نشاط و غم - صادق اندوری

الف عین

لائبریرین
آئے نہ اجل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔



تم میرے قتل پہ آمادہ ہو،اچھا، لیکن

میں بزرگوں کی دعاؤں سے جیوں گا برسوں

مگر افسوس کہ بزرگوں کی دعائیں کام نہ آئیں اور والد محترم جناب صادق اندوری ۳۱/جنوری ۱۹۸۶ء کی صبح ہم کو سوگوار چھوڑ گئے۔ مرحوم اکثر جمعہ کے دن کوئی جنازہ دیکھتے تو کہا کرتے کہ مرنے والا جنتی ہے کہ جمعہ کے مبارک دن وفات پائی ۔ ۳۱/ جنوری بھی جمعہ کا ہی مبارک دن تھا اور اسی لیے متعلقین نے بعد نماز جمعہ جنازے کی نماز کے بعد مہو ناکہ قبرستان، اندور میں زمین کی امانت کو زمین کے سپرد کر دیا۔ میں ملازمت کے سلسلے میں عرصے سے دور ہوں ہی۔ شومیِ قسمت کہ یکم فروری کی صبح ہی میں نے اپنا مستقر شیلانگ چھوڑا اور میگھالیہ کے ہی ضلع مشرقی گارو ہلس کے ایک دور افتادہ علاقے میں اپنے سالانہ کارِ میدان ( Field Work کا یہ مرحوم کا ہی ترجمہ ہے۔ حالانکہ میرے میدان یعنی ارضیات میں یہ کارِ کوہِ گراں ہی ہوتا ہے۔ ) کے لیے روانہ ہوا۔ والدہ اور بہن بھائی حسب معمول علی گڑھ میں تھے اور پچھلے سال سے والد یہ سوچ رہے تھے کہ مستقلاً علی گڑھ واپس چلے جائیں اور ہرنیا کا دوسرا آپریشن وہاں ہی کرائیں جو ۱۹۷۰ء میں علی گڑھ میں ہی پہلے کرا چکے تھے۔ مگر دونوں مجموعوں کی اشاعت آڑے آئی۔ قارئین کی نظروں سے ’نشید‘ اور ’نقوشِ کاموش‘ شاید گزر چکی ہوں۔ غزلوں کا پہلا مجموعہ ’نشید‘ (تاریخی نام ’نشیدِ غزل‘ لیکن بعد میں اس کو مادّے کے بغیر محض نشید کر دیا) مدھیہ پردیش اردو اکادمی نے اپنے اہتمام سے شائع کیا تھا اور نظموں کا مجموعہ ’نقوشِ خاموش‘ فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ کے مالی تعاون سے خود شائع کیا تھا۔ غرض ہمارا خاندان بکھرا ہوا ہی تھا اور اب بھی ہے۔ والد جن کو ہم بہن بھائی ابّی صاحب کہتے تھے، اپنی والدہ کے انتقال پر اندور گئے تو اپنی بہنوں کو معیت دینے کی غرض سے اور پھر کچھ شاگردوں کی محبت اور اصرار کے باعث اندور میں ہی قیام پذیر ہوگئے۔ جڑیں ان کی وہاں ہی تھیں کہ اندور سے ہجرت کئے ہوئے عرصہ ہی کتنا ہوا تھا۔ ہم سب کو اس کا غم زیادہ ہے کہ دم رخصت کوئی ان کے پاس نہیں تھا۔ میں تو جیسا کہ لکھ چکا ہوں کہ دور افتادہ مقام پر تھا۔ اندور سے مجھے شیلانگ ٹیلیگرام دیا گیا اور علی گڑھ سے بھی۔ اندور سے بھیجا تار شاید پہنچا ہی نہیں مگر علی گڑھ سے جو بہن نے ٹیلگرام دیا، وہ ایک دوست کو مل گیا اور انہوں نے پھر مجھے تار دیا تو مجھے ۱۴ فروری کو اطلاع ملی۔ میری پریشانی کا سوچ کر بہن نے بیماری کی نزاکت کا لکھا تھا جوے کہ میرے دوست نے بھی من و عن مجھے مطلع کیا۔ مگر اس میں کیونکہ ابی صاحب کی جگہ صرف ABBIلکھا تھا میں اسی وقت سے یہ سوچ رہاتھا کہ غالباً ٹیلیگرام میں امی کا ابی ہو گیا ہے کہ ابی صاحب تو اچھے بھلے تھے اور پھر مجھے علی گڑھ کیوں بلایاجائے۔ ۱۸/فروری کو جب علی الصبح علی گڑھ پہنچا تو اس حادثے کی اطلاع ملی۔ کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ صحت ایسی تھی کہ اب بھی روزانہ 4-3 کلومیٹر پیدل اپنی قیام گاہ ارجن پلٹن سے رانی پورہ، اپنے ’شعری مستقر‘ (کلکتہ کی زبان میں ’اڈے‘) جایاکرتے تھے۔ ۳۰جنوری ۱۹۸۶ء کو بھی یہی معمول رہا۔ اگرچہ، جیسا کہ مجھے بتایا گیا، اس شام ان کو شانوں میں شدید درد محسوس ہوا جو کوئی دس منٹ بعد ٹھیک ہوگیا۔ خود بھی اس کی کوئی فکر نہ کی ۔ مگر ۳۱ جنوری کی منحوس صبح کو جاگے تو سینے میں درد کی شدت تھی کہ فوراً نرسنگ ہوم لے جایا گیا مگر دست چارہ گرسے پہلے دستِ اجل نے ان کو چھو لیا۔

؂ آئے نہ اجل میں نے یہ تاویل بہت کی

اے عمرِ رواں تو نے تو تعجیل بہت کی

۶۸ برس کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ غالباً یہ قلبی حملہ تھا۔ ورنہ وہ صرف ہرنیا اور بواسیر کے مریض تھے جو کہ جان لیوا تو نہیں ہوتے۔ امی مستقلاً بیمار ہی رہتی ہیں اور کہا کرتی تھیں کہ ان کے سارے خاندان میں شوہر بیویوں سے پہلے فوت ہوتے ہیں مگر وہ بیوہ ہونے کی بجائے یہ خاندانی روایت توڑیں گی۔ خدا ان کا سایہ ہمارے سر پر سلامت رکھے مگر والد مرحوم نے اس خاندانی روایت کا اس طرح احترام کیا جس طرح وہ ہر صالح روایت کا احترام کرتے آئے تے موت کا بھی۔ ۔ اپنی آخری مکمل غزل (۱۵/جنوری ۱۹۸۶ء) کے دو اشعار ہیں


