احمد ندیم قاسمی نظم: کارواں بہاروں کا

کارواں بہاروں کا
٭
فضا سے ابر برستا رہا شراروں کا
مگر رواں ہی رہا کارواں بہاروں کا

وہیں سے پھوٹ رہا ہے طلوعِ صبح کا نور
جہاں شہید ہوا اک ہجوم تاروں کا

کھلے ہوئے ہیں جہاں پھول سے نقوشِ قدم
وہیں سے قافلہ گزرا ہے میرے پیاروں کا

رکے ہوے ہیں جو دریا، انھیں رکا نہ سمجھ
کلیجہ کاٹ کے نکلیں گے کوہساروں کا

اسی کو کہتے ہیں تاریخ داں شعورِ وطن
جو آج ایک میں ہے ولولہ ہزاروں کا

مجھے تو پھول کھلانے ہیں، وہ لہو کے سہی
مجھے تو قرض چکانا ہے شاخساروں کا

یہ جی میں ہے کہ شہیدوں کی طرح زندہ ہوں
میں اپنے فن کو بنا لوں دیا مزاروں کا

٭٭٭
احمد ندیم قاسمی
 
Top