نظریہ ارتقاء پر اعتراضات اور ان کے جواب

arifkarim

معطل
۔گویا ارتقاء انسان کوحیوان سمجھنےاور بنانے کا نظریہ ہے ۔:D
قطعی نہیں! یہ بھی ایک مفروضہ ہے مذہبی کمیونیٹی کی طرف سے کے نظریہ ارتقاء کو ماننے والے انسانی روحانیات، اخلاقیات اور وہ دیگر اقدار جو انسان کو حیوانات سے منفرد بناتی ہیں کے انکاری ہیں۔ چارلز ڈارون جو کہ نظریہ ارتقاء کا بانی ہے کا تعلق خود ایک عیسائی مذہبی گھرانے سے تھا۔ یہ نظریہ پیش کرنے سے قبل ڈارون مسیحیت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا اور یہ پاس کر کے پادری بننا چاہتا تھا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Religious_views_of_Charles_Darwin

اسلئے یہ کہنا بالکل ہی غلط ہے کہ ڈارون نے یہ نظریہ ارتقاء روائیتی مذہبی اقدار سے جنگ یا اسکو رد کرنے کیلئے کسی سازش کے تحت پیش کیا۔ کیونکہ ڈارون بذات خود ملحد نہیں تھا۔اور نہ ہی اسکا کسی ملحدی تنظیم سے کوئی تعلق تھا۔ اسنے دنیا کے سامنے وہی پیش کیا جو اسنے قدرتی طور پر مشاہدہ کیا۔ اور یہ انتہائی مزے کی بات ہے کہ ڈارون سے کئی سو سال قبل خود بہت سے مسلمان سائنسدان نظریہ ارتقاء سے ملتے جلتے خیالات پیش کر چکے ہیں جن میں جاحظ ، ابن خلدون اورخواجہ طوسی جیسے نامور سائنسدان شامل ہیں۔ ابن خلدون نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مقدمہ ابن خلدون“ میں یہاں تک کہہ دیا کہ انسان بندروں کی دنیا سے آئے ہیں:
The animal world then widens, its species become numerous, and, in a gradual process of creation, it finally leads to man, who is able to think and reflect. The higher stage of man is reached from the world of monkeys, in which both sagacity and perception are found, but which has not reached the stage of actual reflection and thinking. At this point we come to the first stage of man. This is as far as our (physical) observation extends.
http://www.muslimphilosophy.com/ik/Muqaddimah/Chapter1/Ch_1_06.htm
چونکہ ابن خلدون 13 ویں صدی عیسوی میں آیا تھا یعنی ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے کوئی 500 سال قبل یوں آجکل کے مسلمانوں کو آنکھیں بند کر کے یہاں بھی یہی رونا چاہئے کہ ہائے مغربیوں نے" ہماری" سائنس چوری کرکے ڈارون کے نام لگا دی! :cry2:
زیک حمیر یوسف
 

arifkarim

معطل
common descent کا آئیڈیا ڈارون سے بھی پرانا ہے۔ ڈارون نے اس کا کیکنزم نیچرل سلیکشن کے ذریعہ کیسے ہوتا ہے بتایا۔
بالکل اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے اس آئیڈیا کو آگے پھیلانے میں کسی وقتوں میں مسلمان سائنسدانوں کا بھی ہاتھ رہا ہے۔ لیکن آجکل کے مسلمان اپنی لاعلمی کی وجہ سے اسے مغربی سازش اور اسلام مخالف کہتے پھرتے رہتے ہیں :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قطعی نہیں! یہ بھی ایک مفروضہ ہے مذہبی کمیونیٹی کی طرف سے کے نظریہ ارتقاء کو ماننے والے انسانی روحانیات، اخلاقیات اور وہ دیگر اقدار جو انسان کو حیوانات سے منفرد بناتی ہیں کے انکاری ہیں۔ چارلز ڈارون جو کہ نظریہ ارتقاء کا بانی ہے کا تعلق خود ایک عیسائی مذہبی گھرانے سے تھا۔ یہ نظریہ پیش کرنے سے قبل ڈارون مسیحیت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا اور یہ پاس کر کے پادری بننا چاہتا تھا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Religious_views_of_Charles_Darwin

اسلئے یہ کہنا بالکل ہی غلط ہے کہ ڈارون نے یہ نظریہ ارتقاء روائیتی مذہبی اقدار سے جنگ یا اسکو رد کرنے کیلئے کسی سازش کے تحت پیش کیا۔ کیونکہ ڈارون بذات خود ملحد نہیں تھا۔اور نہ ہی اسکا کسی ملحدی تنظیم سے کوئی تعلق تھا۔ اسنے دنیا کے سامنے وہی پیش کیا جو اسنے قدرتی طور پر مشاہدہ کیا۔ اور یہ انتہائی مزے کی بات ہے کہ ڈارون سے کئی سو سال قبل خود بہت سے مسلمان سائنسدان نظریہ ارتقاء سے ملتے جلتے خیالات پیش کر چکے ہیں جن میں جاحظ ، ابن خلدون اورخواجہ طوسی جیسے نامور سائنسدان شامل ہیں۔ ابن خلدون نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”مقدمہ ابن خلدون“ میں یہاں تک کہہ دیا کہ انسان بندروں کی دنیا سے آئے ہیں:
The animal world then widens, its species become numerous, and, in a gradual process of creation, it finally leads to man, who is able to think and reflect. The higher stage of man is reached from the world of monkeys, in which both sagacity and perception are found, but which has not reached the stage of actual reflection and thinking. At this point we come to the first stage of man. This is as far as our (physical) observation extends.
http://www.muslimphilosophy.com/ik/Muqaddimah/Chapter1/Ch_1_06.htm
چونکہ ابن خلدون 13 ویں صدی عیسوی میں آیا تھا یعنی ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے کوئی 500 سال قبل یوں آجکل کے مسلمانوں کو آنکھیں بند کر کے یہاں بھی یہی رونا چاہئے کہ ہائے مغربیوں نے" ہماری" سائنس چوری کرکے ڈارون کے نام لگا دی! :cry2:
زیک حمیر یوسف
میرے خیال سے آپ کی بات غلط ہےشاید آپ نے چالس کی بچپن کی کوئی بات سن لی ہو گی ۔چارلس بے شک شروع میں عیسائی تھا مگر بیگل اور گولاپگس کے ٹوؤر( جو اس نے بیس پچیس سال میں کیا تھا) کے بعد نے چرچ کے اندر جانا ہی چھوڑ دیا تھا اپنی راسخ العقیدہ بیوی ایما کی خاطر چرچ آاتا تھا اور خود باہر کھڑا ہوتا یا ٹہل کر انتظار کرتاتھا ۔۔۔
 

x boy

محفلین
الحمد للہ:
سات آسمان فرشتوں سے آباد ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( ‏تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ )

ترجمہ: قریب ہے کہ تمام آسمان اوپر سے پھٹ پڑیں درآنحالیکہ فرشتے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے اور زمین میں رہنے والوں کے لئے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں۔ سن رکھو !! اللہ ہی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ الشورى/ 5

اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:

( ‏فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْأَمُونَ )

ترجمہ: پھر اگر یہ لوگ اکڑ بیٹھیں تو آپ کے پروردگار کے پاس جو لوگ ہیں وہ رات دن اس کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں اور کبھی نہیں اکتاتے۔ فصلت/7

اور ترمذی میں (2312)ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے، اور وہ کچھ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے، آسمان چرچراتا ہے اور اس کا چرچرانا حق ہے اس میں چار انگلی کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں ہے کہ وہاں کوئی فرشتہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیشانی رکھ کر سجدہ ریز نہ ہو اللہ کی قسم اگر تم لوگ وہ کچھ جاننے لگو جو میں جانتا ہوں تو کم ہنستے اور زیادہ روتے اور بستروں پر عورتوں سے لذت نہ حاصل کرتے جنگلوں کی طرف نکل جاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے) اس روایت کو البانی نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

حدیث میں مذکور(أَطَّتْ)"چِرچرانا"یعنی فرشتوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے آسمان سے آوازیں نکلتی ہیں۔

اور بخاری مسلم میں مالک بن صعصعہ کی روایت جس میں اسراء و معراج والا قصہ ہے: (۔۔۔ میرے لئے بیت المعموربلند کیا گیا، تو میں نے جبریل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: یہ بیت المعمور ہے، روزانہ یہاں پر ستّر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، اور جب یہاں سے چلے جاتے ہیں پھر اُنکی دوبارہ باری نہیں آتی)

بخاری (3207) ومسلم (164)

یہ تو ہے آسمانوں کے متعلق ، جبکہ سیاروں اور کہکشاؤں کے بارے میں ہم کہیں گے: اللہ ہی بہتر جانتا ہے .

ابھی تو انسان نے ہیبل کے ذریعے اتنا تھوڑا جانا ہے جو ہمارے آسمان یعنی زمین اور نظام شمشی کا پہلا آسمان ۔ میں اکثر ڈکومینٹریس دیکھتا ہوں
سمندر کی حد گہرائی ابھی تک انسان کے علم میں نہیں ہے صرف کیلکولیشن ہے جانا ممکن نہیں۔

اللہ تعالی نے آسمان وزمین اورجوکچھ بھی ان میں ہے چھ یوم میں پیدا فرمایا جیسا کہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ یقینا ہم نے آسمانوں اورزمین اورجوکچھ اس کے درمیان ہے سب کوصرف چھ یوم میں پیدا کردیا اور ہمیں تکان نے چھوا تک نہیں } ق ( 38 ) ۔

تواس آیت میں یھودیوں ( اللہ تعالی ان پرلعنت کرے ) کے قول کا بطلان ہے کہ جب اللہ تعالی نے آسمان وزمین کوچھ یوم میں پیدا فرمایا توہفتہ کے دن آرام فرمایا ، اللہ تعالی ان کے اس قول سے بلند بالا اورپاک ہے ۔

اورقرآن مجید میں اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ آپ کہہ دیجئے ! کہ کیا تم اس ( اللہ ) کا انکار کرتے اورتم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردی سارے جہانوں کا پروردرگار وہی ہے ، اور اس نے زمین میں اس کے اوپرسے گاڑ دیئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں( رہنے والوں کی )غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں چار دن میں کردی ضرورت مندوں کے لیے یکساں طورپر ۔

پھرآسمان کی طرف متوجہ ہوا اوروہ دھواں سا تھا پس اسے اورزمین س فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ‎ یا ناخوشی سے دونوں نے عرض کیا ہم بخوشی حاضر ہیں ، تودودن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہرآسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چرغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غالب و دانا کی ہے } فصلت ( 12 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .
 

x boy

محفلین
الحمدللہ
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوساٹھ ہاتھ لمبا پیدا فرمایا تھا پھر اس کے بعد تدرج کے ساتھ آہستہ آہستہ اس میں کمی ہوتی گئ حتی کہ جتنا قدآج ہے اس پرٹھراؤ پیدا ہوگيا اور اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے :
( اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایا توان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا توآج تک اس میں کمی ہورہی ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3326 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2841 ) ۔

اورابن ابی حاتم رحمہ اللہ تعالی نے حسن سند کے ساتھ ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوایک لمبے قداورسرکے زیادہ بالوں والوں والا پیدا فرمایا گویا کہ وہ ایک لبمی کھجور کا درخت ہوں )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں کچھ اس طرح رقمطراز ہیں:

