نعت برائے فنی اصلاح

نعتِ رسول مقبول صلی اللہ برائے فنی اصلاح

مجھے ایک صاحب نے اپنا لکھا ہوا نعتیہ کلام دیا ہے کہ اس کی اصلاح کروالوں۔۔۔

نذرانہٴ عقیدت
بحضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم

خدا کا لاریب نور ہیں اور منیرِ شمس و قمر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
یہ دل ہمارا بھی ہو منور جو ڈالیں اس پر نظر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

بروزِ محشر تو ہوں گے فائز مقامِ محمود پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
کہ سب ستایش کریں گے ان کی، ہیں ایسے محبوبِ برّ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

جو ہے نہایت سفید، میٹھا، اُسے جو پی لے، نہ پھر ہو پیاسا
وہ جامِ کوثر پلانے والا، نہیں ہے کوئی مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

نہیں ہے اُن سا حسین کوئی، نہیں اُن سا جمیل کوئی
ہے اُن کی سیرت بھی خوب سیرت، ہیں خوب سے خوب تر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

ہے سب سے پیارا یہ نام اُن کا، سمجھ سے بالا مَقَام اُن کا
یہ راز تو بس خدا ہی جانے، بزرگ ہیں کس قدر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

وہ طورِ سینا پہ ”لَنْ تَرَانِیْ“، یہ شب ہے معراج کی سہانی
خدا کا ناظر نہیں ہے کوئی مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

ہے کیا یہ دیوار، عرش سے بھی پرے یہ ان کی نظر ہے جاتی
ارے! نہ ضد کر، یقین کرلے! ہیں غیب سے باخبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

یہ نَحْل پھولوں کے پھیکے رس سے بہت ہی شیریں عَسَل بنائے
مگر یہ شیریں تبھی ہے ہوتا، درود بھیجے وہ بَر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

ہے سچ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر نہ ہوتے، تو کچھ نہ ہوتا بَجُز خدا کے
اُنہی کے صدقے ملے گی جنت، شفیع ہیں کس قدر محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم)

حساب، مولیٰ! مِرا نہ تُو لے، بغیر پُرسش معاف کردے
تِرے نبی سے ہے مجھ کو نسبت، گدا میں اور تاج وَر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

پڑھو! ”لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ“، یہ پوری آیت اِلٰی ”رَحِیْمٌ“
روٴف بھی ہیں، رحیم بھی ہیں، کُل اہلِ ایمان پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

حدیث ہے ”لَانَبِیَّ بَعْدِیْ“، ”نبی نہیں بعد میرے کوئی“
نبیِ اول، نبیِ آخر، صلوٰة و تسلیم بر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

قبول یہ نعت کرلیں آقا، خدا بھی راضی ہو مجھ سے آقا
ندیم احمد رہے ہمیشہ غلامِ خیر البشر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
 
ساتھ میں ان صاحب کے دو سوالات بھی ہیں۔

اول، جس طرح غزل کا ہر شعر اپنے اندر الگ مضمون رکھتا ہے، کیا اسی طرح ایک شعر کے ہر دو مصرعے جدا مضمون بیان کرسکتے ہیں؟
دوم، لفظ "شہد" بر وزن فعل (ع ساکن) استعمال ہوتا ہے۔ کیا اسے بروزن فَعَل استعمال کیا جاسکتا ہے؟

یہ نَحْل پھولوں کے پھیکے رس سے بہت ہی شیریں عَسَل بنائے
اس میں "شیریں عسل" کے بجائے "میٹھا شہد" استعمال ہوسکتا ہے؟
 

مغزل

محفلین
جناب شہد میں ہ پر حرکت نہیں ہے ۔۔ اس لئے بروزنِ زبَر نہیں باندھا جاسکتا۔ (وللہ واعلم)
باقی باتیں الف عین اور وارث صاحب بلکہ اب تو نوید صادق صاحب بھی۔۔
میری جناب سے دعائیں اور شکریہ اس ہدیہ تبرک کیلئے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے عمار صاحب، ندیم احمد صاحب کی، سبحان اللہ، جزاک اللہ خیراً۔

سبھی اشعار اچھے ہیں:

جو ہے نہایت سفید، میٹھا، اُسے جو پی لے، نہ پھر ہو پیاسا
وہ جامِ کوثر پلانے والا، نہیں ہے کوئی مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

اس شعر میں 'نہایت سفید' کی ترکیب مجھے کھٹک رہی ہے، اول تو پانی سفید ہوتا ہی نہیں، بے رنگ ہوتا ہے، دوم 'نہایت' سفید کے ساتھ شاید نہیں آتا بلکہ سفید کے ساتھ اجلا یا اس قسم کی خصوصیات ہوتی ہیں، خیر۔

