نظر آلودہء گردَ سفر ہے : از۔ سیدہ سارا غزل ہاشمی

شوکت پرویز

محفلین
شوکت بھیا۔ یہاں دیکھیں ۔ شہنشائے سخن میر تقی میر نے خانہ کو اپنے اس مصرع (اُسی خانہ خراب کی سی ہے) میں 2+2 کے وزن پر باندھا ہے

میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آپ نے درست فرمایا کہ یہاں "خانہ" فعلن (22) کے وزن پر ہی باندھا گیا ہے، لیکن یہاں اضافت نہیں؛ آپ کوئی اضافت والا شعر لائیں جس میں "خانہء" خا + نا + (ئے یا ءِ) وزن پر باندھا گیا ہو تو ہم :silent3:
غالب کا یہ مصرع دیکھیں:
جذبہء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہئے
سینہء شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
یہاں جذبہ کی ہ سے ب الگ ہو کر بَ اور ئے بن گیا اور سینہ کی ہ سے ن الگ ہو کر نَ اور ئے بن گیا :)
۔۔۔۔
بات یہ ہے کہ جب اضافت لگے گی، تو آخری حرف اپنے سے قبل حرف سے الگ ہو جائے گا (سوائے اس کے کہ آخری حرف الف ہو :)
یعنی ترکیب کے لحاظ سے یہ تو درست ہو گا:
سارائے کراچی
ساراءِ کراچی
شوکتِ ممبئی
شوکتے ممبئی

لیکن یہ درست نہیں:
شوکاتِ ممبئی
شوکاتے ممبئی

اس سے قطعِ نظر کہ "ممبئی" سنسکرت (ہندی) لفظ ہے،:)

علّامہ اقبال کے ایک شعر پر مراسلہ ختم کرتا ہوں :) :
کیا دبدبہِ نادر ، کیا شوکتِ تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مَئے ناب آخر
یہاں بھی اصلاً دبدبہء میں ب سے ہ الگ ہو کر بَ اور ہِ (یا ءِ) ہو گیا ہے اور شوکت کا ک ت سے الگ ہو کر کَ اور تِ ہو گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ اضافت والا (آخری) حرف کو 1 یا 2 باندھنے میں گنجائش ہے لیکن اس سے قبل کے حرف میں یہ گنجائش نہیں :)
 
خانہ کو فعلن، چار حرفی باندھا جا سکتا ہے، لیکن سوال ہمزۂ اضافت کا ہے۔ جہاں بھی ہمزہ اضافت ہوگی، وہاں درست صورت ما قبل کی ہ گرانے کی ہوگی۔ اسی طرح اگر الف ہو، تو ہمزۂ اضافت کی صورت میں اس کو گرایا نہیں جا سکتا۔ جیسے دانائے راز۔ دانا کا الف اگرچہ گرایا جا سکتا ہے، لیکن دانائے راز کا نہیں۔ خانۂ دل کی درست صورت خان۔ئے۔ دل ہوگی۔

سر عبید۔ میں نے یہ غزل اپنے استادمحترم سر فاروق سے چیک کرائے بنا ہی پوسٹ کی لہذا اس کوتاہی کی سزا ملی۔ انہوں نے بھی آپ کی موقف کی تائید کی ہے۔ آپ کی خصوصی توجہ اور شفقت بھری اصلاح کے لئے بیحد شکریہ۔ بے شک آپ نئے لکھنے والوں کے لئے ایک شفیق علمی راہبر اور سخن کا انمول اثاثہ ہیں۔ آپکی صحت اور درازیء عمر کے لئے ہمیشہ دعا گو ہوں۔
 
Top