نظم برائے اصلاح

استادِ محترم، آپ کی بات سے میرے ذہن میں ایک سوال ابھرا ہے- شعر کی تعریف اردو میں تو بہت صاف ہے، اس کا کسی بحر میں ہونا لازمی ہے۔ لیکن یہ بحور تو دنیا کی چند ایک زبانوں میں ہی مروج ہیں، عربی، فارسی، اردو وغیرہ۔ اس کے علاوہ یورپی زبانوں میں کے لئے تو اصول مختلف ہیں، اگرچہ ہماری زبان ہندی-یورپی زبانوں (Indo-European languages) کی ہی ایک شاخ ہے (یعنی یورپی زبانوں سے کافی مماثلت رکھتی ہے)- انگریزی کو اگر دیکھیں تو ان کے ہاں میٹر (بحر) کی بندش کے اصول اردو کی طرح سخت نہیں ہیں اور جن کو ہم نثری نظم کہتے ہیں، ان کے ہاں عام ہے (ان کے مطابق یہ شاعری ہی کہلاتی ہے)۔ تو کیا ایسا تو نہیں کہ بحر میں پاپند کر کے ہم نے شاعری کے دائرے کو محدود کر دیا ہو؟

اس پر استادِ محترم الف عین کی اور دیگر شعرا کی رائے بھی جاننا چاہوں گا۔ :)

پس نوشت: میرا مقصد ہر گز عروض کے نظام پر تنقید نہیں ہے (ورنہ مجھے عروض کے لئے سافٹوئر بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی :p)، یہ ایک علمی سوال ہے-

میری رائے جان لیجئے، سید ذیشان صاحب محترم ۔۔۔

ہر زبان کا اپنی اپنی ایک شناخت ہوتی ہے جو اس کو دوسری زبانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اردو کا شعر کا نظام اپنا ہے، انگریزی کا اپنا ہے، چینی جاپانی وغیرہ کا اپنا ہے۔ میں اس بات کو لازمی نہیں سمجھتا کہ میٹر، بندش وغیرہ کے جو طریقے انگریزی کے یا جاپانی کے ہیں وہ اردو پر من و عن لاگو ہوں، یا وہ لوگ بھی ہمارے قواعد کے پابند ہوں۔شعری اور نثری اصناف کی ہیئت کے حوالے سے ہمیں اتنی دور جانے بھی ضرورت نہیں۔ ایک ہی خطے میں پڑھی لکھی بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں فرق ہوتا ہے۔ میں بلوچی شاعری کے سارے قواعد پشتو پر لاگو نہیں کر سکتا، اور نہ سندھی کے شعری قواعد پنجابی کو پابند کرتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آیا کرتی ہیں اور ان کا دائرہء اثر کبھی کچھ ہوتا ہے کبھی کچھ ہوتا ہے۔ تاہم ضروری نہیں کہ ہر تبدیلی مثبت ہی ہو گی اور نہ ہر تبدیلی کا اتباع لازم ہے۔ میری، آپ کی، فلک شیر صاحب کی انفرادیت اپنی اپنی ہے؛ اشتراکات بھی ہیں جو ہم تینوں کو ایک مقام پر جمع کئے ہوئے ہیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ میں فلک شیر بن جاؤں، آپ یعقوب آسی بن جائیں، اور فلک شیر الف عین بن جائیں۔ اسی کو اقوام و ملل اور زبان و بیان پردیکھ لیجئے۔
 
Top