بالکل صحیح کہا چیمہ صاحب!ان بزرگوار کے خیالات سے ایک ہزار فیصد اتفاق ہے.....اور یہ فقیر ملکی ترقی میں موجود سب سے بڑی چند رکاوٹوں میں سے اسے یکے از سرمحضر گردانتا ہے................
شکریہ نیلمبہت خُوب
شکریہ نین بھائیہممم اچھا ہے
بہت شکریہ نایاب بھائیاردو کا جنازہ ہے دھوم سے نکلے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بالکل درست لکھا محترم حبیب اکرم صاحب نے
اک معلوماتی شراکت پر بہت شکریہ بٹ بھائی
زبیر بھائی، انگریزی اول جماعت سے نصاب میں تو پہلے سے ہی شامل ہے۔ اب شاید ذریعہ تعلیم بھی اسے ہی قرار دیدیا گیا ہے جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے کیونکہ سرکاری اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ تو بیچارے ایک قاعدہ بھی انگریزی میں ٹھیک سے نہیں پڑھا پاتے تو پورا نصاب کیسے پڑھائیں گے۔عاطف بٹ بہت شکریہ اس کالم کے لیے
شہبازشریف نے سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت سے انگریزی نصاب میں شامل کی ہے
اگر میری معلومات درست ہے تو؟
(میں مسلم لیگ ن کے حق میں کوئی تقریر کرنے یا اُسکی حمایت میں کچھ نہیں کہا رہا ) ویسے ہی پوچھ رہا ہوں
(آج کل کے سیاسی موسم میں تو کوئی تبصرہ کرنا بھی خطرہ سے خالی نہیں )
یوسف بھائی، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) لاہور سے اردو زبان و ادب میں ایم اے کیا تھا اور مجھے کبھی بھی اپنے اس فخر سے ’توبہ‘ نہیں کرنا پڑی۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ آج سے ڈھائی سال قبل میں ایک نئے انگریزی اخبار میں رپورٹر کی حیثیت نوکری کے حصول کے لئے گیا۔ انٹرویو کے وقت میں نے سی وی کی بجائے اپنا لکھا ہوا ایک پروفائل انہیں دیدیا تو انہوں نے پروفائل دیکھنے سے پہلے پوچھا کہ آپ نے تو اردو میں ایم اے کیا ہے پھر انگریزی اخبار میں کام کیسے کریں گے۔ میں نے بتایا کہ میں اس سے پہلے بھی ایک انگریزی روزنامہ میں کام کرچکا ہوں اور میری چھپی ہوئی خبریں پڑھ کر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میں کام کرسکتا ہوں یا نہیں۔ پھر پروفائل پڑھنے کے بعد پوچھا گیا کہ یہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ اس ناچیز نے۔ فرمایا گیا، آپ کی انگریزی تو بہت اچھی ہے۔ میں نے کہا پھر نوکری پکی سمجھوں، تو بولے کہ آپ کل آئیے گا۔ اگلے روز گیا تو گزشتہ روز جن صاحب نے انٹرویو کیا تھا انہوں نے ایک اور صاحب سے ملوایا۔ نئے ملاقاتی نے بھی پرانا سوال ہی داغا کہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میرا جواب وہی تھا کہ میں نے لکھا ہے۔ پھر وہی تعریفی جملہ سننے کو ملا اور ساتھ ہی کہا گیا کہ ہم آپ کا تحریری امتحان لینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور لیجئے۔ امتحان کے طور پر ان کی مرضی کے موضوع پر ایک مضمون لکھ کر ان کے ہاتھ پکڑایا اور یہ وعدہ لے کر گھر لوٹا کہ مجھے دوبارہ بلایا جائے گا۔ دن گزرتے رہے مگر اس امتحان کا نتیجہ کبھی نہیں آیا۔ مہینے بھر کے بعد اسی ادارے سے ایک صاحب کی کال آئی کہ میں فلاں اخبار سے بات کررہا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے ملاقات کا وقت طے کیا اور مقررہ وقت پر انہیں ملنے پہنچ گیا۔ ان صاحب نے بھی وہی سوال پوچھا جس کا میں ایک مہینہ پہلے دو بار جواب دے چکا تھا کہ یہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میں جواب پھر سے وہی تھا۔ فرمایا گیا کہ میں آپ کا تحریری امتحان لینا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا بصد شوق سے لیجئے مگر ایک مہینہ پہلے جو امتحان دیا تھا اس کا نتیجہ تو بتا دیجئے۔ کہا گیا کہ اسے چھوڑیں، آپ نیا امتحان دیں۔ اس بار امتحان تین حصوں پر مشتمل تھا یعنی ایک مضمون لکھنا تھا، ایک خبر کو ایڈٹ کرنا تھا اور ایک واقعے سے متعلق خبر لکھ کر دینا تھی۔ امتحان سے فارغ ہوا تو ان صاحب نے کہا کہ آپ کی انگریزی بہت اچھی ہے تو آپ رپورٹر کی بجائے سب ایڈیٹر کے طور پر ہمارے ہاں ملازمت کریں۔ میں نے کہا کہ میری ترجیح رپورٹنگ ہے۔ تنخواہ سے متعلق استفسار کیا گیا اور پھر میں نے جو بتایا اس سے آدھی تنخواہ کی پیشکش کی گئی۔ بعدازاں کہا گیا کہ ہم آپ کو کال کریں گے۔ وہ اخبار منظر عام پر آیا اور پھر قصہء پارینہ بن گیا مگر مجھے کبھی ان کی طرف سے کال نہیں آئی!جب عملی زندگی کا آغاز ایک ملٹی نیشنل کمنی سے کیا، جہاں دوران انٹرویو پوچھا گیا کہ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے۔ اور جب میں نے ”فخریہ“ بتلایا کہ اردو کالج سے تو بڑی ”حقارت“ سے کہا گیا کہ پھر وہاں تو اردو میں پڑھایا جاتا رہا ہوگا۔ وہ تو شکر ہے کہ تحریری امتحان میری کارکردگی اچھی تھی اور انٹرویو بھی اچھا ہوا تھا، اس لئے مجھے منتخب کرلیا گیا۔ اس کے بعد سے میں نے اپنے اس ”فخر“ سے توبہ کر لیا۔
آپ نے بالکل ٹھیک کہا اور بدقسمتی سے حکومت اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دے رہی۔ اپنی سیاست بچانے کے لئے دستور سے ایسی ایسی شقیں اور نکات ڈھونڈ کر لائے جاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے بھی علم میں نہ ہوتے ہوں گے مگر جہاں بات اردو کو سرکاری زبان بنانے اور اس کی ترویج و اشاعت کی ہوتی ہے تو دستور کا آرٹیکل 251 کسی کو دکھائی ہی نہیں دیتا!ہم یہ تو کہتے ہیں کہ اردو ذریعہ تعلیم ہونا چاہئے لیکن اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اس کے لئے ہمیں بہت وقت چاہئیے کہ پہلے جدید نصاب کو اردو میں ڈھالنا ہے اور اس طرح ڈھالنا ہے کہ اردو میں پڑھنے کے بعد بھی تحقیق اور ترقی میں ہم باقی دنیا کے ساتھ چل سکیں۔ اور اس کے لئے ہمیں ڈاکٹر شریف نظامی جیسے بہت سے لوگ چاہئیے ہوں گے۔
صد فیصد متفق۔ اردو کی ترویج و اشاعت سے تو میں نے ”توبہ“ نہیں کیا ۔ گزشتہ تین ساڑھے تین دہائیوں سے اردو ادب و صحافت کی تھوڑی بہت خدمت کر ہی رہا ہوں۔ کئی کتب کی تصنیف و تالیف کے علاوہ درجنوں اخبارات و جرائد میں سینکڑوں مضامین تحریر کر چکا ہوں۔ پانوس انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے عالمی ماحولیات پر تیار کردہ درجنوں فیچر کے علاوہ کئی صحافتی و علمی انگریزی شہ پاروں کو ”مشرف بہ اردو“ کرچکا ہوں۔ اردو صحافت سے عملی طور پر بھی وابستگی رہی ہے۔ میرے بچے الحمداللہ اردو سے ناواقف یا نابلد نہیں ہیں۔ وہ اردو ادب و شاعری کو ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور انہیں اردو لکھنا پڑھنا بخوبی بھی آتا ہے، بلکہ سب سے چھوٹے برخوردار کا تو ایک نثر پارہ نونہال میں شائع بھی ہوچکا ہے، جسے اس محفل میں بھی شیئر کیا تھا ۔ لیکن اگر انہیں ”اردو میڈیم“ سے پڑھواتا تو میرے لاکھوں روپے تو بچ جاتے، لیکن آج وہ بی اے، بی ایس سی ہی کر رہے ہوتے، جو آجکل ”بےروزگاری“ کی سند مانی جاتی ہےیوسف بھائی، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) لاہور سے اردو زبان و ادب میں ایم اے کیا تھا اور مجھے کبھی بھی اپنے اس فخر سے ’توبہ‘ نہیں کرنا پڑی۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ آج سے ڈھائی سال قبل میں ایک نئے انگریزی اخبار میں رپورٹر کی حیثیت نوکری کے حصول کے لئے گیا۔ انٹرویو کے وقت میں نے سی وی کی بجائے اپنا لکھا ہوا ایک پروفائل انہیں دیدیا تو انہوں نے پروفائل دیکھنے سے پہلے پوچھا کہ آپ نے تو اردو میں ایم اے کیا ہے پھر انگریزی اخبار میں کام کیسے کریں گے۔ میں نے بتایا کہ میں اس سے پہلے بھی ایک انگریزی روزنامہ میں کام کرچکا ہوں اور میری چھپی ہوئی خبریں پڑھ کر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میں کام کرسکتا ہوں یا نہیں۔ پھر پروفائل پڑھنے کے بعد پوچھا گیا کہ یہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ اس ناچیز نے۔ فرمایا گیا، آپ کی انگریزی تو بہت اچھی ہے۔ میں نے کہا پھر نوکری پکی سمجھوں، تو بولے کہ آپ کل آئیے گا۔ اگلے روز گیا تو گزشتہ روز جن صاحب نے انٹرویو کیا تھا انہوں نے ایک اور صاحب سے ملوایا۔ نئے ملاقاتی نے بھی پرانا سوال ہی داغا کہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میرا جواب وہی تھا کہ میں نے لکھا ہے۔ پھر وہی تعریفی جملہ سننے کو ملا اور ساتھ ہی کہا گیا کہ ہم آپ کا تحریری امتحان لینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور لیجئے۔ امتحان کے طور پر ان کی مرضی کے موضوع پر ایک مضمون لکھ کر ان کے ہاتھ پکڑایا اور یہ وعدہ لے کر گھر لوٹا کہ مجھے دوبارہ بلایا جائے گا۔ دن گزرتے رہے مگر اس امتحان کا نتیجہ کبھی نہیں آیا۔ مہینے بھر کے بعد اسی ادارے سے ایک صاحب کی کال آئی کہ میں فلاں اخبار سے بات کررہا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے ملاقات کا وقت طے کیا اور مقررہ وقت پر انہیں ملنے پہنچ گیا۔ ان صاحب نے بھی وہی سوال پوچھا جس کا میں ایک مہینہ پہلے دو بار جواب دے چکا تھا کہ یہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میں جواب پھر سے وہی تھا۔ فرمایا گیا کہ میں آپ کا تحریری امتحان لینا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا بصد شوق سے لیجئے مگر ایک مہینہ پہلے جو امتحان دیا تھا اس کا نتیجہ تو بتا دیجئے۔ کہا گیا کہ اسے چھوڑیں، آپ نیا امتحان دیں۔ اس بار امتحان تین حصوں پر مشتمل تھا یعنی ایک مضمون لکھنا تھا، ایک خبر کو ایڈٹ کرنا تھا اور ایک واقعے سے متعلق خبر لکھ کر دینا تھی۔ امتحان سے فارغ ہوا تو ان صاحب نے کہا کہ آپ کی انگریزی بہت اچھی ہے تو آپ رپورٹر کی بجائے سب ایڈیٹر کے طور پر ہمارے ہاں ملازمت کریں۔ میں نے کہا کہ میری ترجیح رپورٹنگ ہے۔ تنخواہ سے متعلق استفسار کیا گیا اور پھر میں نے جو بتایا اس سے آدھی تنخواہ کی پیشکش کی گئی۔ بعدازاں کہا گیا کہ ہم آپ کو کال کریں گے۔ وہ اخبار منظر عام پر آیا اور پھر قصہء پارینہ بن گیا مگر مجھے کبھی ان کی طرف سے کال نہیں آئی!
اس واقعے کے بعد میں نے دو بار بی بی سی ورلڈ جیسے معروف نشریاتی ادارے کو تجزیہ کار کے طور پر انٹرویو بھی دیا اور ڈیلی میل جیسے اخبار کے ساتھ غیرملازم صحافی (freelance journalist) کے طور پر بھی کام کیا مگر مجھے کبھی نہیں پوچھا گیا کہ آپ نے تو اردو میں ایم اے کررکھا ہے تو انگریزی میں کام کیسے کریں گے۔
میں انگریزی کی اہمیت سے منکر نہیں مگر اردو کی ترویج و اشاعت میرا اور آپ کا فرض ہے اور اگر ہم نے یہ فرض ادا نہ کیا تو ہم آئندہ نسلوں کے مجرم ہوں گے!