ہے کیا یہ دیوار، عرش سے بھی پرے یہ ان کی نظر ہے جاتی
ارے! نہ ضد کر، یقین کرلے! ہیں غیب سے باخبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

پہلے مصرعے کی بندش انتہائی سست ہے، دوسرا 'یہ' حشو ہے اور بالکل اچھا نہیں لگ رہا۔ 'ارے' کا استعمال بھی قابلِ غور ہے۔

اب آپ کے سوالات کا جہاں تک تعلق ہے، تو 'نعت' کیلیئے کوئی فارم یا ہیت مقرر نہیں ہے، چاہے غزل کے فارمیٹ میں کہیں یا نظم کے، اگر غزل میں ہے تو غزل کے لوازمات تو آ ہی گئے، اور اگر ہر شعر میں جدا مضمون ہے تو بجا لیکن 'غزلِ مسلسل' بھی ہوتی ہے اس لیئے اس میں تردد کی ضرورت نہیں ہے۔

'شہد' ہ کے سکون کے ساتھ ہی صحیح ہے جیسے مغل صاحب نے لکھا، دو امثال

ناسخ (بحوالہ فرہنگ آصفیہ جلد سوم)

تیرہ بختی موزیوں پر کرتی ہے نازل بلا
شہد لٹتا ہے شبِ تاریک میں زنبور کا

(بحر رمل مثمن مخذوف)


اقبال (بانگِ درا، میں اور تو)

مرا عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نَفَسِ عدم
ترا دل حرم، گروِ عجم، ترا دیں خریدۂ کافری

(بحر کامل مثمن سالم)

والسلام
 
بہت شکریہ وارث بھائی۔ سوال کا مطلب یہ تھا کہ کیا ایسا شعر بھی ہوسکتا ہے جس کے ہر دو مصرعے الگ الگ مضمون رکھتے ہوں۔
 
ہے کیا یہ دیوار، عرش سے بھی پرے یہ ان کی نظر ہے جاتی
ارے! نہ ضد کر، یقین کرلے! ہیں غیب سے باخبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

اس شعر کی تصحیح یہاں سید فراست حسین رضوی صاحب نے یوں کی ہے:

ہے کیا یہ دیوارِ ملکِ ہستی، نظر میں تھی سب عدم کی بستی
ارے! نہ ضد کر، یقین کرلے! ہیں غیب سے باخبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)

اسی طرح شعر
یہ نَحْل پھولوں کے پھیکے رس سے بہت ہی شیریں عَسَل بنائے
مگر یہ شیریں تبھی ہے ہوتا، درود بھیجے وہ بَر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
کی تسہیل یوں کی ہے کہ

یہ نَحْل پھولوں کے پھیکے رس سے بنائے شہدِ لذیذ و شیریں
مگر یہ شیریں تبھی ہے ہوتا، درود بھیجے وہ بَر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ و جزاک اللہ ۔۔۔ بہت خوب وارث صاحب اور عمار میاں ۔۔۔ آپ کی بدولت بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
والسلام
 

الف عین

لائبریرین
یہ ’بَر محمد‘ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔
کچھ اشعار کے دونوں مصرعوں میں بے ربطی ہے۔
کچھ غلو بھی ہے۔ عالم الغیب محض اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس مصرع پر اکثر علماء اعتراض کیں گے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
عالم الغیب محض اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس مصرع پر اکثر علماء اعتراض کریں گے۔

آیات قرآنی برائے مطالعہ:

عٰلم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا ۔ الا من ارتضی من الرسول فانہ یسلک من بین الایۃ سورہ جن آیت 26 27

ترجمہ : اللہ تعالی غیب کو جاننے والا ہے پس وہ آگاہ نہیں کرتا اپنے غیب پر کسی کو بجز اس رسول کے جس کو اس نے پسند فرما لیا ہو۔

