نظریہ ارتقاء پر اعتراضات اور ان کے جواب

حاتم راجپوت

لائبریرین
بہت اچھا مضمون ہے اور یقیناً اس پر سیر حاصل گفتگو ہونی چاہئے۔ ویسے ارتقاء سے مجھے اپنا کالج کا دور یاد آ گیا۔ :):)
سیالکوٹ مرے کالج میں بائیو کے استاد سر احمد علی تھے۔میں ایف ایس سی کے زمانے میں ایک ہفتہ بائیو کے پیریڈ میں بیٹھتا رہا صرف یہ پوچھنے کیلئے کہ سر یہ ایوولیوشن کیا بلا ہے۔ چھ دن تک میرے پوچھے ہر سوال کو گول کرتے رہے۔آخر ساتویں دن موصوف نے پتا چلا ہی لیا کہ یہ لڑکا پری انجنیئرنگ گروپ سے ہے اور صرف مجھے تنگ کرنے کیلئے آتا ہے۔ سو کھڑے کھڑے نکال دیا :p:p
 

سید ذیشان

محفلین
اچھا مضمون لگتا ہے، تفصیلاً بعد میں پڑھوں گا۔ ؤاقعی میں اردو میں اس مضمون پر کوئی اچھی کتاب نظر سے نہیں گزری۔ ارتقا کے خلاف تو ہارون یحیی کی کتب کے رنگین ترجمے بھی موجود ہیں۔ بی بی سی کی پرانی ڈاکیومنٹری ہے لائف ان ارتھ جو کہ اس موضوع سے کچھ کچھ متعلق ہے اور جانداروں کے بارے میں اس میں کافی معلومات ہیں۔ یہ ڈاکیومنٹری ضرور دیکھیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
ویسے نظریہ ارتقا شائد وہی نظریہ ہے جس کو اکبر آلہ آبادی نے بہت عرصہ پہلے اس شعر سے رد کر دیا تها

کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا بوزنہ ہوں میں

اس شعر کے بعد تو اب اس نظرئیے کی کهوکهلی عمارت قائم نہیں رہ سکتی تهی تو اس کو پڑهانے کا مقصد؟
 

سید زبیر

محفلین
سید شہزاد ناصر
سرکار ! بڑی مشکل سے یہ عقدہ حل کیا تھا کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی یا انڈا ۔ اب یہ دوسرا مسئلہ آگیا
سرکار میں تو بجز دو حرف لا الٰہ کچھ نہیں جانتا ۔ مذکورہ بحث سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ کیا یہ ساری کائنات، یہ سیارے ، ستارے ، حجر و شجر ، حیوانات و نباتات خود بخود تخلیق ہوگئے یا کوئی خالق ہستی ہے ۔ اگر خود بخود تخلیق ہو گئے تو ان میں جدا جدا خصوصیات کیسے پیدا ہوئیں ؟ ایک پتھر کو ہم کیلشیم کہتے ہیں تو دوسرے کو سوڈیم ، ایک تناور درخت پر چھوٹے چھوٹے بیر لگتے ہیں تو ایک نازک بیل پر تربوز ہر ایک کی اقسام بہت ۔ آکر یہ خود بخود کیسے تخلیق ہو گئیں ۔؟ یقیناً کوئی خالق ہوگا ۔ اور پھر کیا وہ خالق جو jelly fish سے لی کر وہیل مچھلی ، چیونٹی سے اژدہا ، چوہے سے لے کر ہاتھی اور چڑیا سے لے کر عقاب تک مخلوق تخلیق کر سکتا ہے اُس کے لئے کیا مجبوری تھی کہ ان تمام مخلوقات پر قدرت رکھنے والے انسان کو کسی اور مخلوق سے بتدرج ترقی دیتا ہوا اشرف المخلوقات بنائے ۔

