نظم: اختر شیرانی

فہد اشرف

محفلین

الغرض فلسفۂ ذوقِ جوانی یہ ہے
کہ جوانی نہ لٹائی جائے

مئے پارینہ کی خوبی کی نشانی یہ ہے
مدتوں تک وہ چھپائی جائے

عصمت اور اس کے مظاہر کی کہانی یہ ہے
شاعروں کو نہ سنائی جائے

مذہبِ شعر کی الہام نشانی یہ ہے
معصیت خوب بڑھائی جائے

(اختر شیرانی)​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ کیسی نظم ہے اس کے مصرعے چھوٹے بڑے سے لگ رپے ہیں۔
اختر شیرانی کا کا کلام مدت پہلے پڑھا تھا ۔ ایک ماحول اور خاص سماں باندھنے کی مہارت میں واقعی ید طولیٰ رکھتے ہیں (ن م راشد بھی اس میں خوب ماہر ہیں ) ۔ لیکن یاد پڑتا ہے کہ اس طرح کے کئی آزاد اور طبع زاد قسم کے نمونے موجود تھے کلام میں ۔ آزاد ہی کہلائیں گے اکثر ان میں البتہ ایک گونہ پابندی بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
یہ کیسی نظم ہے اس کے مصرعے چھوٹے بڑے سے لگ رہے ہیں۔
فہد بھائی ، یہ تجرباتی نظم ہے ۔ ہر پہلا مصرع فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن میں اور ہر دوسرا فاعلاتن فعلاتن فعلن میں ہے ۔ جیسا کہ وارث صاحب نے کہا یہ مستزاد کی طرز پر ایک نیا تجربہ ہے ۔ روایتی مستزاد کم از کم دومصرعوں کے شعر پر لگایا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔ لیکن یہاں اختر شیرانی نے ایک ایک مصرع پر "مستزاد" لگا کر گویا ایک ایسا شعر بنایا ہے کہ جس کا پہلا مصرع چار رکنی اور دوسرا مصرع تین رکنی ہے ۔ اور اس پر التزام یہ رکھا ہے کہ تمام اشعار کے پہلے مصرعوں میں ایک الگ قافیے کی پابندی ہے اور دوسرے مصرعوں میں دوسرے قافیے کی ۔
 
Top