نظم برائے اصلاح

شک نہیں کہ کلام موزوں ہی کا نام شعر ہوتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔اور پابند اسے رہنا ہوتا ہے کچھ خاص PATTERNSکا.....اور بالخصوص مشرق میں اس سے فرار کلی طور پہ ممکن نہیں.....لیکن انتہائی ادب سے عرض ہے کہ ادب اب مقامی phenomena نہیں رہا ہے....جیسا کہ ثقافت ، معلومات اورaestheticsسمیت دیگر مظاہر اب گلوبلائز ہوا چاہتے ہیں......
ہمیں اعتراض ہے کہ .....نوجوان نسل کے لوگ جو عروض کو سمجھ نہیں پاتے......وہ ملک شعر کی سرحدوں میں قدم کیوں رکھنا چاہتے ہیں......’’کالا لوگ.........‘‘
تو عرض یہ ہے کہ renaissance نے تمام علوم و فنون کے سابقہ ڈھانچوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے........خاص طور پہ یورپ میں.......اور اہل دنیا آج ہر چیز میں امام سمجھتے ہیں......غلط سمجھتے ہیں یا صحیح .......اس پہ بحث کا یہ مقام نہیں...........
دنیا میں نثری نظم لکھی جارہی ہے........اور بے پناہ لکھی جارہی ہے..........ضروری نہیں کہ وہ ساری شاہکار ہی ہوں........لیکن اگر اظہار کا ایک میڈیم دور جدید کے اس frustratedانسان کو اس شکل میں ملتا ہے......اور بے شمار اہل علم و دانش اس کو قبول کرتے ہیں........تو تضحیک کیوں......زعم کا اظہار کیسا؟
شاید ان لاکھوں نظموں میں سے ایک آدھ ایسی چیز ہو.......جو پڑھنے والے کو حیرا نی سے نوازے.......جو artکا بنیادی وصف ہے........
جناب من۔ احساسات کے اظہار کے لیے صرف شاعری ہی نہیں نثر بھی موجود ہے۔ پھر کیا سبب کہ کچھ سر پھرے نثر لکھ کر شعر کا نام دے دیتے ہیں؟؟ اردو کے ادب میں نثر کی بھی وہی حیثیت ہے جو شعر کی ہے۔ سو جب نثر لکھی ہے تو اسے نثر کہلانے دیجیے اور شعر ہی پر موقوف ہے تو قوائد زباں کی رعایت کیجیے۔ جسے اردو میں شعر کہتے ہیں اسے شعر ہی کہلانے دیجیے اور جسے نثر کہتے ہیں اسے نثر ہی رہنے دیجیے، کیوں بے سبب اس کے ساتھ شاعری کا لاحقہ لگا کر شاعری کو شرمندہ فرماتے ہیں؟ نثر بھی تو لطیف ہو سکتی ہے۔ (مادبانہ گزارش ہے۔ گستاخی کا اندیشہ نہ گزرے)
 
استادِ محترم، آپ کی بات سے میرے ذہن میں ایک سوال ابھرا ہے- شعر کی تعریف اردو میں تو بہت صاف ہے، اس کا کسی بحر میں ہونا لازمی ہے۔ لیکن یہ بحور تو دنیا کی چند ایک زبانوں میں ہی مروج ہیں، عربی، فارسی، اردو وغیرہ۔ اس کے علاوہ یورپی زبانوں میں کے لئے تو اصول مختلف ہیں، اگرچہ ہماری زبان ہندی-یورپی زبانوں (Indo-European languages) کی ہی ایک شاخ ہے (یعنی یورپی زبانوں سے کافی مماثلت رکھتی ہے)- انگریزی کو اگر دیکھیں تو ان کے ہاں میٹر (بحر) کی بندش کے اصول اردو کی طرح سخت نہیں ہیں اور جن کو ہم نثری نظم کہتے ہیں، ان کے ہاں عام ہے (ان کے مطابق یہ شاعری ہی کہلاتی ہے)۔ تو کیا ایسا تو نہیں کہ بحر میں پاپند کر کے ہم نے شاعری کے دائرے کو محدود کر دیا ہو؟

اس پر استادِ محترم الف عین کی اور دیگر شعرا کی رائے بھی جاننا چاہوں گا۔ :)

پس نوشت: میرا مقصد ہر گز عروض کے نظام پر تنقید نہیں ہے (ورنہ مجھے عروض کے لئے سافٹوئر بنانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی :p)، یہ ایک علمی سوال ہے-
ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ اردو میں شعر وہی کہلاتا ہے جو بحر کا پابند ہو۔ اگر نوجوان نسل جو کہ ادب کی خدمت کی خواہاں بھی ہے اور عروض کی کھکھیڑ بھی اٹھانے سے قاصر ہے، ادب کی خدمت کرنا چاہتی ہے جو کہ اخلاقی فریضہ بھی ہے، سو وہ شاعری کے میدان میں ضروری نہیں کہ ہو، نثر میں بھی کی جا سکتی ہے۔ شاعری کو محدود کرنے کی بات نہیں۔ شاعری خود بندش ہے اور لطیف پیرایا۔
 
سیر سپاٹوں پر :rolleyes:اکچلی سب مجھے بہت مس وس کر رہے تھے سوچا ان کا شکایت دور کر آوں :daydreaming::daydreaming: السلام علیکم شیخ بھائی کیسے ہیں آپ ؟:rolleyes:

وعلیکم السلام، ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو؟ سیر سپاٹوں پر کہاں گئی تھیں؟
 
آخری تدوین:
Top