اب رہی بات اس نظریہ کی ۔ نظریے تو بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی سائنس دان دنیا کو چپٹا سمجھتے تھے پھر گول ہوگئی پھر کہا کہ دنیا سورج کے گرد گھومتی ہے اب یہ بھی متنازعہ ہو گیا بعض سمجھتے ہیں کہ سورج دنیا کے گرد گھومتا ہے ۔ اسی طرح زرافہ کے بارے میں کہ پہلے اُس کی گردن چھوٹی تھی جب قحط پڑا تو اونچے درختوں کی وجہ سے اُس کی گردن لمبی ہوگئی ۔ اس طرح سب جانوروں میں تبدیلی ہوئی یہ ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے ۔ زیبرا گھوڑا نہ بن سکا ،اور صرف ظاہری شکل میں نہیں ان جانوروں کی فطرت اور اس کے مطابق ضروریات بھی مختلف ہیں ۔ہاں البتہ ذہنی ارتقا اور ماحول سے سے رویوں میں تبدیلی ضرور آتی ہے ۔ اور یہ تبدیل انسانوں کے علاوہ حیوانات میں بھی آتی ہے ۔ ان کے ماحول خوراک سے ان کی جسامت بھی متاثر ہوتی ہے مگر ایسی تبدیلی نہیں ہوتی کہ وہ اصل ہی ختم ہو جائے ۔

بہر حال سوائے قران مجید کے ہر نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے گا اور انجام کار وہی نظریہ درست ہوگا جو آخری الہامی کتاب میں ہے ۔
 
ہم بچپن میں جب اسلام آباد کی سیر کو گئے تو وہاں ایک سائنس میوزیم موجود گائڈ نے ہمیں کچھ تصاویر وغیرہ کی مدد سے بتایا کہ کچھ سائنسدان کیسے انسان کو ارتقائی عمل سے گزر کر موجودہ حالت میں پہنچنے تک کے نظریے میں یقین رکھتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی اس نے یہ بتایا کہ یہ نظریہ سراسر خلاف اسلام ہے اور ہمیں اس پر یقین نہیں رکھنا چاہئے۔ :)
میری خواہش تھی کہ وہ گائڈ ہمیں ڈارون کے نظریے کے خلاف سائنسی شواہد اور دلائل بھی بتاتا!
میرا خیال ہے کہ ڈارون کے نظریہ انسانی نظریہ ارتقاء کے خلاف سائنسی شواہد بھی مل سکتے ہیں ان شواہد کو تلاش کرکے منظرعام پر لانے کی ضرورت ہے۔ :)
 
سید شہزاد ناصر
سرکار ! بڑی مشکل سے یہ عقدہ حل کیا تھا کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی یا انڈا ۔ اب یہ دوسرا مسئلہ آگیا
سرکار میں تو بجز دو حرف لا الٰہ کچھ نہیں جانتا ۔ مذکورہ بحث سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ کیا یہ ساری کائنات، یہ سیارے ، ستارے ، حجر و شجر ، حیوانات و نباتات خود بخود تخلیق ہوگئے یا کوئی خالق ہستی ہے ۔ اگر خود بخود تخلیق ہو گئے تو ان میں جدا جدا خصوصیات کیسے پیدا ہوئیں ؟ ایک پتھر کو ہم کیلشیم کہتے ہیں تو دوسرے کو سوڈیم ، ایک تناور درخت پر چھوٹے چھوٹے بیر لگتے ہیں تو ایک نازک بیل پر تربوز ہر ایک کی اقسام بہت ۔ آکر یہ خود بخود کیسے تخلیق ہو گئیں ۔؟ یقیناً کوئی خالق ہوگا ۔ اور پھر کیا وہ خالق جو jelly fish سے لی کر وہیل مچھلی ، چیونٹی سے اژدہا ، چوہے سے لے کر ہاتھی اور چڑیا سے لے کر عقاب تک مخلوق تخلیق کر سکتا ہے اُس کے لئے کیا مجبوری تھی کہ ان تمام مخلوقات پر قدرت رکھنے والے انسان کو کسی اور مخلوق سے بتدرج ترقی دیتا ہوا اشرف المخلوقات بنائے ۔

