نظم برائے اصلاح

سید ذیشان

محفلین
بہت خوب!

آزاد نظم پابندِ بحور ہوتی ہے ہر چند ردیف و قافیہ اور وزن (دو مصرعوں کا باہمی وزن) سے آزاد۔ نثر بالکل پابند نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے آپ اسے کسی ایک میں قرار دے سکتی ہیں۔ یا آزاد نظم نام دیجیے یا نثر۔ پھر ہم بتلاتے ہیں کہ کیا کہا جائے گا! یا اگر واقعی نئی صنف ہے تو تعارف کرا دیجیے۔

آزاد نثری نظم وہ ہوتی ہے جو بحر سے آزاد ہو (نثری) اور قافیہ و ردیف سے بھی آزاد (آزاد) ہو- :p
 
بس مادر پدر آزاد نہ ہو کہ جس کی اصلاح شاعر کو کوڑے لگا کر کی جائے۔

(خیال کا ماخذ: انور مقصود کا ڈرامہ ہاف پلیٹ)

بھائی اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے ”شاعری کی“ کو قوسین میں بند کر دیا تھا۔ کہ ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق پڑھ لے گا۔ :p
بات آپ کی بھی درست ہے۔ اور انور بھائی کی بھی۔ :laughing:
 

الف عین

لائبریرین
میں تو پہلے ہی اسے نثری نظم کہہ چکا ہوں، اسی لئے لھا تھا کہ گرامر کے حساب سے بھی فاعل فعل مفعول کی ترتیب درست ہونی چاہئے!! اگر وزن کی مجبوری ہو تو بے ترتیب فقرے قابل قبول ہیں۔آزاد نظم میں کسی رکن یا افاعیل کو متعدد بار دہرایا جاتا ہے۔ اگر متعین بار دہرایا جائے تو اسے معریٰ نظم کہتے ہیں۔ اور اگر اس میں ردیف اور قوافی اور بندوں کا لحاظ رکھا جائے تو پابند نظم۔
ہم تو ابھی نثری نظم تک پہنچنے میں ہی ہاتھ پاؤں پھلا بیٹھے ہیں، آزاد نثری نظم تک۔۔۔۔۔
 
بے کیف ہے عالم

بے جان ہوئی زندگی بھی

جیسے گلِ درشتہ رُو

خامشی سے چھوڑے شاخ کا ساتھ

پنکھڑی پنکھڑی بکھرتا ہوا پھول

بہار کی رنگیں صبحوں کا گواہ !

..شوخ موسموں سے وابستہ کہانی کوئی

تہہ در تہہ لالہ رُخ میں سمیٹے

اداسی میں ڈھلا مُرجھایا ہوا

جاں رسیدہ کملایا ہوا سا

اے اجنبی شہر! تیری فصیلوں میں

مانندِ بعینہ !

زندہ نہ مُردہ ، کہ شاید علیلوں میں

حیات کی حِدت سے خالی ہوتا

یہ تیرا مکیں !

کاش زندگی کا مزید سوالی رہتا

اے اجنبی شہر

اے میرے اجنبی شہر !

جدت سے مزین ، تیرے دامن میں

بے کیف ہے عالم

بے جان ہوئی زندگی بھی۔۔

...................

آراء دینا تو اساتذہ کا کام ہے
میں صرف اتنا کہوں گا کہ آپ کے خیالات میں روانی اور خوبصورتی ہے
مشق کے ساتھ ساتھ پختگی آ جائے گی الفاظ کا الٹ پھیر آ جائے پھر کچھ مشکل نہیں
شاد و آباد رہیں
 
ہیئت کے اعتبار سے میرے نزدیک یہ ’’نثرِ لطیف‘‘ ہے۔
میں تو پہلے ہی اسے نثری نظم کہہ چکا ہوں،
ہم تو ابھی نثری نظم تک پہنچنے میں ہی ہاتھ پاؤں پھلا بیٹھے ہیں، آزاد نثری نظم تک۔۔۔ ۔۔
ہاہاہاہا

اب محسوس ہو رہا ہے کہ دوبارہ کوئی دو باتیں ہو گئیں ہیں۔ یعنی 'نثر' یا وہی 'لطیف نثر' اور 'نثری شاعری'۔۔۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟
 
ہاہاہاہا

اب محسوس ہو رہا ہے کہ دوبارہ کوئی دو باتیں ہو گئیں ہیں۔ یعنی 'نثر' یا وہی 'لطیف نثر' اور 'نثری شاعری'۔۔۔ کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟

علاج کی تو تب کہئے کہ کوئی مرض بھی ہو۔ یہاں تو سب صاف ہے کہ نثر نثر ہے اور نظم نظم ہے، کوئی اِشکال ہے ہی نہیں۔
جیسے نثرِ مرصع ہوتی ہے ویسے ہی نثرِ لطیف ہے۔
میں اگر نثر لکھ کر شاعر کہلانا چاہوں یا کچھ ابیات بہم کر کے اس کو غزل کا نام دوں تو ۔۔۔ مسیحا بھی کیا کرے گا!


