نئے سال کے ارادے (کالم از حبیب اکرم)

عاطف بٹ

محفلین
1389_76924150.jpg

ربط
 

فلک شیر

محفلین
ان بزرگوار کے خیالات سے ایک ہزار فیصد اتفاق ہے.....اور یہ فقیر ملکی ترقی میں موجود سب سے بڑی چند رکاوٹوں میں سے اسے یکے از سرمحضر گردانتا ہے................
 

نایاب

لائبریرین
اردو کا جنازہ ہے دھوم سے نکلے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل درست لکھا محترم حبیب اکرم صاحب نے
اک معلوماتی شراکت پر بہت شکریہ بٹ بھائی
 

زبیر مرزا

محفلین
عاطف بٹ بہت شکریہ اس کالم کے لیے
شہبازشریف نے سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت سے انگریزی نصاب میں شامل کی ہے
اگر میری معلومات درست ہے تو؟
(میں مسلم لیگ ن کے حق میں کوئی تقریر کرنے یا اُسکی حمایت میں کچھ نہیں کہا رہا :)) ویسے ہی پوچھ رہا ہوں
(آج کل کے سیاسی موسم میں تو کوئی تبصرہ کرنا بھی خطرہ سے خالی نہیں :))
 

یوسف-2

محفلین
کراچی میں ڈاکٹر سید مبین اختر، تحریک نفاذ اردو کے سربراہ و سرپرست ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ڈاکٹر شریف نطامی اور ڈاکٹر سید مبین اختر کی تحریکوں میں باہم کوئی ربط ہے یا یہ دونوں الگ الگ ایک ہی مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر مبین اختر ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اسی شعبہ میں امریکہ سے سند یافتہ ہیں۔ کراچی نفسیاتی ہسپتال ناظم آباد انہی کا ہے۔ مبین اختر ایک اسکول بھی چلاتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ پاکستان مین نفاذ اردو کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ ہر مہینہ کے پہلے منگل کوان کے ادارے میں تحریک کا اجلاس منعقد ہوتا ہے، جس میں شہر کے ادباء و شعراء بھی شریک ہوتے ہیں۔ تحریک کا ایک ماہنامہ مجلہ بھی شائع ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ مجھے بھی ان اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملتا رہا ہے۔ مبین صاحب نے تو پاکستان کی سرکاری زبان اردو بنوانے کے سلسلہ میں قانونی کاروائی بھی شروع کر رکھی ہے۔ کئی ایک پٹیشن عدالتوں میں چل رہی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ​
میرے خیال سے پاکستان میں نفاذ اردو کا تعلق ”اردو ذریعہ تعلیم“ سے نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پاکستان میں ایک معمولی کلرک بھی انگریزی میں کلرکی کرنے پر مجبور ہے تو ”اردو ذریعہ تعلیم“ کے ذریعہ اردو کوکیسے ”فروغ“ دیا جاسکتا ہے۔ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ حیدرآباد دکن کی ریاست میں اردو میں میڈیسن اور انجیئنرنگ کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ پاکستان میں حکیم محمد سعید کا ادارہ طب یونانی کی تعلیم اردو میں دیتا چلا آیا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق اور انجمن ترقی اردو کے تحت کراچی مین اردو کالج کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بعد ازاں اردو سائنس کالج بنی، جہاں ایم ایس سی تک اردو میں تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ اب یہ اردو یونیورسٹی بن چکی ہے۔ اور اس کا ایک کیمپس اسلام آباد میں بھی ہے۔، اس ادارہ میں سائنس میں ماسٹرز کے علاوہ ایل ایل بی، ایل ایل ایم اور ایم بی اے تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ میں نے اسی تعلیمی ادارے سے ایم ایس سی اور ایم اے صحافت کی ساری تعلیم اردو میں حاصل کی ہے اور کالج مجلہ کے ادارتی بورڈ میں شامل ہونے کے باعث اردو نطام تعلیم کے شعبہ میں تھوڑا بہت کام بھی کیا ہے۔ ایک دلچسپ اسائنمنٹ مجھے یہ دیا گیا کہ کراچی کے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں کے سربراہوں سے ”فروغ اردو“ کے ضمن میں انٹرویو کروں۔ تب میں نے این ایڈی انگینرنگ کالج، ڈاؤ میڈیکل کالج، داؤد انجینئرنگ کالج کے سربراہوں سمیت متعدد اساتذہ کرام سے ملاقاتیں کیں اور ”اردو ذریعہ تعلیم“ کے سلسلہ میں ان کا انٹرویو لیا​