آدمی کتنے ہیولے ہی بنا کر رکھے

موت پھر موت ہے جب آئی تو ڈرنے سے رہی

آخری وقت ہے مختل ہوئے جاتے ہیں حواس

ایسے میں میری خودی کام تو کرنے سے رہی

اس میں کوئی شک نہیں کہ دم واپسیں تک نہ صرف ان کے حواس درست تھے بلکہ کچھ حد تک قویٰ بھی اور خودی کا عالم بھی وہی تھا۔میں نے ابی صاحب کی ملازمت کی درخواستیں نہیں دیکھیں مگر میرا خیال ہی ہے کہ ان درخواستوں کے تیور بھی شاہد ایسے ہی رہے ہو ں جیسے کہ وہ کسی سے التجا نہیں کر رہے بلکہ اپنا حق طلب کر رہے ہیں ۔ کچھ اسی وجہ سے ان کی ملازمت چھوٗٹی بھی ۔ سرکاری افیون کے کارخانے کی ملازمت تو آزادیِ ہند سے پہلے کی بات اور میری پیدائش سے بھی ۔ اس کا صرف میں نے ذکر سنا ہے یا کاغذات دیکھے ہیں ۔ میرے بچپن میں تو وہ اندور آئرن انیڈ سٹیل ایسوسی ایشن میں ہی بطور کلرک رہے اور مینجر سے اس وجہ سے ناراض ہو کر مستعفی ہو گئے کہ ان سے جونیر اسٹاف کی ترقیاں ہو چکی تھیں اور تنخواہیں بڑھ چکی تھیں مگر ان کے عہدے یا تنخواہ میں خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی تھی۔ یہ بات 1966 کی ہے اس کے بعد 1969 تک ملازمت کی کچھ کوششیں ضرور کیں ۔ کم از کم اخباروں میں اشتہارات دیکھ کر درخواستیں دینے کی حد تک مگر اس سلسلے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال نہیں کیا اور نہ کسی کی خوشامد سے کام نکالنے کی کوشش کی غرض بے کار ہی رہے۔ ادھر اندور کا بڑا مکان فروخت کر کے والدہ وہاں کوئی اور مکان خریدنا یا بنوانا چاہ رہی تھیں ۔ یہ ذاتی مکان جو رانی پورہ مین روڈ پر تھا، محض اپنی چار منترلوں کی اونچائی کی وجہ سے بڑا تھا، رقبے میں نہیں، اور امی شروع سے ہی اپنے (اور ابی صاحب کے) آبائی وطن جاؤرہ (ضلع رتلام ، مدھیہ پردیش) کی طرز کے کھلے آنگنوں والے مکان کو ترستی رہیں۔ رانی پورہ روڈ والے مکان کو فروخت کر کے بخشی کالونی میں مکان خریدنے کے لیے بیع نامہ تک ہو گیا تھا، مگر اس مکان پر قبضہ نہ مل سکا۔ حالت یہ ہو گئی کہ پہلے کم از کم رانی پورہ روڈ والے مکان کی دو منزلوں کا کرایہ آتا تھا، یا اب رہنے کا ہی ٹھکانہ نہ تھا۔ ادھر 1968ء سے میں برائے تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلا گیا تھا اور بہن (عاتکہ فرزانہ) بھی اندور سے بی اے مکمل کر کے علی گڑھ سے ہی ایم اے کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ چنانچہ سارا سامان باندھا گیا اور علی گڑھ ہجرت کی گئی۔ یہ امید بھی تھی کہ وہاں کچھ ملازمت کا سلسلہ ہو جائے اور وہاں ہی مکان بنایا یا خریدا جائے۔ مگر شروع میں وہاں کچھ نہ ہو سکا۔ بلکہ آخر تک ۔ نہ ملازمت نہ مکان۔ اور پھر ڈھائی سال بعد ہی ابی صاحب مرحوم دادی صاحبہ کے انتقال پر اندور گئے تو پھر علی گڑھ محض عارضی طور پر واپس آئے۔ کچھ دن بعد ہی میں ایم ایس سی سے فارغ ہو کر کچھ عرصے وظیفے پر تحقیق کر کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ ارضیات میں ہی لکچرر ہو گیا تھا۔ اس کے بعد نہ انہوں نے خود ہی ملازمت کی کوشش کی اور نہ ہی اس کی ضرورت باقی رہی تھی۔

قویٰ کی مضبوطی کی بات میں نے ابھی لکھی تھی۔ یوں تو آخر وقت تک پیدل چلتے رہے۔ مگر پچھلے کئی سالوں سے کبھی کبھی یہ ضرور ہوتا کہ پیٹھ یا کمر میں درد ہو جاتا یا گھٹنوں کے جوڑوں میں اکڑ۔ یادیں ان کی وہی تصویر بتاتی ہیں کہ ایک ہاتھ کمر پر رکھے، اور ایک ہاتھ سر پر بالوں کو سنوارتے ہوئے (جو ان کی عادت تھی ایک اور عادت تھی ابروؤں کو حرکت دینا) اپنے مخصوص لہجے میں باتیں کر رہے ہیں۔ آسمانی قمیص اور سفید پائجامہ پہنے۔ گھر میں ہمیشہ پائجامہ اور قمیص ہی پہنا۔کرتا نہیں اور قمیص میں بھی آسمانی رنگ ہی زیادہ مرغوب تھا۔ ۷۲ء کے آس پاس تک تو باہر جاتے وقت قمیص اورپتلون (شرٹ اور پینٹ کے الفاظ انہوں نے کبھی استعمال نہیں کیے انگریزی سے بہت عمدہ واقفیت کے باوجود روز مرہ گفتگو میں انگریزی الفاظ کے اردو مترادف ہی استعمال کرتے تھے) مگر بعد میں باہر جاتے وقت شیروانی پہن لیتے۔ جوتا ہمیشہ بغیر فیتوں والا پمپ پہنا اور بغیر موزوں کے۔ ہفتے میں دو دن پابندی سے شیو کرتے تھے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر ابھی ملک الموت کچھ اور مہلت دے دیتا تو شاید داڑھی بھی رکھ لیتے۔ نمازوں کے تو پابند ہو ہی گئے تھے۔ ادھر 5۔7 سالوں سے۔۔۔ روزے تو انہوں نے کبھی قضا نہیں کیے۔ پہلے قرآن مجید صرف رمضان میں ہی پڑھا کرتے تھے مگر آخر عمر میں تو روزانہ کا معمول بنا لیا تھا۔ بے حد تیزی سے کلام پاک پڑھتے تھے کہ شاید 20۔25 منٹ میں دوپارے، پڑھ لیتے۔ اور مہینے میں دو قرآن تو ختم کر ہی لیتے تھے۔

نمائش سے چڑ تھی۔ اور سادگی اور صاف گوئی مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو پچھلے دنوں ہی پیش آیا تھا اور مجھے حال ہی میں اندور میں سنایاگیا۔ اندور کے مسلمانوں میں اکثریت جہلا کی ہے۔ ویسے بہت سے بفضل خدا دولتِ دنیا کے مالک بھی ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب گیارہویں کی فاتحہ پر بے شمار نہیں بلکہ خاص طور پر گن کر دیگیں پکواتے تھے کہ اگلی فاتحہ تک عوام میں شہرہ رہے کہ فلاں صاحب کے گھر میں فاتحہ تھی اور ماشاء اللہ اتنی دیگیں زردہ پلاؤ کی بنیں اور اتنے سو یا اتنے ہزار لوگوں کی دعوت کی گئی۔ شومیِ قسمت کہ یہ صاحب اس موقع کے لیے مرحوم کو خود مدعو کرنے آئے۔ صاف گو بلکہ منہ پھٹ تو تھے ہی (ابی صاحب کا ہی شعر ہے ؃

ڈھونڈھنے سے بھی مل نہ سکے گا۔ صادق جیسا انساں منہ پھٹ) پہلے تو یہ تقریر کی کہ اسلام کی روسےجو فرائض ہیں ان کی ادائیگی تو پوری کی جاتی ۔ اور اس قسم کی فتحوں پر زور دیا جاتا ہے جن کی شرعی حیثیت بھی مشکوک ہی ہے اور پھر اس کی وجہ خود ہی بیان کرتے ہوئے ان صاحب کی نمائش پسندی پر غصے میں کھری کھری سنا دیں اور آخر ان صاحب کی دعوت میں نہیں گئے ۔ یوں بھی وہ ایسی دعوتیں قبول نہیں کرتے تھے جہاں بریانی وغیرہ کھانی پڑے کہ چاول وہ کھاتے نہیں تھے۔ بچپن میں جو بیماری لاحق ہو گئی تھی (جس کا ذکر ‘نقوش خاموش‘ میں تفصیل سے درج ہے) تو حکیم روحیؔ ٹونکی صاحب جن کے علاج سے شفا ہوئی تھی، کی ہدایت تھی کہ بیگن اور چاول سے سخت پرہیز کیا جائے جو آخر تک کرتے رہے کوئی مدعو کرتا تو یا تو معذرت کر لیتے یا پھر صاف گوئی س یہ شرط عائد کر دیتے کہ چاول نہ ہوں۔ چنانچہ بریانی پلاؤ کی دعوتوں میں بھی ان کے لئے چپاتیوں کا انتظام کیا جاتا یا نان و شیر مال منگوائے جاتے۔

