نئے صوبوں کی ضرورت

راشد احمد

محفلین
آج کل نئے‌صوبوں کی بحث چل رہی ہےکہ پنجاب کی آبادی اور سائز بہت بڑا ہے اس لئے مزید صوبے بننے چاہئے۔ ایک فریق کہتا ہے کہ بہاولپور کو صوبہ کی‌حیثیت سے بحال کیا جائے اور مزید صوبے بنائے جائیں۔ سرائیکی صوبہ کا مطالبہ بہت پرانا ہے لیکن خدشہ ہے کہ اگر یہ صوبہ بن گیا تو صوبائی تعصب میں مزید اضافہ ہوگا جس طرح سندھ سندھی، بلوچستان بلوچی، سرحد پختون، پنجاب پنجابی کے نام پر سیاست کررہے ہیں اور مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ جبکہ عام موقف یہی ہے کہ اگر پنجاب کے مزید صوبے بن جائیں تو انتظامی، سیاسی لحاظ سے آسانی ہوگی۔

کیا مزید صوبے بننے چاہئیں؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
ہم لوگوں کی عادت ہے کہ انتظامی معاملات کو سیاست کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اگر صوبوں کی تقسیم سے انتظامی سہولت پیدا ہوتی ہے اور عوام کے لیے بہتری ہوتی ہے تو ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ لیکن یہاں تو لوگ ضلعوں کی تقسیم پر بھی مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں، صوبوں کا تو کیا ہی کہنا۔
 
دنیا بھر میں‌ وفاقی، صوبائی اور شہری انتظامیہ کے مختلف سیگمینٹس ہوتے ہیں جس کے باعث اختیارات کی تقسیم مساوی طور پر کی جاتی ہے اور انتظامی امور میں بھی آسانیاں‌ پیدا ہوتی ہیں، مثال کے طور پر اگر گاربیچ کلیکشن کرنا ہو تو وفاقی حکومت اس سلسلے میں‌کیا کردار ادا کرے گی۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کے نظام میں شہری اور صوبائی حکومت کے درمیان اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے، پولیس کے نظام میں شہری حکومت مفید کردار ادا کرتی ہے، ٹیکس کلیکشن وفاق کی ذمہ داری ہوتی ہے ، یہ تمام ماڈلز دنیا بھر کےترقی یافتہ ممالک میں‌پہلے سے موجود ہیں، پنجاب پاکستان کے ایک بہت بڑا صوبہ ہے جس میں سیگمینٹیشن کی گنجائش ہے اور اسی طرح پاکستان کے دیگر صوبوں‌میں بھی یہی لائحہ ء عمل اپنانے کی ضرورت ہے، جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی جانب یہی پہلا قدم ہوگا۔
 

عسکری

معطل
یار ہمارا بہاولپور تو ایک آزاد ملک تھا لوگ اب کہتے ہیں نوابوں کے زمانے میں زندگی آج سے بہتر تھی تو اس میں جھوٹ کیا ہے۔میرے خیال میں جنوبی پنجاب کی حالت ابتر ہے اس سے پہلے کہ کوئی سیریس مسئلہ کھڑا ہو اس کو علیحدہ صوبہ بنا دینا چاہیے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
کسی علاقے کی پسماندگی کا رونا رونا سیاستدانوں کا پرانا ہتھکنڈا رہا ہے۔ وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے علاقے کے مسائل حل ہو جائیں اور اس طرح ان کی سیاست ختم ہو جائے۔ اس وقت پاکستان کا وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزیر دفاع جنوبی پنجاب سے ہیں، وہ کیوں نہیں اپنے علاقے تو ترقی دیتے؟ اس کی وجہ بیان کی تو بات کہیں اور نکل جائے گی۔ یہی حال چوہدریوں کے دور میں بھی رہا ہے۔
بہتر یہ ہوگا کہ علاقائی تعصب کو ابھارنے کی بجائے خالصتاً انتظامی اعتبار سے اس ایشو کو دیکھا جائے۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت انڈیا میں جو پنجاب تھا، اب اس کے تین حصے ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ایک علیحدہ صوبے چھتیس گڑھ کا قیام عمل میں آیا ہے۔ وہاں شہروں اور صوبوں کے نام تبدیل کرنے پر بھی کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا ہے۔ تو اگر ایسا اگر پاکستان میں بھی ہو جائے تو اس سے بہتری ہی آئے گی۔
 