جب عملی زندگی کا آغاز ایک ملٹی نیشنل کمنی سے کیا، جہاں دوران انٹرویو پوچھا گیا کہ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے۔ اور جب میں نے ”فخریہ“ بتلایا کہ اردو کالج سے تو بڑی ”حقارت“ سے کہا گیا کہ پھر وہاں تو اردو میں پڑھایا جاتا رہا ہوگا۔ وہ تو شکر ہے کہ تحریری امتحان میری کارکردگی اچھی تھی اور انٹرویو بھی اچھا ہوا تھا، اس لئے مجھے منتخب کرلیا گیا۔ اس کے بعد سے میں نے اپنے اس ”فخر“ سے توبہ کر لیا۔ اور آئندہ اپنے سی وی میں کراچی یونیورسٹی کا نام ہی لکھتا رہا کہ بہر حال ڈگری تو اسی جامعہ سے حاصل کی تھی۔:) پھر ”اپنے ذاتی تجربہ“ کی وجہ سے میں نے اپنے ہر بچہ کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں ہی داکل کروایا۔ اور الحمد للہ آج وہ میڈیسین، انجینرنگ اور بزنس ایڈمنسٹریش جیسی پیشہ ورانہ تعلیم شہر کے بہترین تعلیمی اداروں سے حاصل کر رہے ہیں۔ اگر وہ بھی میری طرح اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کرتے تو کبھی بھی ان اداروں کے ”اندر“ داخل نہیں ہوسکتے تھے۔ آج پاکستان میں اردو میڈیم میں میٹرک اور انٹر پاس کرنے والے شاید ہی پانچ دس فیصد ایسے ہوں گے، جو اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرپاتے ہوں گے۔ ملک کی سرکاری زبان انگریزی کے ہوتے ہوئے ”اردو ذریعہ تعلیم“ کا فروغ محض بچوں کو ناکارہ یا ڈگری یافتہ بے روزگار بنانے کے مترادف ہے۔ اگر شہباز شریف ملک کی سرکاری زبان اردو نہیں کرسکتا تو اس کا یہ قدم بہت اچھا ہے کہ اس نے کم از اپنے صوبہ کی حد تک ذریعہ تعلیم ہی انگریزی کردی ہے (اگر کی ہے تو) تاکہ غریبوں اور عوام الناس کے بچے بھی انگریزی میڈیم میں پڑھ کر مہنگے نجی اسکولوں مین پڑھنے والے طلبہ کا اوپن میرٹ پر مقابلہ کرسکیں اور محض اپنے والدین کی غربت کے سبب وہ اعلیٰ تعلیم کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
بہت شکریہ :)
پہلی بات: عہدے کے ساتھ جی حضوری اور عہدہ جانے کے بعد مین میخ نکالنے کی ایک تازہ تازہ مثال میں نے آج دیکھی ہے۔ تو یہ درست ہے ہم چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ دوسری بات: ابھی بھی بہت سے سرپھرے لوگ موجود ہیں جو اردو زبان کی ترویج کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور ہمیں بھی اپنا حصہ ڈالنا ہے چاہے کوشش کتنی چھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔
تیسری بات: انگریزی یا اردو ذریعہ تعلیم فخر یا احساسِ کمتری کا باعث نہیں ہوتا۔ اپنے ہی ملک میں دیکھ لیں ابھی تک جتنے لوگوں نے اپنے اپنے میدان میں کامیابیاں حاصل کیں چاہے وہ تعلیم ہو یا فوج یا بیوروکریسی۔ اکثریت اردو میڈیم سے ہی پڑھی ہوئی ہے۔

اور آخری بات: ہم یہ تو کہتے ہیں کہ اردو ذریعہ تعلیم ہونا چاہئے لیکن اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اس کے لئے ہمیں بہت وقت چاہئیے کہ پہلے جدید نصاب کو اردو میں ڈھالنا ہے اور اس طرح ڈھالنا ہے کہ اردو میں پڑھنے کے بعد بھی تحقیق اور ترقی میں ہم باقی دنیا کے ساتھ چل سکیں۔ اور اس کے لئے ہمیں ڈاکٹر شریف نظامی جیسے بہت سے لوگ چاہئیے ہوں گے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
عاطف بٹ بہت شکریہ اس کالم کے لیے
شہبازشریف نے سرکاری اسکولوں میں پہلی جماعت سے انگریزی نصاب میں شامل کی ہے
اگر میری معلومات درست ہے تو؟
(میں مسلم لیگ ن کے حق میں کوئی تقریر کرنے یا اُسکی حمایت میں کچھ نہیں کہا رہا :)) ویسے ہی پوچھ رہا ہوں
(آج کل کے سیاسی موسم میں تو کوئی تبصرہ کرنا بھی خطرہ سے خالی نہیں :))
زبیر بھائی، انگریزی اول جماعت سے نصاب میں تو پہلے سے ہی شامل ہے۔ اب شاید ذریعہ تعلیم بھی اسے ہی قرار دیدیا گیا ہے جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے کیونکہ سرکاری اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ تو بیچارے ایک قاعدہ بھی انگریزی میں ٹھیک سے نہیں پڑھا پاتے تو پورا نصاب کیسے پڑھائیں گے۔
 