( توآج تک مخلوق کے قد میں کمی ہورہی ہے ) یعنی ہردور کے لوگوں کی پیدائش اپنے دورکے لوگوں سے قد میں کمی کے ساتھ ہورہی ہے ، توقد میں کمی اس امت پرآکر ختم ہوچکی ہے اور اب قدمیں ٹھراؤ پیدا ہوچکا ہے ۔ ا ھ۔

اوراللہ تعالی ہی زيادہ علم رکھنے والا ہے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرمائے آمین ۔

اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کواپنے ھاتھ سے پیدا فرمایا اوراس میں اپنی روہ پھونکی اور فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا ۔
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدافرمایا جیسا کہ اللہ تعالی نے اس فرمان میں فرمایا ہے :

{ اللہ تعالی کے ہاں عیسی (علیہ السلام ) کی مثال ہوبہو آدم (علیہ السلام ) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کرکہہ دیا کہ ہوجا تووہ ہوگیا } آل عمران ( 59 )۔

اورجب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پیدائش مکمل کی توفرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کوسجدہ کریں توان سب نے سجدہ کیا اوراس وقت ابلیس بھی وہاں موجود تھا لیکن اس نے تکبرکرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، جیساکہ اللہ تعالی نے اس فرمان میں ذکرکیا ہے :

{ جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ، توجب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گرپڑنا ، چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے ( نہ کیا ) اس نے تکبر کیااور وہ کافروں میں سے تھا } ص ( 71 - 74 ) ۔

پھراللہ تعالی نے فرشتوں کویہ بتایا کہ وہ آدم علیہ السلام کوزمین میں خلیفہ بنانے والا ہے ، توفرمایا :

{ اورجب آپ کےرب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں } البقرۃ ( 30 ) ۔

اورآدم علیہ السلام کو سب نام سکھا دیئے اسی کا ذکراللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح کیا ہے :

{ اورآدم ( علیہ السلام ) کوسب کے سب نام سکھا دیئے } البقرۃ ( 31 )۔

اورجب ابلیس نے آدم علیہ السلام کوسجدہ نہ کیا تواللہ تعالی نے اسے دھتکار دیا اوراس پرلعنت کردی ، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان ہے :

{ فرمان جاری ہوا کہ تویہاں سے نکل جا تومردود ہے ، اور تجھ پرقیامت کے دن تک میری لعنت اورپھٹکار ہے } ص ( 77- 78 ) ۔

جب ابلیس نے اپنا انجام جان لیا تو اس نے اللہ تعالی سے قیامت تک کے لیے مہلت طلب کی ، جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا ہے :

{ کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے ( اللہ تعالی نے ) فرمایا تومہلت والوں میں سے ہے ایک متعین وقت تک کے لیے } ص ( 79 - 81 ) ۔

جب اللہ تعالی نے اسے مہلت دے دی تواس نے آدم علیہ السلام اوران کی اولاد کے خلاف اعلان جنگ کردیا کہ وہ انہیں فحاشی کے کاموں اور معاصی کے ساتھ گمراہ کرے گا ، اس کا ذکراللہ تعالی نے اس طرح فرمایا :

{ وہ کہنے لگا پھرتوتیری عزت کی قسم ! میں ان سب کویقینا بہکا دوں گا ، سوائے تیرے ان بندوں کے جوچیدہ اورپسندیدہ ہوں } ص ( 82- 83 ) ۔

اوراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایا اور ان سے ہی ان کی بیوی کوپیدا کیا اور ان دونوں کی نسل سے مرد و عورت کوآگے چلایا جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں فرمایا :

{ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی سے اس کی بیوی کوپیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد وعورتيں پھیلادیں } النساء ( 1 ) ۔

پھراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اوران کی بیوی کوبطورامتحان جنت میں رہائش دی اورانہیں یہ حکم دیا کہ وہ جنت کے پھل کھائيں لیکن اللہ تعالی نے انہیں ایک درخت سے منع کردیا کہ اس کے قریب بھی نہیں جانا اسی چیزکا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :

{ اورہم نے کہہ دیا کہ اے آدم ! تم اورتمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیؤ لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے } البقرۃ ( 35 ) ۔

اوراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کوشیطان سے بچنے کا کہتے ہوئے فرمایا :

{ توہم نے کہا اے آدم ( علیہ السلام ) یہ تیرا اورتیری بیوی کا دشمن ہے ( خیال رکھنا ) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کوجنت سے نکلوا دے تو تم مصیبت میں پڑھ جاؤ } طہ ( 117 ) ۔

پھرشیطان نے آدم اوران بیوی حواء علیہما السلام کومنع کیے درخت کے متعلق وسوسہ میں ڈالا اورانہيں سبز باغ دکھائے توآدم علیہ السلام بھول گئے اور ان کا نفس کمزور پڑگيا توانہوں نے اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے درخت کا پھل کھا لیا جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکرکیا ہے :

{ لیکن شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کیا میں تمہیں دائمی زندگی کا درخت اوربادشاہت نہ بتلاؤں جو کہ پرانی نہ ہو ، چنانچہ ان دونوں ان دونوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا توان کے ستر کھل گئے اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے ، آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی تووہ بہک گئے } طہ ( 120 - 121 ) ۔

توان دونوں کے رب نے انہیں پکارکرکہا :

{ اوران کے رب نے انہیں پکار کرکہا کیا میں نے تم دونوں کواس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا صریحا دشمن ہے ؟ } الاعراف ( 22 ) ۔

اورجب انہوں نے اس درخت کا پھل کھالیا تواپنے اس فعل پرندامت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے :

{ دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اوراگر تو ہماری مغفرت نہ کرے اورہم پر رحم نہیں کرے گا توہم نقصان پانے والے والوں میں سے ہوجائيں گے } الاعراف ( 23 ) ۔

اورآدم علیہ السلا کی یہ معصیت بطوراشتھاء تھی نہ کہ بطور استکبارو تکبر ، تو اسی لیے اللہ تعالی نے ان کی راہنمائ توبہ کی طرف فرمائ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :

{ آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے چندباتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائ بلاشبہ اللہ تعالی ہی توبہ قبول کرنےوالا اور رحم کرنے والا ہے } البقرۃ ( 37 ) ۔

توآدم علیہ السلام کی امت میں یہ سنت جاری ہوگئ کہ جوبھی کوئ گناہ کربیٹھے توپھرسچائ کےساتھ توبہ کرے اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرتا ہے ، فرمان باری تعالی ہے :

{ اور وہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اورگناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جوکچھ تم کرتے ہو وہ سب جانتا ہے } الشوری ( 25 ) ۔

پھراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اوران کی زوجہ اور ابلیس کو زمین کی طرف اتار دیا اور ان پروحی کا نزول فرمایا اوران کی طرف رسول مبعوث فرمائے‌ توان میں سے جوبھی ایمان لایا وہ جنت میں داخل ہوگا ، اور جو بھی کفرکا ارتکاب کرے گا وہ جہنم میں جائے گا جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

{ ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے چلے جاؤ ، جب کبھی تمہارے پاس میری ھدایت پہنچے تواس کی تابعداری کرنے والوں پرکوئ خوف اور غم نہیں ، اور جو انکار کرکے ہماری آیتوں کوجھٹلائيں ، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہيں گے } البقرۃ ( 38 - 39 ) ۔

اورجب اللہ تعالی نے سب کوزمین پراتاردیا توایمان وکفر اور حق وباطل اورخیرو شر کے درمیان معرکہ شروع ہوگیا اور یہ معرکہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک زمین اوراس پررہنے والے موجود ہیں حتی کہ اللہ تعالی اس کا وارث ہوجائے ، فرمان باری تعالی ہے :

{ اللہ تعالی نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں ایک وقت تک رہنے کی جگہ اور نفع حاصل کرنا ہے } الاعراف ( 24 ) ۔

اوراللہ تعالی ہرچیز پر قادر ہے آدم علیہ السلام کوبغیر ماں باپ کے پیدا کیا اوراورحواء علیہا السلام کو ماں کے بغیر صرف باپ سے پیدا فرمایا اورعیسی علیہ السلام کوباپ کے بغیر صرف ماں سے پیدا فرمایا اور ہمیں ماں اورباپ دونوں سے پیدا فرمایا ہے ۔

اوراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدا فرمایااوران کی نسل ایک ذلیل اوربے قدر پانی سے چلائ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ جس نے جوبھی چیز بنائ اسے نہایت اچھا بنایا اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی ، پھر اس کی نسل ایک بے وقعت و ذلیل پانی کے نچوڑ سے چلائ ، جسے ٹھیک ٹھاک کرکے اس میں اپنی روح پھونکی ، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اوردل بنائے ( اس پربھی ) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو } السجدۃ ( 7 - 9 )۔

اورانسان کی پیدائش رحم مادر میں کئ مراحل میں پوری ہوتی ہے جس میں انتہائ قسم کا اعجاز پایا جاتا ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس ذکر کیا ہے :

{ اوریقینا ہم نے انسان کومٹی کے جوہر سے پیدا فرمایا ، پھراسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا ، پھرنطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا ، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنا دیا ،پھر گوشت کے ٹکڑے کوہڈیاں بنادیں ، پھرہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا ، پھردوسری بناوٹ میں اس کوپیدا کردیا برکتوں والا ہے وہ اللہ جوسب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے } المومنون ( 12 - 14 ) ۔

اوراللہ وحدہ ہی ہے جوچاہے پیدا کرتا اور رحم مادر میں جوکچھ ہے اس کا علم رکھتا ہے اوراوررزق اورزندگی کومقرر کرتا ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے کچھ اس طرح بیان کیا ہے :

{ آسمانوں اورزمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لیے ہے ، وہ جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتاہے بیٹیاں اورجسے چاہتا ہے بیٹے دیتے ہیں ، یاانہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اوربیٹیاں بھی اورجسے چاہے بانجھ کردیتا ہے ، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے } الشوری ( 49 - 50 ) ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

( بلاشبہ اللہ عزوجل نے ایک فرشتہ کے ذمہ رحم مادر کے امورلگا رکھے ہیں وہ فرشتہ کہتا ہے اے رب نطفہ ، اے رب جما ہوا خون ، اے رب گوشت کا ٹکڑا ، توجب یہ چاہتا ہے کہ اس کی خلقت مکمل کرے توکہتا ہے اے رب لڑکی یا لڑکا ؟ نیک بخت یا بدبخت ؟ اوراس کا رزق کیا ہے اور عمرکتنی ہے ؟ تو ماں کے پیٹ میں ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 318 ) ۔

اوراللہ تعالی نے بنی آدم کوعزت وتکریم کا تاج پہناتے ہوئے آسمان وزمین میں جوکچھ بھی ہے سب اس کے لیے مسخر کردیا ، جس کا ذکر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :

{ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی ہرچيزتمہارے لیے مسخر کررکھی ہے اور تمہیں اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں } لقمان ( 20 ) ۔

اوراللہ تبارک وتعالی نے انسان کوعقل دے کرعزت وتکریم اورامتیاز سے نوازا جس عقل کے ساتھ وہ اپنےپروردگار اور خالق و رازق کوپہچانتا ہے ، اوراسی عقل سے اچھا‏ئ وبرائ میں تمیز کرتا ہے اور جواس کے نفع اورنقصان کی اشیاء ہیں ان میں امتیاز کرتا اورحلال وحرام پہچانتا ہے ۔

اورپھر اللہ تعالی نے انسان کوپیدا کرکے ایسی ہی نہیں چھوڑدیا کہ وہ کسی منھج اورطریقے اور بغیر کسی لائحہ عمل کے اپنی زندگی گزارے ، بلکہ اللہ تعالی نے اسے پیدا فرمایا تواس کی بھلائ ورشد اورصراط مستقیم کی ھدایت کے لیے کتابیں نازل فرما‏ئيں اور انبیاءو رسل مبعوث فرمائے ۔

