نثری نظم سے متعلق ایک مضمون ۔۔۔ قاسم یعقوب

نثری نظم: قاسم یعقوب


اُردو میں ایک بڑا حلقہ نثری نظم کو آزاد نظم کے ساتھ قبول کرتے ہوئے ایک عرصے سے نظم لکھ رہا ہے۔نثری نظم کی تخلیق اور اُس کی تخلیقی شناخت کے مباحث ایک ساتھ تخلیق و تنقید کا حصہ بنتے آ رہے ہیں۔گو نثری نظم کا شعری ڈرافٹ،تخلیقی سطح پر، ابھی تک ایک تجربے کی شکل سے آگے نہیں بڑھا مگر اس فارم میں نظم کے مجموعی Contentکو بہت بڑھاوا ملا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ شعر اور شعری تخیّل کے جدید اظہار کے جس موڑ پہ ہم کھڑے ہیں کیا کسی فارم کا فکری تنازعہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں؟کیا ہم ابھی تک اس سلسلے میں کسی مثبت نتیجے تک پہنچ سکے ہیں؟
نثری نظم کا مسئلہ عمومی طور پر چندپٹے ہوئے سوالات کی تکرا رہے۔
نثر اور نظم کے فرق پر بہت لکھا گیا ہے۔ان سوالوں کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نثر اور نظم میں بنیادی فرق وزن Metre کوقرار دیا گیا ہے۔گویا نثر وہ تحریر ہے جو میٹر میں نہیں ہے اور نظم باقاعدہ عروض کے قواعد کے تحت لکھی جانے والی تحریر ہے۔یہ فرق کرتے ہوئے ہم شعر کی ’شعریت‘ اور نثر کی ’نثریت‘ کا فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے نثری کلام اور منظوم کلام میں فرق کرتے ہوئے منظوم کلام کی اُس جمالیات کو نشان زَد کرنا ہوگاہے جس کی بنا پر وہ نثری یا بیانیہ سطح سے الگ قرار پاتا ہے۔ منظوم کلام کی جمالیات اپنی فنّی ترکیب میں جذبے کی اُن تمام سیّال صورتوں کو پیکر عطا کرنے کا نام ہے جو کسی نہ کسی شکل میں بیانیہ یک سطحی یا بیانیہ کثیر سطحی اظہارات کی حدود میں نہ آ سکتی ہوں۔ یہ تقسیم زبان کے دو طرح کے اظہارات میں پائی جاتی ہے:
۰ زبان کا سائنسی ،علمی اور عوامی اظہار
۰ زبان کا ادبی اظہار
اصل میں لسانی اظہار انہی دو بنیادی اظہارات میں تقسیم ہے۔اور یہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف سمت سفر کرتے ہیں۔ادبی زبان جتنا زیادہ کثیر معنیاتی نظام وضع کرے گی اُتنی ہی زیادہ گہری کہلائے گی۔
اُردو ادب کی تاریخی درجہ بندی کی جائے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر عہد نے اپنا تخلیقی مزاج خود مرتّب کیا۔ اصناف کے اندر اپنے معنیاتی نظام کے تحت توڑ پھوڑ کی۔ جس کی وجہ سے ایک چیز کم کر دینے سے اور بہت سی پوشیدہ صفات کو نمایاں کر دیا گیا۔ آزاد نظم کی مثال سامنے کی ہے۔ وزن کے تکنیکی Barrier نے خیال کے بہاؤ کو الگ الگ اور چھانٹ کر پیش کرنے کی طرف مائل رکھا ہوا تھا۔ قافیہ اور ردیف کے تکرار سے بننے والی صوتی خوبصورتی کو قربان کر کے خیال کے تخلیقی بہاؤ کو آزادی ملی اور تخیّل کی وسعت میں اضافہ ہوا۔ آزاد نظم میں خیال، پابند نظم کی نسبت زیادہ Compact اور جڑی ہوئی (Packed) فارم میں آتا ہے۔ گویا ایک چیز کی قربانی ایک نئی تخلیقی قوت کے ظہور کا باعث بنی۔ وزن اور صوتی آہنگ کے نئے سلیقوں کو مانوسیت کے عمل سے گزارا گیا۔
نثری نظم میں موجود خیال کی Packed Form، جذبے کی مرحلہ وار شدت، موضوعاتی حدود میں کھڑے استعارے اور تشبیہیں، لفظ کے تصورِ معنیکے Traces، ایک مکمل Poetic Thesis، جمالیاتی حظ کے اوّلین احساس کے بعد اس میں پوشیدہ فکری معنویت، نظم کا اختتام نہیں تکمیل، الفاظ کی اُسلوبی ترجیحات (نظم نگار اورنظم کے موضوع اور فکری وژن کے حوالے سے) اور وزن یا آہنگ کی بنت۔۔۔۔۔۔ اور اِن سب کے علاوہ ایک غیر مرئی سرشاری کا احساس۔۔۔ یہاں سے یہ سوال اٹھتا ہے۔کہ نثری نظم میں وزن جیسے ایک عنصر کو آہنگ کے اس تکنیکی Barrier سے نکال کر (ادب میں موجود) تخلیقی نثر کے بیانیہ فارمیٹ سے Fabricate کرنے کا عمل کیا پورے شعری جمالیات کا انکار کر دیتا ہے؟ اس عمل میں نظم کی تمام Composition ،وزن والے عنصر کی بجائے نثری فارم میں عیاں ہونے سے کیا وزن کی کمی موجود رہتی ہے؟
آزاد نظم نے پابند نظم کے تکنیکی نظام کے مقابلے میں خیال کی Packed Form عطا کی۔ نظم کی نثری فارم میں وزن کے منہاہونے سے خیال کی قوت (Imaginative Power) کو راستہ ملا، جو آہنگ کے Barrier کی وجہ سے جھٹکے لیتا ہوا اور ٹوٹ ٹوٹ کر عیاں ہوتا تھا۔ گویا ایک عنصر ختم ہونے سے خیال کے ’’تخیل‘‘ نے زور پکڑ لیا۔نثری نظم میں نثریت کے بہاؤ سے تخیل نے لسانی فطری نومود اظہار کی طرف مراجعت کی۔
