احمد ندیم قاسمی نظم: کھنڈر

کھنڈر
٭
یہ میری تاریخ کا کھنڈر ہے
یہ میرے رہوارِ برق پیکر کی ہڈیاں ہیں
یہ میری تلوار ہے جو تنکا بنی پڑی ہے
یہ ڈھال ہے جس پہ پاؤں رکھ دو تو خشک پتے کے ٹوٹنے کی پکار سن لو
یہ میرے پرچم کی دھجیاں ہیں
یہ میری قدروں کی کرچیاں ہیں
یہ میرے معیار ہیں، جو پتھر بنے پڑے ہیں
یہ میرے افکار ہیں، جنھیں عنکبوت نے اپنے تانے بانے کی
کھونٹیاں سی بنا لیا ہے
یہ ٹوٹتی چھت کو سالہا سال سے سنبھالے ہوئے جو اک ناتواں ستون ایستاده ہے
یہ مری آنا ہے

٭٭٭
احمد ندیم قاسمی
 
Top