اللہ تبارک وتعالی نے لوگوں کوفطرت توحید پرپیدا فرمایا توجب بھی وہ اس سے منحرف ہوئے اللہ تعالی نے انبیاء مبعوث فرمائے جو کہ انہیں صراط مستقیم کی طرف لائيں ان میں سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام اورآخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہيں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ دراصل لوگ ایک ہی جماعت تھے اللہ تعالی نے نبیوں کوخوشخبریاں دینے اورڈرانے والے بنا کربھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائيں ، تا کہ لوگوں کے ہراختلافی امر کا فیصلہ ہوجائے } البقرۃ ( 213 ) ۔

اورسب رسل ایک ہی حقیقت کی طرف دعوت دیتے رہے کہ اللہ وحدہ کی عبادت اور اس سوا ہرایک کا کفر کیا جائے اس کا ذکر اللہ تعالی نے اس آيت میں فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو } النحل ( 36 ) ۔

جس دین کوسب انبیاء ورسل لائے وہ ایک ہی دین تھا جو کہ دین اسلام ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

{ بلاشبہ اللہ تعالی کے ہاں تودین اسلام ہی ہے } آل عمران ( 19 ) ۔

اوران آسمانی کتب کا اختتام قرآن مجید پر ہواجو کہ پہلی سب کتابوں کی تصدیق کرنے والا اورسب لوگوں کے لیے باعث رشدوھدایت ہے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

{ الر ! ہم نے آپ کی طرف عالی شان کتاب نازل فرمائ ہے تاکہ آپ لوگوں کواندھیرے سے اجالے کی طرف لائيں } ابراھیم ( 1 ) ۔

اورانبیاء ورسل کا سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرختم کیا جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح کیا :

{ ( لوگو) محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ تعالی کے رسول اورتمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ( یعنی خاتم النبیین ہیں ) } الاحزاب ( 40 ) ۔

اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں کی طرف مبعوث کیئے گئے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

{ آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالی کا رسول ہوں } الاعراف ( 158 ) ۔

توقرآن کریم آسمانی کتب میں سے آخری اور سب سے عظیم کتاب اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء ورسل میں سے افضل اورآخری نبی ہیں ، اوراللہ تعالی نے قرآن کریم کے ساتھ باقی سب آسمانی کتب کومنسوخ کردیا ، توجو بھی قرآن مجید کی پیروی نہیں کرتا اورنہ ہی وہ واسلام میں داخل ہوتا ہے اوراسی طرح نہ ہی وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاتا اور نہ ہی ان کی اطاعت کرتا ہے تواس کا کوئ بھی عمل قابل قبول نہیں اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورجو شخص اسلام کے علاوہ کوئ اوردین تلاش کرتاپھرے تواس کا وہ دین قابل قبول نہیں ہوگا اوروہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا } آل عمران ( 85 ) ۔

اورجو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں پہلے سب انبیاء کے اصول دین اورمکارم اخلاق کی تاکید ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اللہ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کے قائم کرنے کا حکم اس نے نوح ( علیہ السلام ) کودیا اور ہم نے جو وحی تیری طرف بھیج دی ہے اورجس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراھیم اور موسی اور عیسی ( علیہم السلام ) کو دیا تھا کہ اس دین کوقائم رکھنا اوراس میں پھوٹ نہ ڈالنا } الشوری ( 13 ) ۔.

قرآن وسنت میں بہت سارے درختوں کا ذکر ملتا ہے جن میں سے بعض کوذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
کھجور کا درخت :

یہ شجرۃ طیبہ ہے اللہ تعالی نے کلمہ توحیدکی اس کے ساتھ مثال بھی بیان کی ہے ، کہ کلمہ توحید جب صدق قلب سے کہا جائے اوروہ دل میں جاگزیں ہوجائے توایسے اعمال کا ثمردیتا ہے جوایمان کوقوی کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی نے اس کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :

{ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی نے پاکیزہ کلمہ کی مثال کس طرح بیان فرمائ پاکیزہ کلمہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اورجس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں } ابراھیم ( 24 ) ۔

اوریہ وہی درخت ہے جس کی مومن کے لیے مثال دی گئ ہے کہ وہ اس کے لیے بہت نفع مند اور دیرپا ہے اور اس کے فائدے کئ قسم کے ہیں جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :

درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں گرتے اوروہ مسلمان کی طرح ہے مجھے بتاؤ وہ کونسا درخت ہے ؟ عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ لوگ بستیوں کے درختوں کے بارہ میں سوچنے لگے ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میرے خیال میں آیا کہ یہ درخت کھجور کا درخت ہے لیکن ميں شرما گيا ، پھرصحابہ کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آّپ ہی ہمیں بتائيں کہ وہ کون سا درخت ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ کھجور ہے ۔ صحیح بخاری ( 60 ) ۔

زیتون کا درخت :

یہ وہ مبارک درخت ہے جس کے تیل کے صاف شفاف ہونے کی مثال بیان کی ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے اس فرمان میں کہا ہے :

{ اللہ تعالی آسمان وزمین کا نور ہے اس کے نورکی مثال ایک طاق کی ہے جس میں چراغ ہو اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہو اورشیشہ چمکتے ہوئے روشن ستارے کی طرح ہو وہ چراغ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہو جودرخت نہ شرقی ہے نہ غربی اس کا تیل قریب ہے کہ آپ ہی آپ روشنی دینے اگرچہ اسے آگ نہ بھی چھوئے وہ نور پر نور ہے اللہ تعالی اپنے نور کی طرف جسے چاہے راہنمائ کرتا ہے ، اللہ تعالی لوگوں کے لیے یہ مثالیں بیان فرمارہا ہے اور اللہ تعالی ہرچیز کے حال سے بخوبی واقف ہے } النور ( 35 ) ۔

اوراللہ تعالی نے سورۃ المومنون میں فرمایا ہے کہ :

{ اوروہ درخت جوطورسیناء سے نکلتا ہے تیل پیداکرتا اورکھانے والے کے لیے سالن ہے } المومنون ( 20 ) ۔

اس کا ذکرفرمان نبوی میں بھی ملتا ہے ، ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( زیتون کا تیل کھایا اوراسے لگایا کرو اس لیے کہ وہ بابرکت درخت سے نکلتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1775 ) اوریہ صحیح الجامع میں بھی ہے ۔

وہ درخت جو اللہ تعالی نے یونس علیہ السلام کے لیے بطورعلاج اورغذا اگایا تھا ، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :

{ اوربلاشبہ یونس علیہ السلام نبیوں میں سے تھے ، جب وہ بھاگ کرایک بھری کشتی پرپہنچے ، پھرقرعہ اندازی ہوئ تویہ مغلوب ہوگئے ، توپھرانہیں مچھلی نے نگل لیا اوروہ خود اپنے آپ کوملامت کرنے لگے ، اوراگر وہ پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے ، تولوگوں کے اٹھائے جانے کے دن تک اس ( مچھلی ) کے پیٹ میں ہی رہتے ، توانہیں ہم نے چٹیل میدان میں ڈال دیا اوروہ اس وقت بیمار تھے اور ہم نے ان پر ایک سایہ کرنے والا بیل دار درخت اگا دیا } الصافات ( 139 - 146 ) ۔

مفسرون یہ کہتے ہیں کہ یقطین کدو کی بیل ہے ، اوربعض نے اس کے فوائد ذکرکرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تيزی سے اگتا ہے اور اس کے پتے چوڑےاور بڑے ہونے کی بنا پر سایہ دار ہوتے ہیں اور اس کے قریب مکھیاں نہیں جاتیں اورکا پھل بہت مغذی ہوتا ہے ، اوروہ کچا اورپکاکر اور اس کا چھلکا بھی کھایا جاتا ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ وہ کدوپسند فرمایا کرتے اورپلیٹ میں سے تلاش کیا کرتے تھے ۔ تفسیر ابن کثير ۔

آسمان میں وہ عظیم درخت جس کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جدامجد ابراھیم علیہ السلام کودیکھا تھا ۔

سمرہ بن جندب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کے قصہ میں فرمایا کہ :

پھرہم ایک سرسبزوشاداب باغ میں آئے جس میں ایک عظیم درخت تھا اوراس کے نیچے ایک بوڑھا اوربچے بیٹھے تھے اوردرخت کے قریب ہی ایک آدمی آگ جلارہا تھا ، تومجھے درخت پرلے گئے اورمجھے ایک گھر میں داخل کیا اس جیسا خوبصورت اوراس سے افضل گھر میں نے آج تک نہیں دیکھااس میں جس میں مردوعورت بوڑھے بچے نوجوان تھے ، پھر مجھے وہاں سے نکال کر درخت پرلےگئے اورایک خوبصورت اورافضل گھرمیں داخل کیا جس میں بوڑھے اورجوان تھے میں نے کہا تم نے مجھے آج رات گھمایا پھرایا ہے تو جوکچھ میں نے دیکھا ہے اس کے بارہ میں مجھے بتاؤ ، تووہ کہنے لگے جی ہاں ۔۔۔۔ اوراس درخت کے نیچے ابراھیم علیہ السلام اوران کے ارد گرد لوگوں کی اولاد تھی ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1270 ) ۔

سدرۃ المنتھی : بیری کا درخت جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے وقت آسمان میں جبریل امین علیہ السلام کواس درخت کے پاس دیکھا ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اسے توایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا سدرۃ المنتھی کے پاس اسی کے پاس جنۃ الماوی ہے جب کہ سدرہ کوچھپائے لیتی تھی وہ چيز اس پرچھا رہی تھی ، نہ تونگاہ بہکی اور نہ ہی حد سے بڑھی ، یقینا اس نے اپنے رب کی بڑی بڑي نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھ لیں } النجم ( 13 - 18 ) ۔

{ جب کہ سدرہ کوچھپائے لیتی تھی وہ چيز اس پرچھا رہی تھی } کی تفسیر میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے ابوذررضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ " تواس پرایسے رنگ چھا گئے جنہیں میں نہیں جانتا کہ وہ کونسے ہیں ۔

اورابوسعید اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ہے کہ اسے فرشتوں نے ڈھانپ لیا ، اورمسلم کی روایت میں ہے کہ " جب اسےاللہ تعالی کے حکم سے ڈھانپ لیا جس نے اسے چھپا رکھا تواس میں تغیر آگيا ، تواللہ تعالی کی مخلوق میں کوئ ایسا نہیں جواس کے حسن کی صفت بیان کرے ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث معراج میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جب انہیں جبریل علیہ السلام آسمان پر لے گئے اوراللہ تعالی کے حکم سے ایک کے بعد دوسرا آسمان گزرتے رہے حتی کہ ساتویں آسمان میں داخل ہوگئے تو کہنے لگے پھرمیرے سامنے سدرۃ المنتھی ظاہر کی گئ تواس کے بیر (پھل) ھجر کے مٹکوں کی طرح اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے ، تو وہ کہتے ہیں کہ یہی سدرۃ المنتہی ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر( 3598 ) ۔

اورسدرۃ المنتھی کے نام کا سبب صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما کی حديث میں بیا ن کیا گيا ہے جس میں ہے کہ :

