فراز نئی مسافت کا عہدنامہ - احمد فراز

میم الف

محفلین
مرا لہو رائیگاں نہیں تھا
جو میرے دیوار و در سے ٹپکا
تو شاہراہوں تک آ گیا تھا
جہاں کسی کو گماں نہیں تھا
مرا لہو رائیگاں نہیں تھا
مرے مقدر میں آبرو
کی تمام لمبی مسافتیں تھیں
مرے سفر میں
حسینؑ کے سر‘ مسیحؑ کے جسم
کی سبھی دردناکیاں تھیں‘ اذیتیں تھیں
مگر مرا درد بے وقر تھا
مگر مرا دشت بے شجر تھا
یہ بات برسوں کی ہے - تو ہو
پر وہ ساعتیں اب بھی نوحہ گر ہیں
جہاں کہیں بھی ہجوم ہوتا
تو سب مری سمت دیکھتے
اور طنز کرتے
کہ اِس کو دیکھو
یہ کون پیکر ہے
جس کا چہرہ نہیں
میں اُن سے کہتا
کہ میں تمھی میں سے ہوں
یہ دیکھو
یہ میری مٹی‘ یہ میری دنیا‘ یہ خواب میرے
وہ مجھ سے کہتے
کہ تیری مٹی کو‘ تیری دنیا کو‘ تیرے خوابوں کو کون دیکھے
کہ تیری آنکھیں نہیں
میں اُن سے کہتا کہ
میرے ہاتھوں میں مشعلیں ہیں صداقتوں کی‘ رفاقتوں کی
وہ مجھ سے کہتے
بدن تو دیوار کا بھی ہوتا ہے
ہاتھ اشجار کے بھی ہوتے ہیں
جن کی شاخوں کی نوک پر
صرف ایک پتا لرزتا رہتا ہے
پر وہ دیوار اور وہ اشجار ہم نہیں ہیں
میں اُن سے کہتا
کہ مجھ کو دیکھو
نہ میری گردن میں طوق ہے
اور نہ میرے پاؤں میں بیڑیاں ہیں
مگر وہ کہتے
بہت سے محکوم بے رسن ہیں
کہ دست و پا کی کشادگی کا عذاب
حیواں بھی جھیلتے ہیں
پر اُن کے ماتھوں کی لوح پر
کوئی نام کندہ
نہ اُن کے چہروں پہ
عہدنامہ کوئی رقم ہے
یہ عہدنامہ
جو ذات بھی‘ کائنات بھی ہے
جو زندگی کا ثبوت بھی ہے‘ ثبات بھی ہے
میں نسلِ آدم کے اس قبیلے کا فرد تھا
پر کوئی مجھے جانتا نہیں تھا
میں اپنے ایثار کے فسانے انھیں سناتا
مگر کوئی مانتا نہیں تھا
ہم ایک جیسے تھے
پر گروہِ الم کشاں میں
کوئی بھی اک دوسرے کو پہچانتا نہیں تھا
کہ سب کے چہرے تھے‘ سب کے ماتھے تھے
اور ماتھوں پہ
عہدنامے لکھے ہوئے تھے
محبتوں کے، صداقتوں کے
سفر کی ساری رفاقتوں کے
بیافرا کی پہاڑیوں
ویتنام کے جنگلوں
بلا کی قیامتوں کے
تمام پیکر‘ تمام چہرے تھے
آئینے ان علامتوں کے
جو زندگی کا ثبوت بھی ہیں‘ ثبات بھی ہیں
جو ذات بھی‘ کائنات بھی ہیں
میں سر بریدہ پلٹ کے آیا
تو ساتھ سارے نشان لایا
انا کے
پندار کے
وفا کے
مرا لہو ندیوں کی صورت بہا تو قلزم بنا گیا ہے
مرا لہو پھیل کر
مری خوش نہاد مٹی کی سرحدوں کو بچا گیا ہے
وہ میرے چہرے پہ ایسی آنکھیں لگا گیا ہے
جو دوسروں سے عظیم تر ہیں
جو سب کی نظروں میں معتبر ہیں
جو زندگی کا ثبوت بھی ہیں‘ ثبات بھی ہیں
جو ذات بھی‘ کائنات بھی ہیں

 
آخری تدوین:
Top