اب رہی بات اس نظریہ کی ۔ نظریے تو بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی سائنس دان دنیا کو چپٹا سمجھتے تھے پھر گول ہوگئی پھر کہا کہ دنیا سورج کے گرد گھومتی ہے اب یہ بھی متنازعہ ہو گیا بعض سمجھتے ہیں کہ سورج دنیا کے گرد گھومتا ہے ۔ اسی طرح زرافہ کے بارے میں کہ پہلے اُس کی گردن چھوٹی تھی جب قحط پڑا تو اونچے درختوں کی وجہ سے اُس کی گردن لمبی ہوگئی ۔ اس طرح سب جانوروں میں تبدیلی ہوئی یہ ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے ۔ زیبرا گھوڑا نہ بن سکا ،اور صرف ظاہری شکل میں نہیں ان جانوروں کی فطرت اور اس کے مطابق ضروریات بھی مختلف ہیں ۔ہاں البتہ ذہنی ارتقا اور ماحول سے سے رویوں میں تبدیلی ضرور آتی ہے ۔ اور یہ تبدیل انسانوں کے علاوہ حیوانات میں بھی آتی ہے ۔ ان کے ماحول خوراک سے ان کی جسامت بھی متاثر ہوتی ہے مگر ایسی تبدیلی نہیں ہوتی کہ وہ اصل ہی ختم ہو جائے ۔

بہر حال سوائے قران مجید کے ہر نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے گا اور انجام کار وہی نظریہ درست ہوگا جو آخری الہامی کتاب میں ہے ۔
حاصل کلام یہ ہی ہے حضور مجھے بھی انہی باتوں سے اختلافت تھا جن کا آپ نے ذکر کیا ہے :)
جزاک اللہ
 

زیک

مسافر
ہم بچپن میں جب اسلام آباد کی سیر کو گئے تو وہاں ایک سائنس میوزیم موجود گائڈ نے ہمیں کچھ تصاویر وغیرہ کی مدد سے بتایا کہ کچھ سائنسدان کیسے انسان کو ارتقائی عمل سے گزر کر موجودہ حالت میں پہنچنے تک کے نظریے میں یقین رکھتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی اس نے یہ بتایا کہ یہ نظریہ سراسر خلاف اسلام ہے اور ہمیں اس پر یقین نہیں رکھنا چاہئے۔ :)
میری خواہش تھی کہ وہ گائڈ ہمیں ڈارون کے نظریے کے خلاف سائنسی شواہد اور دلائل بھی بتاتا!
میرا خیال ہے کہ ڈارون کے نظریہ انسانی نظریہ ارتقاء کے خلاف سائنسی شواہد بھی مل سکتے ہیں ان شواہد کو تلاش کرکے منظرعام پر لانے کی ضرورت ہے۔ :)
نہ صرف نظریہ ارتقاء کے خلاف کوئی سائنسی شواہد نہیں ہیں بلکہ اس کے بغیر حیاتیات سمجھنا ہی ممکن نہیں۔
 

زیک

مسافر
اب رہی بات اس نظریہ کی ۔ نظریے تو بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی سائنس دان دنیا کو چپٹا سمجھتے تھے پھر گول ہوگئی پھر کہا کہ دنیا سورج کے گرد گھومتی ہے اب یہ بھی متنازعہ ہو گیا بعض سمجھتے ہیں کہ سورج دنیا کے گرد گھومتا ہے ۔
یہ کیا چکر ہے؟
 

زیک

مسافر
ویسے نظریہ ارتقا شائد وہی نظریہ ہے جس کو اکبر آلہ آبادی نے بہت عرصہ پہلے اس شعر سے رد کر دیا تها

کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا بوزنہ ہوں میں

اس شعر کے بعد تو اب اس نظرئیے کی کهوکهلی عمارت قائم نہیں رہ سکتی تهی تو اس کو پڑهانے کا مقصد؟
واہ واہ واہ
 

محمد سعد

محفلین
ایسے لوگ بھی آسانی سے مل جائیں گے جو قرآن کی آیات سے نظریہ ارتقاء کو باطل ثابت کر دیں گے اور ایسے لوگ بھی جو کہ قرآن کی آیات سے نظریہ ارتقاء کو ایک حقیقی امکان ثابت کر دیں گے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ غیر جانبداری کے ساتھ فطرت کا مطالعہ کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ خدا نے یہ سب مخلوق کن کن مراحل سے گزار کر پیدا کی، بجائے اس کے کہ خود ہی خدا کو بتانے لگ جائیں کہ تو نے یہ سب ایسے پیدا کیا تھا؟
 