زمین سے جوبھی اوپرچڑھتا ہے وہ اس جگہ جاکر اس کی انتھاء ہوجاتی ہے تووہاں سے اسے لے لیا جاتا ہے ، اور اترنے والےکی انتھاء بھی یہیں ہوتی ہے تو وہاں سے اسے لے لیا جاتا ہے ۔

اورامام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ : سدرۃ المنتھی اس لیے کہا جاتا ہےکہ فرشتوں کی پہنچ وہاں تک ہی ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اورنے وہاں سے تجاوز نہیں کیا ۔

اوریہی وہ درخت ہے جس تک ہرمرسل نبی اورمقرب فرشتے کا علم ختم ہوجاتا ہے ، اوراس درخت کے بعد ( یعنی اوپر) غیب ہے جسے اللہ تعالی کے علاوہ کو‎‏ئ اورنہیں جانتا یاپھر اسے علم ہوتا ہے جسے اللہ تعالی بتا دے ۔

اور یہ بھی کہا گيا ہے کہ شھداء کی ارواح یہاں تک جاتی ہیں ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ( فاذا نبقھا ) نبق معروف ہے جو کہ بیری کا پھل اورجسے ہم بیر کہتے ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ( مثل قلال ھجر ) خطابی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ القلال کسرہ کے ساتھ یہ قلہ کی جمع ہے اور مٹکے کو کہا جاتا ہے یعنی کہ اس کے بیر مٹکے جتنے بڑے تھے اورمخاطبوں کے ہاں معروف ہونے کی بنا پراس کی مثال بیا ن کی گئ ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسل کا (ھجر) کہنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح ھجر شہر کے مٹکے بڑے ہوتے ہیں اسی طرح وہ بیر بھی بڑے تھے ، اورنبی صلی اللہ نے یہ فرمایا کہ ( واذا ورقہا مثل آذان الفیلۃ ) یعنی ان کے پتے ہاتھی کے کانوں کے طرح بڑے بڑے تھے ۔

جنت میں شجرۃ طوبی :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ :

( جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں گھڑسوار سوبرس تک بھی چلتا رہے تو وہ ختم نہیں ہوگا ، اور اگر تم چاہتے ہو تو اللہ تعالی کا فرمان پڑھ لو ( وظل ممدود ) اور ایک لمبا سایہ ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4502 ) ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

طوبی جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے خوشوں سے جنتیوں کے کپڑے نکلیں گے اور اس کی مسافت سوبرس کی ہے ۔ اسے ابن حبان نے روایت کیا ہے اور صحیح الجامع ( 3918 ) میں بھی ہے ۔

عقبہ بن عبدالسلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اوران سے حوض کا پوچھا اورجنت کا بھی ذکر کیا پھر اعرابی کہنے لگا : کیا اس میں پھل بھی ہیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں اور اس میں ایک ایسا درخت بھی ہے جسے طوبی کا نام دیا جاتا ہے ، وہ کہنے لگا کہ ہماری زمین کے درختوں میں سے کونسا ایسا درخت ہے جوطوبی سے مشابھت رکھتا ہو ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے علاقے کاکوئ‏ بھی درخت اس سے مشابھت نہیں رکھتا ، پھرنبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے کہنے لگے کیا توشام گیا ہے ؟ اس نے جواب دیا نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شام میں اس کے مشابہ درخت پایا جاتا ہے جسے وہ جوزہ کانام دیتے ہیں وہ صرف ایک ہی تنے پراگتااوراوپر سے بچھ جاتا ہے ۔

اس اعرابی نے کہا کہ اس کی جڑ کتنی بڑي ہے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتواونٹ میں سے جذعہ ( جس کی عمرچار برس ہو) لے کر نکلے تواس کی اصل کا احاطہ نہیں کرسکتا حتی کہ وبوڑھا ہوجائے ۔

وہ اعرابی کہنے لگا کیا جنت میں انگور ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں اس نے کہا کہ اس کا خوشہ کتنا بڑا ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ خوشہ یاگچھہ اتنا بڑا ہوگا کہ کوا ایک مہینہ بھی اڑتا رہے تواس کی مسافت ختم نہیں ہوگی ۔

اعربی نے کہا کہ انگور کا ایک دانہ کتنا بڑا ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے باپ نے کبھی بہت بڑا بکرا ذبح کیا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس کی کھال اتارکرتیری ماں کودی اورکہا ہو کہ اس سے ڈول بنا لو ؟ تواعرابی کہنے لگا جی ہاں ۔

تواعرابی یہ کہتے لگایہ ایک دانہ مجھے اورمیرے گھر والوں کوبھوک مٹا دے گا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں اور تیرے عام قبیلہ والوں کی بھی ۔ امام احمدرحمہ اللہ نے اسے مسند احمد میں روایت کیا ہے ۔

زقوم ( یعنی تھور ) کا درخت جو کہ جہنمیوں کا کھانا ہوگا :

یہ وہی درخت ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اورقرآن مجید میں ملعون درخت } ۔

اور اس کے بارہ میں یہ بھی فرمایا ہے کہ :

{ پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو ! تم ضرور تھوہر کا درخت کھانے والے ہو اور اسی سے تم اپنا پیٹ بھرنے والے ہو پھراس پر گرم کھولتا ہوا پانی پینے والے ہو ، پھر پینے والے بھی اس کی جس طرح پیاسے اونٹ پیتے ہیں یہ ہوگی قیامت کے دن ان کی مہمانی } الواقعۃ ( 51 - 56 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا :

{ بلاشبہ زقوم ( تھوہر ) کا درخت گنہگار کا کھانا ہے ، جو تلچھٹ کی طرح ہے اور کھولتا رہتا ہے جس طرح کہ تيز گرم پانی ہو ، اسے پکڑ لو پھر گسیٹتے ہوئے جہنم کے درمیان پہنچاؤ پھر اس سرپر سخت گرم پانی کا عذاب بہاؤ ، ( اسے کہا جائے گا ) چکھتا جا توتوبڑا ہی عزت اور وقارواکرام والا تھا ، یہی وہ چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے } الدخان ( 43 - 50 ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی نے یہ بھی فرمایا :

{ کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا زقوم ( تھوہر) کا درخت ، جسے ہم نے ظالموں کے لیے سخت آزمائش بنا رکھا ہے ، بلاشبہ وہ درخت جہنم کی جڑمیں سے نکلتا ہے ، جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں ، جہنمی اسی درخت سے کھائيں گے ، اور اسی سے پیٹ بھریں گے ، پھر اس پر گرم جلتے پانی کی ملونی ہوگي ، پھر ان کا جہنم کی آگ کی طرف لوٹنا ہوگا } الصافات ( 62 - 68 ) ۔

وہ درخت جس کے نیچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے موت اورعدم فرار پربعیت لی تھی :

جس طرح کہ حدیبیہ کے مقام پریہ واقع اس وقت پر پیش آیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کی خیانت کی خبر پہنچی ، اور یہی وہ درخت ہے جس کا قرآن مجید بھی ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے :

{ یقینا اللہ تعالی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے آپ سے بیعت کر رہے تھے } الفتح ( 18 ) ۔

وہ درخت جس کے پاس کھڑے ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے :

جابررضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن ایک درخت یا کھجور کے پاس کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ، توایک انصاری عورت یا مرد کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم آپ کے لیے ایک منبر نہ بنا دیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتم چاہو تو بنا سکتے ہو توصحابہ اکرام نے ایک منبر تیار کردیا توجمعہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پرچڑھ کر خطبہ ارشاد فرمانے لگے تووہ کھجور کا تنا بچے کی طرح بلک بلک کرورنے لگا ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے اپنے سینہ سے لگایا تواس کی وہ آواز تھم گئ راوی کہتے ہیں کہ جب بھی وہ اپنے پاس ذکر سنتا تووہ روتا تھا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر( 3319 ) ۔

وہ درخت جس کے پاس اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے کلام کی اور انہیں نبوت دی :

فرمان باری تعالی ہے :

{ پس جب وہاں پہنچے تو اس بابرکت زمین کے میدان دائيں کنارے کے درخت میں سے آوازديئے گئے کہ اے موسی ( علیہ السلام ) یقینا میں ہی سارے جہانوں کا رب اللہ ہوں } القصص ( 30 ) ۔

وہ درخت جس سے آدم اورحواء علیہما السلام کومنع کیا گيا تھا :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اورہم نے حکم دیا کہ اے آدم تم اورتمہاری زوجہ جنت میں رہو پھر جس جگہ سے چاہودونوں کھاؤ اور اس درخت کے پاس مت جا‎ؤ ورنہ تم دونوں ظالموں میں سے ہوجا‎ؤ گے } الاعراف ( 19 ) ۔

اوراللہ تبارک وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے :

{ لیکن شیطان نے اسے وسوسہ ڈالا ، کہنے لگا کہ کیا میں تجھے دائمی زندگی کا درخت اوربادشاہت نہ بتلاؤں کہ جوکبھی پرانی نہ ہو } طہ ( 120 ) ۔

اورفرمان باری تعالی ہے :

{ توان دونوں کوفریب سے نیچے لے آیا ، پس ان دونوں نے جب درخت کوچکھا تو دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگئيں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑجوڑ کر رکھنے لگے ، اوران کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کواس درخت سے منع نہیں کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا تھا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے ؟ } الاعراف ( 22 ) ۔

ارزن کا درخت اللہ تعالی نے جس کے ساتھ کافر کی مثال بیان فرمائ :

ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( مومن کی مثال اس کھیتی جیسی ہے جسے ہروقت ہوا ادھرادھر کرتی رہتی ہے اورمومن بھی ہر وقت اسے مصائب آتے رہتے ہیں ، اور منافق کی مثال ارزن کے درخت کی طرح ہے جوہلتا جلتا نہیں حتی کہ اس کی کٹائ کردی جائے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 5024 ) ۔

اورایک روایت میں ہے کہ :

( کافرکی مثال ارزن کی طرح ہے جواپنی جڑوں پر تنا رہتا ہے اسے کوئ چیز ادھر ادھر نہیں کرتی حتی کہ وہ ایک دفع ہی اکھیڑا جاتا ہے ) ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ ( الارزۃ ) اہل لغۃ کہتے ہیں کہ یہ درخت معروف ہے جسے ارزن کہا جاتا اور صنوبر کے مشابہ ہوتا ہے جو کہ شام اور ارمن میں پایا جاتا ہے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( تستحصد ) یعنی وہ تغیر اختیار نہیں کرتا بلکہ ایک بارہی اکھیڑا جاتا ہے اس کھیتی کی طرح جو خشک ہوچکی ہو ۔

اورالمجذبہ کا معنی ثابت اورسیدھا تنا ہوا ہے اور انعجاف کا معنی اقلاع یعنی اکھیڑنا ہے ۔

علماء کا کہنا ہےکہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ مومن کواس کے بدن یااہل وعیال یا پھر مال میں مصائب کا شکار رہتا ہے ، اوریہ سب کچھ اس کے گناہ کا کفارہ درجات کی بلندی کا باعث بنتے ہیں ، لیکن اس کے مقابلے میں کفارمصائب کا شکار کم ہوتے ہیں ، اوراگر کچھ نہ کچھ اسے مصائب آبھی جائيں تووہ اس کے گناہوں کا کفارہ نہیں بنتے بلکہ وہ روز قیامت اسی طرح مکمل گناہوں سے حاضر ہوگا ۔ شرح صحیح مسلم للنووی ۔

وہ درخت جو رؤیا صالحہ میں آیا اور اس نے وہی دعا پڑھی جو سجدہ تلاوت میں پڑھی جاتی ہے :

