نظم ۔ آندھی ۔۔۔ از ۔۔۔ نذیر احمد شیخ

عظیم خواجہ

محفلین
نذیر احمد شیخ کی ایک خوبصورت نظم "آندھی" بشکریہ محترم نصیر احمد صاحب یہاں پیش کی جا رہی ہے ۔ نصیر صاحب کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ نذیر احمد شیخ مزاحیہ شاعر تھے اور "حرفِ بشاش" کے نام سے اُن کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔

نذیر احمد شیخ صاحب کی کہ یہ نظم اپنی سلاست اور روانی کے اعتبار سے لاجواب ہے۔ آندھی کا جو نقشہ شاعرِ موصوف نے کھینچا ہے اور جس بے ساختگی سے یہ خوش آہنگ نظم بُنی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ساتھ ساتھ یہ نظم آج کے دور سے کچھ پرے اُس زمانے کی ہے جب زندگی کی بیشتر سہولیات تک اکثریت کی رسائی نہیں تھی لیکن زندگی تب زیادہ خوبصورت تھی۔

آندھی
نظم

کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشن دان
ناکہ بندی کرتے کرتے سب گھر ریگستان

جھاڑو جھاڑن موج منائیں اُن کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے کتھک ناچے چھاج

درہم برہم سب تصویریں، طُرفہ تر احوال
مرزا غالب اُلٹے لٹکے، سجدے میں اقبال

ایک بگولہ سب سے اولیٰ، بھوتوں کا سردار
لوٹ پلٹ کر پڑھتا جائے دنیا کے اخبار

سُنتے سُنتے شور شرابا کانوں کا یہ حال
بیگم اپنی شال منگائے نوکر لائے ڈال

اُڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چُھڑائیں رخصت ہو دستار

چھجے نے جب جھٹکا کھا کر دھڑ سے پھینکی اینٹ
مٹکے کا وہ جھٹکا دیکھا سر سے گزری چھینٹ

پیڑوں کے جب ٹہنے ٹوٹے سب کی ٹوٹی آس
اُپلے چھت سے فوراً کودے سیدھے چولہے پاس

نذیر احمد شیخ

بشکریہ نصیر احمد صاحب
مزہ آگیا بھائ واہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ احمد بھائی
آپ کا انتخاب اور آپ کا تبصرہ دونوں پہ کمال کرتے ہیں۔
اب تو مکمل نظم کا بھی انتظار رہے گا۔

محمد احمد صاحب زبردست بہت اچھی شاعری ہے ۔

مزہ آگیا بھائ واہ۔

انتخاب کی پسند آوری پر ممنون ہوں۔

بہت شکریہ آپ تمام دوستوں کا۔

ہمارے زمانے میں تو شائد نہیں تھی لیکن میرے بیٹے کی چھٹی کی اُردو کی کتاب میں یہ نظم موجود ہے۔

اچھی بات ہے تو پھر درسی کتاب سے ہی نقل کردیجے کسی دن وقت نکال کر۔ :)
 
لیجئے حسبِ وعدہ مکمل نظم حاضر ہے۔

کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشن دان
ناکہ بندی کرتے کرتے سب گھر ریگستان

ٹُوٹے پھُوٹے چھپر آئیں گھُٹتے گھُٹتے سانس
پیروں سے چمگادڑ چمٹے سر پر کھڑکیں بانس

جھاڑو جھاڑن موج منائیں اُن کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے کتھک ناچے چھاج