ایسے لوگ بھی آسانی سے مل جائیں گے جو قرآن کی آیات سے نظریہ ارتقاء کو باطل ثابت کر دیں گے اور ایسے لوگ بھی جو کہ قرآن کی آیات سے نظریہ ارتقاء کو ایک حقیقی امکان ثابت کر دیں گے۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ غیر جانبداری کے ساتھ فطرت کا مطالعہ کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ خدا نے یہ سب مخلوق کن کن مراحل سے گزار کر پیدا کی، بجائے اس کے کہ خود ہی خدا کو بتانے لگ جائیں کہ تو نے یہ سب ایسے پیدا کیا تھا؟
بہت اعلٰی
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر آپ سائنس کو مانتے ہیں تو آپ کو خدا کے تصور کی ضرورت نہیں۔ اگر آپ خدا کو مانتے ہیں تو سائنس آپ کے کسی کام کی نہیں :)
 
سید شہزاد ناصر
سرکار ! بڑی مشکل سے یہ عقدہ حل کیا تھا کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی یا انڈا ۔ اب یہ دوسرا مسئلہ آگیا
سرکار میں تو بجز دو حرف لا الٰہ کچھ نہیں جانتا ۔ مذکورہ بحث سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ کیا یہ ساری کائنات، یہ سیارے ، ستارے ، حجر و شجر ، حیوانات و نباتات خود بخود تخلیق ہوگئے یا کوئی خالق ہستی ہے ۔ اگر خود بخود تخلیق ہو گئے تو ان میں جدا جدا خصوصیات کیسے پیدا ہوئیں ؟ ایک پتھر کو ہم کیلشیم کہتے ہیں تو دوسرے کو سوڈیم ، ایک تناور درخت پر چھوٹے چھوٹے بیر لگتے ہیں تو ایک نازک بیل پر تربوز ہر ایک کی اقسام بہت ۔ آکر یہ خود بخود کیسے تخلیق ہو گئیں ۔؟ یقیناً کوئی خالق ہوگا ۔ اور پھر کیا وہ خالق جو jelly fish سے لی کر وہیل مچھلی ، چیونٹی سے اژدہا ، چوہے سے لے کر ہاتھی اور چڑیا سے لے کر عقاب تک مخلوق تخلیق کر سکتا ہے اُس کے لئے کیا مجبوری تھی کہ ان تمام مخلوقات پر قدرت رکھنے والے انسان کو کسی اور مخلوق سے بتدرج ترقی دیتا ہوا اشرف المخلوقات بنائے ۔

اب رہی بات اس نظریہ کی ۔ نظریے تو بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی سائنس دان دنیا کو چپٹا سمجھتے تھے پھر گول ہوگئی پھر کہا کہ دنیا سورج کے گرد گھومتی ہے اب یہ بھی متنازعہ ہو گیا بعض سمجھتے ہیں کہ سورج دنیا کے گرد گھومتا ہے ۔ اسی طرح زرافہ کے بارے میں کہ پہلے اُس کی گردن چھوٹی تھی جب قحط پڑا تو اونچے درختوں کی وجہ سے اُس کی گردن لمبی ہوگئی ۔ اس طرح سب جانوروں میں تبدیلی ہوئی یہ ایک مضحکہ خیز بات لگتی ہے ۔ زیبرا گھوڑا نہ بن سکا ،اور صرف ظاہری شکل میں نہیں ان جانوروں کی فطرت اور اس کے مطابق ضروریات بھی مختلف ہیں ۔ہاں البتہ ذہنی ارتقا اور ماحول سے سے رویوں میں تبدیلی ضرور آتی ہے ۔ اور یہ تبدیل انسانوں کے علاوہ حیوانات میں بھی آتی ہے ۔ ان کے ماحول خوراک سے ان کی جسامت بھی متاثر ہوتی ہے مگر ایسی تبدیلی نہیں ہوتی کہ وہ اصل ہی ختم ہو جائے ۔