نثری نظم اپنے تخلیقی بہاؤ کی شدت کے آگے بعض اوقات بہہ جاتی ہے۔اچھا تخلیق کار نظم کے جمالیاتی نظام اور اُس کی تکنیکیات کو سمجھتا ہے۔آزاد اور نثری نظم کا بنیادی فرق جو اب اُردو میں آہستہ آہستہ واضحہونا شروع ہو گیا ہے، وہ اس کے Surface Structureکاہے جس سے نثری نظم ایک اکائی کی شکل اختیا ر کرنے میں ناکام رہتی ہے یہ فرق دو طرح کا ہو سکتا ہے:
۰ نثری نظم میں مختلف تمثالیں(Imageries)فلیشز کی طرح قاری کے تخیل میں اترتی ہیں،یا تمثال کاری کا کثیر استعمال کیا جاتا ہے۔
۰ نثری نظم میں ایک خیال کے اختتام پر دوسرا خیال مختلف موڈز یا تصّور ات کی گرہ کھولتا ہوا ملتا ہے اور ایک متن کی سطح پر اس طرح کے کئی خیالات کو جمع کر دیا جاتا ہے۔
مذکورہ طرز کی نظمیں خیال کی مروّجہ Binding Forceکو توڑ کر آزاد تلازمۂ خیال کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں جس کا آغاز،اپنے انجام سے بے خبر اور مو ضوع اپنے مواد سے بے گانہ ہوتا ہے۔ ایسی نظمیں،ناکام تصورکی جاتی ہیں ۔
نثری نظم نے مذکورہ ابہام کو اپنی خوبصورتی بنا کے پیش کیا ہے۔اور یہی وہ نازک پن تھا جو آزاد نظم کی ہےئت برداشت نہیں کر رہی تھی۔یہ وہ ابہام نہیں جو ذات کی تہہ سے اُٹھتا ہے اور وہیں اپنی گرہ کشائی چاہتا ہے۔نثری نظم کے جواز میں ان نکات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔نثری نظم میں خیال کو Linear Formمیں پیش کرنے کی بجائے Deep Structureیا ساخت کی زیریں سطح پر پیش کیا جاتا ہے۔اُردو کا قاری غزل کی تربیّت لے کر نظم کی طرف راغب ہواہے ۔اس لیے وہ نظم کے Surface Structureمیں بھی خیال یا موضوع کی Linear Formکا تقاضا کرتا ہے۔غزل کے دونوں مصرعوں میں اگر بہت سا ابہام یا زیریں معنی کا اہتمام کر بھی دیا جائے تو اُسے ہر حال میں اگلے ہی مصرعے میں اپنی پوزیشن واضھ کرنی ہوتی ہے یوں وہ دو مصرعوں کے امکانی دائرے میں سفر کرتی ہے۔ مگر نثری نظم اپنی بالائی ساخت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کے بھی زیریں ساخت کو جڑیں جوڑے رکھتی ہے یا اُس کی ٹوٹ پھوٹ ہی زیریں ساخت کی اجنبیانے کے تحت ہوتی ہے۔قاری زیریں سطح اُتر کر اپنی حیرانی کے عمل سے گزرتا ہے۔بعض نثری نظمیں متن کی بالائی یا زیریں دونوں سطحوں پر Linearedہوتی ہیں مگرنثری نظم کی جدید شکل متن کی زیریں سطح پر Lineared ہے یعنی وہ نظم جو Surfaceسے ہٹ کے جتنی نیچے گہرائی رکھتی ہو گی اتنی ہی زیادہ زور آور اور اپنے معنیاتی نظام میں تنوّع رکھتی ہو گی۔یہ نظم کی جدید شکل ہے جسے ابھی اردو آزاد نظم نے بھی پوری طرح قبول نہیں کیا ۔نثری نظم چوں کہ جذبے کی نومولود حالت اور زبان میں خیال کی پہلی تخیّلاتی تشکیل ہوتی ہے اس لیے متن میں زیادہ گہرائی کے ساتھ اپنے باطن کا اظہارکرتی ہے۔نثری نظم کے باطنی اظہار کے مقابلے میں غزل کے مضامین کا اکثریتی ڈھانچہ Linearedہونے کی وجہ سے مخصوص تمثالوں ،لفظوں اور تراکیب میں مروّجہ عروض کے شعوری تال میل کا اسیر ہو کے رہ جاتاہے۔ — Qasim Yaqoob.
NAI RAWAYAT۔۔۔۔نئی روایت
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خرم بھائی ، تنقیدی مضامین اپنی جگہ لیکن اگر میں دو تین جملوں میں نثری نظم کا مقدمہ (یا جواب مقدمہ) لکھنا چاہوں تو بس اتنا کہوں گا کہ اگر نثری نظم میں بھی وہی بات کہی جارہی ہے جو پابند شاعری میں ہے تو پھر نثری نظم کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ پھر تو اسے قلمکار کی سہل پسندی پر محمول کرنا پڑے گا ۔ ازل سے قائم شعری قاعدے (یعنی وزن) کو توڑنے کی رخصت صرف اسی صورت میں جائز قراد دی جاسکتی ہے کہ اس میں ایسی کوئی اچھوتی اور نادر بات کہی گئی ہو اور پھر ایسے پیرائے میں کہی گئی ہو کہ اس سے عدم موزونیت چھُپ جائے اور شعریت کا رنگ غالب آجائے ۔ تاحال میری نظر سے ایسی کوئی نثری نظم نہیں گزری کہ جو ان شرائط پر پوری اترتی ہو ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے اکثر نثری نظمیں اختصار سے عاری ، الجھی ہوئی اور عموماً سپاٹ سی ہوتی ہیں ۔
خرم بھائی ، بہتر ہوگا کہ کبھی آپ نثری نظم کے ذخیروں سے کچھ نمائندہ نثری نظمیں (یعنی بہترین قسم کے نمونے) بھی محفل پر لگائیں ۔ مجھے اشتیاق ہے دیکھنے کا ۔ ہوسکتا ہے اور لوگوں کو بھی ہو ۔ :):):)
 
