نعیم صدیقی نعت: اونچی انؐ کی ذات ٭ نعیم صدیقیؒ

اونچی انؐ کی ذات
اجلی انؐ کی بات

ایک مبارک رات
کٹ گئی انؐ کے سات

اب تو ریگِ نجد
لگتی ہے بانات

اب تو جو بھی ہو
بازی دل کے ہات

باتیں بھی پیغام
نظریں بھی آیات

نظریں ہیں محدود
جلووں کی بہتات

اسود، احمر ایک
کوئی ذات نہ پات

صدق و عدل و صبر
دیں کے عنوانات

تیرے فقر کی شہ
بادشہوں کے مات

یاروںؓ کا انبوه
تاروں کی بارات

سب اہلِ اکرام
سب کے سب سادات

کیا اعلیٰ ایمان
کیا اونچے درجات

کیا جاں بخش کلام
کیا دلکش عادات!

بدلے صبح و شام
بگڑے ہیں حالات

دشمن ہیں کج کیش
بد فکر و کم ذات

ہر لمحے آلام
ہر جانب آفات

نالوں کے طوفان
اشکوں کی برسات

ژولیدہ افکار
پیچیدہ جذبات

کھوئی کھوئی صبح
سوئی سوئی رات

اپنے گل بھی خار
اپنے دن بھی رات

یہ ہے روشن دور
اک بحرِ ظلمات

ہم مسکین، فقیر
اپنی کیا اوقات

آج کے واعظ پیر
زنده لات منات

کیا کیا راز رموز
کیا کیا تاویلات

ان کا شغلِ عام
ایجادِ بدعات

بے کل بےکل جان
مضطر احساسات

ایسے میں کیا شعر؟
فن کے خالی ہات

کچھ آنسو، کچھ داغ
اپنی کیا سوغات!

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 
Top