سقوطِ ڈھاکہ کے وقت لکھی گئی دادا مرحوم کی ایک طویل نظم، جس میں غم و حزن کے جذبات کے ساتھ ساتھ اسباب کا جائزہ بھی لیا گیا ہے.

سقوطِ ڈھاکہ
٭
دل آج ہے رنجور زِ نیرنگیِ حالات
آنکھوں سے رواں اشک ہیں مجروح ہیں جذبات

مسلم پہ ہے کیسی مرے اللہ یہ افتاد؟
مائل بہ ستم اس پہ ہے چرخِ ستم ایجاد

بربادیِ احوال یہ کس طرح رقم ہو؟
قابو میں نہ جذبات ہوں جب شدتِ غم ہو

بنگال میں سنتے ہیں قیامت کا سماں ہے
ہر سمت لگی آگ ہے، شعلے ہیں، دھواں ہے

ازرانیِ اموات ہے چیخوں کی صدائیں
نم ناک ہوائیں ہیں تو غم ناک فضائیں

مفتوح ہے، پامال ہے، تاراج ہے ڈھاکہ
دشمن نے شکنجوں میں کسا آج ہے ڈھاکہ

ہندو کے تسلط میں گیا مشرقی بنگال
قدرت نے دکھایا ہے یہ انجامِ بد اعمال

اک لاکھ جواں مرد بنے قیدیِ زنداں
سو لاکھ گھرانے ہیں یہاں خانۂ ویراں

کتنوں نے پیا جامِ شہادت؟ نہیں معلوم
کتنوں کی لٹی چادرِ عصمت؟ نہیں معلوم

کتنے ہی دلوں کو ہے ملا داغِ یتامت؟
سوزاں ہیں جگر کتنے ہی از داغِ محبت؟

لڑنا جنہیں معلوم نہیں وہ ہوئے غالب
ہارے ہیں مسلماں جو شہادت کے ہیں طالب

ہارا ہو مسلماں یہ کبھی ہو نہیں سکتا
کہتا ہوں بہ ایماں یہ کبھی ہو نہیں سکتا

تاریخِ مسلماں کے ہیں ابواب درخشاں
کیسا یہ سیہ باب پھر اے گردشِ دوراں؟

مغلوبیِ جذبات سے سر اپنا اٹھا تو
تصویرِ حقائق پہ جو پردہ ہے اٹھا تو

بنیاد ہے ملت کی فقط کلمۂ توحید
فرمودۂ قرآں ہے احادیث کی تائید

اللہ کی رسی یہی سر چشمۂ قوت
زندہ ہے مسلمان اسی شے کی بدولت

کلمہ جو پڑھے دین کا اپنا ہے وہ بھائی
یہ بات مرے پاک نبیؐ نے ہے بتائی

تعلیم ہے اسلام کی آپس میں وفا ہو
ہو عفو و کرم عام اگر کوئی خطا ہو

آپس میں مسلمان سدا شیر و شکر ہوں
اللہ سے ڈرتے ہوئے دنیا سے نڈر ہوں

بے چین ہو اک فرد تو ہر فرد ہو بے کل
یک جان و دو قالب کی ہو تصویرِ مکمل

دنیا میں رہیں جیسے کہ رہتا ہے مسافر