خرم بھائی ، تنقیدی مضامین اپنی جگہ لیکن اگر میں دو تین جملوں میں نثری نظم کا مقدمہ (یا جواب مقدمہ) لکھنا چاہوں تو بس اتنا کہوں گا کہ اگر نثری نظم میں بھی وہی بات کہی جارہی ہے جو پابند شاعری میں ہے تو پھر نثری نظم کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ پھر تو اسے قلمکار کی سہل پسندی پر محمول کرنا پڑے گا ۔ ازل سے قائم شعری قاعدے (یعنی وزن) کو توڑنے کی رخصت صرف اسی صورت میں جائز قراد دی جاسکتی ہے کہ اس میں ایسی کوئی اچھوتی اور نادر بات کہی گئی ہو اور پھر ایسے پیرائے میں کہی گئی ہو کہ اس سے عدم موزونیت چھُپ جائے اور شعریت کا رنگ غالب آجائے ۔ تاحال میری نظر سے ایسی کوئی نثری نظم نہیں گزری کہ جو ان شرائط پر پوری اترتی ہو ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے اکثر نثری نظمیں اختصار سے عاری ، الجھی ہوئی اور عموماً سپاٹ سی ہوتی ہیں ۔
خرم بھائی ، بہتر ہوگا کہ کبھی آپ نثری نظم کے ذخیروں سے کچھ نمائندہ نثری نظمیں (یعنی بہترین قسم کے نمونے) بھی محفل پر لگائیں ۔ مجھے اشتیاق ہے دیکھنے کا ۔ ہوسکتا ہے اور لوگوں کو بھی ہو ۔ :):):)
بصد احترام آپ کی بات سے متفق ہوں۔کشور کراچی کے افضال صاحب کوئی شاعر ہیں ان کا کلام، کچھ تراجم اور کشور ناہید کی کچھ نثمیں اس معیار پر پوری اترتی ہیں۔ افضال سید ہیں شاید کراچی سے۔ اس کے علاوہ نصیر ناصر صاحب (اگر نام میں غلطی نہیں کر رہا تو) ۔ان شا اللہ 25 تاریخ کے بعد لمبی فراغت ہے۔ ایسی تمام نثمیں پوسٹ کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان شا اللہ۔
 