بہر حال سوائے قران مجید کے ہر نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنا ارتقائی سفر جاری رکھے گا اور انجام کار وہی نظریہ درست ہوگا جو آخری الہامی کتاب میں ہے ۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں نظریوں میں یعنی مذاہب کے نظریے اور ڈارون وغیرہ کے ارتقاء کے نظریے میں بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی مکمل نفی کرتے ہیں۔

مذہب انسانیت کا آغاز آدم سے بتاتا ہے جو کہ مکمل شعور اور جسم کے ساتھ جوڑی بنا کر جنت سے زمین برد کیا گیا تھا اور تمام انسانیت اولادِ آدم بتائی جاتی ہے۔ اور یہ کہ اللہ نے انسان کو کس طرح پیدا کیا۔ اسی طرح دوسرے آفاقی یا الہامی مذاہب بھی ایسا ہی نظریہ رکھتے ہیں، کہ دنوں کے حساب سے بتایا گیا ہے کہ کتنے دن میں کائنات اور یہ دنیا بنائی گئی۔

دوسرا نظریہ پھر ارتقاء کا ہے جس میں خالق کی نفی ہے اور چیزوں کے کیمیاوی عوام سے ظہور پذیر ہونے اور ماحول اور ضرورت کے مطابق مختلف سانچوں میں ڈھلتے جانے کے نظریے کو سراہا جاتا ہے۔

یہ دونوں کشتیاں اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان دونوں میں اکٹھے سفر کرنا ممکن نہیں ہمیں کسی ایک کشتی کو چننا ہو گا۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بہت سے کالڈ انٹیکچوئلز کم کامریڈز جن میں کچھ میرے احباب بھی شامل ہیں وہ کبھی مہرباں ہو جائیں کسی بات پر تو اپنے نظریات یا فکریات میں تھوڑا سا جھانکنے دے دیا کرتے ہیں کبھی کبھی اور اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ مذہب ایک مخصوص مافیا کی پیداوار ہے۔ یہ کچھ مخصوص ذہن کے لوگوں نے اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایجاد کیا ہے اور جب بھی ایسا ہونے لگا کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یکسانیت یا دیگر عوامل کے تحت لوگوں کا "ایمان" ڈگمگاتا محسوس ہوا تو اس مافیا نے انہی فلسفوں اور نظریات کے تحت پھر سے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے مقاصد اور اپنی بقاء کے لیے نئے مذہب کا اجراء کیا اور پرانے مذہب سے بوریت کی وجہ سے لوگوں کو نئی جانب راغب کیا۔ اور ان میں پھر حصہ داریاں بنتی چلی گئیں اور یہ ریکٹ اپنے اپنے حلقہءِ عمل میں اپنا اثر رسوخ بڑھاتے چلے گئے۔
اور یہ کہ وہ دن دور نہیں جب مذاہب کی کھوکھلی بنیادیں ابھر کر سامنے آ جائیں گی اور لوگ حقیقت جان جائیں گے۔

بہت سی باتیں کنفیوز کرنے والی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی عالم یا مفتی سے پوچھنے کی کوشش کی تو کئی باتوں کے جواب میں صرف عقیدے کی درستگی پر زور دیا گیا۔

لیکن وہاں سے بہت سے سوالات کی تشنگی کے باوجود مجھے بہت سے حقائق اس بات پر قائم رکھتے ہیں کہ انسان ایک تخلیق ہے اور یہ رگڑ کھا کھا کر انسان نہیں بنا بلکہ یہ انسان ہی پیدا کیا گیا تھا۔ بہت سے اشارے ایسے ہیں جو ربِ کائنات کی وحدانیت کا احساس دلاتے ہیں اور میں یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ انسان ابھی علم کے معاملے میں اس حد تک نہیں پہنچ پایا کہ ہر سوال کا جواب جان سکے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں نظریوں میں یعنی مذاہب کے نظریے اور ڈارون وغیرہ کے ارتقاء کے نظریے میں بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی مکمل نفی کرتے ہیں۔