عاطف بٹ

محفلین
جب عملی زندگی کا آغاز ایک ملٹی نیشنل کمنی سے کیا، جہاں دوران انٹرویو پوچھا گیا کہ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے۔ اور جب میں نے ”فخریہ“ بتلایا کہ اردو کالج سے تو بڑی ”حقارت“ سے کہا گیا کہ پھر وہاں تو اردو میں پڑھایا جاتا رہا ہوگا۔ وہ تو شکر ہے کہ تحریری امتحان میری کارکردگی اچھی تھی اور انٹرویو بھی اچھا ہوا تھا، اس لئے مجھے منتخب کرلیا گیا۔ اس کے بعد سے میں نے اپنے اس ”فخر“ سے توبہ کر لیا۔
یوسف بھائی، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) لاہور سے اردو زبان و ادب میں ایم اے کیا تھا اور مجھے کبھی بھی اپنے اس فخر سے ’توبہ‘ نہیں کرنا پڑی۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ آج سے ڈھائی سال قبل میں ایک نئے انگریزی اخبار میں رپورٹر کی حیثیت نوکری کے حصول کے لئے گیا۔ انٹرویو کے وقت میں نے سی وی کی بجائے اپنا لکھا ہوا ایک پروفائل انہیں دیدیا تو انہوں نے پروفائل دیکھنے سے پہلے پوچھا کہ آپ نے تو اردو میں ایم اے کیا ہے پھر انگریزی اخبار میں کام کیسے کریں گے۔ میں نے بتایا کہ میں اس سے پہلے بھی ایک انگریزی روزنامہ میں کام کرچکا ہوں اور میری چھپی ہوئی خبریں پڑھ کر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میں کام کرسکتا ہوں یا نہیں۔ پھر پروفائل پڑھنے کے بعد پوچھا گیا کہ یہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ اس ناچیز نے۔ فرمایا گیا، آپ کی انگریزی تو بہت اچھی ہے۔ میں نے کہا پھر نوکری پکی سمجھوں، تو بولے کہ آپ کل آئیے گا۔ اگلے روز گیا تو گزشتہ روز جن صاحب نے انٹرویو کیا تھا انہوں نے ایک اور صاحب سے ملوایا۔ نئے ملاقاتی نے بھی پرانا سوال ہی داغا کہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میرا جواب وہی تھا کہ میں نے لکھا ہے۔ پھر وہی تعریفی جملہ سننے کو ملا اور ساتھ ہی کہا گیا کہ ہم آپ کا تحریری امتحان لینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور لیجئے۔ امتحان کے طور پر ان کی مرضی کے موضوع پر ایک مضمون لکھ کر ان کے ہاتھ پکڑایا اور یہ وعدہ لے کر گھر لوٹا کہ مجھے دوبارہ بلایا جائے گا۔ دن گزرتے رہے مگر اس امتحان کا نتیجہ کبھی نہیں آیا۔ مہینے بھر کے بعد اسی ادارے سے ایک صاحب کی کال آئی کہ میں فلاں اخبار سے بات کررہا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے ملاقات کا وقت طے کیا اور مقررہ وقت پر انہیں ملنے پہنچ گیا۔ ان صاحب نے بھی وہی سوال پوچھا جس کا میں ایک مہینہ پہلے دو بار جواب دے چکا تھا کہ یہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میں جواب پھر سے وہی تھا۔ فرمایا گیا کہ میں آپ کا تحریری امتحان لینا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا بصد شوق سے لیجئے مگر ایک مہینہ پہلے جو امتحان دیا تھا اس کا نتیجہ تو بتا دیجئے۔ کہا گیا کہ اسے چھوڑیں، آپ نیا امتحان دیں۔ اس بار امتحان تین حصوں پر مشتمل تھا یعنی ایک مضمون لکھنا تھا، ایک خبر کو ایڈٹ کرنا تھا اور ایک واقعے سے متعلق خبر لکھ کر دینا تھی۔ امتحان سے فارغ ہوا تو ان صاحب نے کہا کہ آپ کی انگریزی بہت اچھی ہے تو آپ رپورٹر کی بجائے سب ایڈیٹر کے طور پر ہمارے ہاں ملازمت کریں۔ میں نے کہا کہ میری ترجیح رپورٹنگ ہے۔ تنخواہ سے متعلق استفسار کیا گیا اور پھر میں نے جو بتایا اس سے آدھی تنخواہ کی پیشکش کی گئی۔ بعدازاں کہا گیا کہ ہم آپ کو کال کریں گے۔ وہ اخبار منظر عام پر آیا اور پھر قصہء پارینہ بن گیا مگر مجھے کبھی ان کی طرف سے کال نہیں آئی!
اس واقعے کے بعد میں نے دو بار بی بی سی ورلڈ جیسے معروف نشریاتی ادارے کو تجزیہ کار کے طور پر انٹرویو بھی دیا اور ڈیلی میل جیسے اخبار کے ساتھ غیرملازم صحافی (freelance journalist) کے طور پر بھی کام کیا مگر مجھے کبھی نہیں پوچھا گیا کہ آپ نے تو اردو میں ایم اے کررکھا ہے تو انگریزی میں کام کیسے کریں گے۔
میں انگریزی کی اہمیت سے منکر نہیں مگر اردو کی ترویج و اشاعت میرا اور آپ کا فرض ہے اور اگر ہم نے یہ فرض ادا نہ کیا تو ہم آئندہ نسلوں کے مجرم ہوں گے!
 

