جوش نظم: تقاضائے سرد مہری

فہد اشرف

محفلین
جوش ملیح آبادی "یادوں کی برات' میں اس نظم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ—
”اب میں اپنی انوکھی نظم پیش کر رہا ہوں جس کی دنیائے شاعری میں کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور میں دعوے کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ جب سے اس کرۂ ارض پر شاعری کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے لے کر آج کی تاریخ کی تاریخ تک کا ایک مصرع بھی دنیا کی کسی زبان کی شاعری میں بھی نہیں کہا گیا تھا۔ یقین فرمایئے کہ میں اس دعویٰ کے پردے میں تمام شعراء عالم پر اپنی فوقیت اور افضلیت کا اظہار نہیں کر رہا ہوں۔ اور اس کے برخلاف میرا خیال ہے کہ اگر ان شعرائے کرام کو بھی میری ہی طرح اس پختگی عمر میں حسن کے ایسے شدید حملے سے دوچار ہونا پڑتا تو وہ میری اس نظم سے بمراحل بلند نظمیں کہتے۔ اور اس نوعیت کے نظموں کے ہر طرف انبار لگے ہوتے۔
سنتا ہوں عظیم شاعر گوئٹے اسّی برس کی عمر میں اس طوفان سے دوچار ہوا تھا۔ لیکن صد حیف کہ کوئی نظم نہ کہہ سکا۔ ہاں تو ملاحضہ فرمایئے۔“

تقاضائے سرد مہری

مجھے آزاد کر کے پر کشائی کیوں نہیں کرتیں
جو دل کو توڑ دے وہ کج ادائی کیوں نہیں کرتیں
بچھا دوں بوریا پھر جا کے اپنے شہرِ حکمت میں
کبھی مجھ سے تم ایسی بے وفائی کیوں نہیں کرتیں
قلم ہو جائے سر ہیجانِ وصل و سعئ قربت کا
رواں یوں خنجر طول جدا
ئی کیوں نہیں کرتیں
مری رخصت کے حسرت خیز لمحوں کے تلاطم میں
جدا آنکھوں سے تم اپنے دلائی کیوں نہیں کرتیں
شکن جو ڈال دے میرے غرور فن کے ماتھے پر
کبھی اتنی اہانت سے رکھائی کیوں نہیں کرتیں
حسینوں سے بغاوت کا جو دل کو درس دیتی ہے
مری سرکار وہ بے اعتنائی
کیوں نہیں کرتیں
جکڑ رکھا ہے میرا دل وفاؤں کے شکنجے میں

جفا کر کے مری مشکل کشائی کیوں نہیں کرتیں
مری دانائی ہے شرکِ محبت کی تمنائی
مری دانائی کی حاجت روائی کیوں نہیں کرتیں
برائی میں تمہاری جوش کے دل کی بھلائی ہے
بھلائی ترک فرما کر برائی کیوں نہیں کرتیں
 

محمد وارث

لائبریرین
پتہ نہیں یہ انیسواں عشق ہوا تھا یا جوش صاحب نے تیسرے ایڈیشن کے اضافہ شدہ حصے میں رنگ بھرنے کے لیے کیا تھا :)
یہ نظم اور اس کا سیاق و سباق "یادوں کی برات" کے پہلے ایڈیشن میں بھی شامل ہے! یہ جوش کا عشق نہیں تھا بلکہ کسی کا عشق تھا جوش کے لیے :)
 

فرقان احمد

محفلین
شعری عدالت میں جوابی دعویٰ داخل کرنا آداب کے خلاف ہے۔ چونکہ یہ دعویٰ بھی حضرتِ جوش ملیح آبادی کی جانب سے ہے، اس لیے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت ہے۔
 
Top