مزمل شیخ بسمل
 
علاج کی تو تب کہئے کہ کوئی مرض بھی ہو۔ یہاں تو سب صاف ہے کہ نثر نثر ہے اور نظم نظم ہے، کوئی اِشکال ہے ہی نہیں۔
جیسے نثرِ مرصع ہوتی ہے ویسے ہی نثرِ لطیف ہے۔
میں اگر نثر لکھ کر شاعر کہلانا چاہوں یا کچھ ابیات بہم کر کے اس کو غزل کا نام دوں تو ۔۔۔ مسیحا بھی کیا کرے گا!


مزمل شیخ بسمل
آداب۔
 

فلک شیر

محفلین
شک نہیں کہ کلام موزوں ہی کا نام شعر ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پابند اسے رہنا ہوتا ہے کچھ خاص PATTERNSکا.....اور بالخصوص مشرق میں اس سے فرار کلی طور پہ ممکن نہیں.....لیکن انتہائی ادب سے عرض ہے کہ ادب اب مقامی phenomena نہیں رہا ہے....جیسا کہ ثقافت ، معلومات اورaestheticsسمیت دیگر مظاہر اب گلوبلائز ہوا چاہتے ہیں......
ہمیں اعتراض ہے کہ .....نوجوان نسل کے لوگ جو عروض کو سمجھ نہیں پاتے......وہ ملک شعر کی سرحدوں میں قدم کیوں رکھنا چاہتے ہیں......’’کالا لوگ.........‘‘
تو عرض یہ ہے کہ renaissance نے تمام علوم و فنون کے سابقہ ڈھانچوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے........خاص طور پہ یورپ میں.......اور اہل دنیا آج ہر چیز میں امام سمجھتے ہیں......غلط سمجھتے ہیں یا صحیح .......اس پہ بحث کا یہ مقام نہیں...........
دنیا میں نثری نظم لکھی جارہی ہے........اور بے پناہ لکھی جارہی ہے..........ضروری نہیں کہ وہ ساری شاہکار ہی ہوں........لیکن اگر اظہار کا ایک میڈیم دور جدید کے اس frustratedانسان کو اس شکل میں ملتا ہے......اور بے شمار اہل علم و دانش اس کو قبول کرتے ہیں........تو تضحیک کیوں......زعم کا اظہار کیسا؟
شاید ان لاکھوں نظموں میں سے ایک آدھ ایسی چیز ہو.......جو پڑھنے والے کو حیرا نی سے نوازے.......جو artکا بنیادی وصف ہے........
 

سید ذیشان

محفلین
علاج کی تو تب کہئے کہ کوئی مرض بھی ہو۔ یہاں تو سب صاف ہے کہ نثر نثر ہے اور نظم نظم ہے، کوئی اِشکال ہے ہی نہیں۔
جیسے نثرِ مرصع ہوتی ہے ویسے ہی نثرِ لطیف ہے۔
میں اگر نثر لکھ کر شاعر کہلانا چاہوں یا کچھ ابیات بہم کر کے اس کو غزل کا نام دوں تو ۔۔۔ مسیحا بھی کیا کرے گا!


مزمل شیخ بسمل

استادِ محترم، آپ کی بات سے میرے ذہن میں ایک سوال ابھرا ہے- شعر کی تعریف اردو میں تو بہت صاف ہے، اس کا کسی بحر میں ہونا لازمی ہے۔ لیکن یہ بحور تو دنیا کی چند ایک زبانوں میں ہی مروج ہیں، عربی، فارسی، اردو وغیرہ۔ اس کے علاوہ یورپی زبانوں میں کے لئے تو اصول مختلف ہیں، اگرچہ ہماری زبان ہندی-یورپی زبانوں (Indo-European languages) کی ہی ایک شاخ ہے (یعنی یورپی زبانوں سے کافی مماثلت رکھتی ہے)- انگریزی کو اگر دیکھیں تو ان کے ہاں میٹر (بحر) کی بندش کے اصول اردو کی طرح سخت نہیں ہیں اور جن کو ہم نثری نظم کہتے ہیں، ان کے ہاں عام ہے (ان کے مطابق یہ شاعری ہی کہلاتی ہے)۔ تو کیا ایسا تو نہیں کہ بحر میں پاپند کر کے ہم نے شاعری کے دائرے کو محدود کر دیا ہو؟

اس پر استادِ محترم الف عین کی اور دیگر شعرا کی رائے بھی جاننا چاہوں گا۔ :)

پس نوشت: میرا مقصد ہر گز عروض کے نظام پر تنقید نہیں ہے (ورنہ مجھے عروض کے لئے سافٹوئر بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی :p)، یہ ایک علمی سوال ہے-
 
Top