ہوں طالبِ عقبیٰ ہے وہی منزلِ آخر

معروف کو پھیلائیں تو منکر کو مٹا دیں
سدِّ رہِ اسلام جو شے آئے ہٹا دیں

ہر کام ہو در پیرویِ حکمِ شریعت
اللہ کا قانون ہو قانونِ حکومت

اب دیکھیے کیا ہم میں یہی شان ہے باقی؟
ایمان میں کیا پختگی و جان ہے باقی؟

ماضی تو درخشاں ہے مگر حال ہے بے نور
اسلام کے معیار سے اسلام سے ہم دور

کہنے کو ہیں در اصل مسلمان نہیں ہیں
ہم صورت و سیرت میں کہو سچ کہ کہیں ہیں؟

انگریز سے جب ہم کو ملا ملکِ خداداد
وعدہ تھا کریں گے اسے اسلام سے آباد

اک ہم نے لگایا تھا ذرا نعرۂ اسلام
تھاما تھا مشیّت نے قدم بڑھ کے بہر گام

تھی پشت پناہی پہ مری خوبیِ تقدیر
اک جذبۂ اسلام کی اللہ رے تاثیر

جب نقشۂ دنیا پہ مری سلطنت ابھری
ابلیس نے سوچا کہ ہوا اُس کی اب اُکھڑی

ہر سمت لگا پہرۂ اخوانِ شیاطیں
تا آ نہ سکے ملک میں اسلام کا آئیں

اس قوم کو جتنے بھی ملے قافلہ سالار
مَس ان کو نہ تھا دیں سے تھے وابستۂ اغیار

عیاش تھے چھوڑا نہ کبھی شیش محل کو
آرام میں آنے نہ دیا اپنے خلل کو

وہ مقتدرِ قوم تھے سب فاسق و فاجر
کم ظرف و کم آگاہ تھے اور جابر و آمر

تھی فکرِ صدارت یا انہیں فکرِ وزارت
محور پہ اسی فکر کے تھی گردشِ سیاست

کہتا ہوں نڈر ہو کے سب اربابِ ہوس تھے
جتنے بھی کہ مختار بہ چوبیس برس تھے

اسلام کا دستور انہیں تھا نہیں منظور
چوبیس برس دے نہ سکے قوم کو دستور

اس ملک کو اس قوم کو دل کھول کے لوٹا
وہ ظلم کی چکی تھی کہ ہر فرد کو پیسا

مرغوب رہی قوم میں کردار کی پستی
اخلاق کی، اعمال کی، افکار کی پستی

حجروں میں رہے چین سے اربابِ تقدس
معلوم نہ تھے ان کو جو آدابِ تقدس

یوں کہنے کو رکھتے تھے وہ تقویٰ کا لبادہ
سمجھے نہ مگر دینِ محمدؐ کا تقاضہ

علماء بھی بناتے رہے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد
یک دل نہ کبھی ہو سکے آپس میں رکھی ضد