کھانے کا بھی مخصوص انداز تھا۔ دستر خوان پر چپاتی رکھ کر ایک نوالہ توڑتے پھر اس کے دو حصے کرتے۔ ایک ٹکڑے کو دوسرے پر رکھ کر نوالہ بناتے اور سالن کی پلیٹ میں ڈالتے۔ بے حد آہستہ آہستہ کھاتے۔ ملازمت کے دوران صرف کھانے کے اوقات میں ہی گھر میں رہتے تھے اور ہم لوگوں سے گفتگو بھی دسترخوان پر ہی ہوتی ۔ (بعد میں تو دوپہر کے کھانے سے شام پانچ ساڑھے پانچ بجے تک گھر میں ہی رہتے تھے) اور یہاں مجھے ان کی گفتگو اور خاص کر داستان گوئی کا انداز یاد آ رہا ہے ۔ چاہے اپنی بیماری کا قصہ ہو یا بزرگ شاعر مولانا سُہا مجدّدی کا ذکر جن کو کسی دوکان پر ابّی صاحب مرحوم نے بچہ سمجھ کر گود میں اٹھا کر الگ ہٹا دیا تھا (مولانا بے حد پستہ قد تھے)۔ ہر قصہ اسی طرح دھیرے دھیرے سناتے جس رفتار سے کھاتے جاتے۔ ہم لوگ ’آگے کیا ہوا‘ کے تجسس میں بور ہونے لگتے کہ انتظار کرنا پڑتا ۔ کب منہ کا نوالہ ختم ہو جو وہ گفتگو کا سرا پکڑیں۔ ادھر نوالہ ختم کیا ۔ ادھر دوسرا نوالہ توڑتے ہوئے گفتگو کا سرا پھر وہاں سے ہی پکڑتے جہاں سے چھوڑا تھا۔ بعض اوقات ہم بھول جاتے تھے کہ بات کہاں تک پہنچی تھی ۔ مثلاً ’’حکیم غریق صاحب مرحوم نے اطلاع دی کہ ایک بزرگ ٹونک سے آئے ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘ (نوالہ منہ میں ۔ خاموشی ۔ ہم سامعین اس طویل وقفۂ خاموشی میں بھول جاتے کہ آخری جملے میں ایک بزرگ کا ذکر شروع ہو گیا ہے ) پھر نوالہ ختم کر کے ’’ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گورا رنگ ۔ میانہ قد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور پورا حلیہ بیان کیا جاتا۔ اگلے نوالے کے وقفہ خاموشی کے بعد تیسرے نوالے پر پتہ چلتا ’’محمد ابراہیم خاں نام تھا۔ شاعر آدمی تھے۔ بزرگ اور پیر طریقت بھی ۔ روحیؔ تخلص کرتے تھے۔ ۔ ۔ ‘‘ اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان روحیؔ صاحب کے علاج اور اس سے والد مرحوم کے افاقے کی کہانی نے کتنا طول کھینچا ہو گا ۔ حافظہ مگر غضب کا تھا۔ اگر ٹیپ ریکارڈر پر ان کی یہ گفتگو ریکارڈ کی جاتی اور خاموشی کے وقفوں میں ٹیپ بند کر دیا جاتا پھر بعد میں Play کرنے پر بھی مکمل تسلسل کا احساس ہوتا۔ ہمارےاسکول کے ساتھی گھر آتے یا آخر عمر میں جو بچیاں اندور میں درس قرآن لینے آتیں، سب کا نام پتہ ۔ والدین کا نام پتہ پیشہ ۔ ساری مکمل معلومات حاصل کر لیتے۔ اور یہ نہیں کہ لمحاتی طور پر معلوم کر کے بھول جاتے ہوں۔ یاد بھی رکھتے تھے۔خاص طور پر ’’ مثبت‘‘ تفصیلات ۔ کسی کے خاندان میں کوئی شخص کافی تعلیم یافتہ رہا ہو تو دوسروں سے ’’ تعارف‘‘ کراتے اور فخر سے ذکر کرتے۔ ’’ اس کے باپ تو بے چارے زیادہ نہیں پڑھ سکے مگر چچا ۔۔۔۔ معلوم ہے۔ فلاں جگہ کے سول سرجن ہیں !! ’’ اعلیٰ تعلیم یافتہ کی قدر ان کے مزاج میں بہت تھی ۔ کوئی اگر ڈاکٹریٹ کر لیتا تو ضرور اسے ’ڈاکٹر‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ قابل احترام شخص ہونے پر (عمر کے لحاظ سے نہیں، رتبے کے لحاظ سے) ’ڈاکٹر صاحب‘ کہتے اور کوئی نو عمر بھی ہوتا جس کا نام لے کر پکار سکتے تھے، اس کے نام کے ساتھ بھی ڈاکٹر شامل کر کے پکارتے۔

میرے بچپن میں ایک قطعہ مجھ کو اور ایک بہن کو لکھ کر دیا تھا ۔ کوئی بھی مہمان آتا تو ہم دونوں کو بلانے اور حکم دیتے کہ قطعہ سناؤ ۔۔۔ میں شروع ہو جاتا

آم کھاتے ہیں کاٹ کاٹ کے ہم کبھی طوطا پری کبھی نیلم

آم کھا کھا کے کہتے ہیں اعجاز اے خدا ۔ یہ رہے سدا موسم

(اپنی شاعری میں لفظ ’سدا‘ بمعنی ہمیشہ استعمال کرنا پسند نہیں کرتے تھے)

بہن صاحبہ کے قطعے کا عنوان تھا ’جامن‘ ۔۔ قطعات سنوا کر ہم دونوں پر اس طرح فخر کرتے کہ ہم کو خود بھی لگنے لگتا کہ یہ شاعری ہم سے ہی ’’ سرزد ‘‘ ہوئی ہے ۔ میرا اسی زمانے میں ایک کھیل یا مشغلہ تھا ۔ میں بچوں کے ایک رسالے کا پرنٹر پبلشر ایڈیٹر اور کاتب ہوا کرتا تھا۔ ننھے منے سائز (3 انچ x 4 انچ) کے 16 یا 32 صفحات کا یہ رسالہ ’’ بازیچۂ اطفال ‘‘ کہلاتا ۔ یہ نام بھی ابی صاحب مرحوم کا ہی مجوزہ تھا ۔ ’اطفال‘ تک تو ہمارا علم کام کرنے لگا تھا ( حالانکہ میری عمر 7 ۔ 8 سال رہی ہو گی) ۔ مگر ’بازیچۂ اطفال ’’ چہ معنی دارو ! وہ تو ہوش سنبھالنے پر معلوم ہوا کہ یہ تیر غالبؔ کے ترکش کا ہے۔ اس تحریری ماہنامے میں کچھ کہانیاں تو ماہنامہ ‘ کھلونا‘ دہلی سے ’ڈائجسٹ‘ کی جاتیں (مصنف کے اپنے نام کے ساتھ) باقی میری ہی تحریر ہوتی۔ ایک ٹوٹی پھوٹی نظم ۔ ایک آدھ کہانی۔ اور اپنے اس رسالے میں اپنا ایک ’ناول‘ بعنوان’’ لالو کی گائے‘‘ قسط وار شائع کرتا تھا۔ وہ بھی اس طرح کہ ہر شمارے کی تازہ قسط تازہ تازہ ہی راست کتابت کی جاتی۔ جب ابی صاحب نے یہ دیکھا کہ میں ہمہ وقت اسی رسالے کی ’اشاعت ‘ میں لگا رہتا ہوں تو ایک دن خوب ڈانٹا بھی ۔ پیٹا بھی اور تازہ شمارہ پرزے پرزے کر دیا ۔ میں خوب رویا۔ کچھ دیر بعد ہی ان کو رحم آ گیا ۔ سنسر شپ ختم کی۔ اور مجھے بلا کر اپنی اسٹیشنری میں سے ایک پورا دستہ کاغذ کا مجھے دیا۔ پھر میری خوشی کا کیا ٹھکانہ تھا، ’بازیچۂ اطفال‘ کا خاص نمبر شائع کیا گیا۔ اور ’’ لالو کی گائے‘‘ کی باقی ساری قسطیں اس میں شائع کر دیں ۔ یہ تو خیر بچپن کی یاد آ گئی تھی ۔ میر ی پہلی تخلیق پندرہ روزہ ’نور‘ رام پور میں چھپی تھی۔ 1959ء میں ۔ آگے پیچھے دو تخلیقات ’نور ‘ میں شائع ہوئیں ۔ مائل خیر آبادی کے ہی انداز میں ایک کہانی نما مضمون ’’اِلّو ملّو اور ہم‘‘ اور ایک نظم جس کا عنوان تو یاد نہیں پہلا مصرعہ تھا ’’ اچھائی اپنانا ہے‘‘ ۔۔ بہت مسرت کےساتھ اپنے احباب سے اس کا ذکر کرتے۔

