نعیم صدیقی نعت: میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں ٭ نعیم صدیقیؒ

ہے مضطرب سی تمنا کہ ایک نعت کہوں
میں اپنے زخموں کے گلشن سے تازہ پھول چنوں
پھر ان پہ شبنمِ اشکِ سحر گہی چھڑکوں
پھر ان سے شعر کی لڑیاں پرو کے نذر کروں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

کھڑا ہوں صدیوں کی دوری پہ خستہ و حیراں
یہ میرا ٹوٹا ہوا دل یہ دیدۂ گریاں
یہ مُنفعِل سے ارادے یہ مضمحل ایماں
یہ اپنی نسبتِ عالی یہ قسمتِ واژوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

یہ تیرے عشق کے دعوے، یہ جذبۂ بیمار
یہ اپنی گرمیِ گفتار، پستیِ کردار
رواں زبانوں پہ اشعار، کھو گئی تلوار
حسین لفظوں کے انبار، اڑ گیا مضموں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

نہ سامنے کوئی منزل، نہ راستہ معلوم
نہ رہزنوں کی خبر ہے، نہ رہنما معلوم
یہ کیا مقام ہے اپنا نہیں پتہ معلوم
یہ کیا زمین ہے آخر یہ کون سا گردوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

پہن کے تاج بھی غیروں کے ہم غلام رہے
فلک پہ اڑ کے بھی شاہیں اسیرِدام رہے
بنے تھے ساقی مگر پھر شکستہ جام رہے
دل و نگاہ پہ طاری فرنگیوں کا فسوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں


ترے مقام کی عظمت بھلا کے بیٹھے ہیں
ترے پیام کی شمعیں بجھا کے بیٹھے ہیں
ترے نظام کا خاکہ اڑا کے بیٹھے ہیں
ضمیر شرم سے پُر داغ، قلب ہے محزوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

عقیدتیں ترے ساتھ، اور کافری بھی پسند
قبول نکتۂ توحید، بت گری بھی پسند
ترے عدو کی گلی میں گداگری بھی پسند
نہ کارساز خِرد ہے، نہ حشر خیز جنوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

یہاں کہاں سے مجھے رفعتِ خیال ملے
کہاں سے شعر کو اخلاص کا جمال ملے
کہاں سے قال کو گم گشتہ رنگِ حال ملے
حضورؐ ایک ہی مصرع یہ ہو سکا موزوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 
ہے مضطرب سی تمنا کہ ایک نعت کہوں
میں اپنے زخم کے گلشن سے تازہ پھول چنوں
پھر ان پر شبنمِ اشکِ سحر گہی چھڑکوں
پھر ان سے شعر کی لڑیاں پرو کے نذر کروں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

کھڑا ہوں صدیوں کی دوری پہ خستہ و حیراں
یہ میرا ٹوٹا ہوا دل یہ دیدۂ گریاں
یہ مُنفعِل سے ارادے یہ مضمحل ایماں
یہ اپنی نسبتِ عالی یہ قسمتِ ویراں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

پہن کے تاج بھی غیروں کے ہم غلام رہے
فلک پہ اڑ کے بھی شاہیں اسیرِدام رہے
بنے تھے ساقی مگر پھر شکستہ جام رہے
دل و نگاہ پہ طاری فرنگیوں کا فسوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

یہ ان سے پیار کے دعوے، یہ جذبۂ بیمار
یہ اپنی گرمیِ گفتار، پستیِ کردار
رواں زبانوں پہ اشعار، کھو گئی تلوار
حسین لفظوں کے انبار، اڑ گیا مضموں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

نہ سامنے کوئی منزل، نہ راستہ معلوم
نہ رہزنوں کی خبر ہے، نہ رہنما معلوم
یہ کیا مقام ہے اپنا نہیں پتہ معلوم
یہ کیا زمین ہے آخر یہ کون سا گردوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

عقیدتیں بھی ترے ساتھ کافری بھی پسند
قبول نکتۂ توحید، بت گری بھی پسند
ترے عدو کی گلی میں گداگری بھی پسند
نہ کارساز خِرد ہے، نہ حشر خیز جنوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

یہاں کہاں سے مجھے رفعت خیال ملے
کہاں سے شعر کو اخلاص کا جمال ملے
کہاں سے قال کو گم گشتہ رنگ حال ملے
حضورؐ ایک ہی مصرع یہ ہو سکا موزوں
میں ایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے کہوں

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
لاکھوں کروڑوں درود خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر۔
 

یاقوت

محفلین
نعیم صدیقی صاحب کا وہ کلام مل سکتا ہے جس کا شعر ہے
گزرے نہ تیری یاد سے خالی کوئی لمحہ
ایسا کوئی کانٹا میرےپہلو میں چبھودے
 

یاقوت

محفلین
ایک اخبار میں پورا کلام پڑھا تھا سارا کلام ہی بے مثال تھا لیکن اس شعر کی کاٹ اتنی ظالم تھی بغیر کوشش کے اندر تک اتر گیا اور اب بھی پر خمار کردیتا ہے اسی لیے پورے کلام کی بات کی تھی محترم۔
اگر مل جائے تو عید ہو جائے ۔نعیم صاحب کی کیا بات ہے الفاظ ہی نہیں مل رہے انکی الفاظ کی تاثیر پر بات کرنے کو۔
اللہ انہیں کروٹ کروٹ اعلی درجات عطا فرمائیں۔پہلا تعارف ان سے نہم جماعت کی ایک غزل سے ہوا تھا۔
اے خواہش سرشار خدا دیکھ رہا ہے
اے قلب فسوں کار خدا دیکھ رہا ہے۔
بہت ساری تنہائیوں کو اس غزل نے گرمایا اور اشکایا ہے ۔
 
Top