مذہب انسانیت کا آغاز آدم سے بتاتا ہے جو کہ مکمل شعور اور جسم کے ساتھ جوڑی بنا کر جنت سے زمین برد کیا گیا تھا اور تمام انسانیت اولادِ آدم بتائی جاتی ہے۔ اور یہ کہ اللہ نے انسان کو کس طرح پیدا کیا۔ اسی طرح دوسرے آفاقی یا الہامی مذاہب بھی ایسا ہی نظریہ رکھتے ہیں، کہ دنوں کے حساب سے بتایا گیا ہے کہ کتنے دن میں کائنات اور یہ دنیا بنائی گئی۔

دوسرا نظریہ پھر ارتقاء کا ہے جس میں خالق کی نفی ہے اور چیزوں کے کیمیاوی عوام سے ظہور پذیر ہونے اور ماحول اور ضرورت کے مطابق مختلف سانچوں میں ڈھلتے جانے کے نظریے کو سراہا جاتا ہے۔

یہ دونوں کشتیاں اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان دونوں میں اکٹھے سفر کرنا ممکن نہیں ہمیں کسی ایک کشتی کو چننا ہو گا۔

یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بہت سے کالڈ انٹیکچوئلز کم کامریڈز جن میں کچھ میرے احباب بھی شامل ہیں وہ کبھی مہرباں ہو جائیں کسی بات پر تو اپنے نظریات یا فکریات میں تھوڑا سا جھانکنے دے دیا کرتے ہیں کبھی کبھی اور اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ مذہب ایک مخصوص مافیا کی پیداوار ہے۔ یہ کچھ مخصوص ذہن کے لوگوں نے اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایجاد کیا ہے اور جب بھی ایسا ہونے لگا کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یکسانیت یا دیگر عوامل کے تحت لوگوں کا "ایمان" ڈگمگاتا محسوس ہوا تو اس مافیا نے انہی فلسفوں اور نظریات کے تحت پھر سے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے مقاصد اور اپنی بقاء کے لیے نئے مذہب کا اجراء کیا اور پرانے مذہب سے بوریت کی وجہ سے لوگوں کو نئی جانب راغب کیا۔ اور ان میں پھر حصہ داریاں بنتی چلی گئیں اور یہ ریکٹ اپنے اپنے حلقہءِ عمل میں اپنا اثر رسوخ بڑھاتے چلے گئے۔
اور یہ کہ وہ دن دور نہیں جب مذاہب کی کھوکھلی بنیادیں ابھر کر سامنے آ جائیں گی اور لوگ حقیقت جان جائیں گے۔

بہت سی باتیں کنفیوز کرنے والی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی عالم یا مفتی سے پوچھنے کی کوشش کی تو کئی باتوں کے جواب میں صرف عقیدے کی درستگی پر زور دیا گیا۔

لیکن وہاں سے بہت سے سوالات کی تشنگی کے باوجود مجھے بہت سے حقائق اس بات پر قائم رکھتے ہیں کہ انسان ایک تخلیق ہے اور یہ رگڑ کھا کھا کر انسان نہیں بنا بلکہ یہ انسان ہی پیدا کیا گیا تھا۔ بہت سے اشارے ایسے ہیں جو ربِ کائنات کی وحدانیت کا احساس دلاتے ہیں اور میں یہ سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ انسان ابھی علم کے معاملے میں اس حد تک نہیں پہنچ پایا کہ ہر سوال کا جواب جان سکے۔
مذہب ہمیں کائنات کی ابتداء کے بارے انتہائی محدود معلومات دیتا ہے۔ تمام تر مخلوقات کی پیدائش میں ہمیں صرف آدم اور حوا کی پیدائش کی تفصیل مذہب سے ملتی ہے، باقی تمام جاندار کیسے اور کیوں پیدا ہوئے، اس بارے مذہب خاموش ہی رہتا ہے۔ تاہم اس کے مقابلے میں سائنس کم از کم ان سوالات کے جوابات بے شک نہ دے، جواب تلاش کرنے میں مدد تو کرتی ہے :)
 

زیک

مسافر
اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں نظریوں میں یعنی مذاہب کے نظریے اور ڈارون وغیرہ کے ارتقاء کے نظریے میں بیچ کا کوئی راستہ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کی مکمل نفی کرتے ہیں۔

