نعت برائے اصلاح

کاشف اختر

لائبریرین
نعت کے کچھ اشعار برائے اصلاح و تبصرہ حاضر ہیں ۔ اساتذہ کی خصوصی توجہ درکار ہے ۔سر الف عین ۔ محمد یعقوب آسی صاحب !


حد امکاں سے پرے تعریف ہے سرکار کی
پھر بھلا کیا ہوسکے مدحت شہ ابرار کی
ہے فراز عرش پر بالا نشیں ان کا مقام
واں تلک کیا ہو رسائی ؟ فکر کے رہوارکی
عرش ہو یا لوح و کرسی، سب ہیں ان کے منتظر
ذرے ذرے کو ہے ان کے آرزو دیدار کی
سارے عالم کی چمک ہے، ان کے رخ سے مستعار
ماہ و اختر اک تجلی ہے انہیں انوار کی
ان کی زلف عنبریں تفسیر ہے واللیل کی
قسم کھائی ہے خدا نے تاب زلف یار کی
دیکھ ان کے حلم، دشمن کے پگھل جاتے ہیں دل
ہے نرالی شان ان کی عظمت کردار کی
دشمن جاں، دوست بن جاتا ہےاک ہی وار میں
کس قدر حدت ہے ان کے عفو کی تلوار کی
مجھ کو کاشف ہو میسر ان کے در کی حاضری
آرزو اک مختصر سی ہے دل بیمار کی
 
دیکھ ان کے حلم، دشمن کے پگھل جاتے ہیں دل
یہ مصرح دیکھیں ، بے وزن ہے
بیشتر مصرعوں میں الفاظ کی نشسست اور ترتیب میں بہتری کی ضرورت ہے
 
کراچی سے نعت سے خاص ایک پرچہ نکلتا ہے، پورا نام یاد نہیں؛ اس میں نعتیہ شاعری بھی ہوتی ہے اور تفصیلی تبصرے اور راہنما مضامین بھی۔
کسی دوست کے پاس مزید معلومات ہوں تو فاضل شاعر کو مہیا فرمائیں؛ بہت نوازش۔
 
کراچی سے نعت سے خاص ایک پرچہ نکلتا ہے، پورا نام یاد نہیں؛ اس میں نعتیہ شاعری بھی ہوتی ہے اور تفصیلی تبصرے اور راہنما مضامین بھی۔
کسی دوست کے پاس مزید معلومات ہوں تو فاضل شاعر کو مہیا فرمائیں؛ بہت نوازش۔
آپ کا اشارہ غالباََ نعت رنگ کی طرف ہے.
 
جو مصرعے غیرموزون ہیں ان کی نشاندہی فرمادیں!
نیز ترتیب میں بہتری کس طرح لائی جائے؟ اس بارے کچھ رہنمائی فرمادیں ! تو بہت بہتر ہو

ہے فراز عرش پر بالا نشیں ان کا مقام
مقام بالا نشیں نہیں ہوتا، بالا ہو سکتا ہے۔ بالا نشیں وہ ہے جو مقامِ بالا پر فائز ہے

ذرے ذرے کو ہے ان کے آرزو دیدار کی
الفاظ کی ترتیب درست کیجئے۔ موجودہ صورت کو تعقیدِ لفظی کہتے ہیں۔ مصرع میں لفظ پورے کرنا ہی مقصد نہیں ہوتا۔

ماہ و اختر اک تجلی ہے انہیں انوار کی
انہی (ان ہی) میری رائے میں یہاں نون غنہ کا جواز نہیں ہے۔

دیکھ ان کے حلم، دشمن کے پگھل جاتے ہیں دل
مصرع عجزِ بیان کا شکار ہے

دشمن جاں، دوست بن جاتا ہےاک ہی وار میں
کس قدر حدت ہے ان کے عفو کی تلوار کی
رعایات مجھے تو موزوں نہیں لگیں۔ دوست بننا اور تلوار؟ ؟؟

مجھ کو کاشف ہو میسر ان کے در کی حاضری
مجھ کو سے حتی الوسع گریز کیجئے، مجھے ۔۔۔ در کی حاضری یا در پر حاضری؟

آداب
 

ابن رضا

لائبریرین
یعنی آپ بھی دیگر احباب کی طرح 'خوب ' وغیرہ کے نعرے لگا کر کنارہ کش و سبک دوش ہوجانا چاہتے ہیں:applause:مجھے تو تبصرے کا انتظار ہے :atwitsend:
ارے بھائی ایسی بات نہیں موبائیل سے زیادہ لکھنا ذرا مشکل کام ہوتا ہے اس لیے حوصلہ افزائی پہ ہی اکتفاکیا. سر آسی صاحب نے غور طلب نکات کی طرف اشارہ فرما دیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
آسی بھائی کی باتوں پر غور کیجئے۔
اس کے علاوہ غالباً یہ ان کی نظر سے بچ گئی۔
قسم کھائی ہے خدا نے تاب زلف یار کی
درست تلفظ قَ سَ م ہوتا ہے ان معنوں میں۔ یہ قِ س م کا تلفظ ہے۔
 

