نایاب

لائبریرین
نظم کے لیے نظم

پوچھتی ہے
نظم کیا ہے

نظم اس کی خوبصورت ناک ہے
تربوز کی قاشوں سے دونوں ہونٹ اس کے نظم ہیں
آنکھوں میں پھیلا صاف ستھرا آسماں بھی نظم ہے
گہرے سلیٹی بادلوں جیسے گھنیرے بال اس کے
اور پیشانی افق سی نظم ہے

نظم بچوں کی شرارت
نظم بوڑھی عورتوں کی گفتگو ہے
نظم اچھے دوستوں کے ساتھ گزری شام ہے
نظم ویٹنگ لاوٴنج میں بیٹھی مسافر لڑکیوں کے ہاتھ کا سامان ہے
پارکوں میں سیر کرتے، کھیلتے، پکنک مناتے
لوگ سارے نظم کے کردار ہیں
نظم سینی ٹوریم کی سیڑھیوں پر زندگی کی دھوپ ہے
نظم عریاں پوسٹر ہے
نظم جپسی گرل ہے

نظم ونڈر لینڈ ہے
نظم نیلی جھیل ہے
آبی پرندے کی چٹانوں سے پھسلتی چیخ ہے
نظم واٹر فال ہے
نظم چاروں موسموں کی سمفنی ہے
نظم اجلی بارشوں کا گیت ہے
نظم کبڑی رین بو ہے

بوسنیا کے سارے بچے نظم کے الفاظ ہیں
اجتماعی آبرو ریزی سے پہلے عورتیں بھی نظم کی تمھید تھیں
اب مکمل نظم ہیں
ٹارچر چیمبر میں قیدی کی گھٹی سی چیخ بھی تو نظم ہے
کشمیر کی برفاب وادی میں لہو کی آگ بھی
اب نظم بنتی جا رہی ہے
بھوک سے مرتا ھوا صومالیہ بھی نظم ہے
پیس کیپنگ سولجر کی لاش کا تابوت زندہ نظم ہے

پوچھتی ہےنظم کیا ہے
کیا بتاوٴں میں کہ اس کی نظم لکھتی انگلیاں بھی نظم ہیں
نظم اس کے ہاتھ کی تحریر ہے
نظم اس کی خوبرو تصویر ہے
نظم اس کے براوٴن سینڈل
نظم اس کے پاوٴں کی تقدیر ہے
جانتی ہے
کاسنی کپڑوں میں بالکل نظم لگتی ہےمجھے وہ
پھر بھی مجھ سے پوچھتی ہے
نظم کیا ہے

(نصیر احمد ناصر، 1992)
 
Top