صد فیصد متفق۔ اردو کی ترویج و اشاعت سے تو میں نے ”توبہ“ نہیں کیا
۔ گزشتہ تین ساڑھے تین دہائیوں سے اردو ادب و صحافت کی تھوڑی بہت خدمت کر ہی رہا ہوں۔ کئی کتب کی تصنیف و تالیف کے علاوہ درجنوں اخبارات و جرائد میں سینکڑوں مضامین تحریر کر چکا ہوں۔ پانوس انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے عالمی ماحولیات پر تیار کردہ درجنوں فیچر کے علاوہ کئی صحافتی و علمی انگریزی شہ پاروں کو ”مشرف بہ اردو“ کرچکا ہوں۔ اردو صحافت سے عملی طور پر بھی وابستگی رہی ہے۔ میرے بچے الحمداللہ اردو سے ناواقف یا نابلد نہیں ہیں۔ وہ اردو ادب و شاعری کو ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور انہیں اردو لکھنا پڑھنا بخوبی بھی آتا ہے، بلکہ سب سے چھوٹے برخوردار کا تو ایک نثر پارہ نونہال میں شائع بھی ہوچکا ہے، جسے اس محفل میں بھی شیئر کیا تھا ۔ لیکن اگر انہیں ”اردو میڈیم“ سے پڑھواتا تو میرے لاکھوں روپے تو بچ جاتے، لیکن آج وہ بی اے، بی ایس سی ہی کر رہے ہوتے، جو آجکل ”بےروزگاری“ کی سند مانی جاتی ہے
میں نے صرف اس بات سے ”توبہ” کی تھی کہ اپنے کوائف میں اپنے تعلیمی ادارے کا نام لکھ کر انٹرویو لینے والوں کے لئے ”مشکلات“ پیدا نہیں کروں گا۔ دوسرے اس بات کا فیصلہ کیا تھا اور اب بھی احباب کو اس بات کی تلقین کرتا ہون کہ جب تک پاکستان میں اردو سرداری و دفتری زبان نہیں بن جاتی، پیشہ ورانہ تعلیم اردو میں نہیں دی جاتی، اس وقت تک بچوں کو اردو میڈیم میں تعلیم دلوا کر جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے علوم کے میدان سے دور نہ کیا جائے۔ آپ عملی صحافت میں ہیں۔ ذرا اپنے ہی شہر کے جملہ اعلی پیشہ ورانہ (انجینئرنگ، میڈیکل و بزنس ایڈمنسٹریشن وغیرہ) تعلیمی اداروں اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے کوائف تو دیکھئے آپ کو ان میں ”اردو میڈیم“ والے بہت کم ہی نظر آئیں گے۔
آپ کی تمام باتیں درست لیکن اس بات پر تھوڑا اختلاف کرنے کی جسارت کروں گی۔ اردو میڈیم سے پڑھنے والے بھی بہت آگے جاتے ہیں۔ میرے اپنے ساتھ سکالرشپ پر کتنے لوگ ملک سے باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے جو اردو میڈیم سے ہی پڑھے ہوئے تھے۔ میرا نہیں خیال کہ اردو پڑھنے والوں کے لئے میدان محدود ہوتا ہے۔ بلاشبہ مشکلات تو آتی ہوں گی اردو سے انگریزی کی طرف جانے میں لیکن آپ کی اپنی قابلیت اور محنت اس میں زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک اور بات یہ بھی کہ انگریزی میڈیم اداروں کی اکثریت انگریزی بولنے کی استعداد کو تو شاید کافی بہتر کر دیتی ہے لیکن جب لکھنے کی بات آئے تو بہت کم ہی ایسے ادارے ہیں جو بچوں کو لکھنا بھی سکھاتے ہوں۔ یہ جو میڈیکل ، انجینئرنگ والے بھی لوگ ہیں عموماً انگریزی ان کی بھی ایسی شاندار نہیں ہوتی۔ بس ٹھپہ لگنے کی بات ہے۔ ہاں استشنیات ہر جگہ موجود ہیں۔
ماشاءاللہ اگر آپ کے بچے دونوں زبانوں میں رواں ہیں تو یہ واقعی بہت خوشی کی بات ہے اور اس میں بھی کافی کوششیں آپ کی اپنی بھی شامل ہوں گی ورنہ انگریزی میڈیم سکولوں سے نکلے ہوئے بچوں اور ان کے گھر والے غلط اردو بولنے اور لکھنے کی کسی حد تک شعوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک 'سٹائل' ہے۔ کیونکہ اردو کو ہم لوگوں نے نالائقی اور کمزوری کی علامت بنا لیا ہے۔