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے لگا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کل رات نیند میں ایک خواب دیکھا کہ میں ایک درخت کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہوں میں نے سجدہ کیا تودرخت نے بھی میرے سجدے کی بنا پرسجدہ کیا میں نے سنا تووہ کہہ رہا تھا :

اے اللہ میرے لیے اپنے پاس اس کا اجر لکھ دے اوراس کے سبب سے میرے گناہ معاف کردے ، اور اپنی طرف سے میرے لیے یہ زخیرہ بنا دے اور مجھ سے بھی اسی طرح قبول فرما جس طرح کہ اپنے بندے داود علیہ السلام سے قبول کیا تھا ۔

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ والی آيت پڑھی اورسجدہ فرمایا ، ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہی کلمات جو درخت نے کہے تھے اوراس آدمی نے بتائے تھے وہ سجدہ میں اسی طرح کہہ رہے تھے ۔ اسے امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے سنن ترمذی ( 528 ) میں روایت کیا ہے ۔

وہ دودرخت جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قضائے حاجت کرتے وقت انہيں چھپانے کے لیے آپس میں مل گئے تھے :

یہ قصہ صحیح مسلم میں امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے جابر رضي اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے وہ بیان کرتے ہيں :

( ہم ایک وسیع وعریض وادی میں اترے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے تومیں برتن میں پانی لے کر ان کے پیچھے چلا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا توانہیں چھپنے کے لیے کچھ بھی نظر نہ آیا تو وادی کے دونوں کناروں میں دو درخت تھے آّپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کی طرف گئے اوراس کی شاخ پکڑ کرکہنے لگے اللہ تعالی کے حکم سے میرے پیچھے چل تووہ نکیل والے اونٹ کی طرح ان کے پیچھے چلنے لگا جیسے اسے کے چلانے والا اس سے کنٹرول کرتا ہو یہاں تک کہ وہ دوسرے درخت کے پاس آگئے تواس کی شاخ پکڑ کرکہنے لگے اللہ تعالی کے حکم سے میرے پیچھے چل تووہ بھی ان کے پیچھے چلنے لگا حتی کہ وہ درمیانی جگہ پر آگئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے حکم سے مجھ پر آپس میں مل جاؤ تو وہ دونوں آپس میں مل گئے ، جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں اس ڈرسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومیرا علم نہ ہوجائے تووہ اور بھی زيادہ دور ہوجائيں ۔

محمد بن عباد کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ دور ہوجائيں تومیں وہیں بیٹھ کر آپنے آپ سے باتیں کرنے لگا تو اچانک میری نظر پڑی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لارہے تھے اور دونوں درخت اپنے اپنے تنے پر کھڑے ہو کر علیحدہ ہوچکے تھے ۔) صحیح مسلم حدیث نمبر( 5328 )۔

ایسے درخت جن کا پھل خبیث اور گندی بدبو رکھتا ہے اور مسلمانوں کویہ پھل کھا کرمسجد کے قریب جانے سے منع فرمادیا :

جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

جس نے بھی اس درخت سے پہلے تولہسن کہا اورپھر کہا کہ جس نے لہسن و بصل اور کراث کھایا تووہ ہماری مساجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتے بھی اس چیزسے تکلیف محسوس کرتے ہیں جس سے انسان تکلیف محسوس کرتا ہے ۔ سنن نسائ حدیث نمبر ( 700 ) ۔

وہ درخت جویھودیوں کومسلمانوں کے لیے ظاہر کرے گا تا کہ آخری زمانے میں انہیں قتل کیا جائے لیکن غرقد کا درخت انہیں چھپائے گا :

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :

قیامت اس تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ مسلمان یھودیوں سے قتال کرکے انہیں قتل نہ کردیں حتی کہ یھودی درخت اورپتھر کے پیچھے چھپیں گے توہردرخت اور پتھر پکار کر کہے گا اے مسلمان میرے پیچھے یھودی چھپا ہوا ہے آ کراسے قتل کردو لیکن غرقد کا درخت یہ کام نہیں کرے گا اس لیے کہ وہ یھودیوں کے درختوں میں سے ہے ۔ یہ حدیث صحیح اور امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے روایت کی ہے ۔

یہ کچھ درختوں کے بارہ میں معلومات تھیں جو کہ کتاب وسنت میں وارد ہوئے ہیں جس میں بہت ساری نصحیت وعبرتیں اور مثالیں ہیں ۔

اللہ تعالی سے ہم دعا گو ہيں کہ وہ اس کے ساتھ ہمیں نفع سے نوازے ، آمین یا رب العالیمن۔

انسان کی ظاہری شکل کے بدلنے کومسخ کہا جاتا ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے ہیں قرآن مجید میں کئ ایک مقام پریہ خبر دی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل میں سےکچھ کی شکلوں کومسخ کرکے اللہ تعالی کی معصیت کرنے بطورسزا بندر بنا دیا تھا ، تواللہ تعالی بنی اسرائیل کومخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
{ اوریقینا تمہیں ان لوگوں کا بھی علم ہوگا جوتم میں سے ہفتہ کے بارہ میں حد سے تجاوز کرگئے تھے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ ، اسے ہم نے پہلے اوربعد والوں کے لیے عبرت اور پرہیزگاروں کے لیے وعظ ونصحیت کا سبب بنادیا } البقرۃ ( 65 - 66 ) ۔

اوراللہ تعالی نے ان کے قصہ کوسورۃ الاعراف میں ذراتفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے فرمایا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ اورآپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جوکہ دریا ئے ( شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال دریافت کریں جب کہ وہ ہفتہ کے بارہ میں حد سے تجاوز کررہے تھے جب ان کے پاس ہفتہ والے دن تو ان کی مچھلیاں ظاہرہو ہو کران کے سامنے آتی تھیں ، اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھی ، ہم ان کی اس طرح آزمائش کرتے تھے اس کی وجہ ان کا فسق تھا ۔

اورجب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کی کیوں نصیحت کرتے ہوجن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کوسخت سزا دینے والا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے روبرو عذرکرنے کے لیے اور اس لیے کہ شائد وہ ڈر جائيں ۔

توجب وہ اس چیزکوبھول گئے جوانہیں سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کوتوبچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کوجو زیادتی کرتے تھے ان کے فسق کی وجہ سے ایک سخت عزاب میں پکڑ لیا ۔

یعنی جب وہ اس کام میں حد سے تجاوز کرگئے جس سے منع کیا جاتاتھا تو ہم نے انہیں کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ } الاعراف ( 163 - 166 ) ۔

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ آپ کہہ دیجئے اے یھودیو اور نصرانیو ! تم ہم سے صرف اس وجہ سے دشمنیاں کررہے ہوکہ ہم اللہ تعالی پر اور جوکچھ ہماری جانب نازل کیا گيا ہے اور جوکچھ اس سے پہلے اتارا گيا ہے اس پر ایمان لائے ہیں اور اس لئے بھی کہ تم میں اکثر لوگ فاسق ہیں ۔

کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں ؟ کہ اللہ تعالی کے نزدیک اس سے بھی زيادہ برا اجر پانے والے کون ہیں ؟ وہ ہیں جس اللہ تعالی نے لعنت کی اور اس پر وہ غصہ ہوا اوران میں کچھ کوبندر اورکچھ کوخنزیر بنا دیا ، اورجنہوں نے طاغوت کی پرستش کی ، یہی وہ لوگ ہیں جو بدترین درجے والے ہیں اوریہی سیدھے راہ سے زیادہ بھٹکنے والے ہیں } المائدۃ ( 59 – 60 ) ۔

انہوں نے اللہ تعالی کےحرام کردہ کاموں کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالی نے اس کی سزامیں انہیں مسخ کردیا ، اورپھریہ سزا صرف بنی اسرائیل کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہیں بتایا ہے کہ اس وقت تک قیامت قائم ہی نہیں ہوگي جب تک کہ اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی مسخ نہ ہوجائے ، اور جولوگ تقدیر کی تکذیب اورشراب نوشی کرتےاورگانے سنتے ہیں ان کے بارہ اسی کی وعید آئ ہے اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین ۔

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( قیامت سے قبل مسخ اورزمین میں دھنسنا پتھروں کی بارش ہوگی ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4059 ) اور صحیح ابن ماجہ ( 3280 ) ۔

خسف زمین شق ہواور اس میں کوئ شخص یا گھر یا کوئ شہر دھنس جائے تواسے خسف کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قارون اوراس کے گھرکو زمین میں دھنسادیا تھا ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ تو ہم اسے اوراس کے گھرکو زمین میں دھنسا دیا } القصص ( 81 ) ۔

اورقذف پتھروں سے مارنے کوکہتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی نے قوم لوط کے ساتھ کیا ، اللہ تعالی نے اس کے بارہ میں فرمایا :

{ اور ہم نے ان پر کنکروالے پتھر برسائے } الحجر( 74 ) ۔

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتےہوئے سنا :

( اس امت میں اہل قدر ( یعنی تقدیر کی تکذیب کرنے والوں میں ) زمین میں دھنسا یا پھر مسخ شکلوں کا بگڑنا ہوگا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2152 ) صحیح ترمذی ( 1748 ) ۔

اورامام ترمذي نےہی عمران بن حصین رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اس امت میں زمین میں دھنسنااورشکلوں کا بگڑنا ( مسخ ) اورپتھروں کی بارش ہوگی ، تومسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ کب ہوگا ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ناچنے والیاں اورموسیقی کا ظہوراور شراب نوشی ہونے لگے گی ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2212 ) صحیح ترمذی حدیث نمبر ( 1801 ) ۔

اس حدیث میں لفظ القینات کا معنی مغنیات یعنی گانے والی کنجریاں ہیں ۔

تویہ احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ اس امت میں بھی کچھ معصیت اورگناہوں کی سزا مسخ یعنی شکلوں کا بگاڑ ہوگا ، تومسلمان کواللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں کے ارتکاب سے پرہیزکرنا اوربچنا چاہیے ، اس شخص کے لیے تو ہلاکت ہی ہلاکت ہے جو اللہ تعالی کے غضب اورانتقام کو دعوت دیتا ہے ، اللہ تعالی ہم سب کو اپنی سزا کے اسباب سے بچا کررکھے آمین یارب العالمین ۔

اور اس وقت موجود بندراور خنزیر یہ ان میں سے نہیں جو کہ پہلی امتوں میں سے مسخ کيئے گئے تھے اس لیے کہ اللہ تعالی جسے مسخ کردے اس کی نسل ہی نہیں چلاتا ، بلکہ وہ اسے مسخ کرنے کے بعد بلاک کردیتا ہے اور اس کی آگے نسل نہیں بناتا ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ بندر اور خنزیر وہی انہیں میں سے ہیں جنہیں مسخ کیا گيا تھا ؟

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( بلاشبہ اللہ عزوجل مسخ کیئے گئے کی نسل نہیں بناتا اور نہ ہی اس کی کوئ‏ اولاد ہوتی ہے ، اوربلاشبہ بندراور خنزیرتو پہلے ہی موجود تھے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2663 ) ۔ عقب کا معنی اولاد ہے

امام نووی رحمہ اللہ تعالی شرح مسلم میں کہتے ہیں کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :

( اوربلاشبہ بندراور خنزیرتو پہلے ہی موجود تھے )

یعنی بنی اسرائیل کے مسخ ہونے سے قبل ہی بندر اور خنزیر موجود تھے ، تویہ اس پردلالت کرتی ہے کہ یہ مسخ سے نہیں ہیں ۔ ا ھ۔

