مصطفیٰ زیدی نئی آبادی

غزل قاضی

محفلین
نئی آبادی

سنبھل سنبھل کے چلے دوستان ِعہد ِ طرَب
کوئی قدیم رفاقت گلے نہ پڑ جائے
ستم زدوں کی محبّت گلے نہ پڑ جائے
کہِیں پُکار نہ لے درد کی کوئی چِلمن
کہِیں خلُوص کے شُعلے پکڑ نہ لیں دامن
اُتر نہ جائے رُخ ِ دست گیر کا غازہ
لِپٹ نہ جائے قدم سے وفا کا دروازہ
دیار ِ غم کی صداقت گلے نہ پڑ جائے

اِدھر ستائے ہُوئے دِل نظر بچا کے چلے
ضمِیر ِسنگ میں شِیشے کی آبرُو کیا تھی
کِھلے تھے زخم سِتاروں کی جُستجو کیا تھی
جُھکی ہُوئی تِھیں نِگاہیں تھمے ہُوئے تھے قدم
سِلی ہوئی تِھیں زبانیں ، جلے ہُوئے تھے عَلَم
وُہ خامشی کہ سُراغ ِ صدا نہ مِل جائے
وُہ احتیاط کہ درد آشنا نہ مِل جائے
دُعا کو ہات نہ اُٹّھیں ، پتہ نہ مِل جائے

غرض کِسی کو کِسی سے کوئی گِلہ نہ ہُؤا
مہاجروں کے محلّے میں حادثہ نہ ہُؤا

مصطفیٰ زیدی

قبائے سَاز​
 

فرخ منظور

لائبریرین
نئی آبادی
سنبھل سنبھل کے چلے دوستانِ عہدِ طرَب
کوئی قدیم رفاقت گلے نہ پڑ جائے
ستم زدوں کی محبّت گلے نہ پڑ جائے
کہِیں پُکار نہ لے درد کی کوئی چِلمن
کہِیں خلُوص کے شُعلے پکڑ نہ لیں دامن
اُتر نہ جائے رُخِ دست گیر کا غازہ
لِپٹ نہ جائے قدم سے وفا کا دروازہ
دیارِ غم کی صداقت گلے نہ پڑ جائے

اِدھر ستائے ہُوئے دِل نظر بچا کے چلے
ضمِیر ِسنگ میں شِیشے کی آبرُو کیا تھی
کِھلے تھے زخم سِتاروں کی جُستجو کیا تھی
جُھکی ہُوئی تِھیں نِگاہیں تھمے ہُوئے تھے قدم
سِلی ہوئی تِھیں زبانیں ، جلے ہُوئے تھے عَلَم
وُہ خامشی کہ سُراغِ صدا نہ مِل جائے
وُہ احتیاط کہ درد آشنا نہ مِل جائے
دُعا کو ہات نہ اُٹّھیں ، پتا نہ مِل جائے

غرض کِسی کو کِسی سے کوئی گِلہ نہ ہُوا
مہاجروں کے محلّے میں حادثہ نہ ہُوا

مصطفیٰ زیدی

قبائے سَاز​
 
Top