عاطف بٹ

محفلین
ہم یہ تو کہتے ہیں کہ اردو ذریعہ تعلیم ہونا چاہئے لیکن اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اس کے لئے ہمیں بہت وقت چاہئیے کہ پہلے جدید نصاب کو اردو میں ڈھالنا ہے اور اس طرح ڈھالنا ہے کہ اردو میں پڑھنے کے بعد بھی تحقیق اور ترقی میں ہم باقی دنیا کے ساتھ چل سکیں۔ اور اس کے لئے ہمیں ڈاکٹر شریف نظامی جیسے بہت سے لوگ چاہئیے ہوں گے۔
آپ نے بالکل ٹھیک کہا اور بدقسمتی سے حکومت اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دے رہی۔ اپنی سیاست بچانے کے لئے دستور سے ایسی ایسی شقیں اور نکات ڈھونڈ کر لائے جاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے بھی علم میں نہ ہوتے ہوں گے مگر جہاں بات اردو کو سرکاری زبان بنانے اور اس کی ترویج و اشاعت کی ہوتی ہے تو دستور کا آرٹیکل 251 کسی کو دکھائی ہی نہیں دیتا!
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) لاہور سے اردو زبان و ادب میں ایم اے کیا تھا اور مجھے کبھی بھی اپنے اس فخر سے ’توبہ‘ نہیں کرنا پڑی۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ آج سے ڈھائی سال قبل میں ایک نئے انگریزی اخبار میں رپورٹر کی حیثیت نوکری کے حصول کے لئے گیا۔ انٹرویو کے وقت میں نے سی وی کی بجائے اپنا لکھا ہوا ایک پروفائل انہیں دیدیا تو انہوں نے پروفائل دیکھنے سے پہلے پوچھا کہ آپ نے تو اردو میں ایم اے کیا ہے پھر انگریزی اخبار میں کام کیسے کریں گے۔ میں نے بتایا کہ میں اس سے پہلے بھی ایک انگریزی روزنامہ میں کام کرچکا ہوں اور میری چھپی ہوئی خبریں پڑھ کر آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ میں کام کرسکتا ہوں یا نہیں۔ پھر پروفائل پڑھنے کے بعد پوچھا گیا کہ یہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ اس ناچیز نے۔ فرمایا گیا، آپ کی انگریزی تو بہت اچھی ہے۔ میں نے کہا پھر نوکری پکی سمجھوں، تو بولے کہ آپ کل آئیے گا۔ اگلے روز گیا تو گزشتہ روز جن صاحب نے انٹرویو کیا تھا انہوں نے ایک اور صاحب سے ملوایا۔ نئے ملاقاتی نے بھی پرانا سوال ہی داغا کہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میرا جواب وہی تھا کہ میں نے لکھا ہے۔ پھر وہی تعریفی جملہ سننے کو ملا اور ساتھ ہی کہا گیا کہ ہم آپ کا تحریری امتحان لینا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور لیجئے۔ امتحان کے طور پر ان کی مرضی کے موضوع پر ایک مضمون لکھ کر ان کے ہاتھ پکڑایا اور یہ وعدہ لے کر گھر لوٹا کہ مجھے دوبارہ بلایا جائے گا۔ دن گزرتے رہے مگر اس امتحان کا نتیجہ کبھی نہیں آیا۔ مہینے بھر کے بعد اسی ادارے سے ایک صاحب کی کال آئی کہ میں فلاں اخبار سے بات کررہا ہوں اور آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے ملاقات کا وقت طے کیا اور مقررہ وقت پر انہیں ملنے پہنچ گیا۔ ان صاحب نے بھی وہی سوال پوچھا جس کا میں ایک مہینہ پہلے دو بار جواب دے چکا تھا کہ یہ پروفائل کس نے لکھا ہے۔ میں جواب پھر سے وہی تھا۔ فرمایا گیا کہ میں آپ کا تحریری امتحان لینا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا بصد شوق سے لیجئے مگر ایک مہینہ پہلے جو امتحان دیا تھا اس کا نتیجہ تو بتا دیجئے۔ کہا گیا کہ اسے چھوڑیں، آپ نیا امتحان دیں۔ اس بار امتحان تین حصوں پر مشتمل تھا یعنی ایک مضمون لکھنا تھا، ایک خبر کو ایڈٹ کرنا تھا اور ایک واقعے سے متعلق خبر لکھ کر دینا تھی۔ امتحان سے فارغ ہوا تو ان صاحب نے کہا کہ آپ کی انگریزی بہت اچھی ہے تو آپ رپورٹر کی بجائے سب ایڈیٹر کے طور پر ہمارے ہاں ملازمت کریں۔ میں نے کہا کہ میری ترجیح رپورٹنگ ہے۔ تنخواہ سے متعلق استفسار کیا گیا اور پھر میں نے جو بتایا اس سے آدھی تنخواہ کی پیشکش کی گئی۔ بعدازاں کہا گیا کہ ہم آپ کو کال کریں گے۔ وہ اخبار منظر عام پر آیا اور پھر قصہء پارینہ بن گیا مگر مجھے کبھی ان کی طرف سے کال نہیں آئی!
اس واقعے کے بعد میں نے دو بار بی بی سی ورلڈ جیسے معروف نشریاتی ادارے کو تجزیہ کار کے طور پر انٹرویو بھی دیا اور ڈیلی میل جیسے اخبار کے ساتھ غیرملازم صحافی (freelance journalist) کے طور پر بھی کام کیا مگر مجھے کبھی نہیں پوچھا گیا کہ آپ نے تو اردو میں ایم اے کررکھا ہے تو انگریزی میں کام کیسے کریں گے۔
میں انگریزی کی اہمیت سے منکر نہیں مگر اردو کی ترویج و اشاعت میرا اور آپ کا فرض ہے اور اگر ہم نے یہ فرض ادا نہ کیا تو ہم آئندہ نسلوں کے مجرم ہوں گے!
صد فیصد متفق۔ اردو کی ترویج و اشاعت سے تو میں نے ”توبہ“ نہیں کیا :D ۔ گزشتہ تین ساڑھے تین دہائیوں سے اردو ادب و صحافت کی تھوڑی بہت خدمت کر ہی رہا ہوں۔ کئی کتب کی تصنیف و تالیف کے علاوہ درجنوں اخبارات و جرائد میں سینکڑوں مضامین تحریر کر چکا ہوں۔ پانوس انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے عالمی ماحولیات پر تیار کردہ درجنوں فیچر کے علاوہ کئی صحافتی و علمی انگریزی شہ پاروں کو ”مشرف بہ اردو“ کرچکا ہوں۔ اردو صحافت سے عملی طور پر بھی وابستگی رہی ہے۔ میرے بچے الحمداللہ اردو سے ناواقف یا نابلد نہیں ہیں۔ وہ اردو ادب و شاعری کو ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور انہیں اردو لکھنا پڑھنا بخوبی بھی آتا ہے، بلکہ سب سے چھوٹے برخوردار کا تو ایک نثر پارہ نونہال میں شائع بھی ہوچکا ہے، جسے اس محفل میں بھی شیئر کیا تھا ۔ لیکن اگر انہیں ”اردو میڈیم“ سے پڑھواتا تو میرے لاکھوں روپے تو بچ جاتے، لیکن آج وہ بی اے، بی ایس سی ہی کر رہے ہوتے، جو آجکل ”بےروزگاری“ کی سند مانی جاتی ہے :D