درہم برہم سب تصویریں، طُرفہ تر احوال
مرزا غالب اُلٹے لٹکے، سجدے میں اقبال

چھت پر ہم جو بستر ڈھونڈیں عقل ہماری دنگ
کھاٹ بچاری اُڑن کھٹولا بستر ڈور پتنگ

ایک بگولہ سب سے اولیٰ، بھوتوں کا سردار
لوٹ پلٹ کر پڑھتا جائے دنیا کے اخبار

سُنتے سُنتے شور شرابا کانوں کا یہ حال
بیگم اپنی شال منگائے نوکر لائے ڈال

سڑکوں پر حلوائی بیٹھے مفت لُٹائیں تھال
کُبڑے کُبڑے کنجڑے کھیلیں گوبھی سے فٹبال

بکھری بکھری داڑھی دیکھی، اُڑتی اُڑتی مونچھ
جتنا دابیں پنکھ پکھیرُو ، اُتنی اُچھلے پُونچھ

دنیا ساری بھُوت بنی ہے گورا کالا ایک
بنئے نے جب دھنیا تولا، مرچ مسالہ ایک

ساڑھی کھینے، چولی جھپٹے دھوبی باندھے پوٹ
پنکھ لگا کر اُڑتے جائیں لہنگا پیٹی کوٹ

سُود اسامی دونوں غائب خان کھڑا بیزار
منہ میں جھونکے لیکن جائے آنکھوں میں نسوار

اُڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چُھڑائیں رخصت ہو دستار

مشکل میں قصاب بچارا، سودا اُڑتی کھِیل
آگے آگے بوٹی جائے پیچھے پیچھے چِیل

بچہ جو چو بچہ بھاندے دونوں آنکھیں میِچ
نالی سے دو نالی چھُوٹے کھاتا جائے کیِچ

لڑکا لڑکی قسما قسمی جیون جیون ساتھ
جھکڑ ایسے تھپڑ ماریں دونوں چھوڑیں ہاتھ

چھجے نے جب جھٹکا کھا کر دھڑ سے پھینکی اینٹ
مٹکے کا وہ جھٹکا دیکھا سر سے گزری چھینٹ

دائیں موڑو بائیں جائے، موٹر کھائے جھول
آندھی سیدھی راہ دکھائے دنیا ڈانوں ڈول

پیڑوں کے جب ٹہنے ٹوٹے سب کی ٹوٹی آس
اُپلے چھت سے فوراً کودے سیدھے چولہے پاس

سینگ چھُپائیں کان اُٹھائیں پگلے ڈنگر ڈھور
پیٹھ پھِرا کر اُس کو روکیں آندھی جی کا زور

منزل غائب رستہ اندھا کیسے مانے بات
ٹانگے والا چابُک مارے گھوڑا مارے لات

سائیں جی کی بیڑی سُلگے گدڑی پکڑے آگ
جب تک وہ ملہار الاپیں دیپک اُٹھے جاگ

نذیر احمد شیخ
 

محمداحمد

لائبریرین
لیجئے حسبِ وعدہ مکمل نظم حاضر ہے۔

کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشن دان
ناکہ بندی کرتے کرتے سب گھر ریگستان

ٹُوٹے پھُوٹے چھپر آئیں گھُٹتے گھُٹتے سانس
پیروں سے چمگادڑ چمٹے سر پر کھڑکیں بانس

جھاڑو جھاڑن موج منائیں اُن کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے کتھک ناچے چھاج

درہم برہم سب تصویریں، طُرفہ تر احوال
مرزا غالب اُلٹے لٹکے، سجدے میں اقبال

چھت پر ہم جو بستر ڈھونڈیں عقل ہماری دنگ
کھاٹ بچاری اُڑن کھٹولا بستر ڈور پتنگ

ایک بگولہ سب سے اولیٰ، بھوتوں کا سردار
لوٹ پلٹ کر پڑھتا جائے دنیا کے اخبار

سُنتے سُنتے شور شرابا کانوں کا یہ حال
بیگم اپنی شال منگائے نوکر لائے ڈال

سڑکوں پر حلوائی بیٹھے مفت لُٹائیں تھال
کُبڑے کُبڑے کنجڑے کھیلیں گوبھی سے فٹبال

بکھری بکھری داڑھی دیکھی، اُڑتی اُڑتی مونچھ
جتنا دابیں پنکھ پکھیرُو ، اُتنی اُچھلے پُونچھ