کاشف اختر

لائبریرین
قدرے تبدیلی کے بعد دوبارہ حاضر ہے


امکاں سے پرے تعریف ہے سرکار کی
پھر بھلا کیا ہوسکے مدحت شہ ابرار کی
ہے فراز عرش سے آگے بہت ان کا مقام
واں تلک کیا ہو رسائی ؟ فکر کے رہوارکی
عرش ہو یا لوح و کرسی، سب ہیں ان کے منتظر
ذرے ذرے کو تمنا ہے بہت دیدار
سارے عالم کی چمک ہے، ان کے رخ سے مستعار
ماہ و اختر اک تجلی ہے انہی انوار کی
ان کی زلف عنبریں تفسیر ہے واللیل کی
قسم کھائی ہے خدا نے تاب زلف یار کی
دیکھ ان کے حلم، دشمن کے پگھل جاتے ہیں دل
ہے نرالی شان ان کی عظمت کردار کی
دشمن جاں، دوست بن جاتا ہےاک ہی وار میں
کس قدر حدت ہے ان کے عفو کی تلوار کی
ہو مجھے کاشف میسر ان کے در پر حاضری
آرزو اک مختصر سی ہے دل بیمار کی​
 

کاشف اختر

لائبریرین
دشمن جاں، دوست بن جاتا ہےاک ہی وار میں
کس قدر حدت ہے ان کے عفو کی تلوار کی
رعایات مجھے تو موزوں نہیں لگیں۔ دوست بننا اور تلوار؟ ؟؟

عفو کو تلوار سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ فقط تشبیہا عفو کو تلوار کہا گیا ہے ورنہ اصل مقصود تو مشبہ یعنی عفو ہی ہے ۔اس لحاظ سے رعایت مناسب ہونی چاہئے ۔ دوست، عفو کے مناسب ہے اور وار ،تلوار کے مناسب ؟ اس بارے سر الف عین کی رائے معلوم کرنی ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
عفو کو تلوار سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ فقط تشبیہا عفو کو تلوار کہا گیا ہے ورنہ اصل مقصود تو مشبہ یعنی عفو ہی ہے ۔اس لحاظ سے رعایت مناسب ہونی چاہئے ۔ دوست، عفو کے مناسب ہے اور وار ،تلوار کے مناسب ؟ اس بارے سر الف عین کی رائے معلوم کرنی ہے
درگزر کا تعلق خطایں معاف کرکے تعلق کو بحال کرنے یا جوڑنے سے ہے اور تلوار کے وار کا تعلق قطع کرنے قلم کرنے یعنی جدا کرنے سے ہے تو دونوں کو ایک ہی مقصد کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہےمزید یہ حدت گرمی کو کہتے ہیں جبکہ تلوار کی تو کاٹ ہوتی دھار ہوتی ہے اس لیے حدت بھی بے جا ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
قدرے تبدیلی کے بعد دوبارہ حاضر ہے


امکاں سے پرے تعریف ہے سرکار کی
پھر بھلا کیا ہوسکے مدحت شہ ابرار کی
ہے فراز عرش سے آگے بہت ان کا مقام
واں تلک کیا ہو رسائی ؟ فکر کے رہوارکی
عرش ہو یا لوح و کرسی، سب ہیں ان کے منتظر
ذرے ذرے کو تمنا ہے بہت دیدار
سارے عالم کی چمک ہے، ان کے رخ سے مستعار
ماہ و اختر اک تجلی ہے انہی انوار کی
ان کی زلف عنبریں تفسیر ہے واللیل کی
قسم کھائی ہے خدا نے تاب زلف یار کی
دیکھ ان کے حلم، دشمن کے پگھل جاتے ہیں دل
ہے نرالی شان ان کی عظمت کردار کی
دشمن جاں، دوست بن جاتا ہےاک ہی وار میں
کس قدر حدت ہے ان کے عفو کی تلوار کی
ہو مجھے کاشف میسر ان کے در پر حاضری
آرزو اک مختصر سی ہے دل بیمار کی​
تبدیل شدہ صورت بھی مزید توجہ طلب ہے سارےنکات کا احاطہ کریں اپنے کلام کے ساتھ کچھ وقت گزاریں اور پھر پیش کریں
 
عفو کو تلوار سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ فقط تشبیہا عفو کو تلوار کہا گیا ہے ورنہ اصل مقصود تو مشبہ یعنی عفو ہی ہے ۔اس لحاظ سے رعایت مناسب ہونی چاہئے ۔ دوست، عفو کے مناسب ہے اور وار ،تلوار کے مناسب ؟ اس بارے سر الف عین کی رائے معلوم کرنی ہے

تشبیہ ملتی جلتی ہو تو اچھی لگتی ہے۔ تلوار کا کام تو کاٹنا ہے، عفو کاٹتا نہیں ہے۔ تشبیہ میں ایک وجہ شبہ بھی ہوتی ہے اور وہی تشبیہ کی بنیاد بنتی ہے۔
میں نے جو محسوس کیا دیانت داری سے عرض کر دیا۔ شعر آپ کا ہے، رد و قبول کا اختیار بھی آپ کا ہے۔
 
Top