میں نے صرف اس بات سے ”توبہ” کی تھی کہ اپنے کوائف میں اپنے تعلیمی ادارے کا نام لکھ کر انٹرویو لینے والوں کے لئے ”مشکلات“ پیدا نہیں کروں گا۔ دوسرے اس بات کا فیصلہ کیا تھا اور اب بھی احباب کو اس بات کی تلقین کرتا ہون کہ جب تک پاکستان میں اردو سرداری و دفتری زبان نہیں بن جاتی، پیشہ ورانہ تعلیم اردو میں نہیں دی جاتی، اس وقت تک بچوں کو اردو میڈیم میں تعلیم دلوا کر جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے علوم کے میدان سے دور نہ کیا جائے۔ آپ عملی صحافت میں ہیں۔ ذرا اپنے ہی شہر کے جملہ اعلی پیشہ ورانہ (انجینئرنگ، میڈیکل و بزنس ایڈمنسٹریشن وغیرہ) تعلیمی اداروں اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے کوائف تو دیکھئے آپ کو ان میں ”اردو میڈیم“ والے بہت کم ہی نظر آئیں گے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
صد فیصد متفق۔ اردو کی ترویج و اشاعت سے تو میں نے ”توبہ“ نہیں کیا
:D ۔ گزشتہ تین ساڑھے تین دہائیوں سے اردو ادب و صحافت کی تھوڑی بہت خدمت کر ہی رہا ہوں۔ کئی کتب کی تصنیف و تالیف کے علاوہ درجنوں اخبارات و جرائد میں سینکڑوں مضامین تحریر کر چکا ہوں۔ پانوس انسٹی ٹیوٹ برطانیہ کے عالمی ماحولیات پر تیار کردہ درجنوں فیچر کے علاوہ کئی صحافتی و علمی انگریزی شہ پاروں کو ”مشرف بہ اردو“ کرچکا ہوں۔ اردو صحافت سے عملی طور پر بھی وابستگی رہی ہے۔ میرے بچے الحمداللہ اردو سے ناواقف یا نابلد نہیں ہیں۔ وہ اردو ادب و شاعری کو ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور انہیں اردو لکھنا پڑھنا بخوبی بھی آتا ہے، بلکہ سب سے چھوٹے برخوردار کا تو ایک نثر پارہ نونہال میں شائع بھی ہوچکا ہے، جسے اس محفل میں بھی شیئر کیا تھا ۔ لیکن اگر انہیں ”اردو میڈیم“ سے پڑھواتا تو میرے لاکھوں روپے تو بچ جاتے، لیکن آج وہ بی اے، بی ایس سی ہی کر رہے ہوتے، جو آجکل ”بےروزگاری“ کی سند مانی جاتی ہے :D
میں نے صرف اس بات سے ”توبہ” کی تھی کہ اپنے کوائف میں اپنے تعلیمی ادارے کا نام لکھ کر انٹرویو لینے والوں کے لئے ”مشکلات“ پیدا نہیں کروں گا۔ دوسرے اس بات کا فیصلہ کیا تھا اور اب بھی احباب کو اس بات کی تلقین کرتا ہون کہ جب تک پاکستان میں اردو سرداری و دفتری زبان نہیں بن جاتی، پیشہ ورانہ تعلیم اردو میں نہیں دی جاتی، اس وقت تک بچوں کو اردو میڈیم میں تعلیم دلوا کر جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے علوم کے میدان سے دور نہ کیا جائے۔ آپ عملی صحافت میں ہیں۔ ذرا اپنے ہی شہر کے جملہ اعلی پیشہ ورانہ (انجینئرنگ، میڈیکل و بزنس ایڈمنسٹریشن وغیرہ) تعلیمی اداروں اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے کوائف تو دیکھئے آپ کو ان میں ”اردو میڈیم“ والے بہت کم ہی نظر آئیں گے۔

