مجید امجد نظم - دل دریا سمندروں ڈنگھے - مجید امجد

دل دریا سمندروں ڈونگھے-----------------------

اتنی آنکھیں، اتنے ماتھے، اتنے ہونٹ
چشمکیں، تیور، تبسم ، قہقہے
اس قدر غماز ، اتنے ترجماں
اور پھر بھی لاکھ پیغام ان کہے
لاکھ اشارے جو ہیں ان بوجھے ابھی
لاکھ باتیں جو ہیں گویائی سے دور
دور---- دل کے کنج ناموجود میں
روز شب موجود ، ناصبور!
کون اندھیری گھاٹیوں کو پھاند کر
جائے ان پر شور سناٹوں کے پار
گونجتے ہیں لاکھ سندیسے جہاں
کان سن سکتے نہیں جن کی پکار


یہ جبینوں پر لکیریں--- موج موج!
کتنے افسانوں کی ژولیدہ سطور
انکھڑیوں میں ترمراتی ڈوریاں
کتنے قصوں کی زبان بے شعور
جام لب کی کھنکھناہٹ میں نہاں
کتنے مے خانوں کا شور بے خروش
اک تبسم، اک تکلم ، اک نگاہ
کتنے احساسات کی صوت خموش!


کون الٹ سکتا ہے یہ بوجھل نقاب
پردہ در پردہ ، حجاب اندر حجاب
اس طرف میں گوش بر آواز ہوں
اس طرف ہر ذرہ اک بجتا رباب
کس کو طاقت؟ کس کو یارا؟ کس کو تاب؟
کون ان بیاکل صداؤں کو سنے
اور ضمیر ہر صدا میں ڈوب کر
کون دل کی کلیاں چنے!


کاش میں اتنا سمجھ سکتا کبھی
جب کوئی کرتا ہے مجھ سے ہنس کر بات
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وقت گفتگو
اس کا دل بھی ہنستا ہو ہونٹوں کے سات

مجھ خراب آرزو کے حال پر
پھوٹ پڑتی ہے کسی کی آنکھ جب
مجھ کو ڈس جاتا ہے یہ چبھتا خیال،
اس کا دل نہ ہو مجھ پر خندہ لب!


کیا یہ سب سچ ہے جو کہتے ہیں یہ ہونٹ
ہونٹ، دھبے روح قرطاس پر
ہونٹ، قصر دل کے دروازے پہ قفل
ہونٹ ، مہریں نامہء احساس


اور ان آنکھوں پہ کس کو اعتبار؟
آنکھیں پردے روزن ادراک کے
کس طرح سمجھیں رموز زیست کو
آئینے پر دو کھلونے خاک کے؟


کس طرح مانوں کہ یہ سب سچ ہے سچ
مجھ سے جو کہتے ہیں اس دنیا کے لوگ
چھو سکا ہے ان کے سینوں کو کبھی!
میرے دل کا درد! میرے من کا روگ!

مجید امجد​
 
Top