کارواں بہاروں کا
٭
فضا سے ابر برستا رہا شراروں کا
مگر رواں ہی رہا کارواں بہاروں کا
وہیں سے پھوٹ رہا ہے طلوعِ صبح کا نور
جہاں شہید ہوا اک ہجوم تاروں کا
کھلے ہوئے ہیں جہاں پھول سے نقوشِ قدم
وہیں سے قافلہ گزرا ہے میرے پیاروں کا
رکے ہوے ہیں جو دریا، انھیں رکا نہ سمجھ
کلیجہ کاٹ کے نکلیں گے...