نفس

ناعمہ عزیز

لائبریرین
نفس پرستی انسان کی فطرت ہے ، اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس فطرت سے آزاد ہیں ، اپنی مست دنیا میں مگن اس سے لو لگا کے اس دنیاوی سفر کے اختتام کا انتظار کر رہے ہیں ، یہ زمین کسی بشر کے لئے ایسی ہی ہے، جیسے کسی مسافر کے لمبے سفر کی تھکن سے آرام لینے کو چند لمحے کسی پیڑ کے نیچے سستا لینا ، جیسے فضاؤں میں سفر کرتے کسی جہاز کا چند گھنٹے بادلوں پر رینگنا، موت اور زندگی کے درمیان بس اتنا ہی فاصلہ ہے ، مگر اس فاصلے میں نفس پرستی حائل ہو گئی ہے ، بندہ موت کی فکر ہی نہیں کرتا، وہ ایسا نفس کی بھوک مٹانے میں مصروف ہے کہ خود کو ہی بھول گیا ، وہ کیا ہے کیوں ہے ! یہ کونسا سفر ہے جو وہ طے کر رہا ہے ؟ اور اس کی منزل کیا ہے ؟ یہ کونسا امتحان ہے جو وہ دے رہا ہے ، اور نتیجہ کیا ہو گا ؟ یہ کونسی آزمائش ہے جس سے وہ گزر رہا ہے ! اور کیا وہ اس میں سرخرو ہو پائے گا ؟

یہ سوال تو ذہن میں آتا ہی نہیں ، ضمیر کو لوریاں دئیے رکھتا ہے ، سو جا سو جا ! کہ کہیں جو ضمیر جاگ جائے گا تو نفس پرستی چھوڑنا پڑ جائے گی ، کہیں جو عدالت لگ گئی تو جواب دینا پڑ جائے گا ، کہیں جو ناکام ہوئے تو پچھتاوں کی آگ میں جلنا پڑ جائے گا !!

ہر بندے نے اپنا شیطان پال رکھا ہے ، فرق یہ ہے کسی کا بہت بڑا ہے ، کسی کا درمیانہ کسی کا ذرا چھوٹا ، اور اسی شیطان کا نام ہے نفس !

یہ دراصل نفس کی خواہشات ہیں کہ جن کے پیچھے بھاگتا انسان اپنی ہڈیاں گلا دیتا ہے ، لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا ، ایک کے بعد ایک ، پھر ایک کے بعد دو، دو کے بعد چار اور یوں ان گنت ، بے انتہا خواہشات ، نا ختم ہونے والی ، مگر سانسوں کی ڈوری کا وقت مخصوص کر دیا گیا ہے ، بندے کو پاپند کر دیا گیا ہے ، حدود لاگو ہے ، بندہ بشر ان کو پاٹ نہیں سکتا مگر پاٹنے کی کوشش ہی میں گرتا ہے ، اٹھتا ہے ، اور پھر انہی راستوں پر چلنے لگتا ہے، یہ بات جانتے ہوئے کہ نفس پرستی کا سفر ختم نہیں ہو جائے گا ، یہ تو لا محدود سفر ہے ، یہ وہ سڑک ہے جس کا کوئی اختتام ہی نہیں ، یہ وہ بازار ہے جہاں گلیاں ہی گلیاں ہیں ،چھوٹی بڑی ، یہ نہ ختم ہونے والا موسم ہے ، یہ وہ پہاڑ ہے جو اونچے سے اونچا چلا جاتا ہے، مگر رکتا نہیں ، ٹھہرتا نہیں ، بس بندے کو رکنا پڑتا ہے ، جب وہ بے بس ہو جاتا ہے ، لاچار ہو جاتا ہے ، جب نفس پرستی کے پیچھے بھاگتے وہ تھک جاتا ہے ، اور جب اس کا وقت قریب آجاتا ہے ، جب اسے اس فانی زندگی سے لافانی دنیا میں بھیجنے کا وقت اس کے سر پہ آن پہنچتا ہے تو شاید تب اس پر ادراک کے دورازے وا ہوتے ہیں کہ بندہ بشر کا پیٹ صرف مٹی سے بھر سکتا ہے ورنہ دنیا کی کوئی شے ایسی نہیں جو اس کی بھوک کو ختم کر سکے ۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سلمان حمید

محفلین
لو جی، کل ملا کے تین دفعہ پٍڑھ چکا ہوں اور رائے ایک ہی ہے میری۔ بہت وزنی ہے،اور میرے لیے ہضم ہونا مشکل ہے لیکن بہت عمدہ لکھا ہے بانو قدسیہ جی :) :applause:
 

نایاب

لائبریرین
بٹیا رانی بہت دعائیں
دو تین بار پڑھا ۔ اور یہی احساس ہوا کہ سوچ کے پرندے نے خیال کی وادیوں میں اڑان تو خوب بھری ۔ مگر "نفس" نے اظہار کے جال میں پھانس لیا ۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرواز تھم گئی ۔
بلا شبہ اچھا لکھا آپ نے مگر جانے کیوں کہین کچھ کمی سی لگی ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ مونو بلی کہاں ہے بھلا اسکی بڑی بہن ہے ۔ بے خبرادا سہیلی :p
یہ بڑی والی مانو بلی ہیں نا۔ پہلے لکھتا تھا کہ بڑی مانو بلی، پھر خیال آیا کہ کہیں کوئی بڑی مانو بلی کو باگڑ بلی نہ سمجھ لے اور ناعمہ بہن ناراض ہو جائیں :)
 
Top