خرم بھائی ، تنقیدی مضامین اپنی جگہ لیکن اگر میں دو تین جملوں میں نثری نظم کا مقدمہ (یا جواب مقدمہ) لکھنا چاہوں تو بس اتنا کہوں گا کہ اگر نثری نظم میں بھی وہی بات کہی جارہی ہے جو پابند شاعری میں ہے تو پھر نثری نظم کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ پھر تو اسے قلمکار کی سہل پسندی پر محمول کرنا پڑے گا ۔ ازل سے قائم شعری قاعدے (یعنی وزن) کو توڑنے کی رخصت صرف اسی صورت میں جائز قراد دی جاسکتی ہے کہ اس میں ایسی کوئی اچھوتی اور نادر بات کہی گئی ہو اور پھر ایسے پیرائے میں کہی گئی ہو کہ اس سے عدم موزونیت چھُپ جائے اور شعریت کا رنگ غالب آجائے ۔ تاحال میری نظر سے ایسی کوئی نثری نظم نہیں گزری کہ جو ان شرائط پر پوری اترتی ہو ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے اکثر نثری نظمیں اختصار سے عاری ، الجھی ہوئی اور عموماً سپاٹ سی ہوتی ہیں ۔
خرم بھائی ، بہتر ہوگا کہ کبھی آپ نثری نظم کے ذخیروں سے کچھ نمائندہ نثری نظمیں (یعنی بہترین قسم کے نمونے) بھی محفل پر لگائیں ۔ مجھے اشتیاق ہے دیکھنے کا ۔ ہوسکتا ہے اور لوگوں کو بھی ہو ۔ :):):)
ایک بات اور وہ یہ کہ چونکہ قاسم یعقوب صاحب کا مضمون تھا اس لیے شئیر کیا، وہ تنقید کے حوالے سے دورِ حاضر کی بہت معتبر آواز بن چکے ہیں۔بالخصوص ان کے رسالے نکات نے انھیں بہت نام بخشا ہے۔ انھوں نے نثری نظم کے حق میں باقاعدہ تحریک بھی چلائی تھی، اور ان کے رسالے میں باقاعدگی سے اس کا حصہ بھی موجود ہے ۔
 

فرقان احمد

محفلین
اس مضمون سے بھی شاید بات نہ بنے گی۔ قاسم یعقوب صاحب نثری نظم کی حمایت میں بہت کچھ لکھ چکے تاہم ظہیر بھیا مضمون پڑھنے کے بعد بھی نثری نظم کا جواز تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ ہے نا دلچسپ بات؟ ذاتی طور پر، ہم ایسی تخلیقات کو نثری تخلیقات ہی تصور کرتے ہیں۔ تخلیق تو بہرصورت تخلیق ہے اور اس کی اپنی قدروقیمت ہے، تاہم، اسے زبردستی نظم کہنا ہمیں درست معلوم نہیں ہوتا۔ نثم کہہ کر ہی کام چلا لیا جائے تو گوارا ہے۔
 
Top