آپ کی تمام باتیں درست لیکن اس بات پر تھوڑا اختلاف کرنے کی جسارت کروں گی۔ اردو میڈیم سے پڑھنے والے بھی بہت آگے جاتے ہیں۔ میرے اپنے ساتھ سکالرشپ پر کتنے لوگ ملک سے باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے جو اردو میڈیم سے ہی پڑھے ہوئے تھے۔ میرا نہیں خیال کہ اردو پڑھنے والوں کے لئے میدان محدود ہوتا ہے۔ بلاشبہ مشکلات تو آتی ہوں گی اردو سے انگریزی کی طرف جانے میں لیکن آپ کی اپنی قابلیت اور محنت اس میں زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک اور بات یہ بھی کہ انگریزی میڈیم اداروں کی اکثریت انگریزی بولنے کی استعداد کو تو شاید کافی بہتر کر دیتی ہے لیکن جب لکھنے کی بات آئے تو بہت کم ہی ایسے ادارے ہیں جو بچوں کو لکھنا بھی سکھاتے ہوں۔ یہ جو میڈیکل ، انجینئرنگ والے بھی لوگ ہیں عموماً انگریزی ان کی بھی ایسی شاندار نہیں ہوتی۔ بس ٹھپہ لگنے کی بات ہے۔ ہاں استشنیات ہر جگہ موجود ہیں۔
ماشاءاللہ اگر آپ کے بچے دونوں زبانوں میں رواں ہیں تو یہ واقعی بہت خوشی کی بات ہے اور اس میں بھی کافی کوششیں آپ کی اپنی بھی شامل ہوں گی ورنہ انگریزی میڈیم سکولوں سے نکلے ہوئے بچوں اور ان کے گھر والے غلط اردو بولنے اور لکھنے کی کسی حد تک شعوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک 'سٹائل' ہے۔ کیونکہ اردو کو ہم لوگوں نے نالائقی اور کمزوری کی علامت بنا لیا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
آپ کی تمام باتیں درست لیکن اس بات پر تھوڑا اختلاف کرنے کی جسارت کروں گی۔ اردو میڈیم سے پڑھنے والے بھی بہت آگے جاتے ہیں۔ میرے اپنے ساتھ سکالرشپ پر کتنے لوگ ملک سے باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے جو اردو میڈیم سے ہی پڑھے ہوئے تھے۔ میرا نہیں خیال کہ اردو پڑھنے والوں کے لئے میدان محدود ہوتا ہے۔ بلاشبہ مشکلات تو آتی ہوں گی اردو سے انگریزی کی طرف جانے میں لیکن آپ کی اپنی قابلیت اور محنت اس میں زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایک اور بات یہ بھی کہ انگریزی میڈیم اداروں کی اکثریت انگریزی بولنے کی استعداد کو تو شاید کافی بہتر کر دیتی ہے لیکن جب لکھنے کی بات آئے تو بہت کم ہی ایسے ادارے ہیں جو بچوں کو لکھنا بھی سکھاتے ہوں۔ یہ جو میڈیکل ، انجینئرنگ والے بھی لوگ ہیں عموماً انگریزی ان کی بھی ایسی شاندار نہیں ہوتی۔ بس ٹھپہ لگنے کی بات ہے۔ ہاں استشنیات ہر جگہ موجود ہیں۔
ماشاءاللہ اگر آپ کے بچے دونوں زبانوں میں رواں ہیں تو یہ واقعی بہت خوشی کی بات ہے اور اس میں بھی کافی کوششیں آپ کی اپنی بھی شامل ہوں گی ورنہ انگریزی میڈیم سکولوں سے نکلے ہوئے بچوں اور ان کے گھر والے غلط اردو بولنے اور لکھنے کی کسی حد تک شعوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک 'سٹائل' ہے۔ کیونکہ اردو کو ہم لوگوں نے نالائقی اور کمزوری کی علامت بنا لیا ہے۔