وجی

لائبریرین
میرے خیال میں اس میں کوئی حرج نہیں کہ مزید صوبے بنائے جائیں لیکن صرف پنجاب سے ہی کیوں
اگر ہم غور کریں تو چاروں صوبوں میں زیادہ سہولیات صرف صوبائی دارلحکومت میں ہی موجود ہے
ہماری حکومتوں نے صرف صوبائی دالحکومتوں کو بنانے اور ترقی دینے پر زور دیا جو پورے ملک کے ساتھ ناانصافی ہے
ہمارے ملک کی آبادی کا زیادہ حصہ دیہات اور چھوٹے قصبوں میں ہے موجود ہے
اور پھر جب سہولیات نہیں ہوتیں اور نا پہنچتی ہیں ان دیہاتوں اور قصبوں میں تو آبادی کا ایک بڑا حصہ ان تمام سہولیات سے مہروم ہوجاتا ہے
اور اسی وجہ سےہم اپنی ترقی اور خواندگی کو نہیں بڑھا سکے
پھر انہیں وجوہات نے مسائل پیدا کئے ہیں اور آج بلوچستان اور سرحد میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے
 

arifkarim

معطل
انیس فاروقی بھائی کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔ یہاں پر بھی اگر کہیں آبادی 5000 سے اوپر ہو تو اسکو ایک کاؤنٹی میں تقسیم کر دیتے ہیں۔ یوں دیہی علاقوں میں ترقیاتی کاموں کیلئے حکومت سے وافر فنڈز مل جاتے ہیں۔ اسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کم آبادی والے علاقعوں میں رہنے والے حکومتی مرعات کا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
دوسری طرف گنجان آباد علاقوں میں حکومتی فنڈز کم پہنچتے ہیں لیکن وہاں پروائیٹ و حکومتی انڈسٹری کی وجہ سے لوگ خوشحال رہتے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
5 اسمبلیوں کا خرچہ پورا نہیں ہوتا دس بارہ کا کہاں سے پورا ہو گا ۔۔ آج کھانے والے کم ہیں اور ہو جائیں گے ۔ مزید صوبے بنانے سے فرق کیا پڑے گا سوائے اس کے کہ معاملات پوری طرح سے ان لوگوں کے ہاتھ چلے جائیں گے جن کے ہاتھ میں اب بھی ہیں ۔ تمام علاقوں سے وہیں سے تعلق رکھنے والے لوگ منتخب ہوتے ہیں تو انھوں نے ان کے لئے کیا کیا ہے جو صوبہ بننے کے بعد کریں گے ؟ اصل ضرورت اداروں کی مضبوطی کی اور قانون کی عملداری کی ہے ، صوبے بنانے سے نفرتوں میں اضافہ ہو گا ۔ پنجاب کو تقسیم کیا گیا تو لامحالہ کراچی و حیدرآباد پر مشتمل ایک صوبہ بھی بنانا پڑے گا ، کیا سندھ اس پر راضی ہو گا ؟ بلوچستان کے سرداروں کو فقط سندھ سے لگنے والی پٹی ملے گی کیا وہ اس پر راضی ہوں گے ؟ سرائیکی صوبے کا مطالبہ کرنے والے اس کا حدود اربعہ سرگودھا تک بتاتے ہیں جس میں فیصل آباد جیسا اہم صنعتی شہر بھی شامل ہے اسے کون قبول کرے گا ؟ یہ منصوبہ ہی سرے سے غلط ہے اگر تقسیم ہی کرنا ہے تو ڈویژنی سسٹم میں تبدیل کرنا چاہیے اور ہر ڈویژن کی مناسب نمائندگی اسمبلی میں ہو صوبائی اسمبلیوں کی بجائے ڈویژنی کونسلز ہوں ۔۔۔ مگر یہ سب ممکن نہیں اس کے لئے ہمیں ذہنی طور پر ابھی مزید تیار ہونا ہے ۔ ٹوٹے گھر کی مرمت کر لیں حالات اچھے ہوئے تو گرا کر بنا لیں گے ۔

