میں !

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ہر گزرتے سال میں کوشش کرتی ہوں ایک نظر پیچھے کی طرف مڑ کے جھانک کے دیکھ لوں ، کچھ سبق مل جاتے ہیں ، یاد کر لوں ، کچھ نتائج مل جاتے ہیں ، گرہ سے باندھ لوں ، کچھ تجربے حاصل ہو جاتے ان کی روشنی میں آگے چلوں کیا پتاا اگلے سال یہ غلطیاں نا ہوں ، جس روز میں نے اپنی آخری نظم "اگر میں شاعرہ ہوتی " لکھی اس دن بھی شاید میں کتاب حیات میں اضافہ ہوئے تلخ و شریں ابواب کا تذکرہ کرنا چاہتی تھی ، میں نے سوچا اگر میں مصنف ہوتی میں لکھتی کہ زندگی کیا ہے ، میں زندگی کی کہانی کو لکھ ڈالتی ، اور اگر مصور ہوتی تو رنگوں سے کسی لامحدود صفحے کو کینوس پر لٹکا کر میں اپنی سانسیں شروع ہونے سے اب تک وہ سب کچھ رنگ دیتی ، اور اگر میں شاعر ہوتی تو میں زندگی کا ایک ایک لمحہ تحریر کرتی، مگر میں کچھ بھی نہیں تو میں کیونکر کر پاتی یہ سب !
ابھی کچھ دنوں پہلے مجھ سے کسی نے پوچھا آپ کیوں لکھتی ہیں؟ تو میں نے اسے جواب دیا کہ اس لئے کیونکہ میں جب بہت گھٹن محسوس کرتی ہوں تو لفظوں کی صورت اسے باہر نکال دیتی ہوں ، مطلب بڑے سادہ لفظوں میں بس اپنی پریشانی کے سبب کا عکس لفظوں پر ڈال دیتی ہوں تو مجھے سکون مل جاتا ہے ! اور آج میں نے سوچا کہ اب تو ایسا بھی نہیں رہا ، پتا نہیں کیونکہ بولتے ہوئے میری زبان لڑکھڑانے لگی ہے ، میں بہت عام سی باتیں سوچ سوچ کر کہتی ہوں ، کوئی مجھ سے عام سا سوال پوچھے تو میں سوچ کے جواب دیتی ہوں اور جواب دیتے ہوئے فقرے اٹک اٹک کر زبان پر آ رہے ہوتے ہیں جیسے کسی بچے نے نیا نیا بولنا سیکھا ہو ! اور آج جب میں نے سوچا کہ لکھوں تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا ، میں نے اپنی پرانی تحریریں پڑھیں ، بلاشبہ وہ بہت خاص نا تھیں مگر ان کو پڑھ کر مجھے لگا کہ شاید اب ایسا بھی میں کبھی نا لکھ پاؤں! جانے میری یاداشت کو کیا ہونے لگا ہے ! ابھی لکھنے سے پہلے میں نے کچھ تو سوچا تھا مگر اب وہ بھی بھول گئی ہوں، ایک لفظ ہی تو ہیں میرے پاس ، تو میں چاہتی ہوں کہ یہ ہمیشہ میرے پاس ہی رہیں میں انہیں کھونا نہیں چاہتی ، اس لئے سوچا دعا کروں شاید ایسا نا ہو !
مجھے معلوم نہیں میں کیا لکھنا چاہتی تھی ، مگر شاید میں زندگی کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتی تھی ، پتا نہیں ہم کیوں بڑے ہو جاتے ہیں ، ہمیں بڑے نہیں ہونا چاہئے ، مجھے زندگی کی خود سمجھ نہیں آ پائی تو میں زندگی کے بارے میں کیسے لکھتی ! اور اب شاید میں سب کچھ متضاد سوچوں گی اور لکھوں گی ، میں ہمیشہ الجھ جاتی ہوں ، آج صبح ہی نایاب لالہ سے کہہ رہی تھی میں کہ مجھے بس بہانہ چاہئے الجھ جانے کا ۔۔
ہر سال سوچتی ہوں کہ کہ اب کے سال یہ کام نہیں کرنا یہ اچھا ہے وہ نہیں اچھا ! پتا نہیں اس سال کا کچھ خاکہ میرے ذہن میں نہیں کہا نا بھول جاتی ہوں ، ہاں ایک عادت شاید کچھ زیادہ ہو گئی ہے مجھے میں ، اب میں سن لیتی ہوں سب کچھ ، اگر غلط بھی ہو تو ، پھر اپنے دل میں رکھ لیتی ہوں یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں ایسی نہیں ہوں ، مگر میں اس کی پرورش کرتی رہتی ہوں شاید میں تھوڑی اذیت پسند ہو گئی ہوں !
مجھے ایسا نہیں ہونا چاہئے ! شاید میرا ذہن الجھا ہوا ہے بالکل اس تحریر کی طرح ، جس کی کوئی سطر ایک دوسرے سے نہیں ملتی ! ابھی میں سوچ رہی ہوں کہ اس کو حذف کر دیا جائے اس میں ایسا کچھ نہیں ہے جو پڑھے جانے کے قابل ہو لیکن اگر میں نے حذف کر دیا تو شاید یہ سب پھر وہاں ہی چلا جائے گا جہاں سے میں نے اس کو نکالا ہے ۔۔۔
والسلام ۔۔
 
آپ نے اپنے اندر کے موتیوں سے لفظوں کا جو ہار پرویا ہے خاصا خوبصورت ہے۔ اپنے اندر جھانکتی رہئے خزانے ملتے رہیں گے۔
ع
چھپا ہے جو تجھ میں ، کیوں نہیں اسے پاتا
تو ڈھونڈتا ہے کسے؟ تیری آرزو کیا ہے؟​
 
بہت اچھی تحریر ہے۔ کچھ املا کی طرف بھی توجہ دیں۔ جیسے انکار کے لیے ’نہ‘ استعمال ہوتا ہے، ’نا‘ کسی بات پر زور دینے کے لیے استعمال ہو گا۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
آپ نے اپنے اندر کے موتیوں سے لفظوں کا جو ہار پرویا ہے خاصا خوبصورت ہے۔ اپنے اندر جھانکتی رہئے خزانے ملتے رہیں گے۔
ع
چھپا ہے جو تجھ میں ، کیوں نہیں اسے پاتا
تو ڈھونڈتا ہے کسے؟ تیری آرزو کیا ہے؟​

خزانے ڈھونڈتے تو شاید عمر بیت جائے گی ، وقت برف کی مانند پگھلتا جا رہا ہے۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
جذبات کی اچھی ترجمانی ہے۔ اچھے یا بھلے کا علم نہیں، لیکن قنوطیت پسندی کی جانب ایک قدم!

بہت شکریہ مگر ابھی تو کچھ کہا بھی نا تھا کہ اختتام کرنا پڑا ! یہاں کچھ مکمل نہیں ہوتا ! بس چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بکھرے کچھ احساس جن کو چن کر اکٹھا کرو تو پھر سے بکھر جاتے ہیں ۔
 

عاطف بٹ

محفلین
اچھا ہے بھئی، تمہارے الفاظ اور اظہار کئی اور الجھے ہوئے ذہنوں کو بھی ترغیب دیں گے کہ وہ بھی اپنے من کی باتیں کہہ ڈالیں۔
 
Top