نظم: کمشنر کا کتا ٭ از الیاس بابر اعوان

کمشنر کا کتا
٭
تراشیدہ زلفیں ، نشہ آور آنکھیں
لہریہ تبسم ، جمال آفریں وُف
تو گردن میں مالک کے عہدے کا سریہ
چلا جارہا ہے خراماں خراماں
کمشنر کا کُتا

اِدھر دیکھیے!
یہ ہیں گلیوں کے کُتے
نہ وُف میں کوئی جاں
نہ تازہ تبسم ، غُبار ان کی قمست
کہیں نالیوں میں بسیرا ہے ان کا
سڑک کے کنارے پڑی لاشیں اِن کی
تعفن میں لِتھڑیں ، غلاظت میں اُلجھِیں
یہ زندہ بھی جیسے ہوں لاشوں کی ڈھیری
قدم دائیں رکھیں تو بائیں ہے پڑتا
نہ مالک نہ سر پر کوئی آشیاں ہے
یہ گلیوں کے کُتے

کمشنر کے کتے کی قسمت ہے صاحب
وگرنہ یہاں اعلیٰ نسلوں کے انساں بھی کھوئے پڑے ہیں
نہ اعلان ہوگا ، نہ کھوجیں گی آنکھیں
یہ بے کار انساں بھی گلیوں کے کتوں کے ہمراہ اک دن
تعفن غلاظت کا حصہ بنیں گے
یہی ان کی قسمت ، یہی ان کا خاصہ

٭٭٭
الیاس بابر اعوان
 

فلک شیر

محفلین
عمدہ نظم ہے تابش بھائی یہ۔ کہیں کہیں ساحر والا مبالغہ لگا مجھے ۔ شاید موضوع ہے ایسا تھا۔ بہرحال شراکت کے لیے شکریہ۔
 
Top