نظم: تیز گرمی میں ٹھنڈا مٹکا : از: محمد خلیل الرحمٰن

تیز گرمی میں ٹھنڈا مٹکا
از محمد خلیل الرحمٰن


اِک مسافر غریب بے چارا
تھک چُکا تھا وہ پیاس کا مارا

شام سے پہلے گھر پہنچنا تھا
تیز گرمی سے پھر بھی بچنا تھا

دھوپ تھی تیز، لُو بھی چلتی تھی
ریت اُڑتی تھی، آگ جلتی تھی

راستے میں اُسے نظر آیا
اک گھنے پیڑ کا سایا

پیڑ کے نیچے جونہی وہ پہنچا
ایک مٹکا اُسے نظر آیا

ساتھ رکھا تھا آبخورا بھی
یعنی مٹی کا اِک کٹورا بھی

شُکر دب کا ادا کیا اُس نے
ٹھنڈا پانی جو پی لیا اُس نے

پانی پی کر اُسے خیال آیا
ذہن میں اُسکے یہ خیال آیا

کیسی گرمی ہے!, لُو بھی چلتی ہے
جیسے چولھے میں آگ جلتی ہے

پھر بھی پانی ہے کِس قدر ٹھنڈا
راز یہ کیوں سمجھ نہیں آتا

پاس رکھا ہوا تھا جو مٹکا
بات اِس کی سُنی تو یوں بولا

کارنامے ہیں یہ تو مٹی کے
میں بنایا گیا تھا مٹی سے

جب کہ مٹی کا اِک گھڑا ہوں میں
مجھ کو معلوم ہے کہ کیا ہوں میں

یوں ہمہ وقت ٹھنڈا رہتا ہوں
دھوپ، گرمی شتاب سکتا ہوں

لوگ ایسے ہی اچھے رہتے ہیں
گرم سہہ کر جو ٹھنڈے رہتے ہیں
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت ہی اعلیٰ خلیل بھائی ! بہت ہی خوب!!! بہت اچھا خیال ہے اور نظم کی بنت بھی اچھی ہے ۔
بہت مزا آیا پڑھ کر ۔ ایسی نظمیں آپ ہی کا حصہ ہیں ۔

بس ایک دو مقامات توجہ کے متقاضی ہیں ۔ تفصیل کے ساتھ پھر حاضر ہوتا ہوں ۔ ریحان بھائی کی باتیں توجہ طلب ہیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے۔ ریحان کے مشوروں کے علاوہ میری بات بھی سن لیں کہ یہ قافلہ غلط ہے، حرکات میں فرق ہے۔
شام سے پہلے گھر پہنچنا تھا
تیز گرمی سے پھر بھی بچنا تھا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خلیل بھائی چھوٹی بحر چست مصرعوں کی متقاضی ہوتی ہے ۔ حشو و زائد جتنےکم ہوں بہتر ہے ۔ کچھ مصرعوں میں الفاظ کی نشست بدلنے سے روانی بہتر ہوسکتی ہے ۔ میری ناقص رائے کچھ یوں ہے:

پیڑ کے نیچے جونہی وہ پہنچا
پیڑ کے پاس جونہی وہ پہنچا
اک گھنے پیڑ کا سایا
یہاں کسی لفظ کی کمی ہے ۔ شاید ٹائپو ہو ۔ ورنہ یوں کردیکھیں : اک گھنے سبز پیڑ کا سایا
ذہن میں اُسکے یہ خیال آیا
یہاں خیال کے بجائے سوال ہونا چاہئے ۔ یہ شایدٹائپو ہے ۔
راز یہ کیوں سمجھ نہیں آتا
راز کیوں یہ سمجھ نہیں آتا
جب کہ مٹی کا اِک گھڑا ہوں میں
’’جب کہ‘‘ یہاں اضافی ہے ۔ اسے بدل دیں تو بہتر ہے ۔ اس کے بجائے اگر مٹی کی صفت لاسکیں تو بہتر ہے ۔
دھوپ، گرمی شتاب سکتا ہوں
شتاب سکنا تو ٹھیک نہیں ہے ۔ یوں کردیکھئے: دھوپ گرمی میں ہنس کے سہتا ہوں

خلیل بھائی ، نظم بہت زبردست ہے ۔ بہت اچھا خیال ہے ۔ اسمٰعیل میرٹھی کی یاد تازہ کردی آپ نے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ واہ

خوبصورت نظم ہے خلیل الرحمن بھائی!

آپ کی نظم بھی گھڑے کے جانفزا پانی کی طرح ہے ۔ یعنی لطف آ گیا۔ :)
 
Top