کچھ اہلِ دل اٹھے جو لیے پرچمِ اسلام
اربابِ حکومت نے کیا خوب انہیں بدنام

رکھی گئی ان کے لئے تعزیرِ سلاسل
دراصل وہی سمجھے گئے مدِ مقابل

ہر کفر سے آلودہ کیا دینِ محمدؐ
ہر عہد میں ڈھائی گئی اسلام کی سرحد

تعلیم کے اغراض پہ کوئی نہ تھی قدغن
استادوں نے بچوں کو کیا دین سے بدظن

ماحول تھا اسکول کا غارت گرِ ایماں
اس قوم کی بیٹی سے چھِنا جوہرِ نسواں

ہندو نے جو دیکھا کہ مسلمان ہے غافل
بنگال کے مسلم کو کیا قوم سے بد دل

دشمن نے خطرناک عزائم کی چلی چال
آمادہ بغاوت پہ ہوا خطۂ بنگال

آپس میں ہو پیکار تو دشمن کا بھلا ہے
آنکھیں نہ کھلیں اب بھی تو یہ کتنا برا ہے

پاداشِ عمل ہے کہ جدا ایک ہے بازو
بے سود کہ اب روئیے گر خون کے آنسو

باقی پہ بھی للچائی ہوئی ہے نگہِ غیر
اللہ مرے خیر ہو اللہ مرے خیر

جو خواب کہ دیکھا تھا کہاں اس کی ہے تعبیر
اے شومئی تقدیر مری شومئی تقدیر

دل گیر ہوں ہر چند پہ مایوس نہیں میں
بے نور ہوں ٹوٹا ہوا فانوس نہیں میں

اب بھی جو سدھر جائے کہیں قومِ مسلماں
ہو سکتی ہے مائل بہ کرم رحمتِ یزداں

آتی ہے صدا غیب سے ہو گوش بر آواز
ہے دینِ محمدؐ میں ترقی کا تری راز

اسلام کے دامن کو پکڑ خوفِ خدا کر
پھر خیرِ امم تُو ہے تُو ہی ملتِ برتر

اللہ مری قوم کو احساسِ زیاں دے
اسلام کی خدمت کے لیے عزمِ جواں دے

رہبر وہ عطا کر جو ہوں اسلام کے پیرو
ہو جن کے سب اعمال پہ ایمان کا پرتو

اخلاصِ عمل، حسنِ نظرؔ، سوزِ دروں دے
ملت کی رگوں میں مرے اسلاف کا خون دے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت لکھی گئی دادا مرحوم کی ایک طویل نظم، جس میں غم و حزن کے جذبات کے ساتھ ساتھ اسباب کا جائزہ بھی لیا گیا ہے.

سقوطِ ڈھاکہ
٭
دل آج ہے رنجور زِ نیرنگیِ حالات
آنکھوں سے رواں اشک ہیں مجروح ہیں جذبات