دنیا ساری بھُوت بنی ہے گورا کالا ایک
بنئے نے جب دھنیا تولا، مرچ مسالہ ایک

ساڑھی کھینے، چولی جھپٹے دھوبی باندھے پوٹ
پنکھ لگا کر اُڑتے جائیں لہنگا پیٹی کوٹ

سُود اسامی دونوں غائب خان کھڑا بیزار
منہ میں جھونکے لیکن جائے آنکھوں میں نسوار

اُڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چُھڑائیں رخصت ہو دستار

مشکل میں قصاب بچارا، سودا اُڑتی کھِیل
آگے آگے بوٹی جائے پیچھے پیچھے چِیل

بچہ جو چو بچہ بھاندے دونوں آنکھیں میِچ
نالی سے دو نالی چھُوٹے کھاتا جائے کیِچ

لڑکا لڑکی قسما قسمی جیون جیون ساتھ
جھکڑ ایسے تھپڑ ماریں دونوں چھوڑیں ہاتھ

چھجے نے جب جھٹکا کھا کر دھڑ سے پھینکی اینٹ
مٹکے کا وہ جھٹکا دیکھا سر سے گزری چھینٹ

دائیں موڑو بائیں جائے، موٹر کھائے جھول
آندھی سیدھی راہ دکھائے دنیا ڈانوں ڈول

پیڑوں کے جب ٹہنے ٹوٹے سب کی ٹوٹی آس
اُپلے چھت سے فوراً کودے سیدھے چولہے پاس

سینگ چھُپائیں کان اُٹھائیں پگلے ڈنگر ڈھور
پیٹھ پھِرا کر اُس کو روکیں آندھی جی کا زور

منزل غائب رستہ اندھا کیسے مانے بات
ٹانگے والا چابُک مارے گھوڑا مارے لات

سائیں جی کی بیڑی سُلگے گدڑی پکڑے آگ
جب تک وہ ملہار الاپیں دیپک اُٹھے جاگ

نذیر احمد شیخ


واہ واہ

بہت شکریہ نوید بھائی۔۔۔!

یہ خاصے کی چیز آپ نے مکمل کرکے اس لڑی کو مکمل کر دیا ہے۔ :)
 

حافظ عمر

محفلین
نزیر احمد شیخ کی ایک اور نظم "سکندر اور دارا" (غالبا") یاد آ گئی۔۔۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں:-

آخری جنگ سکندر سے جو دارا ہارا
دشت ایران میں پھرتا تھا وہ مارا مارا
کھائے باغوں سے چرا کر کبھی کچے میوے
کبھی گھوڑے کیلئے کھیت سے چارا مارا
بیٹھ جاتا تھا جہاں کوئی سرائے دیکھی
دال اگر مفت ملی ۔۔۔ نان ادھارا مارا

فوج یونان تعاقب میں جو آتے دیکھی
اسپ طرار نے پھرتی سے طرارہ مارا
ایک نالے میں مگر اسپ رپٹ کر لڑھکا
شاہ رفتاں نے کہا ۔۔۔۔ آج تو ہارا مارا
سر اٹھایا تو کنارے پہ کھڑے تھے دشمن
اس نے غوطہ اسی پانی میں دوبارہ مارا

اتنا ہی کہیں پڑھا تھا بچپن میں۔۔۔ اگر کسی بھائی کے پاس پوری نظم ہو تو پلیز شئیر کر دیں۔۔۔
 

آئوالا

محفلین
چھت پر ھم جو بستر ڈھونڈیں عقل ہماری دنگ
کھاٹ بچاری اڑن کھٹولا بستر ڈور پتنگ
یہ نظم میں نے دس بارہ سال کی عمر میں پڑھی ہو گی اب پچپن کا ہوں ۔ نظم اور ڈاکٹر شیخ دونوں نہیں بھولتے
 
Top