تقریباً 7۔8 سال تک تو میں بچوں کا ہی ادیب اور شاعر رہا۔ اس کے بعد 66 ۔ 67 ء سے ’’ بڑوں‘‘ کے کارواں میں شامل ہو گیا۔ میری شاعری کی منہ پر تعریف تو نہیں کرتے تھے، مگر جب رسائل میں چھپنا شروع کیا اور ریڈیو (اردو سروس اے۔ آئی ۔ آر ۔ دہلی ) کے پروگرام ایک کے بعد ایک ملنے شروع ہوئے تو بے حد فخر سے اس کا ذکر دوسروں سے کرتے۔ مرحوم کو ’نئے ادب‘ سے روشناس کرنے کا سہرا کچھ میرے سر ہے، چاہے اسے خود ستائی کہا جائے۔ اور میں بھی اس سلسلے میں برادرم جاوید حبیب (مدیر ’’ہجوم‘‘ دہلی اور مسلم یوتھ لیڈر) کے واسطے ’شبخون ‘‘ کے رابطے کا مرہون منت ہوں۔ 67 ۔ 66 ۔ میں ایک روز نامہ اندور سے نکلتا تھا ’’سفیر مالوہ‘‘ ۔ جس کے مالک و مدیر عبدالغفور مجاہد صاحب تھے مگر ڈیسک عزیز بھائی (عزیز اندوری صاحب ) کے سپرد تھی ۔ ہفتہ وار بچوں کے صفحے ’کھلتی کلیاں‘ کی ادارت میں کرتا تھا اور خواتین کے صفحے ’عالم نسواں‘ کی ادارت امی صاحبہ کے ذمے تھے (اس صفحے میں بھی میرا عمل دخل کافی تھا)۔ اس سلسلے میں تعلق ہوا جاوید حبیب سے جو کہ ان صفحات میں لکھا کرتے تھے۔ اور جب ان کے گھر آنا جانا ہوا (وہ انور علی صاحب ۔ پرنسپل اسلامیہ کریمیہ ڈگری کالج، جن کو ابی صاحب نے ہمیشہ ’ ڈاکٹر صاحب کہا، کے گھر میں مقیم تھے) تو انور صاحب کے نام آنے والے ’شبخون‘ سے بھی تعارف ہوا۔ اور دارجلنگ چائے بھی منہ سےلگی۔ ’شب خون‘ کے پرچے گھر میں بھی لاتا۔ اور اس طرح ناصر کاظمی۔ ظفر اقبال اور منیر نیازی وغیرہ سے میں بھی واقف ہوا اور ابی صاحب بھی۔ ویسے گھر میں محترم اعجاز صدیقی مرحوم کی رفاقت کی بنا پر ’’ شاعر‘‘ ابی صاحب کے نام ہمیشہ آتا تھا۔ چاہے سالانہ قیمت عرصے تک نہ بھیجی جائے۔ ابی صاحب کی فکر، خیال اور زبان و بیان میں جدت تو تھی ہی (نام نہاد جدیدیت کے فلسفوں۔ وجودیت وغیرہ کی طرف اشارہ نہیں ہے) جس شخص نے یہ اشعار اپنی ابتدائی عمر شاعری میں کہے ہو ؎

لپٹ نہ جائے کہیں آرزوئے آوارہ ۔ ہر ایک گام پہ دامن بچا رہے ہو تم (1939)

الہٰی خیر ہو، لٹتی ہے دنیا میری آنکھوں کی ۔ سر نوک مژہ پھر گوہر یک دانہ آتا ہے (1940)

صادقؔ جب اس سے آتش دل ہی نہ بجھ سکی ۔ اب اور کیا امید رکھیں چشم تر سے ہم (1944)

صادقؔ مال گریۂ الفت نہ چھپ سکا ۔ دامن میں بھر گئے ہیں ستارے کبھی کبھی (1946)

اور جس زمانے میں وہ رات کا بے نوا مسافر کہہ رہا تھا ؎

روئے ہم موسم بہار کے بعد ۔۔ اب کی پت جھڑ میں کتنے پھول کھلے ۔۔اور ؎

یہ شب یہ خیال و خواب تیرے ۔ کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے (ناصر کاظمی)

اس دور میں صادق اندوری کہہ رہے تھے ؎

نیند اڑی اور جذبے جاگے ۔ سوئے ہوئے سب لمحے جاگے

صبح سے پہلے صبح ہوئی ہے ۔۔ پچھلے پہر متوالے جاگے (1954)

خوابیدہ راستے تھے تو گرم سفر تھے لوگ ۔۔۔ جاگے جو راستے تو مسافر ہی سو گئے (1960)

پھول کھل اٹھے ڈگر ڈگر پر ۔۔ سن کر تیرے پاؤں کی آہٹ (1959)

اک دن چھینی جائے گی ۔۔ سرخی بھی افسانےسے (1958)

سلگ رہے ہیں تیری یاد کے دئے دل میں ۔۔ اجڑ چکا ہے یہ گھر پھر بھی ہم کو پیارا ہے (1957)

جب علی گڑھ آئے تو کچھ شعری مجموعے میرے پاس تھے اورکچھ میں لائبریری سے لاتا رہتا تھا تو وہ بھی پڑھتے رہے۔ ’برگِ نے‘ (ناصر کاظمی) اور ’جنگل میں دھنک(منیر نیازی) بڑے شوق سے پڑھیں۔ بعد میں شاگردوں کو مشورہ دیتے کہ کلاسیک (میر و غالب سے جوش و جگر تک) کے بعد ترقی پسندوںمیں فیض اور اس کے بعد ناصر کاظمی کو ضرور پڑھو۔ روایت کا احترام بہر حال مزاج میں تھا۔ 1965 میں کہا تھا ؎