عالم الغیب خبر ہے اور اس کی مبتدا ھو مخذوف ہے۔ یعنی ھو عالم الغیب۔ یہاں مبتدا اور خبر دونوں معرفہ ہیں اس لیے حصر کا معنی بھی پایا جائے گا یعنی وہی غیب کو جاننے والا ہے۔ اس سے یہ پتہ چل گیا کہ کوئی انسان خواہ وہ کتنا ذہین و فطین ہو اس کے علم و عرفان کا پایہ کتنا بلند ہو ، اس کے درجات کتنے ہی رفیع ہوں ، وہ غیب نہیں جان سکتا ، نہ اپنے حواس سے ، نہ قوت شعور سے ، نہ فراست سے ، نہ قیاس سے ، نہ عقل سے ، بجز اس کے کہ خداوند عالم ، جو عالم الغیب ہے وہ خود اس کو اس نعمت سے سرفراز فرما دے نیز یہ بھی بتا دیا کہ علم الغیب کے دروازے ہر ایرے غیرے کے لیے کھلے نہیں بلکہ وہ صرف ان رسولوں کو اس نعمت سے سرفراز فرماتا ہے جن کو وہ چن لیتا ہے۔ یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مطلب جو اس آیت سے بغیر کسی تکلف کے سمجھ آتا ہے۔
چناچہ علامہ بغوی لکھتے ہیں:
الا من یصطفیہ لرسالتہ فیظھرہ علی ما یشاء من الغیب (معالم التنزیل)
کہ اللہ تعالی جس کو اپنی رسالت کے لیے چن لیتا ہے اس کو جس غیب پر چاہتا ہے آگاہ فرماتا ہے۔
علامہ خازن لکھتے ہیں
الا من یصطفیہ لرسالتہ و نبوتہ فیظھرہ علی ما یشاء من الغیب (خازن)
علامہ قرطبی کی عبارت ملاحظہ فرمائیے
تم استثنی من ارتضاء من الرسل فاودعھم ما شاء من غیبہ بطریق الوحی الیھم (قرطبی)
پھر ان رسولوں کو ، جن کو اس نے چنا ہے مستثنی کردیا ، پس ان کو جتنا چاہا اپنے غیب کو علم بطریقہ وحی عطا فرمایا۔
ابو حیان اندلسی رقمطراز ہیں
الا من ارتضی من رسول استثناء من احد ای فانہ یظھر علی ما یشا من ذلک۔
یعنی من احد سے استثا کی گئی۔ یعنی رسول مرتضی کو جتنے غیب پر وہ چاہتا ہے مطلع کر دیتا ہے۔
علامہ ابن جریر طبری نے حضرت ابن عباس ، قتادہ اور ابن زید سے اس آیت کی یہی تفسیر نقل کی ہے:
الا من ارتضی من رسول فانہ یصطفیھم و یطلعھم علی ما یشاء من الغیب
یعنی اللہ تعالی رسولوں کو چن لیتا ہے اور انہیں غیب سے جتنا چاہتا ہے اس پر آگاہ کر دیتا ہے۔

بعض حضرات نے رائے ظاہر کی ہے کہ جن علوم غیبہ سے اللہ تعالی نے اپنے رسول کا آگاہ کیا ہے وہ فقط علوم شرعیہ ہیں وہ اس طرح رسول کریم کے علوم تکوینیہ کی نفی کرنا چاہتے ہین۔ میری گزارش ہے کہ ان حضرات نے کیا وعلم ادم الاسماء کلھا کا ارشاد الہی نہیں پڑھا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو سب کے سب اسماء سکھا دیے۔ جب آدم علیہ السلام کی یہ شان ہے جو زمین میں اللہ تعالی کے خلیفہ ہیں تو سید عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو رحمۃ للعالمین ہیں اور سارے جہانوں میں اللہ تعالی کے خلیفہ اعظم ہیں ان کے علوم و معارف کا کوئی کیسے اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ ہم آیات کو وہ معانی نہ پہنائیں جن کو ان کے کلمات قبول نہیں کرتے اور سیدھی اور صاف بات جو قرآن نے فرمائی ہے اس کو صدق دل سے تسلیم کرلیں کہ اللہ تعالی ہی تمام غیبوں کو جاننے والا ہے اور اپنے علوم غیبہ پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا بجز اپنے رسولوں کے ان کو "جتنا" چاہتا ہے علوم غیبہ عطا فرماتا ہے۔ یہ "جتنا" کتنا ہے ، اس کو اللہ تعالی نے ، جس نے دیا ہے اور اس کا رسول ، جس نے لیا ہے ، وہی بہتر جانتے ہیں۔ یہ حد بندیاں اختراع بندہ ہیں۔

از تفسیر ضیا القرآن از جسٹس پیر سید کرم شاہ الازہری

و ما ھو علی الغیب بضنین ۔سورہ التکویر آیت 24

ترجمہ : اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں۔

علامہ شبیر احمد عثمانی نے اس آیت پر جو تفسیری حاشیہ لکھا ہے وہ حضور کے علم غیب ہر اعتراض کرنے والوں کے لیے باعث ھدایت ہوسکتا ہے۔ لکھتے ہیں:
"یعنی پیغمبر ہر قسم کے غیوب کی خبر دیتا ہے ، ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے یا اللہ کے اسماء و صفات سے یا احکام شرعیہ سے یا مذاہب کی حقیقت و بطلان سے یا جنت و دوزخ کے احوال سے یا واقعات بعد الموت سے اور ان چیزوں کے بتلانے میں ذرا بخل نہیں کرتا" (تفسیر عثمانی)
 
Top