اور سچی بات وہی ہے کہ ضلعوں کی تقسیم میں سالوں لگ جاتے ہیں قتل و غارت گری ہو جاتی ہے صوبہ تقسیم کرنا تو عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہو گا۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
طالوت کی بات بھی ٹھیک ہے۔ بھارت کے ٹکڑے کرکے کونسا ہمنے بڑے تیر مار لئے:)
 

راشد احمد

محفلین
نئے صوبوں کی مخالفت غیر منتخب لوگ اور قوم پرست جماعتیں کریں گی۔ اگر وہ نئے صوبوں پر متفق بھی ہوجائیں تو نام پر جھگڑا کرنا شروع کردیں گی۔
اگر نام پر بھی متفق ہوجائیں تو دارالخلافہ پر جھگڑنا شروع کردیں گی
اگر یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے تو کچھ نئے مسئلے لے آئیں گے

کالا باغ ڈیم کا حشر دیکھ لیں جو انہی لوگوں کی وجہ سے کھٹائی میں پڑا ہے۔ صوبوں کے معاملے پر بھی یہی حال ہوگا۔
 

شاہ حسین

محفلین
نئے صوبوں کی ضرورت اور اس کی افادیت سے انکار نہیں کا جاسکتا ۔ اس سے مسائل میں کمی اور خوانددگی میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اسی سبب اس پر عمل نا گزیر ہے
 

طالوت

محفلین
آخر پتہ تو چلے کہ مسائل میں کمی اور خواندگی میں اضافہ ہو گا کیسے ؟ اب برائے مہربانی اختیارات کا ذکر نہ کیجئے گا کہ اختیارات اب بھی ان ہی کے پاس ہیں جن کے پاس کل ہوں گے ۔۔ ویسے کسی نے سوچا ہے کہ نئے صوبوں کے بعد پاکستان طاس معاہدہ کس طرح سے ہو گا ؟ ؟
یعنی کوئی عملی شکل بھی تو پیش کی جائے یا صوبے بنانے کے بعد پلاننگ کا ارادہ ہے ؟
شمالی علاقہ جات ، ہزارہ و مکران والوں سے معذرت کے پچھلی پوسٹ میں ان کا ذکر کرنا بھول گیا ۔۔ اور اس ڈیڑھ اینت کے آزاد کشمیر کا بھی کچھ کیا جائے یہ خوامخواہ کی ایک الگ پخ رکھی ہوئی ہے ۔۔

وسلام
 

طالوت

محفلین
یار ہمارا بہاولپور تو ایک آزاد ملک تھا لوگ اب کہتے ہیں نوابوں کے زمانے میں زندگی آج سے بہتر تھی تو اس میں جھوٹ کیا ہے۔میرے خیال میں جنوبی پنجاب کی حالت ابتر ہے اس سے پہلے کہ کوئی سیریس مسئلہ کھڑا ہو اس کو علیحدہ صوبہ بنا دینا چاہیے۔
ارے انکل جانے دو ، بہاولپور تو نہیں البتہ نواب آف بہاولپور ضرور آزاد تھا ;) ۔۔ ویسے بھی اتنی ریت پھانکنے کا حوصلہ یا اپنے بہاولپوریوں میں ہے یا شیخوں میں ادھر کوئی نہیں آتا اسے اب بھی آزاد ہی سمجھو ۔۔۔:)