چراغ کہنہ بچھانے سے فائدہ کیا ہے ۔ نئے چراغ کی لرزیدہ روشنی ہے ابھی۔

ان کا مسلک یہی رہا تھا کہ

؎ کچھ صلح کل ایسا ہے مسلک مرا اے صادق ۔۔ سب ہی مری نظروں میں اپنے نہ پرائے ہیں

1969 ء میں جب بانی مرحوم نے اپنی کتاب ’حرف معتبر‘ مجھے ڈاک سے بھیجی تو اسے پڑھ کر بانی کو بھی اس فہرست میں ناصر کے بعد شامل کر لیا تھا۔ ’’دل فگار مینڈھک‘‘ (بقول قرۃ العین کے ایک افسانوی کردار) والی شاعری ضرور ناپسند تھی۔ مقصد ان کی شاعری کی تنقید یا ان کو ’جدید‘ شاعر ثابت کرنا نہیں ہے صرف اتنا ہی کہ انہوں نے ذہن کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔ علامت کا استعمال کم کیا اور تشبیہ اور استعارے کو ہی ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ’وقت کا سورج‘ اور یادوں کا عَلم‘ جیسی ترکیبیں ملتی ہیں۔ ترکیبوں کے معاملے میں تو غالب کے پیرو تھے۔ فارسی اور عربی کے عالم تو تھے ہی ۔ نئی نئی ترکیبیں نکالتے ۔ ذواضافتی اور سہ اضافتی ۔ ایک اچھا شعر یاد آگیا ؎

زندگی سلسلۂ کرب سے تعبیر سہی ۔۔ پھر بھی اک شائبۂ عشرتِ جاں ہوتا ہے ۔

ان کے کھلے ذہن کی شاعری کے کچھ نمونے اور پیش کرنے کی اجازت دیں ؎

کچے زخموں سے مرا جسم سجا کر صادق ۔ میرے ماحول نے رنگین قبا دی ہے مجھے

چاندنی کی سجی سجائی رات ۔۔ بیت احزاں میں لا کے رکھ دی ہے

تجھ سے منہ پھیر کے میں آج بہت ہی خوش ہوں ۔۔ تو مرےساتھ رہا ہے غمِ دنیا برسوں

بستی میں ہیں پھیلے ہوئے تاریک خرابات ۔ اونچائی پہ روشن کسی معبد کا کلس ہے

ہر شہسوار بھول گیا اپنے داؤ پیچ ۔۔ ایک مرد پختہ کار جو میداں میں ڈٹ گیا۔

موضوعات میں تکرار ضرور تھی۔ کئی کئی اشعار میں ایک ہی خیال نظم کیا ہے مگر اکثر ندرت بیان کے ساتھ ۔ ان کی شاعری کی بقیہ خصوصیات ناقدین کے سپرد کرتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ موضوعات کے اعتبار سے یہ اشعار نمائندہ کہے جا سکتے ہیں اور زبان و بیان کے لحاظ سے بھی ؎

عرش تک آج آگیا صادقؔ ۔ اپنے شہ پر کو دیکھتا ہوں میں

زہے مشق تصور زندہ باد اے دل کے کاشانے۔ ۔ ۔ انہیں ان کی بھی نظروں سے چھپا کر ہم نے دیکھا ہے

اک معبدِ مخصوص محبت کے سہارے ۔۔۔ دنیا کے طریقوں سے جدا ہم نے بنایا ۔

بناؤ اپنے لیے اک نیا نظام حیات ۔۔ سیاست دگراں کے نشاں بدل ڈالو

مدد اے عزم جادہ پیمانی ۔۔ دور منزل ہے ، پا پیادہ ہوں ۔

صادقؔ نہیں محفل میں کوئی رمز شناس ۔۔ پیکار یہ سب آپ کی تقریریں ہیں

وجود ہست عدم کا نقیب ہوتا ہے ۔ ۔ یہ بات ذہن میں بے فیض و بے صلہ رکھنا

جھوٹ پھر جھوٹ رہا سچ کے مقابل صادق ۔۔ ان گنت لوگوں نے قرآن بھی سر پر رکھا

نہ سنگلاخ ہے ہر گز، کبھی کرخت نہیں ۔۔۔ وفا کی راہ پہ آئینِ جہد سخت نہیں

اپنی جرأت سے کنارے پہ ابھر آیا ہوں ۔۔ چھوڑ کر آتے تھے طوفاں تہِ دریا مجھ کو

مانا کہ حسن دوست بہت مستطر رہا ۔۔ لیکن بہ ہر حجاب خراب نظر رہا

جب عاشقی جنون کی حد گزر گئی ۔۔ ہر آرزوئے مردہ کی عقبٰی سنورگئی

صادق دیارِ دوست میں موت آ گئی مجھے ۔ ۔ قسمت پہ ناز کر تری مٹّی سدھر گئی

زبان و بیان اور عروض کے ماہر تو تھے ہی ۔ فارسی اور عربی الفاظ میں آخری ’ی‘ نہ گرے۔ اسی بنا پر ایک مصرعہ طرح تھا جس میں ’رعنائی‘ قافیہ اور ’دے گیا، ردیف تھی ۔ پوری غزل میں اس بنا پر خالص اردو/ہندوستانی قوافی استعمال کیے (انگنائی ۔ پروائی) ۔ خیال کتنا ہی جدید ہوتا، مگر اسی طرح ادا ہوتا کہ ’’ میرے ماحول نے رنگین قبا دی ہے مجھے‘‘ عام الفاظ ایسے جیسے کی بجائے ’نہ ایں شکل ‘ اور ’بہ ایں طور‘ استعمال کر کے مزید مشکل پسندی کا ثبوت دیتے ۔ زبان و عروض کے بارے میں کچھ باتیں اور یاد آ گئی ہیں ۔۔۔۔

ایک تو ہم لوگ بھی ابی صاحب کے نام آئے خطوط خود کھول لیتے اور پڑھ بھی لیتے۔ یا پھر جس وقت وہ شاگردوں کے کلام پر اصلاح کر رہے ہوتے تو میں پاس بیٹھ کر وہ کلام دیکھنے لگتا۔ عام غلطیوں کی نشان دہی میں کر دیتا تو خوش ہوتے ۔ ’’ یہ خیالاتوں‘‘ کیا ہوتا ہے؟ ’’میں طنزیہ طور پر کہتا تو ہنستے اور کہتے ’’ گدھا ہے۔‘‘ یہ ان کی مخصوص گالی تھی جس میں پیار کا عنصر بھی شامل تھا اپنے اس شاگرد کے لیے جس کے کلام کے بارے میں گفتگو ہوتی ۔ پھر مجھے بھی عروضی غلطیوں کے بارے میں بتاتے ۔ فلاں لفظ مذکر ہے ، اسے مؤنث باندھ دیا ہے ۔ اس لفظ کا تلفظ تقطیع میں غلط ہے۔ ’ہَر ہَنہ ‘ نہیں ’ہر ہنہ‘ ہے۔ یعنی ’ہ’ متحرک ۔ حرکت میں ’ر‘ سکوت نہیں، متحرک ہے ۔ غلطی میں ’ل‘ ساکن نہیں۔ غَلَطی صحیح ہے۔ ’سِمت ‘ صحیح نہیں ’سَمت‘ ہے ۔ تنہا استعمال کیا جائے تو ’راہ‘ صحیح ہے ’رہ‘ نہیں ، مگر ترکیبی طور پر جائز ہے جیسے رہِ نجات ، راہگزر کی املا ’ز‘ سے ہے ۔ کچھ لوگ غلطی سے ’ذ‘ سے کرتے ہیں اور ’راہ گذر‘ لکھتے ہیں۔ کہاں تک گناؤں ۔ ایک غلطی تو میں خود اوپر کی ایک سطر میں کر گیا ہوں۔ ابی صاحب کے اصول کے مطابق ۔ وہ ’ بسکوت‘ کبھی نہیں لکھتے تھے۔ ہمیشہ ’بہ سکوت‘ لکھا ۔ ’ بہ ہر طور‘ نہ کہ ’بہر طور‘ ۔ اگر اس کتاب میں قارئین کو کہیں ’بہ‘ کی بجائے صرف ’ب‘ نظر آئے تو اسے میری نقل کی ’غلطی‘ پر محمول کیا جائے (کہ میں اسے جائز قرار دیتا ہوں) ۔ اس سلسلے میں ایک بات اور یاد آ گئی ۔ ’ہ‘ پر ختم ہونے والے فارسی عربی الفاظ (زمانہ ، آئنہ ،پروانہ) کے بعد ’سے‘ ’کا‘ اور ’میں‘ جیسے الفاظ ہوں تو تلفظ یہی ہو جاتا ہے کہ آئنے میں ، زمانے کا۔ پروانےسے۔ ابی صاحب کی املا مگر ہمیشہ ’آئنہ میں‘ اور زمانہ کا ‘ ہی رہی۔ (نشاط و غم کی ترتیب و نقل کے دوران یہ ’تغلیط میں‘ نے جان بوجھ کر کی ہے) ۔ ابی صاحب کی توجیہ غالباً یہ ہوتی کہ فارسی عربی الفاظ کے آخر کی ’ہ‘ کا گِرنا فصیح ہے۔ اور اگر املا ’زمانے‘ ’پروانے‘ کی جائے اور تقطیع ’زمان‘ ‘پروان‘ ہو تو ’ے‘ گر جائے گی جو عروضی غلطی ہے۔ میں نے ترتیب میں عروض کی بہ نسبت بول چال کا زیادہ خیال رکھا ہے(غلط العوام فصیح) اور اکثر اس آخری ’ہ’ کو ‘ے’ سے تبدیل کر دیا ہے جس کو مرحوم شاید قبول نہ کرتے، اکثر لوگ ’ناطہ‘ (بمعنی ’رشتہ‘ لکھتے ہیں ۔ مگر وہ کہتے تھے کہ یہ نہ عربی لفظ ہے اور نہ فارسی لفظ۔ خالص اردو ہندی لفظ ہے، پھر اس میں طا (ط) کہاں سے آ گئی ! اسے ’ناتا‘ لکھتے۔ اکثر الفاظ اپنے اصل عربی اور فارسی معانی میں استعمال کرنے۔ ’اصولوں‘ کے بارے میں کہتے کہ ’اصول‘ خود اصل کی جمع ہے۔ مگر قافیے کی مجبوری ہو تو ’اصولوں‘ قابل قبول ہے (مگر ’مکروہ‘) کہ معانی اردو میں مختلف ہو گئے ہیں۔