اوراللہ تعالی ہی زيادہ علم رکھتا ہے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ عیہ وسلم پررحمتیں نازل فرمائے آمین یارب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم .
 

x boy

محفلین
الحمد للہ
مادہ منویہ میں پائے جانے والے جرثومہ کی حیات تناسلی ہے جب کہ وہ اللہ تعالی کے حکم اوراس کی تقدیر سے ان تمام آفات سے محفوظ ہوجو اس کے لیے تیار کی گئ ہیں اوردوسرے سے اتحاد کے ساتھ اگراللہ تعالی چاہے تواس سے بچہ کی پیدائش ہوتی ہے توپھربھی یہ زندہ ہوتاہے اوریہ زندگی جو اس کے مناسب ہوتی وہی ہے جو کہ حیات نمو اوران معروف ادوارمیں تنقل ہے توجب اس میں روح پھونکی جاتی ہے تواللہ تعالی حکیم ولطیف کے حکم سے اس میں ایک اورزندگی چ۔لتی ہے ۔
توانسان جتنی بھی کوشش کرلے اگرچہ وہ کتنا بھی بڑا اورماہر ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہو پھر بھی وہ حمل کے اسرارو رموز اوراس کے اسباب اورمختلف ادوار کا احاطہ نہیں کرسکتا ۔

اسی چیز کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح کیا ہے :

{ جوکچھ مادرشکم میں ہے اللہ تعالی اسے بخوبی جانتا ہے اوررحم کا گھٹنا بڑھنا بھی ہرچیز اس کے پاس اندازے سے ہے ، ظاہروپوشیدہ وہ ہی جاننے والا ہے سب سے بڑا اور سب سے بلند وبالا ہے } ۔

دیکھیں :فتاوی اسلامیہ اللجنۃ الدائمۃ ( 488 ) ۔

حیات یعنی زندگی کئ اقسام وانواع کی ہے اورہر ایک زندہ چيز کے لیے اس کے مناسب زندگی اورحیاۃ تونباتات و جڑی بوٹیو‍ں کی زندگی اس کے ساتھ خاص ہے اورمادہ منویہ کے جرثوموں کی حیاۃ وزندگي وہ جو ان کے ساتھ خاص ہے اورانسان کی زندگی اس کے ساتھ خاص ہے اوراسی طرح دوسری اشیاء کی بھی اللہ تعالی ہی ہرچيزکوپیدا کرنے والا اورپھرہرزندہ چيزکی اصل پانی کوبنایا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

{ کیاکافر لوگو نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اورہرچيز کو ہم نے پانی سے پیدا فرمایا ، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے } الانبیاء ( 30 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .
 

x boy

محفلین
الحمد للہ
سب تعریفات اللہ تبارک وتعالی کے لیے ہی ہیں اوراللہ تعالی کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طریقہ پرچلنے والوں پر درود وسلام ہو :
بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے فیصلے میں علیم وحکیم ہے ، اوراسی طرح وہ شریعت اوراحکام میں بھی علیم وحکیم ہے ، وہ اللہ سبحانہ وتعالی جوچاہے اپنی نشانیوں کوپیدافرماتااوراسے اپنے بندوں کے تخویف اورڈراور نصیحت وعبرت کا با‏عث بناتا ہے اورانہیں ان پرجواحکامات واجب کیے ہیں ان کی یاددہانی کرانے کا باعث بناتا ہے ، اوراسی طرح اس میں انہیں شرک سے بچنے کی تحذیر اور اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے حکم کی مخالفت نہ کریں اورجس سے روکا گیا ہے اس کے مرتکب نہ ٹھریں جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا جس کا ترجمہ یہ ہے :

{ ہم تولوگوں کوڈرانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں } الاسراء ( 59 ) ۔

اورادوسرے مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :

{ عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی اورخود ان کی اپنی ذات میں بھی دکھائيں گے یہاں تک کہ ان ظاہر ہو جائے گا کہ حق یہی ہے ، کیا آپ کے رب کا ہرچيز پرواقف اوراگاہ ہونا کافی نہیں } فصلت ( 53 ) ۔

اورایک جگہ پر کچھ اس طرح فرمایا :

{ آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئ عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے یا تمہارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کوگروہ گروہ کرکے سب کو بھڑا دے اورتمہارے ایک کودوسرے کی لڑائ چکھا دے } الانعام ( 65 ) ۔

امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے اپنی صحیح میں جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب یہ آیت نازل ہوئ‏ :

{ آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئ عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے }

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں ، { یا تمہارے پاؤں تلے سے } تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا اعوذ بوجھک میں تیرے چہرے کی پناہ میں آتا ہوں ) صحیح بخاری ( 5 / 193 ) ۔

اورابوشيخ اصبھانی رحمہ اللہ نے مجاھد رحمہ اللہ سے اس آیت کی تفسیر { آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ اس پربھی قادر ہے کہ تم پرکوئ عذاب تمہارے اوپرسے بھیج دے } میں سے نقل کیا ہے کہ یہ تم پرچيخ اور پتھر اور آندھی بھیج دے { یا تمہارے پاؤں تلے سے } انہوں نے کہا کہ نیچے سے زلزلہ اورزمین میں دھنسانا ۔

اس میں کوئ شک نہیں کہ ان دنوں بہت سارے ممالک میں جوزلزلے آرہے ہیں وہ انہیں نشانیوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالی اپنے بندوں کوتخویف دلاتا اور یاددہانی کراتا ہے ، یہ سب زلزلے اور دوسرے تکلیف دہ مصائب جن کا سبب شرک وبدعت اورمعاصی وگناہ ہیں ، کیونکہ اللہ تعالی نے اس کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے :

{ تمہیں جوکچھ مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ، اوروہ ( اللہ تعالی ) توبہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے } الشوری ( 30 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے یہ بھی فرمایا :

{ تجھے جوبھلا‏ئ ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جوبرائ پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے } النساء ( 79 ) ۔

اللہ تعالی نے سابقہ امتوں کے متعلق فرمایا :

{ پھرتو ہم نے ہرایک کواس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا ان میں سے بعض پرہم نے پتھروں کی بارش برسا‏ئ اوربعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبودیا اوراللہ تعالی ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنے آپ پر ظلم کررہے ہيں } العنکبوت ( 40 ) ۔

تو مکلف مسلمان وغیرہ پریہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اوراپنے گناہوں اور معاصی سے توبہ کرے ، اوراپنے دین اسلام پراستقامت اختیار کرے اورہرقسم کےگناہ اورشرک وبدعات سے بچے تاکہ اسے دنیا وآخرت میں ہرقسم کے شرسے نجات وعافیت حاصل ہو اوراللہ تعالی اس سے ہرقسم کے مصائب وبلایا دورکرے اورہرقسم کی خیروبھلائ عطافرمائے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے :

{ اوراگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہيزگاري اختیار کرتے تم ہم ان پر آسمان وزمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی توہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑ لیا } الاعراف ( 96 ) ۔

اورایک جگہ پر اللہ سبحانہ وتعالی نے اہل کتاب کے بارہ میں کچھ اس طرح فرمایا :

{ اوراگر یہ لوگ تورات وانجیل اور ان کی جانب جوکچھ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کیا گيا ہے ان کے پورے پاپند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اورکھاتے } المائدۃ ( 66 ) ۔

اورایک مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :

{ کیا پھربھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہيں کہ ان پرہمارا عذاب رات کے وقت آپڑے اور وہ سو رہے ہوں ، اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہوگئے ہیں کہ ان پرہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے اوروہ کھیل کود میں مصروف ہوں ، کیا وہ اللہ تعالی کی اس پکڑ سے بے فکر ہوگئے ہیں تواللہ تعالی کی پکڑ سے نقصان اٹھانے والوں کے علاوہ اورکوئ بے فکر نہیں ہوتا } الاعراف ( 97 - 99 ) ۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ :

بعض اوقات اللہ تعالی زمین کوسانس لینے کی اجازت دیتا ہے توزمین میں بہت بڑے بڑے زلزلے بپا ہوتے ہیں ، تواس سے اللہ تعالی کے بندوں میں خوف اورخشیت الہی اور اس کی طرف رجوع ، معاصی وگناہ سے دوری اوراللہ تعالی کی جانب گریہ زاری اوراپنے کیے پرندامت پیدا ہوتی ہے ۔

جیسا کہ جب زلزلہ آیا تو سلف میں سے کسی نے کہا :

تمہارا رب تمہاری ڈانٹ ڈپٹ کررہا ہے ، اورعمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے جب مدینہ میں زلزلہ آیا توفرمانے لگے : لوگوں کوخطبہ دیتے ہوئے انہیں وعظ ونصیحت کی اور کہنے لگے اگر یہ زلزلہ دوبارہ آیا میں تمہیں یہاں نہیں رہنے دونگا ۔ ابن قیم رحمہ اللہ کی کلام ختم ہوئ ۔

اس پرسلف سے بہت ہی زيادہ اثار منقول ہیں ۔

توزلزلہ یا کوئ اوراللہ تعالی کی نشانی مثلا سورج وچاند گرہن ، اورسخت ترین آندھی اوربگولہ وغیرہ ظاہرہوتو اللہ تعالی کی طرف رجوع اورتوبہ میں جلدی کرنی چاہیے اوراس کی طرف گریہ زاری اوراس سے عافیت کا سوال اورکثرت سے ذکرواذکار اوراستغفار کی جائے جس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اورانہوں نے سورج گرہن کے موقع پرفرمایاکہ :

اگر تم اس طرح کی کوئ چيز دیکھو تو اللہ تعالی کے ذکر اوراس سے دعا واستغفار میں جلدی کیا کرو ۔

یہ حدیث کا ایک حصہ ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح ( 2/ 30 ) میں اورامام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم ( 2 / 628 ) میں روایت کی ہے ۔

اوراسی طرح اس وقت فقراء ومساکین پررحم کھانا اوران پر صدقہ کرنا بھی مستحب ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رحم کرنے والوں پراللہ ورحمن بھی رحم کرتا ہے ، زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو توآسمان میں رہنے والا ( اللہ تعالی ) تم پررحم کرے گا ) ۔سنن ابوداود ( 13 /285 ) سنن ترمذي ( 6 / 43 ) ۔

اورایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( رحم کیا کرو تم پربھی رحم کیا جائے گا ) مسند احمد ( 2 / 165 ) ۔

اور صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جورحم نہیں کرتا اس پربھی رحم نہیں کیا جاتا ) صحیح بخاری ( 5 / 75 ) صحیح مسلم ( 4/1809 ) ۔

عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی سے روایت کی گئ ہے کہ وہ زلزلے آنے لگتے تو اپنے گورنروں کو حکم جاری کرتے کہ صدقہ وخیرات کرو ۔

ہربرائ اورشرسے عافیت و سلامتی کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی ہے کہ ولی الامر اورصاحب اقدار و سلطہ بے وقوفوں اور برے لوگوں کوبرائ سے روکیں اورانہیں حق پرلائيں اور اپنی رعایا میں شریعت اسلامیہ نافذ کریں ، اور امربالمعروف اورنہی عن المنکر کو ترویج دیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالی نے بھی اس کا طرف راہنمائ کرتے ہوئے فرمایا ہے :

{ مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے مددگارو معاون اور دوست ہیں ، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے اوربرائیوں سے روکتے ہیں ، نمازکی پاپندی کرتے اوراورزکوۃ ادارکرتے ہیں ، اللہ تعالی کی اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت جلد رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ تعالی غلبہ اورحکمت والا ہے } التوبۃ ( 71 ) ۔