سسٹر آپ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے بات کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میرا ارادہ پہلے ہی اوپر اپنی لکھی ہوئی ”جملہ معترضہ بات “ کے ایک اور پہلو کو اُجاگر کرنا تھا، آپ کے جواب کو پڑھ کراس کا مزید موقع مل گیا۔ امید ہے کہ اس طرح آپ کو اور برادر عاطف بٹ کو میرا نکتہ نظر سمجھنے میں آسانی ہوگی، جو آپ دونوں کے نکتہ نظر سے متضاد تو ہرگز نہیں ہے البتہ ’زاویہ نگاہ‘ دوسرا ضرور ہے :)
  1. اردو زبان اب اس قدر مظبوط اور توانا ہوچکی ہے کہ اب اسے ہماری اس طرح ”ضرورت“ نہیں رہی کہ اگر ہم پاکستانیوں نے اس کی ”مدد“ نہیں کی تو اسے کسی قسم کا ”خطرہ“ لاحق ہوجائے گا۔ بلکہ اب معاملہ اس کے برعکس ہوچکا ہے۔ اگر پاکستان نے جلد ہی اردو کو سرکاری، دفتری اور سول سروسز کی زبان، پیشہ ورانہ اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ذریعہ تدریس کی زبان بنا کر اس سے ”تعاون“ حاصل نہ کیا تو ہماری اپنی تعمیر و ترقی بلکہ بقا کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
  2. لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ”نفاذ اردو“ پر توجہ دیں، جس کا بیڑا تحریک نفاذ اردو کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر شریف نطامی اور ڈاکٹر سید مبین اختر نے اٹھایا ہوا ہے۔ ہم نے اب تک اردو کو صرف رابطہ کی زبان کے طورپر اور اپنی ”مجبوری“ کے طور پر قبول کیا ہوا ہے۔ جیسے اخبارات و جرائد کی ”مجبوری“ ہے کہ اگر وہ ”اردو“ مین شائع ہوئے تب ہی چل سکیں گے۔ علاقائی زبانوں یا انگریزی میں نکلنے والے اخبارات و جرائد کی اشاعت نہایت محدود ہوتی ہے اور وہ کبھی بھی مختلف ”بے ساکھیوں“ کے بغیر نہ تو زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں انگریزی چینل کا ”تجربہ“ تو مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ انگریزی ڈان اخبار انگریزی دان چینل اب مکمل طور پر اردو بن چکا ہے تو زندہ بھی ہے، ورنہ شدید مالی خسارے میں اخبار ڈان کا طفیلی ادارہ بن کر رہ جاتا۔ اسی طرح عام بول چال میں اردو کو استعمال کرنا بھی ہم سب پاکستانیوں کی ”مجبوری“ بن چکا ہے کہ اس کے بغیر ہم اپنے اپنے لسانی علاقوں کے باہر مکالمہ اور پبلک ڈیلنگ ہی نہیں کرسکتے۔
  3. ہمیں ”اردو میڈیم حکمرانوں“ کی ضرورت ہے، جن کا خمیر ”انگریزی“ سے نہ اٹھا ہو اورنہ ہی وہ انگریزی میں سوچتے اور کواب دیکھتے ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری نمایاں رولنگ کلاس، سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ ایسے ہی ”انگریزی زدہ“ افراد پر مشتمل ہے اور صرف انگریزی ہی ”مہارت“ کے بل بوتے پر پاکستان میں حکومت کررہے ہیں۔ جب پاکستان کے عوام کی زبان اردو ہے، رابطہ کی زبان اردو ہے، لکھنے پڑھنے کی زبان اردو ہے، میڈیا (پرنٹ، الیکٹرونک، سوشیل سب کی سب) کی زبان اردو ہے تو اعلیٰ تعلیمی اداروں، سول و فوجی بیروکریسی کی زبان اردو کیوں نہیں، عدالتون کی زبان اردو کیوں نہیں جہاں مدعی اور مدعا الیہ دونوں اردو بولنے اور سمجھنے والوں پر مشتمل ہے لیکن قانون اور عدالتی زبان انگریزی ہے۔
  4. مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر میرا یہ کہنا ہے کہ جب تک ”یہ سب“ کچھ ”مشرف بہ اردو“ نہیں ہوجاتا، میں یا آپ انفرادی طور پر اپنے اپنے بچوں کو اردو میڈیم کے ”یتیم و مسکین“ اسکولوں میں کیوں پڑھا ئیں؟ کیا اس طرح ہم اپنے بچوں کو دور جدید کے علوم اور وسائل سے دور نہیں کریں گے؟ لہٰذا ”موجودہ دو رنگی ماحول“ میں کوئی سرکاری اسکولوں میں انگریزی صرف بطور مضمون نہیں بلکہ بطور میڈیم آف اسٹڈی کے طور پر متعارف کروا کر غریب عوام کے بچوں کو بھی کسی حد تک مواقع فراہم کرنے کی سعی کرتا ہے (مجھے نہیں معلوم کہ ایسا ہے یا نہیں ہے) تو یہ مجھے تو قبول ہے۔ اردو کی محبت کے باوجود۔ اس لئے کہ اردو کی محبت میں میں اپنے بچوں کو جدید علوم و فنون اور ترقی کی دور میں پیچھے نہیں رکھنا چاہتا۔ اور نہ ہی آپ یا کوئی اور چاہے گا۔
  5. کراچی کا آئی بی اے ہو یا لاہور کا لمز ان کے ”انٹری ٹیسٹ“ ہی کو دیکھ لیں۔ کیا انہیں کوئی پہلی سے میٹرک اور انٹر تک اردو میڈیم میں پاس کرنے والا کوئی طالب علم پاس کرسکتا ہے اور اگر کر سکتا ہے تو اس کا تناسب ایک سے پانچ فیصد سے زائد ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اور یہ وہ بچے ہوں گے جو ذہانت کی بلندیوں پر ہوں گے، مگر صرف اردو میڈیم کی بدولت تاپ پر جانے سے قاصرہون گے۔
میں تعلیم کے زمرے میں اپنے ذاتی تجربہ کے پس منظر میں ایک ایسا ہی دھاگہ بعنوان ”زندگی امتحان لیتی ہے“ پوسٹ کر رہا ہوں۔ یہ دھاگہ ”ٹو اِن وَن“ ہے۔ :) ضرور پڑھئے گا اور اپنی رائے دیجئے گا۔
 
Top