مادّۂ تاریخ نکالنے میں کمال حاصل تھا ۔ عرصے سے بہ طور تھا کہ محرم آتا اور ۔۔۔۔ بلکہ اکثر اس سے پہلے بھی نئے سال ہجری کے تاریخی ناموں کی فہرست بتاتے ۔ 15۔15 عدد لڑکوں اور لڑکیوں کے ناموں کی۔ اکثر بچوں کی پیدائش کے موقعے پر ان سے نام پوچھے جاتے اور یہ فہرست کام آتی۔ اپنی پہلی کتاب ’’ نشید‘‘ کا بھی اصل نام تاریخی تھا۔ نشید غزل ۔ مگر یہ کتاب مادہ تاریخ کے حساب سے 1401 ھ میں شائع نہ ہو سکی ۔ پھر بعد میں ان کو بھی شاید محض ’نشید‘ پسند آ گیا اور پھر ’نشید‘ کے نام سے ہی کتاب شائع ہوتی ۔ خود مجھ کو جب اس مجموعے کی اشاعت کے سلسلے کی خبر خط میں دی تو ’نشیلا‘ کے معنی بھی ساتھ میں لکھے ’’گانے کی آواز‘‘ کہ ممکن ہے کہ میں واقف نہ ہوں (جو حقیقت تھی) اور لغت میرے پاس نہ ہو (یہ بھی سچ تھا) ۔ لیکن دوسرے مجموعے کا نام تاریخی ہی رکھا تھا۔ ’’نقوشِ خاموش‘‘ (1403 ھ ۔ جو کہ 1406 ھ میں ہی چھپ سکی)۔’’نظارۂ حرم‘‘ (1404 ھ ۔ جسے ابھی شائع کیا جانا ہے) اور نشاط و غم‘ (1406 ھ ۔ جو دم تحریر جاری ہے۔)

مرحوم کا المیہ یہی رہا کہ وہ عزت ، شہرت نہ ملی جس کے وہ واقعی حق دار تھے۔ ماحول سے نا قدری کے شاکی رہے کہ اندور میں ان کے علم و دانش کی پذیرائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ علی گڑھ میں وہ زیادہ عرصے رہے بھی نہیں۔ اور پھر ان کا تعلق یونیورسٹی سے نہیں تھا۔ اگر وہ وہاں لکچرر یا ریڈر ہوتے تو وہاں کے حلقے میں عزت پاتے ۔ ان گنت مقطعوں میں یہی رونا رویا ہے۔

اگلے وقتوں کے ایسے لوگ اب کہاں پیدا ہوتے ہیں۔ اب وہ خمیر ہی ختم ہو چلا جس سے ایسی ہستیاں تعمیر کی جاتی تھیں۔ یہ نسل اب گزر گئی ۔ مدھیہ پردیش کا ادبی ماحول ایک اہل فن سے محروم ہو گیا کہ ہر صغیر کا ادب ابھی ان کا شناسا بھی نہ ہوا تھا ۔ شاید ہو بھی جاتا مگر اجل نےتعجیل کر دی ۔

اس گفتگو کو اس خطاب پر ختم کرتا ہوں جو مرحوم نے روح غالبؔ سے کیا تھا ؎

مری حیات ہے شہرت کی سد راہ مگر

کہ مجھ کو مردہ پرستوںنے گھیر رکھا ہے

مرے حریف ہوں کیوں معترف مرے فن کے

کہ دوستوں نے ہی جب مجھ سے بیر رکھا ہے


میں جانتا ہوں کہ مرنے کے بعد اہل وطن

سند کے واسطے میرا کلام دیکھیں گے

لکھیں گے مجھ پہ مقالات ، دن منائیں گے

مرا ہنر، مرا فن، میرا کام دیکھیں گے

فنا کے بعد ہے مقسوم اگر بقائے دوام

تو کیوں نہ موت کے آنے سے پہلے مر جاؤں

میں منتظر ہوں ترا روح غالبؔ مرحوم

اشارہ تیرا جو پاؤں، یہ کام کر جاؤں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اعجاز عبید

12/ تا 21 / مارچ 1986 ء
 

الف عین

لائبریرین
حمد​

زبانِ خلق یہ کہتی ہے کبریا ہے تو
تمام ارض و سماوات کا خدا ہے تو
وجود ہے مرا آغاز اور عدم انجام
بہ خلفشار وہ ہے جسے ماورا ہے تو
طلب پہ ہی نہیں موقوف تیرا فیض عمیم
ہر ایک شخص کو بے مانگے دے رہا ہے تو
ہر ایک چیز نے پائی ہے ابتدا مجھ سے
ہر ایک چیز کی لاریب انتہا ہے تو
’’ نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم ’’
ازل ابد کے تعین پہ چھا گیا ہے تو
بہت قریب سے مجھ کو پکارنے والے
بہت ہی دور سے مجھ کو پکارتا ہے تو
نہ پھیر اپنی نگاہیں غریب صادق سے
کہ ایک شاعر بے کس کا آسرا ہے تو
 