اورایک مقام پراللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

{ جواللہ تعالی کی مدد کرے گا اللہ تعالی بھی ضروراس کی مدد کرے گا ، بلاشبہ اللہ تعالی بڑي قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے ، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤ‎ں جما دیں تویہ پوری پابندی سے نماز پڑھیں اور زکاۃ ادا کریں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برائ سے روکيں تمام کاموں کا انجام اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے } الحج ( 40 / 41 ) ۔

اوراللہ سبحانہ وتعالی نے ایک اورمقام پراس طرح فرمایا :

{ اورجوشخص اللہ تعالی سے ڈرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے ، اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو ، اورجو شخص اللہ تعالی پرتوکل کرے گا اللہ اسے کافی ہوگا } الطلاق ( 2/3 ) ۔ اس موضوع میں آیات توبہت زيادہ ہیں ہم اسی پراکتفا کرتے ہیں ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( جوبھی اپنے بھائ کی مدد اورتعاون کرتا ہے اللہ تعالی بھی اس کی مدد اور تعاون میں رہتا ہے ) صحیح بخاری ( 3 / 98 ) صحیح مسلم ( 4 / 1996 ) ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :

( جس نے بھی کسی مومن سے دنیاوی تکلیف کا ازالہ کیا تواللہ تعالی روز قیامت اس کی تکلیف ختم کرے گا ، اور جس نے کسی تنگ دست پرآسانی کی اللہ تعالی اسے دنیا و آخرت میں اسانی فراہم کرے گا ، اورجس نے بھی کسی مسلمان کی ستر پوشی کی اللہ تعالی دنیاوآخرت میں اس کی ستر پوشی فرمائے گا ، اوراللہ تعالی اس وقت بندے کی مدد اورتعاون میں رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائ کی مدد اورتعاون کرتا ہے ) صحیح مسلم ( 4 / 2074 ) اوراس طرح کی احادیث بھی بہت زيادہ ہيں ۔

اللہ تعالی ہی سے ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ سب مسلمانوں کے حالات کی اصلاح فرمائے ، اورانہیں دین کی سمجھ عطافرمائے اوردین اسلام پراستقامت نصیب فرمائے اورہرقسم کے گناہوں اورمعاصی سے توبہ کرنے کی توفیق دے ، اورسب مسلمان حکمرانوں کوبھی درست کرے اور ان کے ساتھ حق کی مدد فرمائے اورباطل کوان کے ساتھ ذلیل ورسوا کرے اور انہیں اللہ تعالی کے بندوں میں شریعت اسلامیہ نافذ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔

انہیں اورسب مسلمانوں کو ہرقسم کی گمراہی اورفتنوں اورشیطان کی وسوسوں سے محفوظ رکھے بلاشبہ اللہ تعالی اس پرقادر ہے آمین یا ربا العالمین ۔

اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اورصحابہ کرام اورقیامت تک ان کے طریقے پرچلنے والوں پررحمتیں برسائے ۔آمین ۔.
 

arifkarim

معطل
میرے خیال سے آپ کی بات غلط ہےشاید آپ نے چالس کی بچپن کی کوئی بات سن لی ہو گی ۔چارلس بے شک شروع میں عیسائی تھا مگر بیگل اور گولاپگس کے ٹوؤر( جو اس نے بیس پچیس سال میں کیا تھا) کے بعد نے چرچ کے اندر جانا ہی چھوڑ دیا تھا اپنی راسخ العقیدہ بیوی ایما کی خاطر چرچ آاتا تھا اور خود باہر کھڑا ہوتا یا ٹہل کر انتظار کرتاتھا ۔۔۔
جی یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ چارلز ڈارون کا تعلق ایک عیسائی گھرانے سے تھا اور نظریہ ارتقاء دریافت کرنے سے قبل وہ عیسائی پادریت کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مطلب اگر وہ ان جزیروں تک سفر نہ کرتا جہاں کا مشاہدہ معائنہ کر کے اسنے اپنے نظریے کی بنیاد رکھی تو یقیناً وہ ایک گمنام عیسائی پادری کی موت مرتا۔ البتہ اسکے نصیب میں کچھ بڑا لکھا تھا اور نظریہ ارتقاء پیش کر کے وہ تاریخ انسانی میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہو گیا۔ یاد رہے کہ تاریخ انہی کو یاد کرتی ہے جو باقی انسانوں سے منفرد ہوں اور جو انسانی معاشروں میں نئی، دوراست اور انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنے کا باعث بنیں۔ ایسی شخصیات مذہبی بھی ہو سکتی ہیں اور غیر مذہبی بھی!
 
عارف ! اور زیک !!! ایک سوال مع اس کی تمہیدی وضاحت کے یہ ہے کہ نیندر تھال اور ہومو سیپی این کی آخر اتنی کیوں اہمیت کیوں ہے ؟ ۔۔۔کیا ان کے کوئی فور فاردس کی اہمیت نہیں جبکہ ارتقاء کی سب سے زیادہ ممکنہ توجیہہ اور مؤثر دلیل(سو کالڈ) اس کا کروڑھا برس پرتدریجی طور پر محیط ہو نا سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اور ارتقاءکا کہنا ہے کہ ہر زندہ چیز کا صرف اور صرف ایک کامن انسیسٹر ہے جو سب سے پہلے سمندر کی تہہ میں" یک خلوی ساخت" کے تصور سے شروع ہوا۔ اور پھریہ(حشرات کی نوعیت )کے کثیر کے خلوی جاندار اور پھر ان کے خارجی ڈھانچے(ایکسٹرنل سکیلیٹن) کی تشکیل پھر ان سب کا پانی سے وقتی طور پر باہر آنا اور پھر پھیپھڑوں کی تشکیل اور مستقل خشکی کی آباد کاری اور فقاریہ اور غیر فقاریہ انواع کی یہ منظم تقسیم و تشکیل پھر رینگنے اڑنےاور آخر میں ممالیہ اور اس کے بھی آخر میں اول الذکر نیندر اور ہومو سیپی این اور ہم اور آپ جیسے محفلین پر مشتمل ہوگیا ہے ۔مزید برآں یہ کہ نہ جانے کہاں تک جائے گا۔
جہاں تک جانداروں کا اپنے ماحول سے مطابقت کی تبدیلی کی بات ہے تو یہ ایک بدیہی اور واضح حقیقت ہے۔ اس کے عام مظاہر کی واضح مثالینں تو ہمیں عام مل جاتی ہیں ۔ مثلاً جب آپ سطح سمندر سے پہاڑی علاقے میں جار بستے ہیں تو آپ کو شروع میں تیز سانسیں آتی ہیں اور کچھ ہی عرصے میں آپ کے خون میں سرخ خلیوں کی نسبت "خود بخود" بڑھ جاتی ہے (آپ کو اس کے لیے اکثر کوئی ٹیکا نہیں لگانا پڑتا) تا کہ ہوا کے کم دباؤ اور اس دباؤ کی کمی سے آکسیجن کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو سکے کیوں کہ سرخ جسیمے ہوا سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔۔

نظریۂ ارتقا کو اس طرح سے ڈسکس کرنے کی روایت در اصل عیسائی انتہا پسندوں کے بعد سے شروع ہوئی ہے۔ اور اس طرح کا ڈسکشن ہم نے عوامی فورمز اور ان لوگوں میں تو دیکھا ہے جو اکیڈیمکلی نظریۂ ارتقا کو نہیں پڑھ چکے۔ تاہم جب ہم کلاس روم میں اس نظریہ کو پڑھتے ہیں یا کوئی بھی گریجویٹ یا پوسٹ گریجویٹ طالب علم اسے پڑھتا ہے تو اس کا موضوع انسان نہیں ہوتا۔ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ انسان کو پڑھا نہیں جاتا۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس طرح نہیں پڑھا جاتا جس طرح عوامی فورمز میں ہم اسے ارتقا کی حیثیت سے بلا واسطہ ڈسکس کرتے ہیں۔ ہم بلا واسطہ یہ نہیں پڑھتے کہ انسان کا ارتقا کیسے ہوا؟ بلکہ یہ پڑھا جاتا ہے کہ ٹیکزونومکل حیثیت سے کیا کیا تبدیلیاں جانوروں کے مختلف فائلمز میں آرہی ہیں۔ مثلاً گیسٹرو ویسکیولر کیویٹی کن مراحل سے گزر کر "ہائڈرا" سے انسان تک پہنچ کر گیسٹرو انٹیسٹائنل ٹریکٹ بناتی ہے۔ اسی طرح نان ویسکیولر سے ویسکیولر پلانٹس کس طرح ایک سیکوینس میں رکھے جارہے ہیں۔ پودے کی جڑ کی ابتدائی اور انتہائی صورتوں میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔
مجھے شروع میں سخت حیرت ہوتی تھی ان لوگوں پر جو اس طرح نظریۂ ارتقا کو زیر بحث لارہے ہوتے ہیں۔ کم از کم میں نے تو آج تک کسی مستند بائیولاجسٹ کو اس طرح بحث کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ وہ سارا زور انسان کے ارتقا پر لگا کر اسے منوانے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس بحث کو کرنے والے دو ہی قسم کے لوگ دیکھے ہیں۔ ایک تو مذہبی شدت پسند عیسائی اور مسلمان۔ اور دوسرے وہ شدت پسند دہریے یا ملحد جو کسی بھی صورت میں نظریۂ ارتقا کے کسی لاجکل لوپ ہول کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
میری نظر میں دونوں ہی ایک لاحاصل بحث میں مبتلا ہیں۔ ان دونوں کی بحث سے سائنس کو چنداں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

:) :) :)
 

arifkarim

معطل
بلکہ یہ پڑھا جاتا ہے کہ ٹیکزونومکل حیثیت سے کیا کیا تبدیلیاں جانوروں کے مختلف فائلمز میں آرہی ہیں۔ مثلاً گیسٹرو ویسکیولر کیویٹی کن مراحل سے گزر کر "ہائڈرا" سے انسان تک پہنچ کر گیسٹرو انٹیسٹائنل ٹریکٹ بناتی ہے۔ اسی طرح نان ویسکیولر سے ویسکیولر پلانٹس کس طرح ایک سیکوینس میں رکھے جارہے ہیں۔ پودے کی جڑ کی ابتدائی اور انتہائی صورتوں میں کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔
اسکو ذرا آسان ا لفظ میں سمجھائیں۔ انگریزی کے آدھے الفاظ تو اوپرسے ہی گزر گئے :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اسکو ذرا آسان ا لفظ میں سمجھائیں۔ انگریزی کے آدھے الفاظ تو اوپرسے ہی گزر گئے :)
ٹیکسانومی ۔ بیالوجی کی ایک شاخ ہے جس میں جانداروں کی گروپ بندی ان کی خصوصیات کی بنیاد پر اور ان کے نام رکھنے کی بحثیں ہوا کرتی ہیں۔ اسی الیے بیالوجسٹس نے ۔ فائیلم آرڈر کلاس فیملی جینَس وغیرہ ترتیب دئے ہیں اور ان کا نامن کلیچر کا نظام ترتیب دیا ہے۔حیوانات کے دس فائیلم ہیں ۔پروٹوزوا۔ادنی۔ سے کارڈیٹا اعلی تک۔ہر فائیلم میں آرڈر کلاس اور جینس ان کی مزید تقسیم کرتے ہیں ۔ ہایڈرا غالبا سیل این ٹریٹا فائیلم میں گنا جاتا ہے۔
بیالوجی میرا فیورٹ سبجیکٹ ہوا کرتا تھا۔بلکہ اب بھی ہے۔:)
 
