹیاں؛ ایسی گنتی جو ضروری نہ ہو، افسانے کو بوجھل کر دیتی ہے۔ محاورے کا غلط استعمال باذوق قاری کو بہت گراں گزرتا ہے۔ گامزن کسی شخص، کارواں وغیرہ کے لئے تو درست ہے، آٹو رکشا کے لئے نہیں۔ ایک خوبصورت لفظ بھی موقع محل سے ہٹ کر استعمال کیا جائے تو اس کا حسن جاتا رہتا ہے۔ ’’پھاٹک سے تھوڑا ہی پہلے ۔۔۔۔ لاپروائی تھی‘‘۔ اسی منظر کو پوری جزئیات کے ساتھ بیان کیا جاتا اور اسے ثاقب کی اور اس کے محلے کے لوگوں کی زبوں حالی کے ساتھ جوڑا جاتا تو بات بنتی۔ اِس پورے منظر نامے میں میونسپلٹی کو نہ لایا جانا مناسب تر ہوتا۔ اداروں اور ان کی ذمہ داریوں کی بات کریں تو پھر جم کر کریں اور ان پر ایک نہیں دس افسانے بنائیں، بلکہ یہ اچھی بات ہو گی۔

جی استاد محترم اغلاط کو نوٹ کر رہا ہوں آئندہ خیال رکھوں گا۔
 
استاد محترم یعنی کہ براہِ راست اپنے کردار کی متوسط زندگی کا ذکر کروں نا کہ کچی بستی کا حوالہ دوں کیوں کہ اس سے ایک بڑا موضوع شروع ہونے کے بعد ادھورا رہ جاتا ہے۔استاد محترم کردار کی زندگی کا ذکر اس لیئے کرنا تھا کہ پھر اسے پردیس کی رنگیں دھنک میں لے کر جانا تھا۔ تو بس فرق پیدا کرنے کے لیئے! آپ کی رائے کیا ہے؟
میرا مطلب یہ تھا کہ "یوں حق ادا نہیں ہوتا" آپ نے ٹھیک کیا، اشارات دے دیے، اسی سے تو افسانے کے مرکزی کردار کی شخصیت کا کچھ اندازہ ہوا ہے۔
یہ موضوع اتنا بڑا ہے کہ صرف اسی موضوع پر کئی افسانے لکھے جا سکتے ہیں، جیسے منشی پریم چند نے کیا ہے۔
 
اسی بات کو ایک اور پہلو سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں:

’پھاٹک سے تھوڑا ہی پہلے ۔۔۔۔ لاپروائی تھی‘‘۔ اسی منظر کو پوری جزئیات کے ساتھ بیان کیا جاتا اور اسے ثاقب کی اور اس کے محلے کے لوگوں کی زبوں حالی کے ساتھ جوڑا جاتا تو بات بنتی۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
میرا مطلب یہ تھا کہ "یوں حق ادا نہیں ہوتا" آپ نے ٹھیک کیا، اشارات دے دیے، اسی سے تو افسانے کے مرکزی کردار کی شخصیت کا کچھ اندازہ ہوا ہے۔
یہ موضوع اتنا بڑا ہے کہ صرف اسی موضوع پر کئی افسانے لکھے جا سکتے ہیں، جیسے منشی پریم چند نے کیا ہے۔

جی بہتر استاد محترم اس بات پر کچھ دیر سوچتا ہوں پھر اگر کوئی سوال ہوا تو آپ سے پوچھوں گا۔
 
Top