جون ایلیا نظم :ہجوِ معشوقان خود - جون ایلیا

ہجوِ معشوقان خود
یہ جو معشوق ہیں مرے دو چار
بدکنش ، بدکلام ، بد کردار
کیسا بد صوت لفظ ہے معشوق
ہے قوافی میں جس کے اک مغلوق
یہ مرا جبر ہیں، ضرورت ہیں
میں کہ نر ہوں یہ مادہ صورت ہیں
خوب سے خوب تر؟ ارے توبہ
جون اور جستجو کرے! توبہ
جو خود آ جائے وہ لیلی ہے
ہو، اگر اس کا رنگ میلا ہے
نشے میں کاہلی کے مست ہوں میں
کہیے،ذوق نظر میں پست ہوں میں
ویسے میں بھی تو دیدہ زیب نہیں
جسم میرا بھی دلفریب نہیں
ہے مرا عکس ،زنگ آئینہ
ہوں سراپا میں ننگ آئینہ
پھر بھی اک مسئلہ تو رہتا ہے
نہ کہوں میں پہ دل تو کہتا ہے
جو بھی ہے اپنا دل ربا دلبر
ایک بھی تو نہیں ہے خوش منظر
جمع خاطر ہو کس طرح صاحب
سب کے پستان تثنیہ غائب
لوح تن کا ہے ان کی ناف بھی قاف
ناف،تڑخا ہوا پیالہ ناف
ہم کو پرچے لکھیں تو پرچوں میں
دوسرے شاعروں کے شعر لکھیں
کوئی تمیز ان کو ہے نہ شعور
پاس آداب سے ہیں کوسوں دور
ہم تو بس دل لگی کے کام کے ہیں
یعنی شاعر تو صرف نام کے ہیں
جن کے شعروں کی ہم سے داد اینٹھو
جا کے ان کے ہی کوچے میں بیٹھو
دل کی تعزیز ہے تمہارا شوق
ہم بھی اب اس قدر نہیں بدذوق
جون ایلیا
 
Top