الف عین

لائبریرین
غزل فارس

خاکستری بنام خدا حرز جاں طلب

از ورطۂ غبار حیات جواں طلب

بر تو کتاب سرّ ازِل وا کشادہ است

بہر سکون یکے ورق ضو فشاں طلب

بشکن کہ ایں حصار زمانہ چوں ظلمت است

بہر متاع زیست شرار نہاں طلب

گم کردہ اند راہ رفیقان سست گام

از جدوجہد جادۂ منزل رساں طلب

بر جان تو نہادۂ بلندئ روز گار

بگزار ارض و اوج ثریا نشاں طلب

دشمن یجور درپئے ٓزار جان نست

خواہی کہ زی اگر کرم دوستاں طلب

ماحول وقت لطف کند بر دِل فگار

بر خیز۔ از و علاج غم جاوداں طلب

شمع وفا فسردہ شدہ اس از نگاہ دوست

یک صاعفہ برائے دل ناتواں طلب

در مان رخم کہنہ بجز لطف دوست نیست

اے دل فگار رازاں نگہ کامراں طلب

صادقؔ جوں خواہی تیر گئی ہجر کم شود

یک برق دل نواز پئے آشیاں طلب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
آخری نا مکمل غزل

غم کی ہر کائنات بھیگ گئی

تم جب آئے تو رات بھیگ گئی

جب تر و تازہ تیرے ہونٹوں کی

بات نکلی تو بات بھیگ گئی

پاس رہتے ہوئے بھی دور رہے

باتوں باتوں میں رات بھیگ گئی

تم نے کیا چھو لیا محبت سے

سر سے پا تک حیات بھیگ گئی

سر منڈا تے ہی پڑ گئے اولے

سجتے سجتے برات بھیگ گئی
 

الف عین

لائبریرین
غزلیں​

زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی

ایک تنویر حیات آج ابھرنے سے رہی

میں پیمبر نہیں انسان ہوں خطا کار انساں

عرش سےکوئی وحی مجھ اترنے سے رہی

میں نے کر رکھا ہے محصور چمن حد تک

شاخ تا شاخ کوئی برق گزرنے سےرہی

لاکھ افکار و حوادث مجھے روندیں بڑھ کر

جو وفا مجھ کو ملی ہے، کبھی مرنے سے رہی

آدمی کتنے ہیولے ہی بنا کر رکھے

موت پھر موت ہے، جب آئی تو ڈرنے سے رہی

آخری وقت ہے مختل ہوئے جاتے ہیں حواس

ایسے میں میری خودی کام تو کرنے سے رہی

ہر طرف ہے چمن زار پہ ظلموں کا حصار

کوئی معصوم کلی آج نکھرنے سے رہی

گھیر رکھا ہے ہر اک سمت سے طوفانوں نے

میری کشتی تو کبھی پار اترنے سے رہی

صادقؔ اس موڑ پہ لے آتے ہیں حالات ہمیں

موج احساس ذرا آج ٹھہرنے سے رہی

** (جنوری 1986)

*(آخری مکمل غزل)
 

الف عین

لائبریرین
مہک رہا ہے بدن سارا، کیسی خوشبو ہے

یہ تیرے لمس کی تاثیر ہے کہ جادو ہے

تمہارا نرم و سبک ہاتھ چھو گیا تھا کبھی

یہ کیسی آگ ہے، سوزاں ہر ایک پہلو ہے

ہےکس قدر متوازن نگاہ و دل کا ملاپ

کہ جیسے دونوں طرف ایک ساں ترازو ہے

رواں دواں ہے جدائی کا کرب یہ کیسا

وہ مطمئن ، نہ مجھے اپنے دل پہ قابو ہے

زمانہ کہتا ہے جس کو حسین تاج محل

وفا کی آنکھ سے ٹپکا ہوا اک آنسو ہے

بہت حسین ہے ماحول زندگی صادقؔ

نظر کے سامنے جب سے وہ آئینہ رو ہے

"" (اکتوبر 1985 )
 

الف عین

لائبریرین
نہ تم جدا ہو نہ میں جدا ہوں

تم آئینہ میں بھی آئینہ ہوں

سکوں مسافر کو دے رہا ہوں

شجر اکیلا ہی رہ گیا ہوں

لکیریں پانی پہ کھینچتا ہوں

حیات کی شرح لکھ رہا ہوں

مجھے حوادث نہ ڈھا سکیں گے

میں سنگ بنیاد بن چکا ہوں

ہر اک طرف گھورا اندھیرا پھر بھی

سراغ منزل کا پا رہا ہوں

کوئی مری گرد پائے گا کیا

ہوا کی صورت گریز پا ہوں

زمانہ کو راہ مل رہی ہے

اک ایسا تابندہ نقش پاہوں

ہر ایک پتّی اداس کیوں ہے

یہ دیکھتا ہوں، یہ سوچتا ہوں

کہیں ملے فن کا درک صادق

تلاش میں عمر پھر رہا ہوں

""(ستمبر 1985)
 

الف عین

لائبریرین
کیا ہوا ایسا تمہارے شہر میں
میرا ہے چرچا تمہارے شہر میں
میری دل پُری کی خاطر ہی سہی
کوئی تو ہوتا تمہارے شہر میں
ہو گئی مسدود ہر راہ فرار
حشر وہ اٹّھا تمہارے شہر میں
کرب پیہم کرب تنہائی کے بعد
کیوں نہ میں ٹوٹا تمہارے شہر میں
میری سوچوں میں ہے وہ عکس جمال
تم کو بے دیکھے مرے دل نے تمہیں
ٹوٹ کر چاہا تمہارے شہر میں
سنتے ہیں کوئی مریض لا علاج
ہو گیا اچھا تمہارے شہر میں
ڈھونڈھنے نکلے تو اے صادق کوئی
کیا نہیں ملتا تمہارے شہر میں
""(جولائی 1985)
 

الف عین

لائبریرین
کچھ ٹیڑھی میڑھی سطریں، فسانے میں کچھ نہ تھا
جب تجزیہ کیا تو سنانے میں کچھ نہ تھا
نظروں کے راستے میں نہ سورج نہ کوئی چاند
سناٹے کے سوا تو زمانے میں کچھ نہ تھا
اک آہ ، ایک کرب اور اک درد اضطراب
کیوں کر کہوں کہ دل کے خزانے میں کچھ نہ تھا
دور اک الاؤ تھا کہ کسی کی چتا کا ڈھونگ
دیکھا قریب سے تو جلانے میں کچھ نہ تھا
جُز اک حدیث درد، تو پھر میرے ہم جلیس
کیوں مجھ پہ زور دیتے، سنانے میں کچھ نہ تھا
حد نگاہ تک تھا ضیافت کا اہتمام
میزیں سجی سجائی تھیں، کھانے کو کچھ نہ تھا
پہلے ہی سے ہر ایک مکاں ہو چکا تھا ڈھیر
پھر پانی لے کے آگ بجھانے میں کچھ نہ تھا
صادقؔ جو فطرۃً تھا حریف تعلقات
اس بے وفا کو راہ پہ لانے میں کچھ نہ تھا
""(مارچ 1985)
 

الف عین

لائبریرین
نہ سنگلاخ ہے ہر گز، کبھی کرخت نہیں
وفا کی راہ پہ آئین جہد سخت نہیں
مرے لیے ترے دل میں نہیں ذرا بھی گداز
دل آئینہ ہے، مگر آئینہ تو سخت نہیں
ترے کرم نے عطا کی ہے دولت بیدار
میں خوش نصیب ہوں ہر گز سیاہ بخت نہیں
ہزار چاہا حوادث نے توڑنا لیکن
مرا وجود ابھی تک تو لخت لخت نہیں
سکوں کے ساتھ ہی بالیدگی بھی پاؤ گے
قریب آؤ، میں سوکھا ہوا درخت نہیں
قلندری مرا مشرب ہے، میں قلندر ہوں
مجھے ذرا بھی تمنائے تاج و تخت نہیں
ملے گی منزل مقصود کس طرح صادقؔ
سفر طویل ہے اور ساتھ زاد و رخت نہیں
""(جنوری 1985)
 