وسلام
 

عسکری

معطل
چلو بھئی ایسا ہی سہی ہمیں ہمارا ملک واپس کرو بھئی کل سے میں بہاولپور کا صدارتی امیدوار ہوں گا:grin:
 

عسکری

معطل
اب بولو بھئی:grin: :devil::biggrin:

سلام آباد : سابق وفاقی وزیراطلاعات ونشریات سینیٹرمحمدعلی درانی نے بہاولپور کی صوبہ کی حیثیت سے بحالی کے حق میں4جولائی سے رابطہ عوام مہم شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ بہاولپورکے صوبہ پنجاب میں ادغام قائد اعظم کے وعدہ کے خلاف جنرل یحیی خان کافیصلہ تھا۔نہ صرف بہاولپور کو صوبہ کی حیثیت سے بحال کرکے ریاست پاکستان کے وعدہ کوپورااوربہاولپورکے عوام کے متفقہ اور دیرینہ مطالبہ کوپوراکیاجائے بلکہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان کو بھی صوبہ بنایاجائے اورپھر بتدریج ملک میں16صوبے بنائیں جائیں۔اگر اسلام آباد او رلاہور کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں نے یہ عوامی مطالبہ نہ مانا تو پھر فیصلہ عوامی تحریک کرے گی اور اگر کسی کو کوئی شبہ ہے تو بہاولپور کے عوام کی رائے جاننے کیلئے اس معاملے پر ریفرنڈم کرایا جائے۔

بدھ کو نیشنل پریس کلب کے زیراہتمام "قومی سلامتی کودرپیش چیلنجز اوران کاحل "کے عنوان سے منعقدہ پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ریاست کی مسلسل وعدہ خلافیوں نے عوام کو مایوسی ،ناامیدی کاشکاربناتے ہوئے لاتعلق کرکے رکھ دیا۔آئین سے کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ ،بلوچستان اور صوبہ سرحد کو رائیلٹی کی فراہمی،صوبائی خودمختاری سمیت جو دیگر وعدے ریاست کی طرف سے ہوئے تھے ،ان کے پورانہ ہونے کے نتیجہ میں جوناامیدی اور لاتعلقی پیدا ہوئی اس نے قومی سلامتی اور قومی وفاقی وحدت پر کاری ضرب لگائی ہے،ایک خمیازہ ہم مشرقی پاکستان کی صورت بھگت چکے ہیں جبکہ مسلسل بگاڑکے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلہ نے پورے قومی وجود کوجکڑرکھا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اسی ریاستی وعدہ خلافی کی ایک مثال بہاولپور کی صوبہ کی حیثیت کا جنرل یحیی خان کے ایل ایف او کے ذریعے خاتمہ اور پنجاب میں ادغام بھی ہے جو دراصل بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے بہاولپور کے حوالہ سے وعدہ کے خلاف جنرل یحیی خان کافیصلہ تھا۔یہ وہی یحیی خان تھا جس نے پاکستان دولخت کیا۔اس فیصلہ کے نہ صرف بہاولپور بلکہ پاکستان کے عوام اور پاکستان کے تمام دانشور بھی خلاف تھے۔

