نظر لکھنوی نظم: غبارِ غم بسلسلۂ مرگِ زوجۂ اول (1958ء) ٭ نظرؔ لکھنوی

غبارِ غم بسلسلۂ مرگِ زوجۂ اول (1958ء)

کٹ چکی ہے رات، ہے پچھلا پہر
نیند کوسوں دور آنکھوں سے مگر

روئے عالم پر ہے اک افسردگی
جس طرف دیکھو ادھر پژمردگی

محفلِ انجم بھی ہے ماتم گسار
آنکھ ہر تارے کی کیوں ہے اشک بار

چاند کے چہرہ کا بھی ہے رنگ زرد
ہے لبِ موجِ ہوا پر آہِ سرد

گریۂ شبنم گلستانوں میں ہے
کیسی خاموشی بیابانوں میں ہے

دور تک ہے منظرِ خونِ شفق
سینۂ مشرق ہوا کس غم سے شق

عقدۂ ماتم گساری وا ہوا
رازِ سر بستہ یہ آخر کھل گیا

ہے مرے ساتھی پہ وقتِ جاں کنی
سب کو یہ منظر ہوا نادیدنی

بجھ گئی لو آخرش شمعِ حیات
میری قسمت سے گیا دن آئی رات

مرگ نے توڑا ہے سازِ زندگی
کھل گیا ہے مجھ پہ رازِ زندگی

اک رفیقِ زندگانی چھٹ گیا
گلشنِ صد شادمانی لٹ گیا

دل ہے اف در نرغۂ افسردگی
زندگی اب کیا کہ کہیے زندگی

زندگی میں بھر گئیں تنہائیاں
دل سے غائب سب ہوئیں رعنائیاں

ہم سفر گزرا ہے مجھ کو چھوڑ کر
کس طرح گزرے گا اب میرا سفر

اب ڈسے گی تیرگیِ شب مجھے
نیند آئے گی سکوں سے کب مجھے

جب ستائیں گے مجھے رنج و الم
کس کو دیکھیں گے پئے تسکین ہم

کون پوچھے گا مرے غم کا سبب
دلدہی میری کرے گا کون اب

رازِ دل کس پر کروں گا آشکار
کون ہو گا بے قراری میں قرار

میرے اشکوں میں ملائے اشکِ خوں
کون غم خواری کرے گا میری یوں

زندگی ہے اب مجھے صحرا سرشت
کلکِ قدرت بر دلِ من غم نوشت

تو نہیں ملنے کا میں کچھ بھی کروں
تو پلٹنے کا نہیں کچھ بھی کہوں

مل گئی تجھ کو حیاتِ جاوداں
پُر بہار و پُر نشاط و بے خزاں

سیلِ غم میں دل ہمارا بہہ گیا
جو نہ کہنا چاہیے تھا کہہ گیا

موت تو برحق ہے مؤمن کے لئے
منتظر سب ہیں اسی دن کے لئے

تیرے حق میں ہے لبوں پر یہ دعا
جنت الفردوس ہو مسکن ترا

مندمل ہو جائیں سب زخمِ جگر
اے خدا بندے پہ رحمت کی نظرؔ

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

فرقان احمد

محفلین
غبارِ غم بسلسلۂ مرگِ زوجۂ اول (1958ء)

کٹ چکی ہے رات، ہے پچھلا پہر
نیند کوسوں دور آنکھوں سے مگر

روئے عالم پر ہے اک افسردگی
جس طرف دیکھو ادھر پژمردگی

محفلِ انجم بھی ہے ماتم گسار
آنکھ ہر تارے کی کیوں ہے اشک بار

چاند کے چہرہ کا بھی ہے رنگ زرد
ہے لبِ موجِ ہوا پر آہِ سرد

گریۂ شبنم گلستانوں میں ہے
کیسی خاموشی بیابانوں میں ہے

دور تک ہے منظرِ خونِ شفق
سینۂ مشرق ہوا کس غم سے شق

عقدۂ ماتم گساری وا ہوا
رازِ سر بستہ یہ آخر کھل گیا

ہے مرے ساتھی پہ وقتِ جاں کنی
سب کو یہ منظر ہوا نادیدنی

بجھ گئی لو آخرش شمعِ حیات
میری قسمت سے گیا دن آئی رات

مرگ نے توڑا ہے سازِ زندگی
کھل گیا ہے مجھ پہ رازِ زندگی

اک رفیقِ زندگانی چھٹ گیا
گلشنِ صد شادمانی لٹ گیا

دل ہے اف در نرغۂ افسردگی
زندگی اب کیا کہ کہیے زندگی

زندگی میں بھر گئیں تنہائیاں
دل سے غائب سب ہوئیں رعنائیاں

ہم سفر گزرا ہے مجھ کو چھوڑ کر
کس طرح گزرے گا اب میرا سفر

اب ڈسے گی تیرگیِ شب مجھے
نیند آئے گی سکوں سے کب مجھے

جب ستائیں گے مجھے رنج و الم
کس کو دیکھیں گے پئے تسکین ہم

کون پوچھے گا مرے غم کا سبب
دلدہی میری کرے گا کون اب

رازِ دل کس پر کروں گا آشکار
کون ہو گا بے قراری میں قرار

میرے اشکوں میں ملائے اشکِ خوں
کون غم خواری کرے گا میری یوں

زندگی ہے اب مجھے صحرا سرشت
کلکِ قدرت بر دلِ من غم نوشت

تو نہیں ملنے کا میں کچھ بھی کروں
تو پلٹنے کا نہیں کچھ بھی کہوں

مل گئی تجھ کو حیاتِ جاوداں
پُر بہار و پُر نشاط و بے خزاں

سیلِ غم میں دل ہمارا بہہ گیا
جو نہ کہنا چاہیے تھا کہہ گیا

موت تو برحق ہے مؤمن کے لئے
منتظر سب ہیں اسی دن کے لئے

تیرے حق میں ہے لبوں پر یہ دعا
جنت الفردوس ہو مسکن ترا

مندمل ہو جائیں سب زخمِ جگر
اے خدا بندے پہ رحمت کی نظرؔ

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
اس موضوع پر اپنی نوعیت کی ایک بے مثل نظم ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کے اندرون میں جذبات و احساسات کا اک تلاطم بپا ہے اور پڑھنے والا بھی اس غم و الم کو صاف محسوس کر سکتا ہے۔ لاجواب!
 
Top