نئے دور کا نیا انسان:

علی ذاکر

محفلین
اگر ھم بات کریں نئے دور کی اس میں انسان کو بہت سی سھولیات ھو گئ ھیں گھر کی اشیاٗ سے لےکر کاروباری دنیا تک ایسا کوئ شعبہ نھیں جس کوئ سائنسی آلات نے اپنی زد میں نہ لیا ھو اس بات میں کچھ شق نھیں کے اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ھوئے ھیں جنھوں نے اس دنیا کا نقشہ ھی بدل دیے ھیں۔۔۔۔۔ لیکن اس بدلتی ھوئ دنیا نے انسان پر کیا اثرات مرتب کیئے ھیں ؟ اگر ھم کچھ عرصہ پھلے کی بات کرین تو کھا یہ جاتا تھا کہ (آئن سٹائن) کو سمجھنے والے لوگ ایک ھاتھ کی اُنگلی پر گنے جا سکتے ھیں اس سے کچھ پھلے (ایڈنگٹن)کا یہ خیال تھا کہ (آئن سٹائن) کو سمجھنے والا وھ شاید آخری فرد ھے لیکن اب یہ خیال ھے کہ (آئن سٹائن) کے خیال کو سائنس کا ایک عام طالب علم بخوبی سمجھتا ھے (کارساگان) کا خیال ھے کے (آئن سٹائن) کو سمجھنے کیلئے جس قدر ریاضی کی ضرورت ھے وھ میٹرک کا طالب علم جانتا ھے مطلب جن موضوعات کو (آئن سٹائن) نے چھیڑا ھے جھاں اس کو سمجھنے کیلئے مدتوں لگتے تھے وھ آج کا طالب علم میٹرک کی کلاس میں سمجھ جاتا ھے1992 میں موسمِ بھار میں (وائ کنگ)خلاے جھاز کے مریخ پر اُترنے سے دو سال پھلے انگلستان میں ایک ایسی میٹنگ میں موجود تھا جو کرہٗ ارض سے باھر کی زندگی ((Extraterrestrial Life کے تخلیق کے سلسلے میں سوالات تشکیل دینا چاھتی تھی ایک دور میں انسان جب آسماں میں اُڑتے پرندوں کو دیکھتا تو بے ساختہ اُس کا دل چاھتا کے وھ بھی اس طرح آسماں میں اُڑے پھر ایک دور آیا جب انسان نے یہ بھی کر دکھایا مطلب اس دنیا میں رھ کر اس دنی تک محدود کام کرنا تو سمجھ میں آسکتا ھے لیکن اس دنیا سے باھر جاکر کام کرنا کام کرنا تو دور باھر جانا ھی بہت بڑے اعزاز کی بات ھے اور یکینََا یہ بات (وائ کنگ) کیلئے بہت بڑے چیلنج کی بات ھو گی لیکن آھستہ آھستہ یہ بھی ممکن ھو گیا۔ لیکن گس معاشرے میں ھم رھتے ھیں یھاں کچھ ایسے حضرات بھی پائے جاتے ھیں جو ھمیں ماضی کی گمراھیوں سے نکلنے ھی نھیں دیتے جو ھر کام اللہ پر پھینک کر اپنی ذمہِ داریوں سے آزاد ھو جاتے ھیں جب پھلی بار انسان نے چاند پر قدم رکھا تب پوری دنیا اس حیرت انگیز کامیبی پر جشن منع رھی تھی وھاں ھمارے مُلا اس پر اعترازات کر رھے تھے اور مزے کی بات یہ کہ ایسے اعترازات ان کو کھین سے لینے بھی نھیں پڑتے یہ صرف آتے ھی ان کے دماغوں میں ھیں خیر مین اس بحث میں نھیں جانا چاھتا مختصر یہ کہ ھماری آدھی سے زیادھ عوام ان ھی نقشے قدم پر چلتی ھے جس کی وجہ سے ھم آج بھی اکیسویں صدی میں رھتے ھوئے ایسا لگتا ھے جیسے پندرھویں صدی میں رھ رھے ھوں وھ تو شکر ھے کہ ابھی ھمارے قاری مُلائوں نے (آئن سٹائن) کی یہ بات نھیں سنی کہ آیا کائنات کی تخلیق میں خدا کے پاس انتخاب کا اختیار واقعی تھا۔۔اگر پڑھ لیتے تو سوچے سمجھے بغیر اُس کے علم پر ھزاروں تنقیدیں باندھ دیتے اور اُس بیچارے کی ساری زندگی پر پانی پھیر دیتے میرا مقصد ان لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا جو اس ملک میں رھ کر بھی اس ملک کی ترقی کیلئے گامزن ھے اللہ اُن کو کامیب کرے
وسلام؛
 

محمد وارث

لائبریرین
علی ذاکر صاحب کیا یہ آپ کی تحریر ہے، یا کسی کتاب سے اقتباس ہے یا آپ کا کسی کتاب پر تبصرہ، تا کہ اس تحریر کو موزوں فورم میں منتقل کرنے میں آسانی رہے اور یہ اپنی صحیح جگہ پہنچ جائے :)

والسلام
 

زین

لائبریرین
ایک اور بات یہ کہ
آپ نے تحریر میں ہ کی جگہ بھی ھ کا استعمال کیا ہے برائے مہربانی اس کی تصحیح کرلیجئے۔
 

علی ذاکر

محفلین
علی ذاکر صاحب کیا یہ آپ کی تحریر ہے، یا کسی کتاب سے اقتباس ہے یا آپ کا کسی کتاب پر تبصرہ، تا کہ اس تحریر کو موزوں فورم میں منتقل کرنے میں آسانی رہے اور یہ اپنی صحیح جگہ پہنچ جائے :)

والسلام

اسلام و علیکم:
وارث صاحب یہ تحریر بالکل میری اپنی ھے کسی کتاب سے نھیں لی گئ میری اپنی سوچ ھے جو میں نے آپ تک پھنچائ ھے اور اگر یہ صحیح جگہ پر نھیں ھے تو برائے مھربانی اس کو اس صحیح جگہ منتقل کر دیں‌اور آئندھ میں اس بات کا خاص خیال رکھوں‌ گا شکریہ
ماسلام:
 

علی ذاکر

محفلین
شکر ہے میرے علاوہ بھی کسی کو ان نہاد ملاؤں کی جہالت کا احساس ہوا ہے۔

اسلام و علیکم:
عارف صاحب کچھ احساس ایسے ہوتے ھیں جو کروائے جاتے ہیں اور ہمارے مُلا تو اُن لوگوں میں سے ہیں جن کو یہ احساس ہم جیسے لوگ کرواتے رہتے ہیں لیکن یہ اُن لوگوں میں سے نھیں کہ باتوں سے مان جائیں اِن کیلئے خاص قسم کا جوتا تیار پڑہے گا کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نھیں مانتے
ماسلام
 
Top