مسلم پہ ہے کیسی مرے اللہ یہ افتاد؟
مائل بہ ستم اس پہ ہے چرخِ ستم ایجاد

بربادیِ احوال یہ کس طرح رقم ہو؟
قابو میں نہ جذبات ہوں جب شدتِ غم ہو

بنگال میں سنتے ہیں قیامت کا سماں ہے
ہر سمت لگی آگ ہے، شعلے ہیں، دھواں ہے

ازرانیِ اموات ہے چیخوں کی صدائیں
نم ناک ہوائیں ہیں تو غم ناک فضائیں

مفتوح ہے، پامال ہے، تاراج ہے ڈھاکہ
دشمن نے شکنجوں میں کسا آج ہے ڈھاکہ

ہندو کے تسلط میں گیا مشرقی بنگال
قدرت نے دکھایا ہے یہ انجامِ بد اعمال

اک لاکھ جواں مرد بنے قیدیِ زنداں
سو لاکھ گھرانے ہیں یہاں خانۂ ویراں

کتنوں نے پیا جامِ شہادت؟ نہیں معلوم
کتنوں کی لٹی چادرِ عصمت؟ نہیں معلوم

کتنے ہی دلوں کو ہے ملا داغِ یتامت؟
سوزاں ہیں جگر کتنے ہی از داغِ محبت؟

لڑنا جنہیں معلوم نہیں وہ ہوئے غالب
ہارے ہیں مسلماں جو شہادت کے ہیں طالب

ہارا ہو مسلماں یہ کبھی ہو نہیں سکتا
کہتا ہوں بہ ایماں یہ کبھی ہو نہیں سکتا

تاریخِ مسلماں کے ہیں ابواب درخشاں
کیسا یہ سیہ باب پھر اے گردشِ دوراں؟

مغلوبیِ جذبات سے سر اپنا اٹھا تو
تصویرِ حقائق پہ جو پردہ ہے اٹھا تو

بنیاد ہے ملت کی فقط کلمۂ توحید
فرمودۂ قرآں ہے احادیث کی تائید

اللہ کی رسی یہی سر چشمۂ قوت
زندہ ہے مسلمان اسی شے کی بدولت

کلمہ جو پڑھے دین کا اپنا ہے وہ بھائی
یہ بات مرے پاک نبیؐ نے ہے بتائی

تعلیم ہے اسلام کی آپس میں وفا ہو
ہو عفو و کرم عام اگر کوئی خطا ہو

آپس میں مسلمان سدا شیر و شکر ہوں
اللہ سے ڈرتے ہوئے دنیا سے نڈر ہوں

بے چین ہو اک فرد تو ہر فرد ہو بے کل
یک جان و دو قالب کی ہو تصویرِ مکمل

دنیا میں رہیں جیسے کہ رہتا ہے مسافر
ہوں طالبِ عقبیٰ ہے وہی منزلِ آخر

معروف کو پھیلائیں تو منکر کو مٹا دیں
سدِّ رہِ اسلام جو شے آئے ہٹا دیں

ہر کام ہو در پیرویِ حکمِ شریعت
اللہ کا قانون ہو قانونِ حکومت

اب دیکھیے کیا ہم میں یہی شان ہے باقی؟
ایمان میں کیا پختگی و جان ہے باقی؟

ماضی تو درخشاں ہے مگر حال ہے بے نور
اسلام کے معیار سے اسلام سے ہم دور

کہنے کو ہیں در اصل مسلمان نہیں ہیں
ہم صورت و سیرت میں کہو سچ کہ کہیں ہیں؟

انگریز سے جب ہم کو ملا ملکِ خداداد
وعدہ تھا کریں گے اسے اسلام سے آباد

اک ہم نے لگایا تھا ذرا نعرۂ اسلام
تھاما تھا مشیّت نے قدم بڑھ کے بہر گام

تھی پشت پناہی پہ مری خوبیِ تقدیر
اک جذبۂ اسلام کی اللہ رے تاثیر

جب نقشۂ دنیا پہ مری سلطنت ابھری
ابلیس نے سوچا کہ ہوا اُس کی اب اُکھڑی

ہر سمت لگا پہرۂ اخوانِ شیاطیں
تا آ نہ سکے ملک میں اسلام کا آئیں

اس قوم کو جتنے بھی ملے قافلہ سالار
مَس ان کو نہ تھا دیں سے تھے وابستۂ اغیار

عیاش تھے چھوڑا نہ کبھی شیش محل کو
آرام میں آنے نہ دیا اپنے خلل کو

وہ مقتدرِ قوم تھے سب فاسق و فاجر
کم ظرف و کم آگاہ تھے اور جابر و آمر

تھی فکرِ صدارت یا انہیں فکرِ وزارت
محور پہ اسی فکر کے تھی گردشِ سیاست

کہتا ہوں نڈر ہو کے سب اربابِ ہوس تھے
جتنے بھی کہ مختار بہ چوبیس برس تھے

اسلام کا دستور انہیں تھا نہیں منظور
چوبیس برس دے نہ سکے قوم کو دستور

اس ملک کو اس قوم کو دل کھول کے لوٹا
وہ ظلم کی چکی تھی کہ ہر فرد کو پیسا

مرغوب رہی قوم میں کردار کی پستی
اخلاق کی، اعمال کی، افکار کی پستی

حجروں میں رہے چین سے اربابِ تقدس
معلوم نہ تھے ان کو جو آدابِ تقدس

یوں کہنے کو رکھتے تھے وہ تقویٰ کا لبادہ
سمجھے نہ مگر دینِ محمدؐ کا تقاضہ

علماء بھی بناتے رہے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد
یک دل نہ کبھی ہو سکے آپس میں رکھی ضد

