نظمیں

ردا فاطمہ

محفلین
کاش کہ خوشیاں بکتی ہوتیں
اور دکھوں کا ٹھیلا ہوتا
ایک ٹکے میں آنسو آتے
اور محبت چار ٹکے میں
(پانچ ٹکے میں ساری دنیا)
مفت ہنسی اور مفت ستارے
چاند بھی ٹکڑے ٹکڑے بکتا
خواہش نام کی چیز نا ہوتی
ہاتھ بڑھا کے سب ملتا
ہم چاہتے تو مر جاتے ناں
جی چاہتا تو جیتے رہتے
اونچے نیچے شہر نا ہوتے
پانی پر بھی گھر ہوتے
(کاش کے اپنے پر ہوتے)
اور وہ گہرا نیلا امبر
سات سمندر پار کے ساحل
جنگل، ندیاں، گرتا پانی
سب کچھ اپنا دھن ہوتا
کسی بھی چیز کی حد نا ہوتی
وہ کرتے جو من ہوتا
چاند کی کرنیں پہن کے جگتے
اور خاموشی اوڑھ کے سوتے
راتیں دن بھر رکتی ہوتیں
کاش کے خوشیاں بکتی ہوتیں

ردا فاطمہ
 
ب
کاش کہ خوشیاں بکتی ہوتیں
اور دکھوں کا ٹھیلا ہوتا
ایک ٹکے میں آنسو آتے
اور محبت چار ٹکے میں
(پانچ ٹکے میں ساری دنیا)
مفت ہنسی اور مفت ستارے
چاند بھی ٹکڑے ٹکڑے بکتا
خواہش نام کی چیز نا ہوتی
ہاتھ بڑھا کے سب ملتا
ہم چاہتے تو مر جاتے ناں
جی چاہتا تو جیتے رہتے
اونچے نیچے شہر نا ہوتے
پانی پر بھی گھر ہوتے
(کاش کے اپنے پر ہوتے)
اور وہ گہرا نیلا امبر
سات سمندر پار کے ساحل
جنگل، ندیاں، گرتا پانی
سب کچھ اپنا دھن ہوتا
کسی بھی چیز کی حد نا ہوتی
وہ کرتے جو من ہوتا
چاند کی کرنیں پہن کے جگتے
اور خاموشی اوڑھ کے سوتے
راتیں دن بھر رکتی ہوتیں
کاش کے خوشیاں بکتی ہوتیں

ردا فاطمہ
بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اچھی کوشش ہے فاطمہ۔ استاد محترم نے جیسا کہا کہ اگر آپ ذرا کوشش کریں تو اس نظم کو اور بہتر کر سکتی ہیں۔
یہاں چند تجاویز پیش کر رہا ہوں جن کو قبول کرنا یا نا کرنا آپ کے اختیار میں ہے !
آپ خود اپنے خیالات کو زیادہ بہتر طرح سے زبان کے سانچے میں ڈھال سکتی ہیں
ان تجاویز کو ابتدائی مدد کے طور پر لیں، حرفِ آخر کی طرح نہیں !
(پانچ ٹکے میں ساری دنیا)
چند ٹکوں میں دنیا ساری !
خواہش نام کی چیز نا ہوتی
ہاتھ بڑھا کے سب ملتا
خواہش نام کی چیز جو ہوتی
ہاتھ بڑھا کر سب کو ملتی !
ہم چاہتے تو مر جاتے ناں
جی چاہتا تو جیتے رہتے
جی نہ کرتا مر جانے کو
ہنسی خوشی سب جیتے رہتے !
پانی پر بھی گھر ہوتے
اپنے گھر پانی پر ہوتے !
اور وہ گہرا نیلا امبر
گہرا نیلا امبر ہوتا !
اور خاموشی اوڑھ کے سوتے
اور خموشی اوڑھ کے سوتے !

شکریہ
 
Top