اسکو ذرا آسان ا لفظ میں سمجھائیں۔ انگریزی کے آدھے الفاظ تو اوپرسے ہی گزر گئے :)

میں نے انگریزی تو بالکل استعمال نہیں کی۔ ہاں جو اصطلاحات ہیں انہیں اگر اردو میں لکھا گیا تو پوری عبارت ہی بے معنی یا انتہائی دقیق ہوجائے گی۔ :):):)
ہم اسے سمجھنے کی خاطر محترمہ کو زحمت دیتے ہیں۔ خدا جانے کہاں ہیں آج کل۔
 

arifkarim

معطل
لیجئے، حال ہی میں نارویجن اور اسویڈش ریسرچز نے سمندر کی تہہ میں ڈبکی لگا کر تمام جانداروں کا جد امجد ڈھونڈ لیا ہے اور اسے Loki کا نام دیا ہے:
2015050610957781.jpg

imrs.php

انکی یہ ریسرچ دنیا بھر کے معقول ترین سائنسی جریدے جیسے Nature میں بھی کچھ روز قبل شائع ہو چکی ہے:
http://www.washingtonpost.com/news/...-loki-ties-us-to-our-single-celled-ancestors/
http://nature.com/articles/doi:10.1038/nature14447
بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ :smug:
latest
 
ٹیکسانومی ۔ بیالوجی کی ایک شاخ ہے جس میں جانداروں کی گروپ بندی ان کی خصوصیات کی بنیاد پر اور ان کے نام رکھنے کی بحثیں ہوا کرتی ہیں۔ اسی الیے بیالوجسٹس نے ۔ فائیلم آرڈر کلاس فیملی جینَس وغیرہ ترتیب دئے ہیں اور ان کا نامن کلیچر کا نظام ترتیب دیا ہے۔حیوانات کے دس فائیلم ہیں ۔پروٹوزوا۔ادنی۔ سے کارڈیٹا اعلی تک۔ہر فائیلم میں آرڈر کلاس اور جینس ان کی مزید تقسیم کرتے ہیں ۔ ہایڈرا غالبا سیل این ٹریٹا فائیلم میں گنا جاتا ہے۔
بیالوجی میرا فیورٹ سبجیکٹ ہوا کرتا تھا۔بلکہ اب بھی ہے۔:)

فائلمز کی تعداد اب تیس سے بھی بڑھ چکی ہے۔ تاہم نو فائلمز ایسے ہیں جس میں موجودہ تمام حیوانات کی اکثریت جمع ہوجاتی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فائلمز کی تعداد اب تیس سے بھی بڑھ چکی ہے۔ تاہم نو فائلمز ایسے ہیں جس میں موجودہ تمام حیوانات کی اکثریت جمع ہوجاتی ہے۔
امید ہے آرتھروپوڈا اب بھی بقیہ پر غالب ہو گا۔اگراسے مزید تقسیم نہ کیا گیا ہو تو۔ :)
ویسے بہت سی سپیشیز اب بھی دریافت ہوتی رہتی ہیں،نہھیں پہلے کبھی دیکھا سنا نہ گیا ۔
 
لیجئے، حال ہی میں نارویجن اور اسویڈش ریسرچز نے سمندر کی تہہ میں ڈبکی لگا کر تمام جانداروں کا جد امجد ڈھونڈ لیا ہے اور اسے Loki کا نام دیا ہے:
2015050610957781.jpg

imrs.php

انکی یہ ریسرچ دنیا بھر کے معقول ترین سائنسی جریدے جیسے Nature میں بھی کچھ روز قبل شائع ہو چکی ہے:
http://www.washingtonpost.com/news/...-loki-ties-us-to-our-single-celled-ancestors/
http://nature.com/articles/doi:10.1038/nature14447
بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ :smug:
latest

یہ لوکی "تمام جانداروں" کا جد نہیں بلکہ ابھی یہ صرف ہائپوتھیسس ہے کہ ممبرین باؤنڈڈ اور ویل ڈیفائنڈ نیوکلیس رکھنے والے جاندار اور ابتدائی کیفیت کے نیوکلیس والے پرو کاریوٹس کے درمیان ایک کڑی ہے یعنی یہ وہ مسنگ لنک ہے جو پیچیدہ جاندار خلیوں کو ابتدائی جاندار خلیوں والے جانداروں سے جوڑ سکتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حمیر یوسف

محفلین
چونکہ ابن خلدون 13 ویں صدی عیسوی میں آیا تھا یعنی ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے کوئی 500 سال قبل یوں آجکل کے مسلمانوں کو آنکھیں بند کر کے یہاں بھی یہی رونا چاہئے کہ ہائے مغربیوں نے" ہماری" سائنس چوری کرکے ڈارون کے نام لگا دی! :cry2:
زیک حمیر یوسف

اس نظریہ ارتقا کی داغ بیل نہ صرف الجاحظ، ابن الخلدون اور طوسی نہیں ڈالی بلکہ چند دوسرے علماء نے بھی اس نظریہ کو اپنے الفاظ میں مسلم سانچے میں ڈھالا۔ رے سے تعلق رکھنے والا عظیم محقق جناب ابو علی احمد بن محمد بن یعقوب مسکویہ نے نظریہ ارتقاء پر بہت اچھی طرح روشنی ڈالی تھی جو ڈروان کے نظریہ ارتقاء سے ملتا ہے۔

ابن مسکویہ لکھتا ہے کہ: موجودات عالم میں زندگی کا اثر سب سے پہلے نباتات کی شکل میں ظاہر ہوا کیونکہ ان میں حرکت پائی جاتی ہے اور وہ غذا کے محتاج ہوتے ہیں اور ان ہی دو خصوصیات کی وجہ سے وہ جمادات سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔ نباتات میں تدریجی ارتقاء کے بارے لکھتے ہیں: پہلا درجہ: یہ ابتدائی درجہ تو ان نباتات کا ہے جو بغیر تخم کے پیدا ہوجاتے ہیں اور ہر قسم کی زمین سے اگتے ہیں۔وہ تخم کے ذریعے اپنی نوع کو مخفوظ نہیں رکھتے اس لئے ان میں اور جمادات میں بہت کم فرق ہے۔ اس بالکل ابتدائی درجے کے بعدزندگی کے اثر میں ترقی ہوتی ہے اور اس قسم کے نباتات پیدا ہوتے ہیں جن میں شاخ و برگ پائے جاتے ہیں اور وہ تخم کے ذریعے اپنی نوع کو مخفوظ رکھتے ہیں۔ دوسرادرجہ:ایسے درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں تنا پتہ اور پھل پائے جاتے ہیں اور اسی پھل سے وہ اپنی نوع کو مخفوظ رکھتے ہیں ان درختوں میں درجہ بدرجہ اور ترقی ہوتی ہے وہ لگائے بھی جاسکتے ہیں اور قدرت ان کی نشونما کرتی ہے۔

تیسرا درجہ:نباتات کی ارتقاء کا انتہائی درجہ وہ ہے جس میں ایسے قسم کے درخت پیدا ہوتے ہیں جو بہت بڑے حساس اور مخصوص ماحول میں اگتے ہیں۔ ابن مسکویہ نے نباتات میں زندگی ثابت کی اور اور کہا کہ یہ زندگی ترقی پزیر ہے نباتات کو ارتقاء کی آخری منزل حیواناتی زندگی کا ابتدائی درجہ ہے۔ حیوانات کی ابتدائی منزل تک پہنچ کر قوت حس لمس پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی حرکت اور حس لمس یہ دو قوتیں حیوانات میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ابتدائی ترین حیوانی زندگی میں دوسرے حواس سے حیوان محروم تھے۔ اور ان میں حرکت اور حس لمس ابتدائی شکل میں موجود تھی جیسے گھونگھے اور سیپ جو سمندر کے کنارے پائے جاتے ہیں اور چھونے اور حرکت کی حس بہت کم ہوتی ہے۔ اس کے بعد ابن مسکویہ اور اگے بڑھتا ہے اور حیوانی زندگی کی ابتدائی کڑیاں بیان کرتا ہے۔ 1: حرکت اور حس لمس کو قوتیں بلکل معمولی حالت میں پائی جاتی ہیں۔ 2: حرکت اور حس لمس کی قوت زیادہ پائی جاتی ہے جیسے کیڑے مکوڑے۔ 3: وہ جاندار جن میں چار خواص پائی جاتی ہیں مثلا چھچھوندر 4: اور پھر ترقی ہوتی ہے اور ان میں قوت باصرہ پیدا ہوتی ہے جیسے شہد کی مکھیاں۔ ان ارتقائی کڑیوں کو بیان کرتے ہوئے ابن مسکویہ نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح درجہ بدرجہ حیوانات ارتقاء پا گئے۔

اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ابن مسکویہ کا مشاہدہ انتہائی اچھے درجے کا تھا۔ اس کے بعد وہ مزید تشریح کرتا ہے حیوانات کا ابتدائی درجہ اس کی مختلف منزلیں۔ 1:وہ حیوانات جو غبی اور کم فہم ہوتے ہیں 2: وہ حیوانات جو ذکی الحس اور تیز فہم ہوتے ہیں مثلا ہرن، نیل، گائے وغیرہ 3: وہ حٰیوانات جو ذکی الحس اور تیز فہم ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور قوت بھی رکھتے ہیں یعنی ان میں کچھ قوتیں حکم قبول کرنے کی اور نہ کرنے کی بھی پیدا ہو جاتیں ہیں۔ مثلا گھوڑا، باز وغیرہ۔ حیوانات کا اعلی درجہ: 1:نسبتاً ذکی الحس اور تیز فہم ہونے کے ساتھ ساتھ ابتدائی درجہ میں ان میں نقل کرنے کے کچھ مادہ ہوتا ہے جیسے طوطا اور مینا وغیرہ ۔ 2:ذکی الحس تیز فہم اور جماعت بندی پر مائل اجتماعی طور پر رہتے ہیں۔ مثلا بندر اور بن مانس وغیرہ۔ حیوانات کے اس اعلی ترین درجے کی اخری منزل سے انسانیت کا ابتدائی درجہ شروع ہوتا ہے۔ اس درجے میں حیوان اور انسان کے مزاج بہت ملتے جلتے ہیں اور بہت کم فرق پایا جاتا ہے مثلا جنگلی قبائل، آدی باسی، اور دوردراز کے حبشی لوگ۔

ابن مسکویہ نے اپنے وقت کا خوبصورت ترین نظریہ پیش کیا تھا ابن مسکویہ سے بھی پہلے فارابی نے انسانی ارتقاء کا نظریہ پیش کر دیا تھا جس پر ابن مسکویہ نے اس کی بڑے اچھے انداز میں تشریح کی۔اگرچہ آج اس نظریے میں بہت سے جھول نظر آتے ہیں مگر سائینس کا یہی خاصہ ہے کہ وہ رنگ، نسل، ذات اور مذہب سے آزاد ہے اور اپنے نظریات آپ کو بتدریج بہتر بناتی اور جھول ختم کرتی جاتی ہے۔ جو تخم فارابی نے بویا ابن مسکویہ نے اسے پانی دیا اور ڈارون نے اسے تناور درخت بنا دیا۔



ESS_PasteBitmap00151001.png

ابو علی احمد بن محمد بن یعقوب مسکویہ


 

جان

محفلین
میری رائے میں تمام ارتقائی معاملات بکھرے ہوئے ہونے سے بہتر ہے یہاں طے ہونے چاہیئں! سید صاحب نے موزوں لنک دیا ہے، جزاک اللہ!
 
Top