کچھ اہلِ دل اٹھے جو لیے پرچمِ اسلام
اربابِ حکومت نے کیا خوب انہیں بدنام

رکھی گئی ان کے لئے تعزیرِ سلاسل
دراصل وہی سمجھے گئے مدِ مقابل

ہر کفر سے آلودہ کیا دینِ محمدؐ
ہر عہد میں ڈھائی گئی اسلام کی سرحد

تعلیم کے اغراض پہ کوئی نہ تھی قدغن
استادوں نے بچوں کو کیا دین سے بدظن

ماحول تھا اسکول کا غارت گرِ ایماں
اس قوم کی بیٹی سے چھِنا جوہرِ نسواں

ہندو نے جو دیکھا کہ مسلمان ہے غافل
بنگال کے مسلم کو کیا قوم سے بد دل

دشمن نے خطرناک عزائم کی چلی چال
آمادہ بغاوت پہ ہوا خطۂ بنگال

آپس میں ہو پیکار تو دشمن کا بھلا ہے
آنکھیں نہ کھلیں اب بھی تو یہ کتنا برا ہے

پاداشِ عمل ہے کہ جدا ایک ہے بازو
بے سود کہ اب روئیے گر خون کے آنسو

باقی پہ بھی للچائی ہوئی ہے نگہِ غیر
اللہ مرے خیر ہو اللہ مرے خیر

جو خواب کہ دیکھا تھا کہاں اس کی ہے تعبیر
اے شومئی تقدیر مری شومئی تقدیر

دل گیر ہوں ہر چند پہ مایوس نہیں میں
بے نور ہوں ٹوٹا ہوا فانوس نہیں میں

اب بھی جو سدھر جائے کہیں قومِ مسلماں
ہو سکتی ہے مائل بہ کرم رحمتِ یزداں

آتی ہے صدا غیب سے ہو گوش بر آواز
ہے دینِ محمدؐ میں ترقی کا تری راز

اسلام کے دامن کو پکڑ خوفِ خدا کر
پھر خیرِ امم تُو ہے تُو ہی ملتِ برتر

اللہ مری قوم کو احساسِ زیاں دے
اسلام کی خدمت کے لیے عزمِ جواں دے

رہبر وہ عطا کر جو ہوں اسلام کے پیرو
ہو جن کے سب اعمال پہ ایمان کا پرتو

اخلاصِ عمل، حسنِ نظرؔ، سوزِ دروں دے
ملت کی رگوں میں مرے اسلاف کا خون دے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
16 دسمبر ہماری تاریخ کا دردناک ترین دن۔ کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔

اب دیکھیے کیا ہم میں یہی شان ہے باقی؟
ایمان میں کیا پختگی و جان ہے باقی؟

ماضی تو درخشاں ہے مگر حال ہے بے نور
اسلام کے معیار سے اسلام سے ہم دور

کہنے کو ہیں در اصل مسلمان نہیں ہیں
ہم صورت و سیرت میں کہو سچ کہ کہیں ہیں؟

لمحۂ فکریہ

اللہ مری قوم کو احساسِ زیاں دے
اسلام کی خدمت کے لیے عزمِ جواں دے
آمین!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دل گیر ہوں ہر چند پہ مایوس نہیں میں
بے نور ہوں ٹوٹا ہوا فانوس نہیں میں

اب بھی جو سدھر جائے کہیں قومِ مسلماں
ہو سکتی ہے مائل بہ کرم رحمتِ یزداں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
افسوس تو یہ ہے کہ ہم ایک بازو کٹواکر بھی سبق نہیں سیکھے۔ اب جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے وہ بہت تشویشناک ہے ۔
؎ اے خاصۂ خاصانِ رسل اب وقتِ دعا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ مری قوم کو احساسِ زیاں دے
اسلام کی خدمت کے لیے عزمِ جواں دے

رہبر وہ عطا کر جو ہوں اسلام کے پیرو
ہو جن کے سب اعمال پہ ایمان کا پرتو

اخلاصِ عمل، حسنِ نظرؔ، سوزِ دروں دے
ملت کی رگوں میں مرے اسلاف کا خون دے
آمین ثم آمین
اللّہ اس قوم پر اپنا کرم فرمائے ۔۔۔۔
ہماری تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے پر افسوس اور زیادہ ہوتا ہے کہ اِس عظیم نقصان سے کچھ نہیں سیکھا ۔۔اور اب سب سے زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی قربانیاں ۔ایک طرف بیرونی دشمن دوسری طرف
اندونی دشمن۔ہر دم دعا ہے اے مالک تو پاکستان کی حفاظت فرما اور اسلام کا پرچم سر بلند رہے۔۔آمین
 
Top