مذہب انسانیت کا آغاز آدم سے بتاتا ہے جو کہ مکمل شعور اور جسم کے ساتھ جوڑی بنا کر جنت سے زمین برد کیا گیا تھا اور تمام انسانیت اولادِ آدم بتائی جاتی ہے۔ اور یہ کہ اللہ نے انسان کو کس طرح پیدا کیا۔ اسی طرح دوسرے آفاقی یا الہامی مذاہب بھی ایسا ہی نظریہ رکھتے ہیں، کہ دنوں کے حساب سے بتایا گیا ہے کہ کتنے دن میں کائنات اور یہ دنیا بنائی گئی۔

دوسرا نظریہ پھر ارتقاء کا ہے جس میں خالق کی نفی ہے اور چیزوں کے کیمیاوی عوام سے ظہور پذیر ہونے اور ماحول اور ضرورت کے مطابق مختلف سانچوں میں ڈھلتے جانے کے نظریے کو سراہا جاتا ہے۔

یہ دونوں کشتیاں اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان دونوں میں اکٹھے سفر کرنا ممکن نہیں ہمیں کسی ایک کشتی کو چننا ہو گا۔
یہ بات درست ہے کہ بہت سے مذاہب اوریجن سٹوری بتاتے ہیں جو سائنسی اور تاریخی لحاظ سے literally سچ نہیں۔ مگر بہت سے مذہبی سائنسی لوگ استعارے وغیرہ کی مدد سے اسے سمجھتے ہیں۔

یہ کہنا غلط ہے کہ سائنس یا ارتقاء میں خالق کی نفی ہے۔ بات سادہ سی ہے کہ سائنس کا کوئی بھی پہلو لیں تو اس میں اگر آپ تمام طاقت والا خدا فرض کر لیں تو سائنس کا کام کیا رہ گیا۔ ارتقاء یا کوئی اور سائنسی حقیقت خدا کا کیا ہو سکتی ہے مگر سائنس اس کی تفصیل بتاتی ہے۔
 

زیک

مسافر
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بہت سے کالڈ انٹیکچوئلز کم کامریڈز جن میں کچھ میرے احباب بھی شامل ہیں وہ کبھی مہرباں ہو جائیں کسی بات پر تو اپنے نظریات یا فکریات میں تھوڑا سا جھانکنے دے دیا کرتے ہیں کبھی کبھی اور اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ مذہب ایک مخصوص مافیا کی پیداوار ہے۔ یہ کچھ مخصوص ذہن کے لوگوں نے اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایجاد کیا ہے اور جب بھی ایسا ہونے لگا کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یکسانیت یا دیگر عوامل کے تحت لوگوں کا "ایمان" ڈگمگاتا محسوس ہوا تو اس مافیا نے انہی فلسفوں اور نظریات کے تحت پھر سے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اپنے مقاصد اور اپنی بقاء کے لیے نئے مذہب کا اجراء کیا اور پرانے مذہب سے بوریت کی وجہ سے لوگوں کو نئی جانب راغب کیا۔ اور ان میں پھر حصہ داریاں بنتی چلی گئیں اور یہ ریکٹ اپنے اپنے حلقہءِ عمل میں اپنا اثر رسوخ بڑھاتے چلے گئے۔
اور یہ کہ وہ دن دور نہیں جب مذاہب کی کھوکھلی بنیادیں ابھر کر سامنے آ جائیں گی اور لوگ حقیقت جان جائیں گے۔
بات موضوع سے بہت ہٹ جائے گی مگر مذہب کے اس سوشل فنکشن سے زیادہ اہم مذہب کی نیوروسائنس ہے۔ اس بارے میں سکاٹ اٹران اور پاسکل بویر کا کافی کام ہے
 
نہ صرف نظریہ ارتقاء کے خلاف کوئی سائنسی شواہد نہیں ہیں بلکہ اس کے بغیر حیاتیات سمجھنا ہی ممکن نہیں۔
آپ کی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ابھی تک نظریہ ارتقاء کے خلاف سائنسی شواہد ملے نہیں یا منظرعام پر نہیں آئے۔ جب موجودہ سائنسی نظریہ ارتقاء کے مقابل دوسرا سائنسی نظریہ سامنے آجائے گا توحیاتیات کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔ :)
 
Top