الف عین

لائبریرین
(بقید یک قافیہ)
کہنے کو ہر اک حق کا پرستار ملے ہے
اب دیکھئے کس کو شرف دار ملے ہے
ہوتی ہے خرد مصلحت اندیش ہی لیکن
محروم خرد مستحق دار ملے ہے
جو ظرف کے پیکر ہیں ہو ہوتے ہیں سرا فراز
کم ظرف کو کب حوصلہ دار ملے ہے
مژدہ ہو وفاؤں کو، جنوں کو ہو مبارک
ہر گام پہ رسم رسن و دار ملے ہے
آنکھوں پہ یہ پلکیں ہیں کہ بے نام صلیبیں
جو اشک بھی ٹپکے ہے سردار ملے ہے
صادق؃ جو شناسائے حقیقت ہے اسے دیکھ
آسودۂ ہر سلسلہ وار ملے ہے
"" (نومبر 1984)
 

الف عین

لائبریرین
کل سر راہ جو اک شخص ملا تھا مجھ کو
کوئی تھا پھر بھی وہ بونا نظر آیا مجھ کو
اپنے ہی عکس سے یہ خوف لگا رہتا ہے
ڈس نہ جائے کہیں میرا ہی ہیولا مجھ کو
میں تو خود اپنی حقیقت سے نہیں ہوں آگاہ
دیکھ سکتا ہے کہا دیکھنے والا مجھ کو
ایک اک جور سے میں آنکھ ملا سکتا ہوں
حادثے دینے لگے ہیں جو سہارا مجھ کو
سخت مشکل سے ملی ہے مجھ تسکین حیات
پھر نہ کر دے غم دوراں تہ و بالا مجھ کو
اپنی جرأت سے کنارے پہ ابھر آیا ہوں
چھوڑ کر آئے تھے طوفاں تہہ دریا مجھ کو
منتشر کر دیا پہلے تو مرا ذوق نشاط
اور خوش ہو کے پھر آنکھوں پہ بٹھا یا مجھ کو
لاکھ اغیار مٹانے پہ ہوں مایل صادقؔ
زندہ رکھے گی مگر ان کی تمنا مجھ کو
"" (اگست 1984)
 

الف عین

لائبریرین
یہ غلط ہے کہ میں تھا یکہ و تنہا ہر سوں
تیری محفل سے رہا ہے مرا رشتا ہر سوں
جس کی چھاؤں میں مسافر کو ملے امن و سکوں
ہوں وہی پیڑ جو سر سبز رہا تھا برسوں
تم مرے قتل پہ آمادہ ہو، اچھا ، لیکن
میں بزرگوں کی دعاؤں سے جیوں گا بر سوں
تیری خوشبو کا کہوں یا تری رعنائی کا
میری جانب نہیں آیا کوئی جھونکا برسوں
تجھ سے منہ پھیر کے میں آج بہت ہی خوش ہوں
تو مرے ساتھ رہا ہے غم دنیا برسوں
ایک اک گوشۂ دل می صفت خوتِ رواں
پرورش پاتی رہی تیری تمنا برسوں
چھوڑ کر جاؤں گا کچھ ایسے نقوش اے صادق
بعد میرے بھی مرا نام رہے گا برسوں
""(فروری 1984
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
یہ انتہائے جنوں ہے کہ غیر ہی سا لگا
جو آشنا تھا کبھی، آج اجنبی سا لگا
وہ ایک سایہ جو بے حس تھا مردہ کی مانند
قریب آیا تو اک عکس زندگی سا لگا
خود اپنی لاش لیے پھر رہا تھا کاندھوں پر
وہ آدمی تو نہ تھا پھر بھی آدمی سا لگا
وہ اک وجود پالے ہوئے تھا سانپوںکو
نظر کی زد میں جو آیا تو بانسری سا لگا
تمام عمر جسے پیک دوستی سمجھا
ہوا جو تجربہ، وہ نقش دشمنی سا لگا
وہ ایک کرب مسلسل جو دل جلاتا تھا
تم آ کے پاس جو بیٹھے تو سر خوشی سا لگا

بظاہر ایک ہی چہرہ تھا سامنے لیکن
کبھی کسی کا لگا تو کبھی کسی کا لگا
مرے شعور کی کم منگی،کہ اے صادقؔ
یقین بھیکبھی تصویر وہم ہی سا لگا
"" (فروری1984)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے ہر بار گراں دوش سفر پر رکھا
پھر دعاؤں کو ترے باب اثر پر رکھا
روح اک طائر لاہوت ہے اے بوالعجبی
آشیاں جسنے مگر جسم بشر پر رکھا
تخم روئذہ نہ تھا بطن چمن میں لیکن
’’بے ثمر ہونے کا الزام شجر پر رکھا‘‘ *
اپنی ہی آگ میں خود جل گیا گلزار حیات
سارا الزام مگر برق و شرر پر رکھا
کتنا ہمدرد مسافر تھا کوئی مفلس بھی
جس نے اک ٹوٹا دیا راہ گزر پر رکھا
جھوٹ پھر جھوٹ رہا سچ کے مقابل صادقؔ
ان کنت لوگوں نے قرآن بھی سر پر رکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’* مصرعہ طرح‘‘
""(ستمبر 1963)
 

الف عین

لائبریرین
٭ ماحول یہ کیسا ہے نہیں جس کی اساس
ہر رنگیں انسان کا چہرہ ہے اداس
معکوس ترقی کا ثمر ہے کہ بشر
ہے برہنہ ہر چند کہ پہنے ہے لباس
بدلی ہیں حیات کی کچھ ایسی قدریں
لوگوں میں ذرا بھی نہیں اگلی بو باس
مہکی ہے روش روش معطر ہے فضا
گزرا ہے ادھر سے ہی کوئی خوش انفاس
کیا فائدہ سرگرم سخن ہونے سے
صادقؔ نہیں محفل میں کوئی رمز شناس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ رباعی کی بحر میں۔
""(اگست 1963)
 

الف عین

لائبریرین
فشار وقت کو قدموں میں ڈال کر رکھنا
حیات کے لیے رستہ نکال کر رکھنا
بکھر نہ جائیں کہیں تارو پود احساسات
یہ زندگی کی ہے دولت سنبھال کر رکھنا
ہر ایک اشک ودیعت ہے خون مسرت کی
نظر نظر میں اسے دیکھ بھال کر رکھنا
زمانہ سخت کیے جا رہا ہے اپنی گرفت
بچت کے واسطے پہلو نکال کر رکھنا
نہ رنگ آئے معاصی کا وقت آخر ہے
تو اپنا آئینہ دل اجال کر رکھنا
ہر اک بدلتی ہوئی قدر احترام کرے
مذاق اپنا دایں مشکل ڈھال کر رکھنا
متاع عشق متاع حیات ہے صادقؔ
قدم قدم پہ اسے تو سنبھال کر رکھنا
""(مارچ 1982)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
٭ تیرا غم دور ہے یا نزد رگ جاں کوئی
موت اور زیست میں ہو فرق نمایاں کوئی
اے جنوں یہ تو ہے در اصل وفا کی توہین
ہاتھ رک جائے اگر تا حد امکاں کوئی
برف سمجھوں گا میں سورج کی تمازت کو، اگر
کاش مل جائے ترا سایہ داماں کوئی
شدت کرب نے سینے میں لگا لی ہے وہ آگ
اب تو تو دینے لگا نود کا گریباں کوئی
پرورش پائی ہے آغوش جنوں میں میں نے
کیا بگاڑے گی مرا گردش دوراں کوئی
سینکڑوں اشک گرے آنکھ سے لیکن صادقؔ
اشک گوہر نہ بنا حاصل داماں کوئی
""(ستمبر 1982)
٭ فی البدیہ مشاعرہ ۔ آکاش وانی بھوپال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top