نئی غزل

زخم کے سُکھانے کو کھولنا تو پڑتا ہے
ظلم کے مٹانے کو بولنا تو پڑتا ہے
شاخ سے جدا ہوکے پھول گرچہ مرجائے
سہرے پر سجانے کو نوچنا تو پڑتاہے
رات جس گلی سے ہم خاک چھان آئے تھے
اس گلی کو جائیں پھر؟ سوچنا تو پڑتا ہے
صرف وضع داری میں کتنی دیر نبھتاہے
بے ثمر سے رشتے کو توڑنا تو پڑتا ہے
یاد کے گھروں میں خواہ وحشتیں ہی پلتی ہوں
جھٹ پٹے کے لمحوں میں لوٹنا تو پڑتاہے
ضبط سے بھلے کوئی دل فگار ہوتا ہو
آہ کو نکلنے سے روکنا تو پڑتا ہے
بے غرض کہاں ہیں اب رسم و راہ اے شکیل
سود یا زیاں ہے کم، تولنا تو پڑتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اس کے قوافی بھی غلط ہیں بولنا کھولنا مطلع میں ہو تو بقیہ بھی رولنا ڈولنا وغیرہ ہونے چاہیے. مگر صرف 'نا' پر ختم ہونے والے قوافی ہیں. اس طرح 'نا تو پڑتا ہے ' ردیف قرار پاتی ہے
 
اس کے قوافی بھی غلط ہیں بولنا کھولنا مطلع میں ہو تو بقیہ بھی رولنا ڈولنا وغیرہ ہونے چاہیے. مگر صرف 'نا' پر ختم ہونے والے قوافی ہیں. اس طرح 'نا تو پڑتا ہے ' ردیف قرار پاتی ہے
براہِ مہربانی اس پر رہنمائی فرمائیں،
اگر مطلع میں مثلاََ نوچنا اور بولنا قوافی ہوں تو پھر کیا باقی غزل کے قوافی درست ٹحہریں گے
آپ کی توجہ کا منتظر رہوں گا
شکریہ
 
براہِ مہربانی اس پر رہنمائی فرمائیں،
اگر مطلع میں مثلاََ نوچنا اور بولنا قوافی ہوں تو پھر کیا باقی غزل کے قوافی درست ٹحہریں گے
آپ کی توجہ کا منتظر رہوں گا
شکریہ
کلاسیکی علمِ قافیہ کی رو سے افعال کا حرفِ روی ان کے فعلِ امر سے حاصل کیا جاتا ہے. نوچنا سے نوچ، بولنا سے بول یعنی چ اور ل حرفِ روی ہوئے. حرفِ روی کا اختلاف جائز نہیں. اس عیب کو اکفا کہتے ہیں اور یہ قافیہ نہ ہونے کے مترادف ہے.
 
آخری تدوین:
کلاسیکی علمِ قافیہ کی رو سے افعال کا حرفِ روی ان کے فعلِ امر سے حاصل کیا جاتا ہے. نوچنا سے نوچ، بولنا سے بول یعنی چ اور ل حرفِ روی ہوئے. حرفِ روی کا اختلاف جائز نہیں ہے. اس عیب کو اکفا کہتے ہیں اور یہ قافیہ نہ ہونے کے مترادف ہے.
بہت عنایت، اکثر اس ناسمجھی سے ابہام رہتا تھا
 
Top