انہوں نے ایران ،فرانس،ترکی،بھارت اورافغانستان کی مثالیں دیتے ہوئے کہاکہ صوبہ پنجاب کی آبادی7وسط ایشیائی ریاستوں کی آبادی کے برابر ہے جہاں ایک ریاست کے کئی صوبے ہیں۔ ترکی کے83،انڈیا کے 28،ایران کے30اورافغانستان کے34صوبے ہیں۔ ان ممالک نے انتظامی یونٹوں میں اضافہ سے خاطرخواہ ترقی کی اور نہ صرف اچھی حکومت میں مددملی بلکہ عوام تک ان کے حقوق کی ر سائی بھی یقینی ہوئی۔ بھارت میں سادہ اکثریت سے قانون سازی کے ذریعہ صوبوں کاقیام عمل میں لایا جاسکتاہے تاکہ آئین میں ترمیم کے بجائے یہ کام سادہ قانون سازی سے ہوسکے۔اسی طرز پر پاکستان میں بھی قانون سازی ہونی چاہئیے اوراس ضمن میں وہ سینٹ میں قانون سازی کے لئے تحریک پیش کریں گے کیونکہ چھوٹے انتظامی یونٹوں کی تشکیل سے وسائل کی منصفانہ تقسیم،مئوثر نظم ونسق اور حقوق کی فراہمی یقینی بننے سے عوام کے نہ صرف حکومت میں کھویااعتماد بحال ہوگابلکہ شراکت اقتدار کے نتجہ میں وفاق اوراس کی وحدت مظبوط ہوگی اور عوام کی محرومیوں،غربت،بیروزگاری،دہشت گردی،انتہاء پسندی،ناخواندگی کا خاتمہ ہونے سے ایک نیا قومی جذبہ اور ولولہ بیدار ہوگا ۔

انہوں نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ایک طرف پنجاب اور بالخصوص جنوبی پنجاب میں طالبان کے طاقت ور ہونے کاہر سطح پرپروپگنڈہ کیاجارہاہے تو دوسری جانب سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے بجٹ 2009-10ء میں نہ تو جنوبی پنجاب کیلئے مناسب ترقیاتی اہداف مقرر کئے گئے اورنہ ہی نوجوانوں کے روزگار کیلئے بڑے ترقیاتی منصوبوں کیلئے رقوم مختص کی گئیں بلکہ جنوبی پنجاب کے لئے بجٹ میں کمی کردی گئی،تاکہ ان علاقوں کے پہلے سے پسے اور کچلے عوام کامزید محرومی اور بددلی کا شکارکردیاجائے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے محروم عوام کی حالت زار اور مسلسل محرومیاں اس امر کی متقاضی ہیں کہ علاقہ کے عوام کی خواہش کا احترام اورریاست پاکستان کا وعدہ پوراکرتے ہوئے بہاولپور کی صوبہ کی حیثیت اسے واپس کی جائے۔سینیٹرمحمدعلی درانی نے کہاکہ اسلام آباد اور لاہور کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کوکچلے اورپسے عوام کے غیض وغضب سے ڈرنا چاہئیے۔انہوں نے کہاکہ سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو دور میں بہاولپور ڈویژن کو سی ایس ایس کے کوٹے میں 12فیصدحصہ دئیے جانے کا فیصلہ ہوچکاتھا لیکن اس پر بھی عمل نہ ہوسکا۔

انہوں نے کہاکہ بہاولپور کے عوام کسی لسانی یا علاقائی تعصب کی بنیاد پر یہ مطالبہ نہیں کرتے بلکہ اس خطہ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں ،زیادتیوں اور محرومیوں کی تلافی کے لئے یہ مطالبہ کیاجارہاہے۔ اس موقع پر صحافیوں کے متعدد سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بہاولپور کی صوبہ کی حیثیت کے حق میں عوامی رائے کو جاننے کیلئے ریفرنڈم کرایا جائے، صورتحال واضح ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ مطالبہ نہ صرف بہاولپور کی عوام بلکہ وہاں سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں کی رائے کا بنیاد پر کر رہے ہیں۔
 

طالوت

محفلین
اچھا لطیفہ ہے ۔۔ بی آر بی ویسے ہی سوکھ رہی ہے جو گیلی ہے اس کا رخ گجرات کی طرف موڑ دیں گے :devil: کیا رہت کھانے کا پروگرام ہے ؟ محمد علی درانی ہاسا نکل جاتا ہے یہ نام سن کر ۔۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
جیب میں رکھا تھا کہیں گر گیا ۔۔ رپٹ کرا دی ہے ملے گا تو پہنچا دے گی پنجاب پولیس ۔۔۔
وسلام
 
Top